نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
27 مارچ، 2013
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
بریلی جو بریلی نظریے کا مرکز ہے ، کے قریب ایک گاؤں میں پانچ دن پہلے فرقہ وارانہ سطح پر ، تشدد آمیز فتویٰ کی تشہیر کرنے والے کتابچے تقسیم کئے گئے، جس کی وجہ سے مسلکی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور مسلمانوں کے دو فرقوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں اور کم از کم 30 ازدواجی رشتے ٹوٹ گئے۔
اطلاعات کے مطابق، کشیدگی بریلی سے 32 کلومیٹر دور فرید پور پولیس اسٹیشن کے تحت ایک گاؤں میں ہوئی جب گاؤں والوں کے درمیان کسی معاملے میں اختلافات کی وجہ سے بحث و تکرار ہوگئی ۔ لیکن جلد ہی تنازعہ نے ایک فرقہ وارانہ موڑ لے لیا، اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہم متصادم ہو گئے ۔ پھر منظر پر مولوی حضرات آئے اور ایک مخصوص فرقے کے پیروکاروں کو کافر قرار دینے والے پمفلٹ تقسیم کئے جس میں کہا گیا تھا کہ اس مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ شادی کرنا ناجائز ہے کیونکہ وہ لوگ کافر ہیں۔ اس کے بعد،'کافر' کے ساتھ شادی سے بچنے کے لئے، شادی سے پہلے ہی ، تقریباً 30 ازدواجی رشتوں کےٹوٹ جانے کی خبر ہے ۔
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوگیا۔ سچے مسلمانوں نےاپنی روحانی طاقت کا مظاہرہ، 24 مارچ کو ایک موٹر سائیکل جلا کر کیا ، کیونکہ بریلویوں یا دیوبندیوں کے موٹر سائیکل کو بھی شاید بریلوی اور دیوبندی سمجھا جانا چاہئے ، اور اس وجہ سے واجب القتل۔ اس کے بعد ان کے جہاد کے راستےمیں انصار جونیئر ہائی اسکول نا می ایک اسکول بھی آ یا ۔ لہٰذا 25 مارچ کو انہوں نے پاکستانی طالبان کی راہ پر چلتے ہوئے اس اسکول کو جلا دیا۔ اسکول کو کیوں جلا دیا گیا یہ معلوم نہیں ہے۔ شاید اس کا تعلق کسی مخصوص فرقے سے تھا، اور ایک خاص نظریہ کو فروغ دے رہا تھا ۔ پولیس نے 20 'اسلام کے مقدس جنگجوؤں' کو گرفتار کیا، جنہوں نے اسلام کو بچانے کے لئےگھمسان کی جنگ لڑی۔ اب وہ حوالات کی ہوا کھا رہے ہیں۔ ان مقدس جنگجوؤں کو قابو میں رکھنے کے لئے پولیس چوکی تعینات کی گئی ہے۔ جہادیوں کے ڈر سے، بہت سے مسلمان گاؤں سے بھاگ گئے ہیں۔
گاؤں کے کچھ لوگوں نے اس بحران کا حل تلاش کرنے کے لئے جمعیت علمائے ہند سے رابطہ کیا ہے۔ پمفلٹ کو ‘ تحفظ ایمان’ (ایمان کا تحفظ) کا عنوان دیا گیا تھا،جس میں یہ کہا گیا تھا ، کہ ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں شادی جائز نہیں ہے اس لئے کہ وہ کافر ہیں ۔ وہ 30 لڑکیاں، جن کے جوڑے، ان کے سرپرستوں کے ذریعہ بڑی مشکل سے تلاش کئے گئے تھے، اب انہیں کچھ اور سالوں تک انتظار کرنا ہوگا، اس لئے کہ مولوی صاحبان دیگر مسلمانوں کے ایمان کو بچانے کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
ان مولویوں میں سے ایک ،جس کا نام پمفلٹ میں مذکور ہے، مولانا محمد عمران نے ایک اردو اخبار کے صحافی سے کہا کہ، ان کا مقصد تصادم کی چنگاری بھڑکانا نہیں تھا۔ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ، لوگ اپنے لئے رشتہ تلاش کرتے وقت اچھی طرح جانچ کرلیں کہ وہ جن کے ساتھ رشتہ طے کررہے ہیں وہ کون لوگ ہیں؟ (کیا وہ کافر یا ہیں ،یا ان کے فرقے کے ہی افراد ہیں؟) انہوں نے کہا کہ جو شادی یا رشتے توڑے گئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے آپسی اختلافات کا نتیجہ ہوں ، لہٰذا اس کے لیے انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔
جب ایک مشہور بریلوی عالم مولانا توقیر رضا خان سے رابطہ کیا گیا ، تو انہوں نے کہا کہ یہ تشدد قابل مذمت ہے، اور یہ کہ اس طرح کے مذہبی عقائد کو مساجد اور مدارس کے اندر ہی محدود رکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظم (امام احمد رضا خان)نے باہمی احترام اور ہم آہنگی کی تبلیغ کی ہےاور اس پر عمل بھی کیا ہے۔
تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے: اگر مفتی اعظم نے ہم آہنگی اور بھائی چارے کی تبلیغ کی ہے اور اس پر عمل کیا ہے ، تو ان کے پیروکار کیوں کمیونٹی میں تفرقہ اور اختلافات پیدا کر رہے ہیں؟
جمعیت علمائے ہند کے رہنما مولانا محمود مدنی نے بھی مداخلت کی اور امن کو یقینی بنانے کے لئے ڈی ایم اور ایس پی کو لکھا ۔
تاہم، کشیدگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، اور دونوں طرف سے لوگ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/mullahs-spark-sectarian-conflict-bareilly/d/10915
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/mullahs-spark-sectarian-conflict-bareilly/d/10976