New Age Islam
Mon Feb 17 2025, 12:32 AM

Urdu Section ( 20 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tragedy of Model Town and Dr. Quadiri vs. Sharifain سانحہ ماڈل ٹاون اورقادری بمقابلہ شریفین

  

مجاہد حسین، نیو ایج اسلام

20جون، 2014

منہاج القرآن فائرنگ کیس کے بعد حکومت کو ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے کیوں کہ غیر متوقع طور پر اس کو ایسے مغضوب الغضب دشمنوں سے واسطہ پڑ گیا ہے کہ جن کے بارے میں عمومی رائے یہ تھی کہ وہ مستقبل میں کوئی خاص خطرہ نہیں۔جوڈیشل انکوائری اگر آسانی کے ساتھ اپنا کام کرسکی اور سادہ حقائق کو سامنے لے آئی تو شاید مسلم لیگ نواز کی قیادت اس بحران سے نکل سکے،بصورت دیگر بڑے خطرات منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔اگر افواہوں اور سوشل میڈیا کی رہنمائی میں چلنے والی مخالف مہم کے اثرات کو دیکھا جائے تو میاں براردان عنقریب کسی بڑے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں کیوں کہ عمران خان اپنی پوری قوت کے ساتھ اس سانحے کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے پر مائل نظر آتے ہیں جب کہ مسلم لیگی قیادت روایتی تذبذب کے باعث خاصی ڈانواں ڈول ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ جن کے بارے میں عمومی طور پر یہ قرار دیا جاتا رہا ہے کہ وہ خاصے متحرک منتظم ہیں اور میاں نواز شریف کی نسبت اِن کے اقدامات سیاسی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں،اِن کی صلاحیتیں خاصی منتشر نظر آنے لگی ہیں کیوں کہ وہ جس قدر عجلت اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں،اُسی قدر خجالت اور مایوسی اُن کو اکثر گھیرے رکھتی ہیں۔ظاہر ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے منتظم کے طور پر لاہور ماڈل ٹاون کے سانحہ میں اِن کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جاسکتی اور اگرچہ پاکستان کی روایتی سیاست میں یہ ایک بعید ازقیاس بات ہے لیکن اِن کو سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوڈیشل انکوائری کے فیصلے کے انتظار میں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ جوڈیشل انکوائری جو وزیراعلی کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں بہت حد تک متنازعہ ہوچکی ہے،اس کو نہ ماننے والوں کے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں جس کے بعد اگرچہ اس کو جاری رکھا جائے گا لیکن اس کی اہمیت باقی نہیں رہے گی اور عام طور پر یہی الزام لگایا جائے گا کہ انکوائری پر اثر انداز ہونے والے اقتدار میں موجود ہیں۔یہ تو خیر ایک ایسا مشورہ تھا جس کی افادیت اس وقت صفر بھی نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سانحے کے بعد جس قسم کے حالات کا سامنا حکومت کو کرنا پڑے گا وہ خاصے گھمبیر نظر آتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سانحہ ہماری اجتماعی بے حسی اور درشتگی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدم برداشت اور سختی پورے سماج کے تاروپود میں سرایت کرچکی ہے اور اس سے چھٹکارا آسانی سے ممکن نہیں۔اپنے سے غیر متفق اور مختلف نقطہ نظر کو برداشت نہ کرنے کی اس روش کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ بہت ضروری ہے لیکن ساتھ ہی اُتنا ہی غیر اہم بھی کیوں کہ ہمارے ہاں اس بات کو بھی ناپسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اِن کی اکثریت ہمیشہ طاقت ور ہوتی ہے اس لیے یہ کام بذات خود خطرات سے خالی نہیں۔اگر صرف اس واقعے کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت میں موجود لوگوں کو منہاج القرآن کے سربراہ سے صرف اس لیے کد ہے کہ وہ اپنی حکومت مخالف مہم کو لمحہ بہ لمحہ تیز کررہے ہیں،اگرچہ وہ نظام بدلنے کا ایک بہت حد تک ضروری اور کنفیوژن زدہ تصور بھی پیش کرتے ہیں لیکن چوں کہ وہ اس کام کے لیے مذہبی مبادیات کا سہارا لیتے ہیں اور مذہبی تعلیم کے لیے تیار کی گئی اپنی تنظیم کو استعمال کرتے ہیں۔اس لیے اِن کے مسلکی مخالفین بہت زیادہ رنجیدہ ہیں۔طاہر القادری کے بارے میں مخالفانہ رائے سازی اُن کی مسلکی وابستگی اور اپنی تنظیم و شخصیت کی تعمیر میں ارادی طور پر شامل کی گئی تقدیس کے باعث ہے۔بظاہر طاہر القادری کی سیاسی مخالفت ایک مشکل کام ہے کیوں کہ اُنہوں نے سیاسی طور پر اُتنی غلطیاں نہیں کیں جتنی عام طور پر پاکستانی سیاست میں کی جاتی ہیں۔طاہر القادری کی تمام تر مخالفت کی وجہ اُن کی مسلکی وابستگی ہے کیوں کہ وہ اپنے سے مختلف مسلک کے سخت گیر لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں ،اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔وہ برصغیر کی اُلجھی ہوئی مسلکی مخاصمت میں اپنا ایک خاص مقام بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور ایک نہایت زیرک منتظم کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے ہیں، جو انتہائی تیزی کے ساتھ ترقی کرتا ہوامذہبی تنظیم سازی سے جڑی ہر قسم کی کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور پھر اس کے عزائم ایسے ہیں کہ وہ سب کچھ پلٹ دینا چاہتا ہے۔طاہر القادری اس وقت مزید ناقابل برداشت ہوجاتا ہے جب وہ اکثریت کے تصور عالم کے بالکل اُلٹ تصور پیش کرتا ہے اور مغربی ممالک میں بھی اس کو سراہا جاتا ہے۔میرے خیال میں اس حوالے سے طاہر القادری کی آخری اور واضح ترین غلطی کئی سو صفحات پر مشتمل فتوی تھا جو اُنہوں نے خودکش حملوں کے بارے میں شائع کروایا۔

میاں برادران کے ساتھ طاہر القادری کی مخاصمت کی ایک اور نمایاں وجہ اُن کے خاندان کے ساتھ قدیمی تعلق بھی ہے جس کے بارے میں مختلف اوقات میں بہت کچھ سامنے آتا رہا۔اب طاہر القادری سیاسی طور پر ایک نئی کشتی پر سوار ہیں اور اُن کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ وہ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہیں۔وہ میاں نواز شریف کی حکومت کو پلٹنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اِن کی مذہبی شخصیت اور تنظیم کو استعمال کیا جارہا ہے۔اس سے پہلے وہ سابقہ حکومت کے خلاف بھی ایک متنازعہ کنٹینر مہم چلا چکے ہیں جس کے دوران وہ یہ سمجھتے تھے کہ حکومت اُن کے دھرنے کے باعث اُلٹ جائے گی اور وہ پاکستان کی سیاست میں ایک تبدیلی لانے والے کی سی خیثیت اخیتار کرجائیں گے۔لیکن یہ دھرنا واضح طور پر ناکامی سے دوچار ہوا، بلکہ طاہر القادری کو عجلت میں شہرت حاصل کرنے والے جیسے خطابات سے بھی نوازا گیا۔اُن کی دوہری شہریت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ وہ پاکستان میں بیرونی طاقتوں کی ایماء پر انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

ایک مرتبہ پھر طاہر القادری پاکستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جن کو عجلت اور غصے کے تحت اُٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ماڈل ٹاون کے سانحے نے علامہ صاحب کو وہ طاقت بہم پہنچا دی ہے جس کے بارے میں وہ ابھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے، اور اگر وہ واقعی اچھے منتظم ثابت ہوئے تو وہ اس واقعے کو ایک مہلک ہتھیار میں تبدیل کرسکتے ہیں، جس کا استعمال پاکستان کی سیاست میں یاد رکھا جائے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس قسم کے ردعمل کے تحت اپنی حکمت عملی کو آگے بڑھاتے ہیں اور حکومت کے لیے کس قسم کی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔اگر وہ موجودہ تحریک کے تحت حکومت کو گرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ خود اِن کے حصے میں کیا آتا ہے؟ اور کیا وہ واقعی اپنا مجوزہ نظام لاگو کرنے میں کامیاب ہوں گے یا کسی دوسرے کے لیے راستہ صاف کرنے تک محدود رہیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کی موجودہ سیاست جو تیزی کے ساتھ متشدد رخ اختیار کررہی ہے اس کا سامنا کیسے کرپاتے ہیں؟

مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’  سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔  تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے  اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/tragedy-model-town-dr.-quadiri/d/87639

 

Loading..

Loading..