مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
29اپریل، پاکستان میں ایک دلچسپ صورت حال لاحق ہے اور بہت سے برگذیدہ قرار دے دیئے گئے دانش ور اور سازشی عناصر کی دور سے بوسونگھ لینے میں ماہر حضرات آپس میں گتھم گتھا ہیں۔جیو ٹیلی ویژن کے اینکر حامد میر پر حملے کو لے کر نہ صرف ملک میں سیاسی ہیجان طاری ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ صحافت اور ریاست سمیت ریاستی اداروں کے بارے میں ازسر نو تعریف متعین کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔میں بہت زور سے ہنسنا چاہتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی بھی سنجیدہ اور معروضیت کا طلبگار نہیں۔جہاں ریاست کی عملداری کے خدوخال واضح نہ ہوں وہاں اکثر اوقات ادارے،افراد اور گروہ ہر قسم کے فیصلے اور اقدامات خود ہی اُٹھا لیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ریاست معدوم ہوجاتی ہے اور طاقت ور ہی ریاست کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہ ایک بالکل سمجھ میں آنے والا اور پاکستان میں معمول کا واقعہ ہے کہ ایک مشہور صحافی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اگر ہم حامد میر کی عظمت کے بیان کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف کرلیں تو اس طرح کے واقعات ہمارے ہاں بہت زیادہ ہوئے ہیں اور نامعلوم مدت تک ہوتے رہنے کے واضح امکانات ہیں۔ سابق وزیر اعظم، فوجی جرنیل،علماء،ڈاکٹر،سائنسدان،بیوروکریٹس غرض ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کامیاب اور مشہور لوگ لاچاری کی حالت میں پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں مارے گئے ہیں۔اقلیتوں کے سینکڑوں افراد کو چند لمحوں میں قتل کردیا گیا لیکن پاکستان کے بظاہر بہت زیادہ آزاد ذرائع ابلاغ پر سوائے معمول کی خبروں کے اِن واقعات کا مزید تذکرہ نہیں ہوا۔اور نہ ہی یہ بحث ہوسکی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے۔اس قسم کی بحث کے تو ہم کبھی متحمل ہی نہیں ہوسکے کہ اِس قسم کے واقعات کا ماخذ کیا ہے اور ہم ایک سماج کے طور پر کس سمت میں جارہے ہیں؟
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پچاس ہزار سے زائد افراد کو مذہبی انتہا پسندوں نے موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے لیکن اِن ہلاکتوں اور اِن کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور اِن پر لکھنا بہت مشکل ہے ۔لاتعداد صحافی اور تجزیہ کار انتہا پسند قاتلوں کی وکالت میں مصروف نظر آتے ہیں اور اِنہیں اس بات کا شدید ملال ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کے بارے میں ہمدردانہ رویہ کیوں نہیں رکھاجاتا۔موت اور تباہی کے بیوپاریوں سے اس قدر قربت اور ہمدردی ایک سمجھ میں نہ آنے والا جذبہ ہے کہ کیوں کر ایسا ممکن ہوا ہے کہ قاتلوں کی مدح سرائی کو ایمان اور جذبہ حب المذہبی کی سند کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے؟سماج کے کسی ایک معمولی سے گوشے میں بھی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی کوئی روایت باقی نہیں رہی اور متشدد سوچ کے دھارے ہر سمت پوری قوت کے ساتھ بہنا شروع ہوگئے ہیں۔جہاں اختلاف رائے سنگین صورت اختیار کرجاتا ہے وہاں فتاوی ناگزیر ہوجاتے ہیں اور اپنے سے مختلف کے بارے میں رائے فوری طور پر متشدد ہوجاتی ہے۔آمادہ بہ جنگ معاشروں میں جس طرح مختلف نقطہ نظر اور رائے کو بزور روکنے کا رحجان قبول عام کا درجہ اختیار کرلیتا ہے ، وہی منظر نامہ پاکستانی سماج کا بھی ہے جہاں مخالف کو اس کی رائے یا نقطہ نظر کی بدولت نیست و نابود کرنا باعث ثواب سمجھ لیا گیا ہے۔
حامد میر پر حملہ یقینی طور پر قابل مذمت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سماج میں برداشت کا خاتمہ ہوچکا ہے، اب صرف جذبہ جنوں،فرقہ واریت،لسانیت،مذہبی انتہا پسندی اور ہر قسم کا جنگ و جدل باقی بچا ہے۔لیکن اس حملے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ ہمارے لیے سوچ کے کئی مزید درکھولتی ہے۔مثال کے طور پر حامد میر اور اُس کے خاندان کا اصرار ہے کہ اس حملے میں آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ براہ راست ملوث ہیں۔جس ادارے پر الزام لگایا گیا ہے اُس کی طرف سے اس الزام کو ایک سنگین حملے کے طور پر دیکھا گیا ہے اور امکان یہ ہے کہ حامد میر جس ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اُس کو بھی اس الزام کی تشہیر کے جرم میں سزا دی جائے گی۔چوں کہ ملک کا سب سے بڑا اور موثر ابلاغیاتی ادارہ ہونے کا دعوی کرنے والے گروپ کے لیے یہ ایک مشکل کام ہے کہ وہ اپنی کسی سنگین غلطی کو تسلیم کرے اور اس کی تصحیح پر مائل ہو، لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ گروپ اس بات پر قائم رہے گا کہ اُس کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ بالکل ٹھیک اور صحافتی اُصولوں کے عین مطابق تھا۔اس میں شک نہیں کہ کسی نقصان کی صورت میں متاثرہ فریق اپنے ملزمان کی طرف اشارہ کرسکتا ہے لیکن اس کو متاثرہ فریق کے نقطہ نظر کے طور پر پیش کرنا چاہیے تھا ناکہ خود ایک فریق بن کر کھڑا ہوجانا مناسب تھا۔
کنارے کے دوسری طرف لاتعداد ایسے توپچی شست باندھے بیٹھے تھے جو پیشہ وارانہ رقابت اور ادارہ جاتی کشیدگی کے مہلک اسلحہ سے لیس تھے، لہذا ایک ایسی جنگ شروع ہوگئی جس کی جزئیات کراہت آمیز ہیں۔مثال کے طور پر حامد میر کو پاکستان میں غیر جانبدار اور حقیقی صحافت کا بانی کرار دیدیا گیا حالانکہ حامد میر نے ہی کچھ عرصہ قبل اپنے مخصوص تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے ایک سابق خفیہ ایجنٹ کے بارے میں ایسی ٹیلی فونک گفتگو کی کہ اُس ایجنٹ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔حامد میر صاحب کی سابقہ وابستگیوں سے کون واقف نہیں جبکہ ایک فعال صحافی ہونے کے ناطے اِن کو لاتعداد مرتبہ جانبداراور مخصوص دھڑوں کے نمایندہ کے طور پر شناخت کیا گیا۔پاکستان کے متنوع حالات میں اگر اس وقت حامد میر ہیئت مقتدرہ کے ساتھ متفق نہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ، پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا ہے۔دوسری طرف رضاکار صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی اور حامد میر کے خاندان کی طرف سے ملزمان کی واضح نشاندہی کو ریاست دشمن تصور کرلیا گیا۔یقینی طور پر یہ ایک چونکا دینے والا الزام ہے لیکن الزام ہی تو ہے، الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں اور ایسا ہر جگہ ہوتا ہے۔ہم کو الزام اور فیصلے میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔اگر دوسری طرف کے توپچی تھوڑا سا توقف کرلیتے اور اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو آگے بڑھنے دیا جاتا تو جس قدر بھد اُڑائی جاچکی ہے اس سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی صحافت کے دامن میں جو تھوڑی بہت غیرجانبداری اور معروضیت کی رمق باقی تھی، اب اس کا بھی چل چلاو ہے۔طرفین نے اس واقعے کے بعد جانبداری اور الزام تراشی کی ایسی روایت قائم کی ہے کہ کچھ بھی اُجلا نظر نہیں آتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت میں سے جب غیر جانبداری اور معروضیت رخصت ہوجاتے ہیں تو محض قطعیت اور کراہت آمیز طرفداری باقی رہ جاتی ہے، جس سے اپنے دشمنوں کی نشاہدہی کی جاسکتی ہے اور مالی مفادات پورے ہوسکتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔یہ ایک ایسی حوصلہ شکن صورت حال ہے کہ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/life-between-grieves-/d/76788