New Age Islam
Mon Sep 25 2023, 02:25 AM

Urdu Section ( 27 Jan 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indo-Pak Relations and fanatics on both Sides پاک بھارت تعلقات اور اطراف کے جنون پسند

 

مجاہد حسین، نیو ایج اسلام

27جنوری، بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث پاکستان کے مسلح مذہبی دھڑے کسی حد تک راحت محسوس کررہے ہیں اور اس اُمید میں ہیں کہ یہ کشیدگی ماضی کی طرح کا رخ اختیار کرے گی اورایک بار پھر ہیئت مقتدرہ کے طاقت ور دھڑے مہم جوئی کی طرف مائل ہوجائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے ساتھ کسی قسم کے علاقائی تعاون کی کسی امکان کو ہمیشہ’’اندرونی ہاتھوں‘‘ نے تشکیک کے پیش نظر آگے بڑھنے سے روکا ہے،یہی کام بھارت میں انتہا پسند مذہبی قوتیں کرتی ہیں جس میں بھارتی میڈیا کے عقاب بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یوں اطراف میں توپیں تنی ہوئی نظرآتی ہیں۔دونوں ممالک کے رجعت پسند اپنے اپنے تئیں خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور قومی سطح پر غصے کی فصل تیار ہوتی رہتی ہے۔باہر بیٹھے ہوئے جو لوگ اس دشمنی کو محض علاقائی دشمنی کا نام دے کر’’سفارتی محاذ‘‘ پر اس کے حل کے نت نئے طریقے اور امکانات تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اطراف کے شدت پسندوں نے اس دشمنی کی ایک زیادہ مہلک اور بااثر تعریف متعین کردی ہے جو محض علاقائی نہیں بلکہ خالصتاً مذہبی ہے۔پاکستان کے شدت پسندوں کو پورا بھارت ایک مندر کی صورت میں نظرآتا ہے جس میں متشدد ہندو پجاری پاکستان کی بربادی کی منتیں مانگ رہا جب کہ بھارتی شدت پسندوں کو پاکستان ایک وسیع و عریض مسجد کے طور پر نظرآتا ہے جس کے صحن میں اسلامی فوجیں ہندو بھارت پر چڑھائی کی عملی تیاری میں مصروف ہیں۔

اگر ہم ایک عرصے سے تاخیر کا شکار اس’’مقدس جنگ‘‘ کے خدوخال اور اس کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لینے کے لیے اطراف میں نظر ڈالیں بلکہ صرف یہ دیکھیں کہ ہمارے ارباب اختیار نے پاکستان کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے جذبے کی تحت پاکستان کے پڑوسیوں کے بارے میں کس قسم کا نصاب مرتب کیا ہے تو یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں بچوں کو پڑھائی جانے والی کتب میں بھارت ہمارا سب سے خطرناک اور مہلک دشمن ہے۔اس کی وجہ بھارت کے متشدد ہندو کی ذہنیت ہے جو پاکستان کے مسلمانوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔ اس نقطہ نظر کو بھارت کے مذہبی جنونی بھی پروان چڑھاتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں اِن کا بغض سر چڑھ کر بولتا ہوا ملتا ہے۔اطراف کے جنگ پسند اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’بزدل‘‘ سیاست دان دونوں ممالک میں جنگ سے خوفزدہ رہتے ہیں اور آسانی کے ساتھ ایسی کسی صورت حال کو پیدا نہیں ہونے دیں گے کہ دو ایٹمی ہمسایے ایک دوسرے کو ملیا میٹ کردیں۔یہ وہ نکتہ ہے جو چھوٹے پیمانے کی دراندازیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اطراف میں مسلح جماعتیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں۔دونوں ممالک کے عسکری ادارے اور خفیہ ایجنسیاں آسانی کے ساتھ ایسے مسلح گروہوں کی سرپرستی میں مشغول رہتی ہیں جو سرحد پار یا سرحد کے اندر ہی مخالف فریق کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

جب چھوٹے پیمانے کی در اندازیوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو پھر متشدد مذہبی گروہوں میں ایسے لوگ بھی گھس جاتے ہیں جو اپنی توسیع پسندانہ سوچ کے زیراثر سرحدوں سے ماوراء دہشت گردی کے رسیا ہوتے ہیں ۔اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جیسے ڈرون حملے میں موت کے وقت حرکت الجہاد اسلامی کے پلیٹ فارم سے جہاد کشمیر اور بعد میں جہاد افغانستان میں سرگرم رہنے والے الیاس کشمیری کا کردار ہے۔الیاس کشمیری ایک وقت میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں کا تارا تھا اور سابق صدر مشرف نے اسے اس کی بہادری کے پیش نظر ایک لاکھ روپیہ انعام دیا کیوں کہ وہ کشمیر میں لڑائی کے دوران ایک بھارتی فوجی آفیسر کا سر کاٹ کر ساتھ لے آیا تھا۔اس کے بعد الیاس کشمیری آگے بڑھتا ہوا القاعدہ سے منسلک ہوا،اس نے اپنے مربی مشرف پر حملوں سے لے کر مہران بیس کراچی تک جہادی کارروایؤں کا جال پھیلا دیا اور موقع ملنے پر فرقہ وارانہ قتل وغارت میں بھی مصروف رہا۔ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح ’’محدود پیمانے‘‘ پر جہادی کارروایؤں سے تشدد کا آغاز کرنے والے دہشت کے نقطہ عروج پر پہنچے اور پھر وہ اپنے شروع کے معاونین کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔

اب ایسے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے حوالے سے فیصلے دونوں ممالک کے پاس نہیں رہے۔پاکستان اس طرح کے اختیار سے بہت پہلے دستبردار ہو چکا تھا جب کہ بھارت تیزی کے ساتھ اس نوعیت کی دستبرداری کے عمل سے گزر رہا ہے۔جہاں پاکستان میں کئی عشروں سے بھارت کے بارے میں متشدد ذہن سازی کی گئی ہے وہاں بھارت میں یہ کردار وہاں کے جنونی عناصر نے بخوبی نبھایا ہے اور اطراف میں ایسی تنظیمیں اور گروہ اتنے طاقت ور ہوچکے ہیں کہ وہ جب چاہیں دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیں۔اگر ایک طرف گودھرا کا سانحہ ایک واضح مثال ہے تو دوسری طرف ممبئی حملہ اس بھی سے واضح مثال ہے۔دونوں ممالک ایسے عناصر کے سامنے بے بس ہیں اور مجبوراًاِن متشدد گروہوں کی وضع کردہ’’حب الوطنی‘‘ کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ایک ایسی دل شکن صورت حال ہے جو دونوں ممالک کے اکثریتی عوام کے مفادات کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ یا دیگر ریاستی نمایندگان جب ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے لیے آتے ہیں تو اِن کے ہاتھوں میں تھمی ہوئی فائلوں میں سے انتہا پسند جھانکتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ دوطرفہ مذاکرات اصل میں ایک دوسرے کے ہاں پرورش پانے والے متشدد انتہا پسندوں کے باہمی خیالات اور عزائم کے تبادلے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔اس زیادہ انتہا پسندوں کی فعالیت کا اندازہ کیا لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک کے وفود ایک دوسر ے کے سامنے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے تیار کردہ خاکوں کے زیر اثر’’با معانی‘‘ مذاکرات کرتے ہیں۔ بامعانی مذاکرات کے گردوپیش میں عقابی ذرائع ابلاغ ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی جنگ چھیڑے رکھتے ہیں اور یوں دنیا سمجھ جاتی ہے کہ جنوبی ایشیاء کے دو ایٹمی ہمسایے رفتہ رفتہ ’’امن‘‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان کے مذہبی رہنماوں کو یقین ہے کہ بھارت کا خاتمہ جہاد کے تحت ہوگا، لشکر طیبہ کے اشاعتی ادارے نے ایک زبردست جہادی کتاب’’غزوہ ہند‘‘ میں اس طرح کے خاتمے کی مقدس نوید سنادی ہے،دوسری طرف بھارتی جنون پسندوں کو پاکستان جلد ہی زعفرانی رنگ میں رنگا نظر آتا ہے۔اگر بیرونی دنیا یہ سوچتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اپنے اپنے ہاں طاقت پذیر مقدس توسیع پسندوں کو نظر انداز کرکے کسی علاقائی تعاون اور امن کی بنیاد رکھ سکیں گی تو یہ ایک کار محال ہے، البتہ اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ کسی بھی جانب سے ’’مقدس حملہ‘‘ جنوبی ایشیاء کو بدامنی اور جنگ کے طوفان میں دھکیل دے گا۔

حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’  سمیت نو کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھتے ہیں۔  تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے  اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

URL:

 https://newageislam.com/urdu-section/indo-pak-relations-fanatics-sides/d/10161 

Loading..

Loading..