مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
February 12, 2013
پشاور کے گردو نواح میں طالبان گروہوں کی باہمی لڑائی گہری ہونے کا مطلب ہے کہ قبائلی علاقوں میں ایک نیا طوفان سر اُٹھا رہا ہے لیکن بہت جلد پاکستانی میڈیا کو اس جنگ کی مکمل تفصیلات جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ دوسری طرف کراچی میں طالبان اور اِن کے حامیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر میں مزید خون خرابے کی خبر دے رہی ہے۔ایم کیو ایم کراچی میں اپنے ہر قسم کے مخالفین کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن ایم کیو ایم کے خاتمے کے لیے بہت سی قوتیں جمع ہورہی ہیں،مثال کے طور پر کالعدم لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ اپنی ایک اور ہم فکر مسلح تنظیم جیش محمد کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم پر فرقہ وارانہ حملوں میں مصروف ہیں۔اس تمام جنگ میں اے این پی اور کراچی کے روایتی جرائم پیشہ گروہ جنہیں پاکستانی میڈیا گینگ قرار دیتا ہے،بھی اپنا اپنا کام کررہے ہیں۔طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی طرف سے جاری کردہ وڈیو پیغام میں ایم کیو ایم کو چتاونی دی گئی ہے کہ اس پر تحریک طالبان کی طرف سے حال ہی میں دوبار منصوبہ بندی کے تحت حملہ کیا جاچکا ہے۔پہلا حملہ ایم کیو ایم کے ایک جلسہ پر کیا گیا جب کہ دوسرے منصوبہ بند حملے میں ایم کیو ایم کے ممبر صوبائی اسمبلی منظر امام(جن کا نام واضح طور پر اِن کی مسلکی وابستگی کا اعلان کرتا ہے)کو محافظوں سمیت نشانہ بنایا گیا۔
کراچی کے بارے میں پاکستان کے دوسرے شہروں میں یہ تاثر عام ہے کہ شہر میں واضح اکثریت کی حامل سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہی یہاں کے تمام مسائل کی واحد ذمہ دار ہے۔قتل و غارت کے واقعات سے لے کر بھتہ خوری جیسے تمام جرائم ایم کیو ایم کی وجہ سے ہیں اور ایم کیو ایم کی قیادت اِن جرائم سے دولت اور اثرورسوخ حاصل کرتی ہے۔ایم کیو ایم کے لاتعداد ارکان خود تشدد کا شکار ہوئے ہیں اور اس کی قیادت میں سے درجنوں افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔خود ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان اس لیے نہیں جاتے کہ اُنہیں قتل کردیا جائے گا ۔وہ کئی بار پاکستان واپس آنے کا اعلان اور ارادہ ظاہر کرچکے ہیں لیکن اُن کے بقول ایم کیو ایم کی فیصلہ ساز رابطہ کمیٹی اور ارکان اِنہیں پاکستان جانے سے روکے ہوئے ہیں۔ اِن دنوں کراچی میں قتل و غارت کے حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیرسماعت ہے، جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ اس کیس کا فیصلہ کراچی اور اس میں بدامنی کی ذمہ دار قوتوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ماضی میں پاکستان میں انتہائی اہم نوعیت کے تنازعات اور حادثات کے بارے میں بنائے جانے والے کمیشن اور انکوائری کمیٹیوں سمیت عدالتی چارہ جوئیاں کارآمد ثابت نہیں ہوسکیں، دیکھیں اس بار کیا سامنے آتا ہے۔
کراچی کی مخصوص موجودہ ہیئت،شہر میں طاقت کے حامل فرقہ پرست اور مذہبی تشدد پسند،لسانی گروہ اور کم از کم تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے باہمی تنازعات اور طاقت کے حصول کی جنگ اور اس سے جڑے ہوئے سیاسی و معاشی مفادات اس قدر پیچیدہ صورت حال اختیار کرچکے ہیں کہ کراچی کے لیے کوئی سادہ اور وقتی حل شاید دیرپا اور دوررس نتائج کا حامل نہ ہو سکے۔حالات کو فوری طور پر بدل دینے کے سادہ دل خواہش مندوں کا خیال ہے کہ کراچی میں ایک بے رحم فوجی آپریشن حالات کو پلک جھپکنے میں ٹھیک کردے گا لیکن حالات جس قدر سنگین ہیں کہ مذہبی انتہا پسندوں سے لے کر فرقہ پرستوں اور لسانی گروہوں تک کو آسانی کے ساتھ کھدیڑ دینا بہت مشکل کام ہے۔دوسری طرف نہ تو مذہبی انتہا پسند تنہا ہیں اور نہ ہی فرقہ پرستوں کو اپنے طاقت ور حامیوں کی کمی کا سامنا ہے جب کہ سیاسی اور لسانی گروہوں کے ذریعے طاقت حاصل کرنے والوں کی بھی تعداد بہت زیادہ ہے۔
کراچی جس کے وجود سے چپکی ہوئی بہت سی بیماریوں میں سب سے مہلک مرض اس شہر میں طالبان،فرقہ پرستوں اور اِن کے ساتھیوں کی بہت نمایاں موجودگی ہے۔کراچی کے مخصوص علاقوں میں اپنے اپنے سیاسی، لسانی اور مذہبی ہم خیالوں کے ساتھ’’قابض‘‘ ہونے کی روایت بہت پختہ ہوچکی ہے۔مثال کے طور پر ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ کون سا علاقہ کس مخصوص طبقے کے زیراثر ہے اور وہاں پر اس کا کس حد تک کنٹرول ہے۔چھوٹی چھوٹی کالونیاں وجود میں آچکی ہیں جہاں قابض گروہوں کا قانون اور مرضی چلتی ہے، نہ پولیس وہاں دم مار سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مخالف گروہ یا اس کاکوئی فرد داخل ہوسکتا ہے۔بچوں سے لے کر خواتین تک ’’خبر گیری‘‘ کے مضبوط نظام کا حصہ ہے جس کی وجہ سے نہ تو قانون نافذ کرنے والوں کی کوئی کارروائی کامیاب ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا گروہ اپنا اثرو رسوخ بڑھا سکتا ہے۔اخبار نویس شام کو اِن بٹے ہوئے علاقوں سے ہلاکتوں کی تفصیل اکٹھی کرتے ہیں اور اگلے دن اخبارات میں پورا کراچی جلتا ہوا نظر آتا ہے۔
کراچی کو اس کی موجودہ وضع قطع فراہم کرنے میں پاکستان کے خفیہ اداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اِن اداروں نے اسلام آباد میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے لسانی گروہوں کو مسلح کیا اور مناسب’’سہولیات‘‘ سے نوازا بلکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل وغارت کے لیے بھی کراچی کے فرقہ پرست مدارس اور مراکز کو استعمال کیا۔جہاد افغانستان ہو یا جہاد کشمیر کراچی نے ہمیشہ مہم جو اداروں اور افراد کا ساتھ دیا اور افرادی قوت سے لے کر نصابی امداد تک مہیا کی۔مثال کے طور پر شروع میں اگرچہ فرقہ وارانہ جنگ پنجاب کے ضلع جھنگ اور اس کے نواح سے پروان چڑھی لیکن نصابی امداد اور دور دراز علاقوں میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کے لیے تربیت یافتہ قاتلوں کو کراچی کے مدارس اور مراکز سے روانہ کیا گیا۔مخصوص مسالک سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے کراچی میں بیٹھ کر فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا اور پھر کراچی میں ہی سب سے پہلے’’گھات لگا کر ‘‘ قتل کرنے کی فرقہ وارانہ روایت کو شروع کیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف دو سال میں سو سے زائد ڈاکٹروں، پروفیسروں اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کو گھات لگا کر قتل کردیا گیا۔لشکر جھنگوی جو اب تک فرقہ وارانہ قتل غارت کے حوالے سے سفاک ترین گروہ قرار دیا جاتا ہے اس کے تمام اجزائے ترکیبی کراچی میں تیار ہوئے اور اس نے پاکستان میں اُدھم مچا دیا۔
کراچی بہت حد تک ریاست کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور اب اس شہر کو کسی پُرامن شہر میں بدل دینا بہت مشکل نظر آتا ہے۔آج فرقہ وارانہ قتل و غارت سے لے کر سیاسی ولسانی جنگ سے جڑے ہوئے تقریباً تمام کردار اس شہر سے کسی نہ کسی طور پر وابستہ ہیں۔فوج اچھی طرح جانتی ہے کہ کراچی طالبان اور دوسرے مذہبی و مسلکی انتہا پسندوں کا مرکز ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی ولسانی تنازعات کا مرکز بھی کراچی ہے، اس لیے کراچی کو کسی ممکنہ آفت سے بچا لینا ممکن نہیں رہا۔
حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھتے ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/karachi-centre-communal-extremist-activities/d/10387