مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
30مارچ، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل درددل کے حامل افراد اس بات سے قطعی واقف نہیں کہ طالبان ایسے حامیان جنگ و جدل کا لشکر ہے جس میں اُن تمام مہم جو جنگجووں کو شامل کیا گیا ہے جو اپنے اپنے علاقوں میں لاقانونیت پھیلانے اور دیگر سماجی جرائم میں ملوث رہے ہیں اور اُنہوں نے ریاست کے خلاف لڑنے والے اِن گروہوں کو اس لیے پسند کیا کہ وہ کسی بھی قسم کی بازپرس یا جوابدہی سے آزاد ہوسکیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اِن عادی جنگجو افراد میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو اغواء برائے تاوان،منشیات فروشی اور دیگر جرائم سے وابستہ رہے ہیں اور اُن کے لیے اپنے اپنے رہائشی علاقوں میں کسی قسم کی باعزت واپسی کے امکانات معدوم ہیں کیوں کہ قبائلی روایات میں بدلہ اور سزا کے طور پر نقد ادائیگی کو کچھ وقت کے لیے ٹالا تو جاسکتا ہے مستقل استثناء حاصل نہیں ہوتا۔ہم نے چوں کہ اِن عادی جنگجو افراد کو مذہبی حوالے سے راسخ العقیدگی کی یکطرفہ سند عطا کردی ہے، اس لیے ہم اُنہیں درویش صفت اور طلبگاران شریعت کے علاوہ کسی دوسرے زاویے سے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔مثال کے طور پر ہمارے یہ ممدوحین سابق گورنر سلمان تاثیر اور سابق وزیراعظم گیلانی کے بیٹوں کو اس لیے مفت میں رہا نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ اِن مغویان کا معاوضہ چاہتے ہیں۔جنہوں نے ایسے اغواء کے لیے محنت کی اور پھر اُنہیں ادائیگی کی طلب میں محفوظ رکھا، اب وہ محض ایسے مذاکرات کے لیے اُنہیں صرف خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کردیں،جن کی کامیابی کے بارے میں لاتعداد سوالات کھڑے ہیں۔لہذا ابھی سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں یہ تو محض شروعات ہے آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے اور کس قسم کے مطالبات کو تسلیم کیے جانے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ حکومت کے ساتھ ہے جو اس حوالے سے یکسوئی کے فقدان کا شکار ہے اور کسی نہ کسی صورت یہ اعلان کرنا چاہتی ہے کہ طالبان نے ریاست کے خلاف نہ لڑنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ابھی تک پاکستانی عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت طالبان کو جنگ بندی کے مستقل اعلان کے بدلے میں کیا دے گی۔اُن کے لیے عام معافی کا اعلان کرے گی یااُن سے ایسے افراد کی حوالگی کا مطالبہ کرے گی جو ریاست کے سیکورٹی اداروں کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں اور اِنہیں ریاستی ادارے نہ صرف شناخت کرچکے ہیں بلکہ اِن کے بارے مکمل کوائف بھی محفوظ ہیں۔اگرچہ دوطرفہ طور پر خوشخبریوں کی نوید کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ سب اچھا ہونے کو ہے لیکن اس حوالے سے جزئیات کا پردہ اخفاء میں رہنا ایک اجتماعی دھوکہ دہی کی واضح نشاندہی کررہا ہے۔مثال کے طور پر سوات کے صوفی محمد کے ساتھ ماضی کے ’’کامیاب‘‘ مذاکرات کے اختتام پر ہم سب خوش تھے لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد خود صوفی محمد نے ریاستی اداروں کے غیر اسلامی ہونے کا دعوی کرکے ہماری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا اور ناچار صوفی محمد کا محاسبہ کرنا پڑا۔جو ہمیں مہنگا بھی پڑا جبکہ اس کے بعد ہماری قومی اُلجھنوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ مسلح گروہ مزید یکجا ہوکر ریاست کے خلاف لڑنے لگے۔اب اُسی صوفی محمد کا داماد طالبان کا امیر ہے اور ہم ایک مرتبہ پھر اُسی دروازے سے خیر کے طلب گار ہیں۔
ہمارا سب سے کلیدی مسئلہ شناخت کا ہے جس کو دھندلا کرنے میں جہاں لاتعداد کرداروں کا ہاتھ ہے وہاں ہماری اجتماعی یادداشت کا سقم بھی موجود ہے۔ہمارے ہاں یادداشت کو محو کرنے کے لیے ’’بیرونی ہاتھ‘‘ کا سفوف استعمال کیا جاتا ہے جس کے بعد ہمارے زبردست اور بالادست ادارے ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ کی تمیز کو اُجاگر کرنے کے لیے دیگر اقسام کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ابھی وہ اس قسم کی خانہ بندی کو کوئی واضح شکل نہیں دے پائے ہوتے کہ سب اچھے برے مل کر ریاست کا گھیراؤ کرلیتے ہیں۔افغانستان کے حوالے سے اگر ہماری قومی یادداشت ابھی پوری طرح محو نہ ہو پائی ہو تو پوچھا جاسکتا ہے کہ حکمت یار گلبدین کب بہت اچھا تھا اور کب وہ ہمارے لیے راندہ درگاہ بن گیا؟ جلال الدین حقانی کب ہمارے حق میں بہتر تھا اور کب اُس سے کنارہ اختیار کرنے میں ہی ہماری بہتری تھی؟کب ملا فقیر محمد حب الوطن تھا اور کب ملاں فضل اللہ بھی یہ سند حاصل کرتا ہے۔قومی اُلجھنوں کی اس وسیع تر نمائش میں ہمارے ہاں طرح طرح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔
جو چیز بالکل عیاں ہے اوراُس سے فرار ممکن نہیں، وہ یہ ہے کہ موجودہ حکمران جماعت ملک میں امن تو چاہتی ہے لیکن اس کی ترجیح محض اس وقت تک امن و مان کو قائم دیکھنا ہے جب تک وہ برسراقتدار ہے۔یہ حکومتی کارکردگی کو بہتر ثابت کرنے کی خواہش تو ہوسکتی ہے ریاست میں دیرپا امن کے لیے حقیقی کاوش نہیں۔اس کا بہترین اظہار وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی پہلی ٹرم میں کردیا تھا جب اُنہوں نے دہشت گردوں سے صوبہ پنجاب میں اپنی کارروائیاں نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔اگر اب بھی دیکھا جائے تو ابھی تک براہ راست پنجاب کو دہشت گردی کی کسی بڑی واردات کا سامنا نہیں کرنا پڑاجبکہ خیبر پختونخواہ اور سندھ جہاں مسلم لیگ نواز برسراقتدار نہیں دہشت گردوں کے حملوں کا شکار ہیں۔جیسا پنجاب اور مرکز کو دوسرے صوبوں کی طرف سے ایک ہی پلڑے میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے، اگر اُس تصور کو تھوڑی دیر کے لیے مستعار لے لیا جائے تو دونوں باہم جڑی سمجھی جانے والی اکائیوں یعنی مرکز اور پنجاب کو براہ راست کسی بڑے خطرہ کا سامنا نہیں۔اس کی وجہ سادہ ہے کہ مرکز اور پنجاب پر حکمران جماعت دہشت پسندوں کے ساتھ کسی براہ راست تنازعے کا شکار نہیں اور نہ ہی مسلم لیگی قیادت میں سے کسی کو اس حوالے سے نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کئی کارکنان دہشت گرد حملوں میں مارے گئے ہیں۔اس سے پہلے خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد دہشت گردوں کے ہاتھوں ماری جاچکی ہے۔
اگر وفاقی حکومت ایسے مذاکرات کے ذریعے ملک میں اجتماعی طور پر امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے ،جو مسلح انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو ایک مخصوص مدت کے لیے جنگ بندی پر آمادہ کرلیتے ہیں تو بظاہر اس کو ایک کامیابی کے طور پر دیکھا جائے گا لیکن ریاست کے لیے ایک ایسا خطرہ بدستور قائم رہے گا جو کسی بھی وقت اُبھر سکتا ہے۔کیوں کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کے لیے جس لجاجت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو بعض معاملات میں ڈھیل دے کر کچھ عرصے کے لیے آمادہ بہ جنگ بندی تو کیا جاسکتا ہے، اُنہیں غیر مسلح اور کمزور نہیں کیا جاسکتا۔لیکن دوسری طرف افغانستان میں نظر آنے والا غیر ملکی افواج کا انخلاء قبائلی پٹی میں جتھ بند دہشت گردوں کو ضرور ترغیب دے گا کہ وہ نہ صرف افغانستان میں اقتدار کے لیے کوشاں جنگجوؤں کو مدد فراہم کریں بلکہ سرحد سے اس پار موجود اپنے روایتی ہمدردوں اور ساتھیوں کو مزید طاقت ور بنانے کے لیے اِن کی مدد کریں۔یہ ایک ایسا موقع ہے جو ریاست پاکستان کے لیے فیصلہ کن حکمت عملی کا متقاضی ہے تاکہ اس کے شہروں اور زیرانتظام علاقوں میں امن وامان کے قیام کے دوانیے کا تعین کیا جاسکے اور مستقبل کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکے کہ مذاکرات کے بعد وجود میں آنے والا امن وقتی ہے یا دائمی؟
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/be-duration-possible-peace-/d/66336