مولانا احمد علی عابدی ،ممبئی
30مئی،2017
اس وقت ہندوستان میں طلاق کا مسئلہ ایک اہم موضوع ہے یہ مسئلہ ہوتے ہوتے سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ گھر کی بات منظرعام پر آگئی ہے ۔ بات اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ طلاق کے سلسلے میں ’’قانون‘‘ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ یعنی طلاق کے سلسلے میں جن شرعی قوانین کو پیش کیا جارہا ہے وہ قابل قبول نہیں ہیں او راس تعلق سے مسلمان عورتوں کے ذریعہ سپریم کورٹ یا ملک کی دوسری عدالتوں میں مقدمات اور اپیلیں داخل کی گئی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ طے ہے کہ قانون میں تبدیلی کاحق بس اسی کو حاصل ہے جس کو قانون بنانے کا حق ہے وہ قانون جو پارلیمنٹ میں پا س ہوتاہے اس میں تبدیلی یا ترمیم کا حق بھی صرف پارلیمنٹ کو ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے علاوہ کوئی اور ادارہ اس کے خلاف کوئی قانون بنائے یا اس میں تبدیل اور ترمیم کرے تو اس کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ شریعت کے قوانین چو نکہ عام انسانو ں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں لہٰذا شریعت کے قوانین میں تبدیلی یا ترمیم بھی عام انسانوں کے بس میں نہیں ہے۔ طلاق کے سلسلے میں جس بات پر بحث چل رہی ہے او رہر طرف سے تنقید اور اعتراضات ہورہے ہیں وہ ایک ساتھ تین طلاق ( طلاق ثلاثہ) کامسئلہ ہے۔ اور واقعاً ایک اہم او رنہایت حساس مسئلہ ہے جوازدواجی زندگی جو نہایت خوشگوار گذررہی تھی ہر طرف خوشیاں تھیں وہ یکبارگی بکھر جائے اور عورت گھر سے سڑک پر آجائے اور پھر خو شیوں سے بھرے اس گھر کے دوبارہ آباد ہونے کی کوئی معقول صورت نہ ہو، تو بات تشویش ناک ضرو رہے۔یہ مسلمانوں کی اکثریت کا فقہی مسئلہ ہے ہمیں یا کسی کوبھی اس پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس مسئلہ پر علماء کے درمیان فقہی بنیادوں پر ضرور بحث ہوسکتی ہے مگر عدالتوں میں نہیں۔ فقہی مسئلہ فقہاء بحث کریں گے۔
جو بات قابل عرض ہے کہ مسلمانوں میں فقہی مکاتب فکر صرف چار میں منحصر نہیں ہیں بلکہ ایک اور مکتب فقہ ہے جس کو مسلمانوں کی سب سے بڑی اقلیت تسلیم کرتی ہے۔ او ریہ مکتب فقہ تمام مکاتب فقہ سے قدیم ہے۔ یہ مکتب فقہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین امامیہ اثنا عشری کے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے ۔ سلسلہ سند کے لحاظ سے ان کی بیان کردہ تمام روایتیں ان کے معصو م آباء واجد اد کے ذریعہ ہوتے ہوئے امیرالمومنین علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام ابن ابی علیہ السلام او ران کے ذریعہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک انہوں نے جبرئیل علیہ السلام اور جبرئیل علیہ السلام نے بس وہی باتیں بیان کی ہیں جو خداوندعالم نے بیان فرمائی ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت علیہ السلام سے ہیں ۔ جن کی فضیلت اور برتری کے تمام مسلمان قائل ہیں جن کے زبان و بیان کی ضمانت آیت تطہیر نے لی ہے۔ جن کی ہر بات خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ان تمام بزرگوں کے بلا واسطہ یا بالواسطہ استاد ہیں جن کی طرف بقیہ مکاتب فقہ منسوب ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور ان کے پدربزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ذریعہ شریعت کے جو احکام بیان کئے گئے ہیں اس مجموعہ احکام کو ’’فقہ جعفری‘‘ اور آج کے زمانہ میں اس کو ’’شیعہ فقہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فقہ میں طلاق کے سلسلے میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ قارئین سے بس اتنی گذارش ہے مضمون مکمل طور سے پڑھنے کے بعد کوئی رائے قائم کریں مضمون کی محدودیت اور قارئین کو مدّنظر رکھتے ہوئے جو مسائل ذیل میں بیان کئے جارہے ہیں ان کے تعلق سے آیتوں اورروایتوں کا تذکرہ نہیں کریں گے کیونکہ اس طرح کی استدالالی بحثیں فقہا ء او رعلماء کے درمیان مناسب ہیں البتہ اتناضرور عرض کریں گے ان تمام مسائل کی بنیاد آیتیں اور روایتیں ہیں ۔ طلاق کے اہم مسائل اس طرح ہیں ۔
طلاق دینے کی شرائط: (شوہر) (1) بالغ ہو۔ نابالغ نہ خود طلاق دے سکتا ہے او رنہ کسی کو وکیل بنا کر طلاق دلوا سکتا ہے ۔ اگرچہ اس کا وکیل عاقل و بالغ کیو نہ ہو۔ نا بالغ کے باپ دادابھی اس کی طرف سے طلاق نہیں دے سکتے ہیں ۔
(2) عاقل ہو۔ دیوانہ کی طلاق درست نہیں ہے۔
(3) با ارادہ طلاق دے۔ طلاق دیتے وقت نشہ وغیرہ میں نہ ہو اگر کوئی نیند ی ،یامذاق میں یا غلطی سے یا شدید غصہ میں طلاق دے تو یہ طلاق بھی درست نہیں ہے بلکہ باطل ہے۔ اسی طرح اگر کسی کوتعلیم دینے کے لئے صیغۂ طلاق جاری کرے تب بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔
(4) اختیار ہو۔ اگر کوئی کسی کو طلاق دینے پر مجبور کرے ڈرائے یا دھمکی دے اوراس کی دھمکی کی بناء پر ڈرانے کی بناء پر طلاق دے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر کوئی مجبوراً طلاق دے اور بعد میں اس طلاق پر راضی بھی ہوجائے تب بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔
طلاق حاصل کرنے والی عورت ( زوجہ) کی شرائط: جس عورت کو طلاق دی جارہی ہے اس کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں جب تک یہ تمام شرائط پوری نہیں ہوں گی اس وقت تک طلاق واقع نہ گی۔
(1) عورت نکاح دائم میں ہو۔ نکاح موقّت میں طلاق نہیں ہے جب مدّت پوری ہوجائے گی خود بخود ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے مستقل طلاق کی ضرورت نہیں ہے۔
(2) عوت حیض او رنفاس سے پاک ہو۔ اگر عورت ایام حیض یا ایام نفاس میں ہے اگر اس دوران کوئی طلاق دے تو طلاق باطل ہے۔ البتہ ان ایّام سے پاک ہونے کے بعد طلاق کے لئے غسل حیض و نفاس ضرور ی نہیں ہے۔
(3)حیض و نفاس سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس پاکیزگی کے درمیان ہمبستری نہ کی ہو۔ اگر ہمبستری کی ہے تو ان پاک ایام میں بھی طلاق نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ ضروری ہے کہ ہمبستری کے بعد عورت ایام حیض دیکھے اور جب یہ ایام تمام ہوجائیں اور عورت حیض سے پاک ہوجائے تب طلاق دے۔
(4) جس عورت کو طلاق دیا جارہا ہے اس کومعین کیا جائے ۔ مثلاً کہاجائے ’’زوجی طالق‘‘ اگر متعدد بیویاں ہیں تو جس کو طلاق دے رہا ہے اس کو باقاعدہ معین کرنا ضروری ہے۔
طلاق کی شرائط: جب تک طلاق ان شرائط کے ساتھ واقع نہ ہو اس وقت طلاق واقع نہیں ہوگی۔
(1) طلاق کے خاص صیغہ کے ساتھ طلاق جاری کی جائے ۔ ان الفاظ میں طلاق دے۔ ’’ انتِ طالق‘‘ یا’’فلانۃ طالق‘‘ ۔ (فلانہ کی جگہ پر زوجہ کا نام لے) یا ’’ ھذہ طالق‘‘ اگر ان الفاظ کے علاوہ کسی او رلفظ کے ذریعہ طلاق دے گا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جیسے یہ الفاظ ۔ ’’ انت مطّلقہ ‘‘ ، ’’ طلاق ‘‘ ، ’’ الطلاق‘‘، ’’ للقّت فلانۃ‘‘ یا ’’طلقتک ‘‘وغیرہ ۔ ان الفا ظ کے ذریعہ طلاق نہیں ہوگی چاہے جتنی مرتبہ دہرائے او رکتنی ہی سنجیدگی سے الفاظ ادانہ کرے ۔
جب تک صحیح عربی میں طلاق کا صیغہ جاری کرسکتا ہے اس وقت تک کسی دوسری زبان میں صیغہ طلاق کا ترجمہ ادا کرنے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔
طلاق صیغہ طلاق کے لکھنے یا اشارہ سے بھی واقع نہ ہوگی۔
اگر کوئی زوجہ کی حق طلاق تفویض بھی کردے اور زوجہ طلاق اختیار بھی کرلے تب بھی طلاق نہ ہوگی جب تک باقاعدہ صیغہ طلاق جاری نہ کیا جائے ۔ شوہر صیغہ طلاق جاری کرنے کے لئے کسی کو اپنی طرف سے وکیل قرار دے سکتا ہے وکیل کی طرف سے صحیح عربی میں صیغہ طلاق جاری کرسکتا ہے۔
(2) طلاق فوری ہوکسی چیز پر معلّق نہ ہو مثلاً اگر اس طرح کہے۔
’’ جب سورج نکلے توتم طلاق شدہ ہو ۔‘‘ یا ۔’’ فلاں آیا گیا تو تم طلاق شدہ ہو۔‘‘
اس صورت میں طلاق واقع نہ ہوگی۔
(3) گواہ ۔ دوعادل افراد کے سامنے صیغہ طلاق جاری کیا جائے اور اس طرح جاری کیا جائے کہ وہ باقاعدہ سن رہے ہوں ۔
یہ دونوں عادل گواہ ایک جگہ ہوں۔ اگر ایک مرتبہ ایک عادل گواہ اور دوسری مرتبہ دوسرے عادل گو اہ کے سامنے صیغہ طلاق جاری کرے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
اگر وکیل صیغہ طلاق جاری کررہا ہو تو وکیل کے علاوہ دو گواہوں کا ہوناضروری ہے۔ وکیل کا عادل ہونا اور اس کے ساتھ صرف ایک گواہ کافی نہیں ہے۔ جب یہ تمام شرائط مکمل ہوں گی تب طلاق واقع ہوگی۔ اس طلاق کے بعد زو جہ فوراً اپنے شوہر سے جدا نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کے لئے بھی شرائط ہیں ۔ طلاق رجعی کی صورت میں عدّت کی مدّت گذرنے کے بعد باقاعدہ طلاق واقع ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر طلاق ان شرائط کے ساتھ واقع ہوگئی تو صیغہ طلاق کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ جاری کیا گیا ہو وہ صرف ایک طلاق شما رہوگی۔
طلاق بائن: طلاق بائن :وہ طلاق ہے جب وہ اپنی تمام شرائط کے ساتھ واقع ہوجائے تو شوہر بغیر نکاح کئے رجوع نہیں کرسکتا ۔
طلاق رجعی: مندرجہ بالا طلاق کے علاوہ تمام طلاق رجعی ہے۔ یعنی شوہر عدّت کی مدّت میں بغیر دوبارہ نکاح کئے رجوع کرسکتا ہے ۔ اوررجوع کرنے سے طلاق ختم ہوجائے گی۔ ان تمام شرائط کے بعد فقہ جعفری میں ایک طلاق واقع ہوتی ہے ۔ کیا اس طرح کی طلاق غیر انسانی ہے اور عورت پر ظلم ہے؟جب زوجہ اور شوہر کی پرسکون ازدواجی برقرار رکھنے کا کوئی راستہ نہ وہوتو اس صورت میں روز انہ کی لڑائی جھگڑے ، مار پیٹ ، ٹینشن ، فتنہ و فساد کے ساتھ زندگی گذارنا بہتر ہے یا پرُسکون زندگی کے لئے پرُسکون طریقے سے جدا ہوجانا زیادہ بہتر ہے تاکہ دونوں اپنی آئندہ کی زندگی مستقل طور سے گذار سکیں ۔
آخر میں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے ۔طلاق کے یہ مسائل فقہ جعفری یا شیعہ فقہ سے متعلق ہیں ۔ لیکن ہم تمام مکاتب فقہ کا احترام کرتے ہیں او راس بات کے قائل ہیں جو جس فقہ کی پیروی کرتاہے اس پر اس فقہ کے احکام نافذ ہوں گے۔ اگر کوئی اس فقہ کی پیروی کرتا ہے جہاں طلاق ثلاثہ جائز ہے تو اس کے حق میں وہ طلاق ثلاثہ شمار کی جائے گی۔
30مئی،2017بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism