مشرف علی حبیبی
29 مارچ 2015
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے اس کی پیدائش اور پرورش پرداخت اسی سر زمین پر ہوئی ۔ جنگ آزادی میں اردو کی خدمات لافانی ہے ۔ آزادی کے لیے مشہور نعرہ‘‘ انقلاب زندہ باد’’ اردو ہی کی دین تھی ۔ اہل اردو نے ملک کی آزادی کے لیے جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ ہندوستان کی تاریخ جاننے والوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک کے لیے قومی زبان کے انتخاب کاموقع آیا تو صرف ایک ووٹ کےفرق سے ہندی کو فوقیت عطا کردی گئی ۔اس کے باوجود ہر عاقل آدمی یہ فیصلہ بذات خود کرسکتا ہے کہ اردو اس ملک کی دوسری قومی زبان ہے۔ بعض متشدد افراد نے اردو کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ اسے مسلمانوں کی زبان قرار دے کر جس مسلمانوں کو نظر انداز کر کے روز بروز پشماندگی کی جانب ڈھکیلا گیا اہم جگہوں سے انہیں دھیرے دھیرے ہٹایا گیا ۔ ٹھیک اسی طرح اردو کو بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا عدالت ، بینک، کارپوریشن وغیرہ ہر جگہ سے اردو کو جس بے حسی کے ساتھ خاموشی سے نکالا گیا اس کا تصور بھی ایک حساس قوم کے لیے باعث تکلیف ہے۔ لیکن جس ملک میں گاندھی جی کی ہتھیا کرنے والے کو کھلے عام قائد کادرجہ دینے والے افراد ہوں جو فخر یہ اعلان کرتے ہوں کہ گاندھی کے قاتل گوڈسے ہمارے قائد ہیں اور ان کی گرفت مشکل ہورہی ہو اس ملک میں اردو کی ہتھیا کرنے والے کو کیسا احساس اور کیسی شرمندگی ۔
حالانکہ یہ سچائی ہے کہ اردو نہ مسلمان ہے اور نہ ہی ہندو۔ پنڈت دیا شنکر نسیم ، رتن ناتھ سرشار، دھنپت رائے، پریم چند، برج نارائن چکبست، رگھوپتی سہائے فراق، کنھیا لال کپور، کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے سینکڑوں اردو کے محافظ اور پاسبان موجود ہیں جنہیں اردو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی ۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی زبان کسی مذہب کی جاگیر نہیں زبان و ادب ہمیشہ مذہبی حد بندیوں سےماوراء ہوا کرتے ہیں لیکن ان مذہبی جنونیوں کو کون سمجھائے جنہوں نے زبان کو بھی مذہب سے جوڑنے کی غلطی کی اور اردو کو مسلمانوں کی زبان تصور کر کے اسے بیخ و بن سےاکھاڑنے کو اپنا دھارمک فریضہ سمجھ لیا ۔ جب کہ خود مسلمان بھی دھیرے دھیرے اردو سے اپنا دامن بچا نے کی کوشش کرتے رہے۔ انہیں جس طرح اپنی دیگر بہت سی شناخت کے مٹ جانے کا کوئی افسوس نہ ہوا اسی طرح اردو کے مٹنے سےبھی انہیں کوئی غم نہ ہوا مدارس اسلامیہ اور جمعیۃ علماء ہند جیسی کچھ تنظیمیں ہیں جنہوں نے اردو کی تحفظ و بقا کی کوششیں جاری رکھیں جن سے متاثر ہوکر کچھ اور تنظیمیں بھی اردو کی تحریک کے لیے کوشاں ہوئی ورنہ اردو کے نام پر لاکھوں لاکھ امداد حاصل کرنے والوں کی اولادیں اردو سے نا بلد ہوتی رہیں اور آج بھی ہورہی ہیں ، لیکن انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ میری اولاد اپنی مادر ی زبان سے غافل ہورہی ہے۔ حالانکہ مسلمان ذرا سی کوشش کر کے اردو زبان سیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ اس کی گفتگو کی زبان ہے صرف اسے لکھنا پڑھنا سیکھنا ہے پھر روزانہ اردو اخبارات وغیرہ کا مطالعہ کرتے رہیں دینی کتابوں کابھی ایک بڑا ذخیرہ اردو میں موجود ہے ان کامطالعہ کریں تو ایک ساتھ جہاں مذہبی علوم سے واقفیت ہوگی وہیں اردو زبان و ادب پر بھی عبور حاصل ہوگا ۔
ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جو قوم اپنی تہذیب و تمدن او ر اپنی روایات کو فراموش کر دے ترقی کے راستے اس کے لئے محدود ہوجاتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ دکان، کمپنی، کارخانوں کا سائن بورڈ عام طور پر اردو میں بناتے تھے ۔کہیں کنارے میں یا نیچے کی سطروں میں ہندی، انگلش یا اور کوئی علاقائی زبان ہوا کرتی تھی پھر دھیرے دھیرے اردو کنارے میں چلی گئی اور اب اکثر دوکانوں سے خود مسلمانوں نے اردو کو غائب کردیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ درجہ نہم د ہم کے بچوں کی اکثریت وہ ہے جن کی اردو تحریر ، املا اور اردو نثر اتنی کمزور ہوتی ہے جس کا تصور بھی ماضی میں محال تھا ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے تیسے اردو لکھ پڑھ لیتےہیں ۔ حالانکہ ان طلباء میں اردو لکھنے پڑھنے کی بہترین صلاحیت ہونی چاہئے اس کاایک سبب تو معاشرہ سے اردو کا ختم ہوتا چلن ہے دوسرا سبب تعلیمی انحطاط اور تعلیم کے تعلق سے طلبہ کی عدم دلچسپی ہے۔ گارجین اور اساتذہ حضرت کے احساس ذمہ داری کا فقدان بھی اس کا بڑا سبب ہے اور اسی وجہ سے اردو میڈیم اسکولوں کا نظام تعلیم دن بدن روبہ زوال ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اردو کی ترقی کے لیے لائحہ عمل تیار کیے جائیں منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے ۔ بہار میں ایک طویل مدت پہلے اردو کو دوسری سرکار ی زبان کا درجہ دیا جاچکا ہے مگر آج تک عوامی جگہوں ’ سرکاری دفتروں وغیرہ میں اردو رائج نہیں ہوسکی اس کے لیے پورے بہار میں مربوط و مستحکم جد و جہد کی ضرورت ہے جب تک کچھ سر فروش میدان کار زار میں نہ اُتریں گے اردو کو اس کا حقیقی مقام مل جانے کی امید کرنا خیالِ خام ہے حقوق بھیک مانگ کر نہیں ملا کرتا بلکہ حقوق کے حصول کے لیے قربانیاں درکار ہوتی ہیں ۔
اردو کا روزی روٹی سے جڑ جانا اردو کی حقیقی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا معاشرے میں رائج ہوجانا بڑی کامیابی ہے اردو کو معاشرے میں اسی وقت اہمیت ملے گی جب اردو والے لوگوں کی ضرورت بن جائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب کہ حکومت کے تمام شعبوں میں اردو میں کام کاج شروع ہو اور یہ یکبار گی ناممکن ہے اردو والے منصوبہ بند طریقے پر ایک ایک شعبہ پر دباؤ بنانا شروع کریں مثلاً ریلوے اسٹیشنوں پر اردو میں ٹکٹ فارم دستیاب کے لیے جد وجہد شروع ہو اسی طرح ہر شعبے کے لیے جد وجہد شروع کی جائے ۔ اردو والے ان جگہوں پر اردو کو لازماً استعمال کریں بصورتِ دیگر ہمیشہ ہمارے سامنے یہ عذر پیش کیا جاتا رہے گا کہ اس جگہ ابھی اردو والے بحالی نہیں ہوئی ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ تعداد میں اردو والے ملازمت وغیرہ سے جڑیں تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ سرکاری شعبوں میں اردو کا استعمال بڑھا دیں ۔ اسی طرح بہت سی پرائیوٹ کمپنیاں، بینک وغیرہ مارکٹ میں پیسہ کمانے آتی ہیں اردو والے بڑی تعداد میں ان سے اپنا کاروبار کرتے ہیں اگر ہم ان کے کاروبار کے لیے اردو زبان کا ہی استعمال کریں تو وہ مجبور ہوں گے کہ اپنے ہر برانچ میں اردو والوں کو بحال کریں پھر اردو استعمال کرنے والوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی کمپنی مجبوراً اردو ملازموں کو بھی اتنی ہی بڑھاتی چلی جائے گی۔
مغربی بنگال میں بھی اردو کو جہاں سرکاری زبان کا درجہ ملا وہاں اردو کے تعلق سے کوئی خاص بیداری نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان ذاتی طور پر بھی اردو کو استعمال میں لائیں ۔ شادی کارڈ ، وزیٹنگ کارڈ، دوکان کا نام وغیرہ جب بھی لکھیں تو اس میں بھی اردو کو ضرور شامل کریں ۔ اسی طرح سرکاری اداروں میں بینک وغیرہ میں اردو میں درخواست دیں اگر آپ کے ان درخواستوں پر کارروائی نہ ہوتو متعلقہ ذمہ داروں تک شکایت پہنچائیں ۔
یہ مضمون زیر تحریر تھا کہ گارڈن ریچ تھانہ میں ایک مظلومہ خاتون اپنی شکایت اردو میں جمع کرنے گئی تو ڈیوٹی پر موجود اہلکار نے بنگلہ یا انگلش میں درخواست لکھنے کا حکم دیا لیکن آئی پی ایس محترمہ محمد عمران وہاب کی مداخلت سےوہ درخواست اردو میں ہی جمع ہوئی ۔ اہل اردو کی جانب سے محترم عمران وہاب صاحب مبارک باد کےمستحق ہیں ویسے بھی موصوف خود اردو کے مخلص سپاہی ہیں، ایک بڑا کام فی الحال یہ کررہے ہیں کہ وہ مختلف قوانین ہند جو انگریزی وغیرہ میں موجود ہیں ان کا اردو ترجمہ کررہے ہیں ۔ میرے خیال میں اردو والوں کے لیے ایک نہایت اہم کام خدائے تعالیٰ ان سے لے رہا ہے، ایسے مصروف افراد کے ہاتھوں اس طرح کےموضوع پرکام ہو جانا حیرت و تعجب کے ساتھ باعث مسرت بھی ہے ۔ اسی طرح عہدہ منصب پر موجود حضرات اگر اردو کے تعلق سے ذرا سی فکر کر لیں تو یہ بڑی بات ہوگی ماضی میں تو اس کی بہت سی مثالیں تلاش کی جاسکتی ہیں مگر دورِ حاضر میں نایاب نہیں تو کامیاب ضرور ہیں ۔
کسی بھی زبان کی بقاء و ترقی صرف حکومت کے اس زبان کو قومی زبان قرار دینے سے نہیں ہوتی بلکہ اہل زبان کی اپنی بیداری اور جد وجہد میں اس کا بڑ ا حصہ ہوا کرتا ہے ۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جس کا مٹنا تو نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے اس کی اپنی چند خصوصیات ہیں جو اس کی بقا کی ضامن ہے جس میں سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عوامی زبان ہے عام بول چال میں آج تک اسی شان و شوکت کے ساتھ استعمال ہوتی ہے یہ خطرہ ضرور ہے کہ اردو کا کریا کرن یا دھرمانتر کردیا جائے بلکہ اس تعلق سے کوششیں کافی پہلے شروع ہوچکی ہیں جن کی جانب آج تک ہم نے صحیح پیمانے توجہ نہیں دی ۔ آپ ہندوستان میں بننے والی فلموں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ گانا سے لے کر ڈائیلاگ تک سب کے سب اردو میں ہوتے ہیں لیکن افسوس کے یہ ہندی فلم کے نام سے پاس ہوتی ہیں ہندوستان میں ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب عام طور پر اردو بولتے ہیں مگر اس کو ہندی زبان کے نام سے پکارا جاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہندی بولنے والے آٹے میں نمک کی طرح ہیں ہاں ہندی لکھنے والے افراد کی تعداد آج بھی غالب ہے۔ لیکن لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے ۔ اس لیے وقت کی ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ اردو لکھنے پڑھنے کے لیے تحریک چلائی جائے اور حکومت کے جن شعبوں میں جہاں اردو میں درخواستیں دی جاسکتی ہیں وہاں ہم اردو میں درخواست دینا شروع کریں ۔ عام لوگوں کی ذہن سازی کریں کہ وہ تھانوں میں ، بینکوں میں ، پوسٹ آفس اور دیگر اسی جگہوں پر اردو میں ہی اپنی درخواستیں دیں ۔ کوئی تنظیم ایسے افراد کی مدد کرنے کے لیے بنائی جائے جو ایسے لوگوں کا تعاون کریں ۔
کلکتہ میں کارپوریشن کی جانب سے محلّوں میں نیم پلیٹ ( Name Plate) لگائے جارہے ہیں کئی ایک وارڈوں میں ان نیم پلیٹ پر اردو کو بھی شامل کیا گیا ہے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس کی سراہنا کی جائے جہاں کے کونسلروں نےاردو کو شامل نہیں کیا ہے ان سے درخواست کی جائے کہ وہ بھی اپنے وارڈ میں نیم پلیٹ اردو میں لگائیں ۔ دو سال قبل کلکتہ کی جمعیۃ علماء نے اس تعلق کوشش کی تھی کچھ کونسلروں کو درخواست بھی دیا گیا تھا ۔ دیگر علاقائی ادارے اور کلب اس تعلق سے اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔ہمارے مسلم محلوں کے کلب میں تعمیری کاموں کے سوا عام طور پر سب کچھ ہوتا ہے اگر یہ کلب اس طرح کی تحریکات پیدا کریں اپنے لیڈروں سے اپنے حقوق حاصل کریں تو یہ ایک بڑا کام ہوگا مگر یہ کلب والے کسی لیڈر سے کلب کے لیے ٹی وی تو کسی سے فریج وغیرہ لے کر کلب کو آباد کرلینا ہی کامیابی تصور کرتے ہیں کچھ زیادہ عقلمند افراد اپنے مفاد کے لیے لیڈروں کے ساتھ رہ کر محلہ فروشی کا فریضہ بھی انجام دیتےہیں جس کےبدلے میں انہیں اپنی زندگی عزت سے گذارنے کی اجازت محترم لیڈر صاحب کی جانب سے حاصل ہوتی ہے۔ ضرورت ہے کہ ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر قومی و ملی مفاد کے حصول کی کوشش کی جائے، اگر ہمارے کلب والے اس تعلق سے ذہن سازی کریں کچھ پڑھے لکھے افراد کو لے کر اردو کو مذکورہ اداروں اور اپنے معاشرہ میں رائج کرنے کی کوشش کریں تو امید ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی ایسی کوششیں اور زیادہ مؤثر ہوں گی ۔ اقبال نے اہل اردو کو بیدار کرتے ہوئے سچ کہا تھا کہ ۔
گیسوئے اردو ابھی منّت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی، دل سوزیِ پروانہ ہے
29 مارچ، 2015 بشکریہ : روز نامہ خبریں ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-lock-urdu’s-hair-still/d/102240