منیر الدین احمد
4 مارچ ، 2016
علم فصاحت و بلاغت نزول قرآن تک مدون نہ ہوا تھا ۔ یہ سب قرآن کریم کی برکت ہے کہ یہ علم آج مدون صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے لیکن اس کے باوجود عربوں کے ہاں فصاحت و بلاغت کا ذوقی لحاظ سے ایک خاص معیار قائم ہوچکا تھا ۔ وہ علمی اصطلاحات سے بیشک ناواقف تھے ۔ تاہم اس بات سے ضرور واقف تھے کہ فصیح و بلیغ کلام ایک بار دل کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے۔ وہ ایک ایسی کیفیت نشاط پیدا کرتا ہے ، جو سرور اور نشہ کا رنگ رکھتی ہے ۔ جس طرح موسیقی کی کوئی زبان نہیں ، لیکن وہ روح کی پنہائیوں میں اترجاتی ہے ، اسی طرح زبان کی چاشنی ایک نظر نہ آنے والی چیز ہے، جو دل کے روئیں روئیں میں اتر کر ایک سرور پیدا کردیتی ہے جس سے انسان جھوم جھوم اٹھتا ہے۔
قرآن کے لفظ میں ہی اس طرف اشارہ موجود ہے کہ یہ کلام پڑھا جانے والا ہے۔ گویا اس میں ایسی موسیقت موجود ہے کہ سننے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ زبان کی خوبصورتی جو دلوں کو موہ لیتی ہے ، وہ دراصل صوتی ہی ہوا کرتی ہے۔ کبھی آواز کا کھینچنا ، کبھی اس میں شدت پیدا کرنا ، کبھی نرمی اور دھیماپن ، کبھی آواز کی بلندی اور جلال، کبھی غنہ او رکبھی شوکت و عظمت یہی کلام کی خوبصورتی ہے۔ اسی باعث تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مضبوط پگھل گئے اور حضرت عبید رضی اللہ عنہ جیسے شاعروں نے شعر کہنا تر کردیا۔
عربی زبان میں یہ خوبی ضرور ہےکہ الفاظ میں تناسب کا عنصر دوسری زبانوں سے زیادہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی جگہ بھی ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوتی کہ حرکات ثقل کا باعث بن جائیں ۔ایک آدھ نہیں ، بیسیوں مقامات ایسے بھی آتے ہیں، لیکن قرآن کاکمال ملاحظہ ہو کہ ایسی ترکیب استعمال کی جاتی ہے کہ بادی النظر میں ثقیل کلمہ زبان پر آتے ہی انتہائی آسان اور پیارا بن جاتا ہے۔ بلکہ اس میں ایک شان نغمگی پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً کلمہ النذر کو لے لیجئے ۔ نون اور ذال دونوں پر ضمہ آنے کی وجہ سے کلمہ ثقیل ہوگیا ہے۔ لیکن قرآن میں یہ لفظ اس طرح استعمال ہوا ہے: ولقد انذرھم بطشتنا فتما روا بالندر۔ملاحظہ فرمائیے کتنی پیاری ترکیب میں اسے لائے ہیں ۔ لقد کے دال اور بطشتنا کے ط پر قلقلہ پھر ط کے بعد فتماروا کی واو تک متواتر فتحہ چل رہی ہے اور آخر میں مد لے آئے تاکہ آگے آنے والے ضمہ کے ثقل کے لئے غیر محسوس طور پر تیار کرلیا جائے ۔ پھر فتما روا کے واو پر غور فرمائیے جو النذر کے ضمہ کی مناسبت سےرکھا گیا ہے۔ اسی طرح غنہ قابل توجہ ہے، جو ط سےقبل رکھا گیا ۔ پھر میم اور ذال سے قبل دوسرا غنہ موسیقیت کا ایک جہان اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح اس نہایت مشکل مقام سے قرآن کریم نہایت کامیابی سے عہدہ بر آہوا۔
قرآ ن کریم میں بعض ایسے الفاظ آئے ہیں ، جو اتنے لمبے ہیں کہ عام کلام میں ان کا ثقیل ہونا لازمی تھا ۔ لیکن قرآن کریم نے انہیں ا س طرح سمویا ہے کہ ان الفاظ میں ایک نرالی شان پیدا ہوگئی ہے۔ مثلاً لیستخلفنھم فی الارض ۔ یہ کلمہ دس حروف پر مشتمل ہے۔ لیکن مخارج حروف کے تنوع او رحرکات کے مناسب او رملائم ہونے کی وجہ سے یہ کلمہ نہ صرف یہ کہ گوارا ہوا گیا ، بلکہ قرآن کے خوبصورت کلمات میں سے گنا گیا ہے۔ حرکات نے اسے اس طرح بنا دیا ہے گویا یہ چار کلمات ہیں۔ اسی باعث اس میں نغمگی پیدا ہوگئی ہے۔
قرآن کریم میں ایک لفظ ایسا عجب آیا ہے، جس کےبارے میں تمام علماء لغت متفق ہیں کہ موجودہ ترکیب کے سوا اور کسی بھی ترکیب میں آتا تو رچ نہ سکتا ۔ قرآن کا کمال ملاحظہ ہو کہ اسے ایسی ترکیب میں لایا گیا کہ بیگانے تک عش عش کر اٹھے ۔ فرمایا: تلک از اًقشمۃ ضیزیٰ ۔ سورہ نجم میں یہ آیت ہے، جہاں پر عربوں کے اصنام کا ذکر کیا اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے ملائکہ کو بنات اللہ قرار دیا ہے۔ اس پر بطور تحکم فرمایا : الکم الذکر والہ الانثیٰ ۔تلک اذاً قسمۃ ضیزیٰ۔ ماہرین لغت نے یہاں پر ایک عجیب نکتہ پیدا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ خدا تعالیٰ نے کفار کے اس عجیب و غریب فعل کو ایک ایسے ہی عجیب و غریب لفظ سےبیان کیا۔
قرآن کریم کا یہ احسان اتنا بڑا ہے کہ عرب اس کے لئے جس قدر بھی قرآن کے شکر گزار ہوں تھوڑا ہے۔ قرآن نے ان کی زبان کو محفوظ کیا ۔ ان کی بیان کی قوت بخشی ۔ وجدان کی باریکی کا تحفہ دیا ۔ شدت تاثر کاملکہ عطا کیا اور ایک جہاں کی قیادت سپرد کی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک کتاب جو تیئس برسوں کےعرصہ میں مرتب کی جاتی ہے، حالات و واقعات کے مطابق اس کا نزول ہوتا ہے، وہ کتاب اس قدر جاندار ، اتنی مربوط اور اس درجہ دلکش ہو۔ آج تنقید کا ایک اہم اصول یہ قرار پا چکا ہے کہ کسی مصنف کی پہلی اور آخری عمر کا کلام ایک سا نہیں ہوسکتا ۔ واقعات و حالات کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی لابدی ہے ۔ اگر قرآن کسی انسان کا کلام ہوتا ، تو یقیناً اس میں بھی تبدیلی موجود ہوتی اور عقلاً یہ اثرات اس نوع کے ہوسکتے تھے کہ ابتدائی کلام مبتد یا نہ ہوتا ۔ اس میں وہ شان نہ ہوتی، جو آخری حصہ کلام میں ہوتی ۔ لیکن لطف تو یہ ہے کہ قرآن کا اول بھی ویسا ہی معجزہ اور دلفریب ہے جیسا کہ اس کا آخر۔ بلکہ مستشرقین خود اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ مکی سورتوں میں ایک خاص دلکشی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ زمانہ ایسا تھا جب اللہ اور اس کے رسول او ریوم آخر پر ایمان لانا او رمعروف کی ترغیب او رمنکر سے نفرت دلانا مقصود تھا۔ یہ امورد وجدان اور نرمی کےداعی ہیں ۔ پس ان کی دعوت اور ترغیب عمدہ اسلوب شعری کی مقتضی ہے، جس کے ساتھ دل کو موہ لینے والی امثال اور تشبیہات ہوں ۔ چنانچہ مکی سورتیں نہایت لطیف اسلوب بیان کی حامل ہیں ۔ ان کی آیات نسبتاً مختصر اور مسجع اور تشبیہات و مجاز کے نادر نمونے اپنےاندر رکھتی ہیں ۔ لیکن مدنی سورتیں چونکہ عبادات اور شہری و ملکی قوانین پر مشتمل ہیں، اس لئے ان میں محکم اسلوب بیان کی ضرورت تھی، جس میں لمبے جملوں او رمحکم طریق بیان کی حاجت ہے۔ چنانچہ مدنی سورتیں اس امر کی گواہ ہیں کہ ان میں یہ اصول مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود شروع سے آخر تک ایک مقام بھی ایسا نہیں آتا کہ قرآن اپنی شان برقرار رکھے ہوئے نہ ہو۔ اس کی پہلی سورۃ جس شان کی ہے، آخری سورۃ بھی اسی شان اور انداز کی ہے۔ یہ کام انسانی طاقت سے یقیناً بالا ہے اور صرف یہی ایک ثبوت قرآن کے من جانب اللہ ہونے کے لئے کافی ہے۔ ( ختم شد)
4 مارچ، 2016، بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL for Part One:
URL for this article: