مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
7 جون، 2014
4 جون کی صبح پاکستان آرمی کے دو سینئر افسران لیفٹیننٹ کرنل محمد ظاہر اورلیفٹیننٹ کرنل ارشد حسین کو راولپنڈی کے نواحی علاقے فتح جنگ میں ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ کرکے شہید کردیا،پاکستانی ریاست اور پاکستان کی فوج کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ لیکن آپ کو معلوم ہے کیا نہیں ہوا؟ پاکستان کے کسی بڑے شہر کسی قصبے حتی کہ کسی گاوں میں بھی کسی ملاں یا درباری سیاسی لیڈر نے کوئی جلوس برآمد نہیں کیا۔اس کی وجہ بہت سادہ ہے، چوں کہ قاتل جس کے ہم خیال اور ہم مکتب ہوں ،وہ اس طرح کے واقعات پر اپنے قاتلوں کے خلاف احتجاجی جلوس نہیں نکالتے۔
پاکستان کے وہ تمام دین پسند اور وطن پرست ملاں اور ناکام سیاست دان جو ابھی کچھ لمحے پہلے تک پورے ملک میں سراپا احتجاج تھے کہ ایک میڈیا گروپ نے پاکستان کی فوج پر غلط الزامات عائد کیے ہیں، پورے ملک میں،گاوں گاوں،قریہ قریہ اور ہر شہر کے ہر محلے سے مولویوں کی رنگ برنگی ٹولیاں جلوس پر جلوس برآمد کررہی تھیں،اچانک غائب ہوگئی۔پاکستان کے زبردست میڈیا پر آلتی پالتی مارے لگاتار جذباتی پروگراموں میں مصروف ہمارے وطن پرست اور دین دار اینکر بھی ٹھس ہوگئے، کسی کے منہ سے اُن لوگوں کے لیے لعنت کے تین حرف تک نہیں نکل سکے جنہوں نے پاکستان کی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا ہے۔نہ حافظ محمد سعید کے منہ سے کوئی جملہ نکل سکا ہے،نہ طاہر القادری شیخ السلام کی زبان نے جنبش کی ہے، نہ چوہدری شجاعت حسین کے لب ہلے ہیں،نہ کوئی حافظ رضا کہیں اِن قاتلوں کے خلاف بولتا نظر آیا اور نہ ہی کوئی شیخ رشید لب کشائی کرسکا ہے جب کہ حضرت عمران خان تو بالکل ہی خاموش ہیں۔یہ ہے پاکستان کی دیندار روایت اور سیاسی بصیرت کا حال۔سب خاموش ہر طرف گونگے بہروں کا راج۔
میرا موضوع کسی میڈیا گروپ کی وکالت اور کسی دوسرے میڈیا گروپ یا گروہوں کی مخالفت نہیں بلکہ میرا مقصد اُس ابن الوقتی اور منافقت کا پردہ چاک کرنا ہے جو آج پاکستانی ریاست اور پاکستانی سماج کو لاحق ہے ۔جس کے تانے بانے آج ریاست کو بکھیر رہے ہیں اور ایک ایسا سماج ترتیب دینے میں کامیاب ہوچکے ہیں جس میں سے برداشت اورانسانی رویے رخصت ہوچکے ہیں اور معاشرہ اس حد تک موت پسند ہوچکا ہے کہ جہاں مخالف کے لیے موت کے علاوہ کوئی دوسری سزا تجویز ہی نہیں کی جاسکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے دنوں پاکستان میں ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے باعث پاکستان کے بعض اہم ادارے موضوع بحث بنے اور الزامات کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جس نے قومی اُفق پر بہت زیادہ بھد اُڑائی اور پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ایک ٹی وی اینکر پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان کے حساس اداروں اور اُن کے سربراہوں کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن جس وقت یہ سب کچھ ہورہا تھا، عین اُسی وقت اس کا مناسب تدارک بھی موجود تھا، جس کی طرف جذباتیت کے تحت کسی کی توجہ نہ ہوئی۔ایسے الزامات کو آسانی کے ساتھ بے اثر بنایا جاسکتا تھا اور معاملہ بالکل ہی برعکس رخ اختیار کرتا اور وہ کراہت آمیز مناظر رونما نہ ہوتے جو ہوئے۔لیکن بعد میں جو کچھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ حیران کن اور عجیب تھا۔پاکستان کی فوج کے کسی شعبے پر الزام یقینی طور پر افسوسناک ہے لیکن الزام ہی تو ہے،جس کو آسانی کے ساتھ غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔
فتح جنگ کے سانحے نے ہر قسم کے وقتی وطن پرستوں اور ریاستی اداروں کی محبت میں مبتلاموقع پرستوں کو بے نقاب کردیا ہے کیوں کہ ہر کوئی کونے کھدروں میں جاچھپا ہے اور کسی کی زبان سے ایک جملہ بھی مذمت کا اُن قاتلوں کے بارے میں نہیں نکلا جنہوں نے پاک فوج کے شیرجوانوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔جو لوگ پاکستانی ریاست کو اور پاکستان کی فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے اُسامہ بن لادن کے غائبانہ جنازے پڑھاتے ہوں،طالبان کو اپنا بھائی قرار دیتے ہوں،فوجی جوانوں کے سرکاٹنے والوں کی محبت میں گرفتار ہوں،فوج اور عوام پر حملے کرنے والوں کے وکیل ہوں،فوج کو ظالم اور فوج کے قاتلوں کو شہید قرار دیتے ہوں،اُن سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ لیکن حیرت ہے اُن پر بھی جو ایسے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں اور اِن کی مدد سے اپنا قد اُونچا کرنا چاہتے ہیں۔اگر اُنہوں نے اس طرح کے ’’وقتی‘‘ استعمال کو ماضی میں نہ برتا ہوتا تو آج حالات قدرے مختلف ہوتے اور پاکستان کی ریاست اور اداروں کے دشمنوں کی ملک کے اندر اتنی بہتات نہ ہوتی۔
اس میں شک نہیں کہ ریاست پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے اور اس کے دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے لیکن آج بھی ریاست اور اس کے ذمہ داروں کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ ریاست کی بقاء کے خواہش مندوں اور ریاست کی موت کے طلبگاروں میں تفریق کریں۔وہ کون عناصر ہیں جو ریاست کو توڑ دینا چاہتے ہیں اور اس کے بعد اپنی منشاء کے مطابق اس کی تشکیل نو چاہتے ہیں۔جو عقائد اور نظریات کی بنیاد پر اپنے سے الگ اور مخالفین کی نسل کشی چاہتے ہیں تاکہ بعد میں اِنہیں اپنے نظریات کے مطابق سب کچھ ڈھالنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔جو گروہ اور جماعتیں ریاست کے اندر اپنی ریاستیں قائم کرچکی ہیں اِن سے تعلق داری کیا پاکستان کی ریاست اور اس کے ذمہ داروں کے لیے سودمند ہے؟ اس طرح کے لاتعداد سوالات جنم لیتے ہیں جن کا آج ہمارے پاس کوئی بھی موثر جواب نہیں کیوں کہ بدقسمتی سے ہم نے حتی المقدور کوشش کرکے پاکستان کی ریاست کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جوآج ریاست سے زیادہ طاقت ور ہیں اور اِن کا تصور عالم پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرچکا ہے۔
اب ہم گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں کیوں کہ ہمارے اپنے اعمال ہمارا منہ چڑا رہے ہیں اور ہمارے سامنے وہی عفریت کھڑے ہیں جو ہم نے دوسروں کے لیے تراشے تھے۔اِسی لیے آج ریاست اور اس کے اداروں کے نقصان پر افسوس کرنے والا کوئی نہیں اور ریاست بے بسی کی تصویر بنی خاموش کھڑی ہے۔جو لوگ بعض مواقع پر اپنے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں اور حب الوطنی کے نام پر اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں، اُن سے کیا یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ریاست کو درپیش کسی مشکل وقت میں کام آئیں گے؟اگر آج بھی ریاست اور اس کے ذمہ داروں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر یقین کریں ہمارے پاس پچھتاوئے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔آج بھی اگر ہم ریاست پاکستان کو بچانے کے لیے حقیقی کوشش نہ کرسکے تو پھر شاید ہمارے پاس کوئی دوسرا موقع نہ آئے اور ریاست ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے جو اس کواپنے اپنے عقائد اور نظریات کے تحت چلانے کے لیے تیار کرنے کے لیے سب سے پہلے نسل کشی کا سہارا لیں اورپاکستان صومالیہ اورروانڈا جیسی صورت حال کا شکار ہوجائے۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/sudden-disappearance-godly-nationalists-/d/87409