مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
13 نومبر، 2013
پاکستان میں اس بات پر ہنگامہ پربا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا منور حسن نے امریکہ و نیٹو کی کافر افواج کی معاون پاکستانی افواج کو کفر کی ساتھی قرار دے کر شہید کے روایتی اسلامی منصب پر فائز کرنے سے انکار کردیا ہے۔جس کے بعد فوج کی طرف سے باقاعدہ مذمتی بیان کے بعد ہر کوئی جماعت اسلامی پر ٹوٹ پڑا ہے۔حالاں کہ پاکستانی ہیت مقتدرہ کی آنکھوں کے تارے اور طالبان کی نرسری دارالعلوم جامعہ حقانیہ کے مہتمم مولانا سمیع الحق سے لے کر جیش محمد کے ہفت روزہ اخبار القلم اور معروف کالعدم خیراتی ادارے الرشید ٹرسٹ کے ہفت روزہ ضرب مومن تک ہرکوئی امریکہ اور نیٹو کی افواج کے ساتھیوں کو کافر اور ملحد قرار دے رہا ہے اور پاکستانی فوج کے جوانوں کو قتل کرنے والوں کی مدح سرائی میں مشغول ہے۔
اِنہی اداروں اور تنظیموں کی ترجمانی منور حسن نے کی ہے جس کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ آج تک کسی نے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ رشیدیہ کراچی اور جامعہ عثمان و علی بہاولپور کی طرف دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی، جو نہ صرف اس طرح کے فتاوی کے مراکز ہیں بلکہ عملی طور پرطالبان اور القاعدہ کے جنگجوﺅں کا ساتھ دے رہے ہیں، جنہوں نے پاکستانی عوام اور پاکستانی افواج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔کیا پاکستان مسلم لیگ نواز پر پابندی کی کوئی تجویز پیش کی جاسکتی ہے جس کے ارکان اسمبلی میں پچاس سے زائد ایسے افراد شامل ہیں جو براہ راست پنجابی طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھی و معاون تھے اور ہیں؟کئی ارکان تو ایسے ہیں جو پاکستان کی دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں کے عہدیدار تھے اور ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی لاتعداد وارداتوں میں ملوث رہے۔یہی صورت حال پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہے جس کے کئی ارکان اس جماعت میں شمولیت سے پہلے پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھے۔جمعیت علمائے اسلام کا حال بھی اِن جماعتوں سے مختلف نہیں جب کہ جماعت اسلامی کے کئی ذمہ دار القاعدہ اور طالبان کے ساتھی رہے ہیں اور آج بھی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی طرح عملی جہاد میں حصہ نہ لے سکیں تو کم از کم جہادیوں کو پناہ اور دیگر سہولیات فراہم کرکے اپنا ناطہ بحال رکھیں۔
مولانا منور حسن نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس کے بعد معمولات شب وروز میں ردو بدل کرنا پڑے، یہ پاکستان کا قومی بیانیہ ہے اور اس سے فرار اب ممکن نہیں رہا۔ جو دانش ور حضرات معذرت خواہانہ عذر خواہیوں کے عادی ہیں اُن سے ہٹ کر اگر پاکستان کے غالب میڈیا کا رحجان دیکھا جائے اور جاری و ساری ٹی وی مذاکروں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اکثریت طالبان اور القاعدہ کی مدح خوان ہے اور ملک میں جاری دہشت گردی کا اسلامی جواز تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔جب پاکستان کے سیاست دان اور دانش ور بشمول مذہبی اکابرین پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے حملوں کو ردعمل قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب اور کیا ہے؟ وہ اپنی طرف سے اِن حملوں کا جواز پیش کررہے ہوتے ہیں ناں کہ مذمت۔
وہ مذمت نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ وہ اپنے طور پر رضامند ہیں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے کیوں کہ ریاست اور اس کے ادارے باطل قوتوں کے ساتھ مل چکے ہیں لہذا اِنہیں سزا ملنی چاہیے۔جن کی طبع مہم جوئی کی طرف مائل ہوتی ہے وہ ایسے حملوں اور وارداتوں کو امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ جس کی روشن مثالیں ہمارے جغادری اور ہوا میں تلواریں چلانے کے ماہر جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل جیسے لوگ ہیں۔اِنہیں اِن کی کسی سابقہ خدمت کے عوض عزت و احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اِن کے موجودہ خیالات اور خواہشات کی توقیر کی جاتی ہے حالاں کہ اسلم بیگ کو ایٹمی پرزہ جات کی اسمگلنگ کے الزامات اور حمید گل کو آئی جے آئی سمیت کئی دوسرے اعمال کی وجہ سے محاسبے کا سامنا کرنا چاہیے۔حیران کن بات ہے کہ آج کے جہادیوں میں سے کوئی نہیں جانتا کہ حمید گل نے جلال آباد منصوبے میں کئی مجاہدین کو موت سے ہمکنار کردیااور اُن کی خواہشات ملیامیٹ ہوگئیں۔
جو لوگ آج مولانا منور حسن کے بیان پر حیرت زدہ اور تشنج کا شکار ہیں، اِنہیں اپنی یادداشت کو درست کرنا چاہیے کیوں کہ پاکستان کی تمام جہادی تنظیمیں خواہ وہ لشکر طیبہ ہو، جیش محمد ہو یا سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی یا حرکت الجہاد اسلامی و حرکت المجاہدین، جو آج نئے ناموں کے ساتھ عملی طور پر میدان میں موجود ہیں۔اِن کے سینکڑوں نہیں ہزاروں قائدین و علمائے اکرام نے گذشتہ تین دہائیوں میں دہشت گردوں کا حتی المقدور ساتھ دیا ہے اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی معاونت میں مصروف ہیں۔کیا پاکستان میں اُسامہ بن لادن کی جہادی خدمات کا اعتراف اور اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کتابیں شائع نہیں کی گئیں؟ ابھی پچھلے سال حافظ محمد سعید کے سگے بھائی اور ادارہ ایقاظ کے مدارالمہام جناب حامد کمال الدین نے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب شائع کی جس میں سو کے قریب مضامین میں اسامہ بن لادن کو عالم اسلام کا سب سے بڑا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، اس کتاب کو”شہید ملت“ کا نام دیا گیا۔
اس کے علاوہ خیبر سے لے کر کراچی تک پھیلے دینی مدارس میں روزانہ لاکھوں طلبا کو بتایا جاتا ہے کہ اُسامہ بن لادن اسلام کا تازہ ترین شہید ہے جس نے اپنی ساری دولت جہاد اور اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کردی اور عالی شان زندگی چھوڑ کر غاروں میں جہاد کی سربلندی کے لیے رہنا پسند کیا۔ایسی ہی داد شجاعت ملا عمر کو دی جاتی ہے جو بوریا نشین ہے لیکن پوری دنیا کے کفار سے ٹکرا گیا ہے۔ایسا ہی درس پاکستانی طالبان اور فرقہ پرستوں کے بارے میں دیا جاتا ہے جو پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج پر پل پڑے ہیں اور آئے روز پاکستانی فوج کے جوانوں کو قتل کررہے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں رائے عامہ کا بڑا حصہ القاعدہ اور طالبان کے تصور عالم اور تصور پاکستان کا حامی ہے۔اس تصور سازی میں جہاں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے وہاں پاکستان کے ملاﺅں، جہادی قلم کاروں اور صوتی دانش وروں نے ٹی وی مذاکروں میں اس تصور عالم کو عام پاکستانی کے ذہن میں راسخ کردیا ہے۔ایک عام پاکستانی کی نظر میں ایک امریکی صرف کافر ہے جو ہر وقت اسلام کی بیخ کنی میں مصروف رہتا ہے، ایک مغربی باشندہ اس وقت تک چین سے بیٹھ ہی نہیں سکتا جب تک اسلام اور مسلمان کو نقصان نہ پہنچا لے۔اسی طرح ایک ہندو اس وقت تک کوئی معمول کا کام شروع نہیں کر سکتا جب تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی گھناونی سازش سر انجام نہ دے لے۔اسی لیے ملاں فضل الرحمن کو یہ کہنا پڑا کہ اگر کوئی کتا امریکی فوج کے ہاتھوں مارا جائے تو وہ بھی شہید ہوگا۔
ہمارا تصور عالم یہ ہے کہ امریکہ مختلف مذاہب یا رنگ و نسل کے لوگوں کا ملک نہیں صرف کافر اور دشمن اسلام ملک ہے، مغربی ممالک میں صرف دشمنان اسلام بستے ہیں، اس سے زیادہ اِن کی کوئی شناخت نہیں اور نہ ہی کوئی کام ہے۔ایسی صورت میں جب قومی بیانیہ یہ مرتب کردیا گیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سے ہٹ کر سوچا یا بولا جائے؟یہ ایک ایسی مہلک صورت حال ہے جس کا کوئی فوری مداوا نہیں اور نہ ہی اس کو آسانی کے ساتھ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔متشدد اور متذبذب اذہان نے پوری قوم کا تصور عالم ہی نیا تیار کردیا ہے جس میں سوچنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔القاعدہ اور طالبان اگرچہ اس یدھ میں اپنی زیادہ تر قیادت سے محروم ہوچکے ہیں لیکن اِن کی کامیابی کی اس سے بڑی اور کوئی مثال نہیں ہوسکتی کہ آج کروڑوں لوگ اِن جیسا ہی سوچتے ہیں اور اِن کے ساتھ بہت سی قدریں مشترک کر چکے ہیں۔پاکستان میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما پاکستانی عوام کو اس سوچ سے باہر نکال لیں گے اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی اور اپنے خاندانوں کی جان و مال کی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کو بھتہ دیتے ہیں ،اُن کو شکست نہیں دے سکتے۔
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/real-success-al-qaeda-taliban/d/24411