مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
29اپریل، 2014
شاید یہ بات اتنی آسانی کے ساتھ تسلیم نہ کی جائے بلکہ زیادہ آسانی کے ساتھ اس کو رد کردیا جائے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں سے کہیں بھی کوئی ایک ادارہ یا فرد بھی یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو خدانخواستہ کسی قسم کا نقصان پہنچے۔لیکن ایک واقعے کے بعد جیو گروپ کی جذباتی اور کچی صحافت کی مثال نے پہلے پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اب مذہبی و مسلکی جماعتوں میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔پاکستان کے شہروں میں بعض مذہبی گروہ اس لیے جلوس نکال رہے ہیں کہ وہ اپنی وابستگی کا کھلا اظہار چاہتے ہیں تاکہ کل کلاں کو پاکستان کے مخصوص سیاسی و سماجی حالات میں فائدہ اُٹھایا جائے ۔حیران کن طور پر پاک فوج اور آئی ایس آئی میں اس واقعے کے بعد گہرے غصے کو محسوس کیا جاسکتا ہے حالاں کہ یہ ایک ایسا الزام تھا جس کو اگر فوری طور پر رد نہ بھی کیا جاتا تو اس کی زہرناکی کو فوری طور پر زائل کیا جاسکتا تھا۔مثال کے طور پر شدید ردعمل کا اظہار کرنے سے پہلے اس واقعے کی شفاف تحقیقات کا وعدہ تمام تر شکوک و شبہات کو تلف کرنے کے لیے کافی تھا۔اس کے بعد کوئی ایسا امکان ہی پیدا نہ ہوتا کہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرنے والے موقعہ پرست ادارے اور افراد آگے بڑھ کر اس مہم کو اس حد تک آلودہ بنا دیتے کہ ایک جنگ کا ساماحول پیدا ہوجاتا۔اگر ملک کی سب سے بڑی اور حساس خفیہ ایجنسی پر ایک معروف صحافی پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا گیا تھا تو یہ کہیں بھی کوئی انہونی بات نہیں، ایسے الزامات ہر جگہ لگتے ہیں اور پھر غیر جانبدارانہ تحقیقات میں اُسی طرح غلط بھی ثابت ہوجاتے ہیں۔
حامد میر پر حملے کے بعد جنم لینے والی صورت حال میں بعض جذباتی اور کسی حد تک مہم جوئی کی طرف مائل افراد اور اداروں کی طرف سے یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ جنگ اور جیو گروپ نہ صرف پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے بلکہ پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرم عمل بھی ہے۔یہ ایک حتمی الزام ہے جس کے بعد کہنے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم شدید نوعیت کی جذباتی کیفیات کا شکار معاشرہ ہیں جہاں اگر کسی قسم کے اختلاف یا رقابت کا عنصر پیدا ہوجائے تو مدمقابل کو نیست نابود کرنے سے بھی نہیں ہچکچایا جاتا۔یہ ایک ایسی ہیجانی صورت حال ہے جس سے خودکش حملہ آوروں کے پیدا ہونے کے اسباب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیوں کر خود کو پہلے ختم کرکے دوسرے کے خاتمے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔جیسے ایک خودکش حملہ آور کی پہلے اپنی موت واقع ہوتی ہے اس کے بعد اس کا ہدف موت سے ہم کنار ہوتا ہے۔ہم یقینی طور پر کسی ابلاغیاتی ادارے یا افراد کے ساتھ متفق نہیں ہوسکتے اور بعض موضاعات پر ہمارا اختلاف شدید بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس کے ساتھ اختلاف ہے اس کے وجود کا خاتمہ ہی ہماری فتح ہے۔
اگر محض یہ دیکھا جائے کہ پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ اداروں کے بارے میں جو منفی پراپیگنڈہ ملکی سرحدوں کے باہر ہوا ہے اور مسلسل ہورہا ہے اوراس کے اصل ذمہ دار کون ہیں، تو اس کے لیے ہمیں کہیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔اس کے ذمہ دار پاکستان کی وہ مسلح مذہبی جماعتیں اور جنگجو گروہ ہیں جنہوں نے ملکی سرحدوں سے باہر اپنی کارروائیاں کرکے پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ اداروں کے بارے میں ابہام پیدا کیا۔خود ریاست پاکستان کے بارے میں بیرونی دنیا کی تاثر سازی میں اِن منہ زور گروہوں اور جماعتوں کا بہت اہم کردار ہے۔حیران کن امر ہے کہ آج اِسی قسم کے منہ زور گروہ اور جماعتیں ایک بار اپنی وابستگی کے اعلان کو سڑکوں پر لے آئی ہیں تاکہ پاکستانی فوج اور اس کے اداروں کے بارے میں بیرونی طور پر ابہام توانا ہوتا رہے۔کیا اُصولی طور پر یہ رویہ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کے لیے نیک نامی کا موجب ہے؟
ہمارے ایک نہایت جری قسم کے تلوار باز سابق فوجی جرنیل اور جہادی مہم جوئی کے رسیا جناب حمید گل صاحب باقاعدہ دھمکی آمیز بیانات پر اُتر آئے ہیں اور اس سارے قضیے میں ہیجان پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اِن کی تمام تر جدوجہد اور ہوائی تلوار بازی نے پاکستان کے دفاعی اداروں کے بارے میں جس قسم کی تاثر سازی کی ہے اس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر گذشتہ برس موصوف نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس شخص کو سیلوٹ کرنا چاہتے ہیں جس نے القاعدہ کے بانی اُسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں پناہ دی تھی۔یہ وہی اُسامہ بن لادن ہیں جن کی کاوشوں کی بدولت پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جی ایچ کیو سے لے کر مہران بیس اور کامرہ بیس جیسے دفاعی مراکز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، ہزاروں بے گناہ پاکستانی ہلاک ہوئے اور ریاست پاکستان کو ایک مہلک مصیبت کا سامنا ہے جس کے فوری خاتمے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ ایک واقعے نے ایسے تمام کرداروں میں پھر سے جان ڈال دی ہے جو ریاست پاکستان اور پاکستان کے دفاعی اداروں کے لیے کبھی نیک نامی کا موجب نہیں بن سکے۔بعض ایسے لوگ بھی اس مہم میں اگلے محاذوں پر مورچہ زن ہیں جن کے نظریات اور سازشی تھیوریز جان کر اُبکائی محسوس ہوتی ہے اور پاکستان سے باہر بیٹھے لوگ محظوظ ہوتے ہیں کہ اگر اس طرح کے اذہان پاکستانی ریاست اور پاکستان کے دفاعی اداروں کی ترجمانی کے لیے موجود ہیں تو پھر ریاست سمیت اس کے دفاعی اداروں کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔مثال کے طور پر ایک صاحب جو کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ایک خود ساختہ نبی کے حقیقی نائب ہونے کا دعوی کرتے تھے اچانک اُنہوں نے محسوس کیا کہ وہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور اُن کے پاس ایسی رسا عقل موجود ہے جو پاکستان کو عالم اسلام کا حقیقی معنوں میں رہنما ملک بنا سکتی ہے ۔جیسے ہی یہ انکشاف اُن پر مکمل ہوا تو وہ اپنی ٹوپی سمیت ابلاغی جہاد پر نکل کھڑے ہوئے اور پھر اُنہوں نے ایسے ایسے ہوائی کارنامے سرانجام دیئے کہ خدا کی پناہ۔وہ ساری دنیا کو پاکستان کا دشمن ثابت کرتے ہیں اور پھر اچانک ہی پوری دنیا اُن کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی افواج اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں یقینی طور پر ریاست کا سرمایہ ہیں اور اِن کی خدمات ریاست ہی کے لیے مختص ہیں۔اگر ریاست ہی کا کوئی ادارہ یا فرد اِن کے ساتھ متفق نہیں تو یہ کوئی قابل گردن زدنی فعل نہیں کہ اُس کو زندہ جلا دیا جائے یا اُس کا ناطقہ بند کردیا جائے۔اختلاف اور جنگ میں ایک واضح فرق موجود ہے اور اختلاف ہی میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ اتفاق رائے میں بدل جانے کی صلاحیت سے لیس ہوتا ہے۔جو لوگ موجوجودہ مخصوص صورت حال سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں وہ محض اپنے ذاتی فائدے تک محدود ہیں اور یہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ اُن کے اس فعل سے کس قسم کی فضا پروان چڑھ رہی ہے۔اصل بالادستی ریاست ہی کا حق ہے اور اُسی
کو روا ہے باقی تما م ریاستی ادارے اصول و قواعد کے تابع ہوتے ہیں۔ریاست کے دفاعی اداروں کی طرف سے ایسے عناصر کو واضح پیغام جانا چاہیے جو ایک معمولی واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کررہے ہیں۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/good-days-self-made-agitators/d/76801