مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
پاکستان میں ایک وقفے کے بعد
القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں نے دوبارہ نہایت منظم حملے شروع کردئیے ہیں۔کہا جارہا
تھا کہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کے بعد طالبان اور
القاعدہ کے ہمدردوں کو کھدیڑ دیا گیا ہے۔لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور مقامی
و مہمان انتہا پسندوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ سیکورٹی فورسز اور مقامی امن لشکروں
کو اس علاقے سے نکال باہر کردیا ہے جس کے بعد وہ نواحی شہروں اور آبادیوں کو آسانی
کے ساتھ نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال قبائلی پٹی کے نواح میں واقع
بنوں شہر کی جیل سے سینکڑوں خطرناک قیدیوں کی رہائی ہے ۔اِن قیدیوں میں سابق صدر پاکستان
پرویز مشرف پر حملے کا ایک اہم ترین کردارعدنان رشید بھی شامل تھا جسے حملہ آوروں نے
جیل کے احاطے میں ہی سلامی پیش کی اور اُسے پھولوں کے ہار پہنائے گئے جو حملہ آور خصوصی
طور پر اپنے ساتھ لائے تھے۔یہ واقعہ انتہا پسندوں کی طاقت ،دیدہ دلیری اور منصوبہ بندی
کو ہمارے سامنے واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔حملہ آوروں نے جیل کو فتح کرنے کے بعد مسلسل
دو گھنٹے تک اپنا جشن جاری رکھا اور اس دوران بنوں شہر کے پولیس تھانے اور سیکورٹی
فورسز کے دفاتر بالکل خاموش رہے اور اُنہوں نے مقدس حملہ آوروں کی کارروائی میں کسی
قسم کا خلل ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
اس کے بعد پشاور کے ایک نجی
سکول میں دستی بم سے حملہ کیا گیا ہے جس میں بچے ہلاک ہوئے ہیں۔پشاور شہر کے نواح میں
لشکر اسلام نامی جنگجو گروہ کے سامنے ریاست بے بس ہے اور مقامی انتظامیہ سے لے کر سیکورٹی
فورسزتک اس کے سامنے آنے سے گریز کرتی ہیں۔ دوسری طرف وزیرستان میں طالبان کی بڑھتی
ہوئی طاقت کو روک دینا ممکن نہیں رہا کیوں کہ نیٹو سپلائی لائن کے معاملے کو لے کر
پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری تناؤ کا انتہا پسندوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا ہے
اور ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی سیکورٹی فورسز اور ریاست کے دیگر اداروں کو
زیادہ شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیوں کہ شدت پسند پہلے سے زیادہ منظم ،طاقت
ور،زیادہ عوامی حمایت یافتہ اوراثرورسوخ کے حامل ہوچکے ہیں۔پاکستان کا ذرائع ابلاغ
اِن کی تعریف میں رطب اللسان ہے، قومی دانش ور اِنہیں خراج عقیدت پیش کرنے میں مصروف
ہیں اور مساجد سے جاری ہونے والے خطبات میں اِنہیں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے معمار کے طور
پر پیش کیا جارہا ہے۔
اس دوران ایک نئی تبدیلی بھی
دیکھنے میں آئی ہے اورالقاعدہ عراق میں اختیار کردہ فرقہ وارانہ قتل وغارت کی حکمت
عملی کو پاکستان کے شمالی علاقوں اور بلوچستان میں لے آئی ہے جب کہ ساحلی شہر کراچی
پہلے ہی اس قسم کی جنگ کے لیے تیار ہوچکا ہے۔شمالی علاقوں اور بلوچستان میں ہزارہ شیعہ
قبائل کو بے دردی کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے ۔واضح رہے کہ اس مقصد کے لیے القاعدہ
نے پاکستانی فرقہ پرست گروہوں کالعدم سپاہ صحابہ اور کالعدم لشکر جھنگوی کی خدمات حاصل
کی ہیں ، جو عرصہ دراز سے شیعہ فرقہ کے افراد کے قتل کو جائز اور باعث ثواب قرار دیتے
ہیں۔لال مسجد واقعے کے بعد مقامی طالبان اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں اور
فرقہ وارانہ گروہوں کی طرف سے ریاستی اداروں خصوصاً سیکورٹی فورسز پر حملوں میں بہت
زیادہ تیزی آگئی جس کے بعد فوج کے ہیڈکوارٹر اور راولپنڈی،لاہور،اسلام آباد ،پشاوراور
فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملے کیے گئے۔فوجی عہدیداروں کو نشانہ بنایا
گیا اور اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے تربیتی مراکز اور ایف آئی اے کے دفاتر کو بھی خودکش
حملوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔
حافظ محمد سعید،مولانا سمیع
الحق ،منور حسن اور حمید گل وغیرہ کی زیرسرپرستی دفاع پاکستان اور مولانا فضل الرحمن
کی دفاع اسلام مہم نے بنیادی طور پر پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخواہ اور قبائلی
علاقوں میں ریاست کے خلاف برسر پیکار متشدد قوتوں بشمول القاعدہ کو جان بخشی ہے۔اگرچہ
اس مقصد کے لیے نیٹو سپلائی لائن کی ممکنہ بحالی کو روکنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ کیا
گیا ہے لیکن اس مظاہرے کی پشت پر جو قوتیں کارفرما ہیں اُن کے بارے میں اب کسی قسم
کا ابہام نہیں پایا جاتا۔دوسری طرف بھارت کی خواہش پر امریکہ نے کالعدم لشکر طیبہ کے
امیر حافظ محمد سعید اور اُن کے قریبی عزیز عبدالرحمن مکی کی گرفتا ری پر انعام مقرر
کرکے پاکستان کو ایک سخت جواب دیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت اور طاقت
ور ادارے حافظ سعید کے بارے میں کسی قسم کی غیر ملکی ہدایت کو سننے کے لیے تیار نہیں
اور نہ ہی حافظ سعید کو پرویز مشرف دور کی طرح کسی قسم کی احتیاط برتنے کا مشورہ دیا
گیا ہے۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ حافظ محمد سعید اپنی تمام تر سرگرمیاں جاری رکھے
ہوئے ہیں ۔2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد جب لشکر طیبہ کی قیادت کا نام لیا گیا اور
پاکستان کو بھارت اور بیرونی دنیا کی طرف سے دباؤ کا سامنا تھا اُس وقت حافظ محمد سعید
کو شیخوپورہ میں ایک ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کیا گیا تو اُس وقت کے صدر مملکت پرویز
مشرف رات کی تاریکی میں خود وہاں پہنچے اور اُنہیں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا
جس کے بعد حافظ سعید کو کسی ’’دشواری‘‘ کا سامنا نہ کرنا پڑا اور پھر مقامی عدالتوں
نے اُنہیں تمام الزامات سے بری کردیا۔
پاکستان میں آج برسرپیکار
دہشت گرد گروہوں اور فرقہ پرست تنظیموں کے درمیان ایک مثالی اشتراک عمل پیدا ہوچکا
ہے جس کا تدارک اب ریاست کے بس کی بات نہیں ہے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تحریک
طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسود کی طاقت پشاور میں بیٹھے ہوئے اسلام آباد کے نمایندے
گورنرخیبر پختونخواہ اور پشاور کینٹ میں تعینات فوج کے کور کمانڈر سے کہیں زیادہ ہے۔جب
کہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ اور کئی دیگر وزراء حکیم اللہ محسود اور اُس کے ساتھیوں
سے بچنے کے لیے بھاری سیکورٹی کے ساتھ کچھاروں میں گھسے بیٹھے ہیں۔ایسی لاتعداد اطلاعات
بھی موجود ہیں کہ صوبائی حکومت کے کئی اعلیٰ عہدیدار اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے
کے لیے حکیم اللہ محسود گروپ کو ماہانہ بھاری رقوم ادا کرتے ہیں۔حکیم اللہ محسود جب
چاہے پشاور کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے جس کا مظاہرہ اُس کے جنگجوؤں نے کئی مرتبہ
کیا ہے۔ابھی چند دن پہلے تحریک طالبان پاکستان نے بنوں شہر میں واقع جیل کو اتنی آسانی
کے ساتھ فتح کیا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہے۔اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں محض جیل
کے چند سہمے ہوئے خوش قسمت اہلکاروں کو معطل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔وزیرادخلہ
اس حادثے پر مکمل خاموش ہیں اور جانتے ہیں کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندوں کی طاقت کہیں
زیادہ بڑھ چکی ہے اور اُن کے پاس لاکھوں حامی موجود ہیں جو اُنہیں اخلاقی مدد سے لے
کرمالی مدد تک سب کچھ فراہم کرنے کوتیار ہیں۔تحریک طالبان کے مختلف دھڑوں میں باہمی
اختلافات بھی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں جو کہ ریاست کے لیے ایک اور خطرناک اشارہ
ہے جب کہ مقامی طور پر طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیے گئے امن لشکر
کب کے تتر بتر ہوچکے ہیں۔پشاور اور اس کے نواح میں تیار کردہ امن لشکروں کی بے بسی
اور بدحالی کا یہ عالم ہے کہ خیبر تحصیل میں منگل باغ کے لشکر اسلام کو چھوڑ کر جانے
والوں کو منگل باغ کے کارندے جانوروں کی طرح ذبح کررہے ہیں اور آئے روز پشاور شہر اور
اس کے نواح میں ایسے افراد کی سر بریدہ لاشیں مل رہی ہیں۔واضح رہے کہ یہی منگل باغ
ایک وقت میں ریاستی اداروں سے بھاری مالی امداد وصول کرنے والا سب سے بڑا لشکری تھا
لیکن اب یہی منگل باغ ریاست کے لیے سب سے بڑی سر درد ثابت ہورہا ہے۔
تحریک طالبان اور القاعدہ
کے ساتھ جڑئے ہوئے ایک دوسرے ایسے متشدد اور سخت جان گروہ کو نظر انداز کرنا بھی مشکل
ہے جو القاعدہ اور مقامی جنگجوؤں کی معاونت سے بلوچستان،سندھ خصوصاً کراچی ،کرم ایجنسی
اور شمالی علاقہ جات میں شیعہ حضرات کی نسل کشی میں پے درپے کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔اس
گروہ کے بنیادی ارکان میں کالعدم سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی اور جیش محمد کے ارکان شامل
ہیں جنہیں کئی طاقت ور اداروں سے لے کر پنجاب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی حمایت
اور مدد حاصل ہے۔بلوچستان میں اس گروہ کے لیے جنداللہ نامی گروپ تمام تر سہولیات بہم
پہنچاتا ہے جب کہ شمالی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ نسل کشی کے لیے اِسے پنجابی طالبان
اور تحریک طالبان کے جنگوؤں کی مدد حاصل ہے۔اس گروہ کا اولین مقصد مانسہرہ سے لے کر
گلگت اور اسکردو تک شیعہ افراد پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔چھاپہ مار جنگ کے ماہرین کی قوت
سے لیس یہ گروہ نہایت آسانی کے ساتھ شیعہ افراد کے اجتماعات اور خاص کر اِن کے سفری
قافلوں کو نشانہ بناتا ہے اور ہر قسم کی قتل و غارت کے بعد دشوار گزار پہاڑی علاقوں
میں غائب ہوجاتا ہے۔اس گروہ کا خاص انتخاب بسوں کے ذریعے عراق،شام اور ایران کی زیارات
کرنے والوں کے قافلے ہوتے ہیں جنہیں پہلے تو زاہدان اور تفتان سے سڑک کے ذریعے کوئٹہ
جاتے ہوئے نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن جب سے مرکزی و صوبائی حکومتوں نے ایران سے پاکستان
داخل ہونے والے قافلوں کی حفاظت کے لیے اِنہیں اجتماعی طور پر سیکورٹی کے حصار میں
چلنے پر مجبور کیا ہے اس قسم کے حملے دشوار ہوچکے ہیں۔لیکن فرقہ پرست قاتلوں نے اس
کا حل یہ نکالا ہے کہ اب ایسے قافلوں میں شامل بسوں کو کوئٹہ میں سیکورٹی حصار کے خاتمے
کے بعد نشان زد کیا جاتا ہے اور پھر مانسہرہ سے گلگت اور اسکردو تک جہاں بھی اِنہیں
موقعہ ملے حملہ کردیا جاتا ہے۔ایک دوسری اہم بات جو پاکستانی ذرائع ابلاغ خوف اور دباؤ
کے باعث سامنے نہیں لاسکے وہ یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں بعض اہل تشیع آبادیوں پر
اب ایسے حملے بھی جاری ہیں جن میں مردوں کو قتل کرنے کے بعد عورتوں اور بچوں کو اغواء
کرلیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ دس سال میں تحریک طالبان اور بعض فرقہ پرست گروہوں
کی طرف سے کم از کم دس ایسے فتاوی جاری ہوئے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ شیعہ افراد
کو قتل کرنے کے بعد اِن کے بیوی بچوں کو غلام اور لونڈی بنانا نہ صرف جائز بلکہ ثواب
کا کام بھی ہے۔
فرقہ پرست قاتلوں کو اگرچہ
بنیادی مدد پنجاب سے حاصل ہوتی ہے اور اِن کی مرکزی قیادت پنجاب کے مختلف شہروں میں
موجود ہے لیکن اِنہوں نے ابھی پنجاب میں اُس پیمانے پر قتل و غارت سے پرہیز کیا ہے
جس پیمانے پر وہ خیبر پختونخواہ،بلوچستان،شمالی علاقہ جات اور کراچی میں قتل وغارت
میں مصروف ہیں۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اِنہیں مدد فراہم کرنے والے ہر قسم کے عناصر
اِنہیں ابھی تک اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہیں کہ وہ پنجاب سے صرف نظر کیے رہیں۔لیکن
یہ خوش فہمی کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے کیوں کہ پنجاب اپنے جغرافیہ اورشیعہ آبادی کی
کثیر تعداد میں موجودگی کے حوالے سے نسبتاً آسان ٹارگٹ ثابت ہوسکتا ہے ،جس کا مظاہرہ
ماضی میں دیکھا گیاہے جب شیعہ عبادت گاہوں سے لے کر ہر قسم کے اجتماعات پر حملوں اور
ٹارگٹ کلنگ کے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے۔ذرائع کے مطابق تما قسم کے احکامات فرقہ پرستوں
کے پنجاب میں موجود مراکز سے جاری ہوتے ہیں اور اکثر اوقات وارداتوں کے بعد فرار ہونے
والوں کو جنوبی پنجاب کے مدارس میں پناہ دی جاتی ہے جہاں کسی قسم کے آپریشن کا کوئی
امکان موجود نہیں۔گزشتہ برس دسمبر میں جب وفاقی حکومت نے پنجاب کی حکومت کو ہدایت کی
کہ وہ ڈیرہ غازی خان،ملتان،بہاول پور، لیہ،رحیم یار خان اور مظفر گڑھ کے مخصوص مدارس
میں پناہ گزین فرقہ پرست قاتلوں اور تحریک طالبان کے ارکان کو گرفتار کرے تو وزیراعلیٰ
پنجاب کی بجائے وزیرقانون نے واضح طور یہ جواب دیا کہ وہ پنجاب میں مدارس کے خلاف کسی
قسم کے آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان
پوری طرح متشدد مذہبی گروہوں کے نرغے میں ہے اور اِن گروہوں کو ریاستی اداروں،سماج
اور کئی دوسرے اہم شعبوں سے حمایت حاصل ہے ۔پاکستان کی سرحدوں کے باہر رونما ہونے والے
واقعات بھی پاکستان کے اندر موجود مذہبی قوتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جہاں طاقت
ور ریاستی ادارے ایسے واقعات کے ردعمل کے طور پر مقامی طور پر دستیاب شدت پسندوں کو
استعمال کرتے ہیں وہاں القاعدہ جیسی بین الاقوامی تنظیمیں بھی مقامی متشدد تنظیموں
کے ساتھ مل کر نئی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔مثال کے طور پر مقامی سطح پر یہ طے کرلیا گیا
ہے کہ پاکستان کے اندر غیر ملکی مفادات کے خلاف سرگرم عمل مسلح تنظیمیں ہی اصل میں
اسلام اور پاکستان کی وفادار ہیں ۔تقریباً گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان
کی سرزمین سے جنم لینے والے متشدد گروہ اور تنظیمیں اس خطے کو اپنے حصار میں لیے ہوئے
ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں برسرپیکار متشدد قوتوں کی
طرف سے 2014ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی
صورت حال کی پیشگی تیاری جاری ہے۔پاکستان کی مذہبی قوتیں اور گروہ اچھی طرح جانتے ہیں
کہ 2014ء کے بعد اِنہیں پاکستان میں متشدد ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بڑی افرادی
قوت کی ضرورت ہوگی اور اس سے پہلے اگر وہ کوئی اشتراک عمل اختیار کرلیتے ہیں تو پاکستان
میں اقتدار پر قبضہ کرنا آسان رہے گا۔پاکستانی ذرائع ابلاغ پوری طرح تیار ہیں کہ اسلام
آباد میں جنگوؤں کو کس طرح خوش آمدید کہنا ہے اور لاتعداد ٹی وی مذاکروں میں انتہا
پسندوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستانی
عوام میں متشدد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قسم کے اتفاق رائے کا امکان نظر نہیں
آتا اور نہ ہی سول سوسائٹی میں ایسا کوئی دم خم نظر آتا ہے کہ وہ پاکستان کے سماج کو
مذہبی تشدد پسند قوتوں کی گود میں کرنے سے بچا سکے گی کیوں کہ ایک خاص منصوبہ بندی
کے ساتھ لبرل اور سیکولر افراد کو کنارے لگادیا گیا ہے ۔ حالت زار کا اندازہ لگانے
کے لیے یہ کافی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں صحافیوں کی تنظیم سافماSAFMAکے
لاہور اور اسلام آباد دفاتر کو سنگین دھمکیوں کا سامنا ہے اور اس ادارے کے ساتھ وابستہ
پاکستان کے معروف صحافیوں کی تصاویر کے ساتھ پمفلٹ شائع کیے جارہے ہیں جن میں یہ لکھا
گیا ہے کہ یہ صحافی پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں۔ غرض پاکستان میں ہر سطح پر تشدد
اور فرقہ پرستی کی لہر پوری قوت کے ساتھ اُٹھ رہی ہے جو نہ صرف ریاست کے رہے سہے تصور
کو خاک میں ملا دے گی بلکہ پاکستان میں مذہبی و مسلکی بنیادوں پر نسل کشی کی راہ بھی
ہموار کرے گی جس کے امکانات واضح ہوتے جارہے ہیں۔
حال ہی میں "پنجابی طالبان"
سمیت نو کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھیں
گے۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے
ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود ، ایک ملک کے اس کے ابتداء کے
مختصر وقت گزرنے کے بعد سے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر
احاطہ کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی
سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون
ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے
والے مصنف مجاہد حیسن، بڑے پیمانے پر طبقوں،
اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: