مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
10اپریل 2014
طالبان حکومت مذاکرات پر تمام پہلووں سے لکھنے اور اُنہیں جانچنے کے لیے درکار معلومات اور مواد بہت کم ہے، اس کی وجہ وہ خود ساختہ ابہام ہے جو دوطرفہ فائدے کے لیے تیار کیا گیا ہے، کیوں کہ طالبان اور حکومت کی جانب سے کوئی نہیں چاہتا کہ وہ خسارے میں رہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات میں فریقین کی حیثیت حیران کن حد تک یکساں ہوچکی ہے کیوں کہ مطالبات کو تسلیم کیے جانے کا عمل حکومت کی طرف سے زیادہ وسیع القلب انداز اختیار کرتا جارہا ہے۔
بعض ذرائع کا دعوی ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ایسے طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، جن پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج تھے اور مذاکراتی کمیٹی کو تھمائی جانے والی اس فہرست میں شامل افراد کے بارے میں اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اِن کی رہائی کا عمل خاموشی سے مکمل کردیا جائے تاکہ میڈیا کو اس معاملے میں تبصروں کا موقع نہ ملے۔لیکن چوں کہ حکومتی صفوں میں بھی اختلافات کا ایک وسیع سلسلہ زیر تعمیر ہے اس لیے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے بظاہر آف دی ریکارڈ یہ انکشاف کردیا کہ سینکڑوں طالبان کو رہا کیا جارہا ہے، اس لیے وزیراعظم ہاوس کی طرف سے احتیاط کے ساتھ بتایا گیا کہ محض ڈیڑھ درجن ’’غیر عسکری ‘‘طالبان کو رہا کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے پیشگی وضاحتی بیان سے البتہ ایک نئی اور کسی قدر اہم اصطلاح سامنے آئی ہے کیوں کہ اس سے پہلے ہم محض اچھے اور بُرے طالبان کی تقریباً گھسی پٹی اصطلاح سے ہی کام چلا رہے تھے۔
غیر عسکری طالبان کے بارے میں مزید وضاحت درکار ہے کیوں کہ یقینی طور پر جن افراد کو حراست میں سے رہا کیا گیا ہے وہ اپنی رہائی کے وقت مسلح نہیں تھے، اس لیے اِنہیں غیر عسکری قرار دینا بالکل قرین قیاس ہے، البتہ یہ الگ بات ہے کہ اُن میں سے کتنے اب تک مکمل عسکری ہوچکے ہوں گے، ایسی کوئی معلومات ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ’’نازک‘‘ معاملات میں اہم ترین معلومات کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے اور ایسا کبھی سوچا ہی نہیں گیا کہ سماج دشمن عناصر کے بارے میں عوامی سطح پر کسی قسم کی آگہی مہم کا آغاز کیا جائے تاکہ کل کلاں کو اگر سخت اقدامات اُٹھانے کی ضرورت پڑے تو عوامی سطح پر کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہونے پائے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ اُن تمام رہا شدگان کی فہرست ذرائع ابلاغ کو جاری کی جاتی تاکہ مذاکرات کے اس عمل میں حکومت کے کردار کو عوام کے سامنے لایا جاتا لیکن ابہام زدہ فریقین شاید اس قسم کے خطرات مول نہیں لے سکتے کیوں کہ دونوں ہی جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے عارضی عمل کو بروئے کار لانے میں مصروف ہیں، جس کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔
دوسری طرف سیاسی کش مکش کے حقیقی شواہد بھی سامنے آنے لگے ہیں اور گذشتہ روز سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر ہوئی تقاریر کا لب لباب یہ ہے کہ دہشت گردوں کو حکومت پنجاب کی طرف سے نہ صرف مدد حاصل ہورہی ہے بلکہ اِنہیں پوری طرح تحفظ بھی مہیا کیا جارہا ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک اشاریہ ہے جس کے نقصانات کا محض اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔اگر دوسرے صوبے اس طرح سوچتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی سطح پر ایک گہرا ابہام جنم لے چکا ہے اور دہشت گردی و فرقہ واریت کے عفریت کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کو دوسرں کے ساتھ نتھی کیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو کا واضح ترین اشارہ پنجاب کی حکومت کی طرف ہے اور وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا سب سے بڑا معاون پنجاب ہے۔
اگرچہ بلاول بھٹو کے اس فوری ردعمل کی وجہ کالعدم لشکر جھنگوی کی طرف سے موصول ہونے والی دھمکی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ لشکر جھنگوی کا نہ صرف ماخذ پنجاب ہے بلکہ اس کو حاصل ہونے والی امداد کے بہت سے مراکز پنجاب میں موجود ہیں۔دوسری طرف اس قسم کی معلومات بھی گردش کرتی رہتی ہیں کہ صوبائی کابینہ کے ایک اہم ترین رکن کی تمام تر سیاسی قوت کا راز ہی فرقہ پرست گروہوں کی پشت پناہی ہے۔
اگر سندھ میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ پنجاب ملک میں دہشت گردی کے ذمہ داران کی پشت پناہی کررہا ہے ، تو یہ ایک انتہائی خطرناک بلکہ مہلک سوچ ہے جس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔خیبر پختونخواہ میں پہلے ہی بعض حلقوں میں اس طرح کے خدشات پائے جاتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کی ایک قابل قدر تعداد پنجاب سے تعلق رکھتی ہے جبکہ شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان وغیرہ میں پنجابی عسکریت پسندوں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔یہ ایک ایسا مظہر ہے جو بہت زیادہ تباہ کن ہوسکتا ہے کیوں کہ اگر دوسرے صوبوں میں اس بات کو تسلیم کرلیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا اصل ماخذ و معاون پنجاب ہے تو پھر شاید ملک میں کبھی بھی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا قلع قمع نہ کیا جاسکے۔
اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ رواں مذاکرات کے بارے میں نہ صرف ابہام بڑھ رہا ہے بلکہ دوسرے صوبوں کے اس حوالے سے تحفظات میں بھی اضافہ ہورہا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا کیوں اس طرح کے واضح ترین اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔اگر حکومت یکطرفہ طور پر طالبان کو رعایات دینے پر رضامند ہے اور بدلے میں فقط یہ چاہتی ہے کہ طالبان ایک غیر معینہ مدت تک اپنے حملے روک دیں، تو یاد رہنا چاہیے کہ طالبان کو حملے روک دینے میں کوئی نقصان نہیں ،کیوں کہ نقصان اِنہیں غیر مسلح ہونے سے ہے ، نیٹ ورک ٹوٹ جانے سے ہے اور سب سے بڑی بات قبائلی علاقوں سے باہر پھیلے ہوئے اپنے امدای مراکز کے بند ہوجانے سے ہے۔
اگر حکومت اِنہیں غیر مسلح بھی نہیں کرنا چاہتی، نہ ہی اِن کے گروہوں کو توڑنا چاہتی ہے اور نہ ہی اِن کے امدادی مراکز کو ختم کرنا چاہتی ہے تو پھر طالبان کو اس قسم کے مذاکرات جاری رکھنے میں کیا حرج ہے؟ بلکہ اِن کے تو کئی ساتھی باعزت طور پر رہا ہورہے ہیں۔اس سال کی سب سے زیادہ حوصلہ شکن گھڑی وہ ہوگی جب یہ واضح ہوجائے گا کہ حکومت محض عارضی امن و امان کی خواہش مند تھی، اس کا مقصد انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں تھا، محض اپنے دور اقتدار کو جزوی طور پر پُر امن رکھنا تھا۔وزیراعظم ، وفاقی ،وزیرادخلہ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کو فوری طور پرایسے خدشات کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے کیوں کہ پنجاب کے بارے میں جو کچھ دوسرے صوبوں میں محسوس کیا جارہا ہے وہ کسی طور پر بھی وفاق کے لیے سود مند نہیں۔پنجاب کی حکومت کو اس حوالے اقدامات اُٹھانا ہوں گے کہ کیوں صوبائی کابینہ کے ارکان کے بارے میں اس طرح کی خبریں گردش کرتی ہیں کہ وہ دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کے سرپرست ہیں؟ اور کیوں ملک بھر میں دہشت گردی و فرقہ وارانہ قتل و غارت کے سوتے پنجاب سے پھوٹتے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا بروقت جواب دیا جانا ضروری ہے۔
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-growing-concerns-punjab-/d/66481