By Muhammad Yunus, NewAgeIslam.com (Translated from English by Samiur Rahman, NewAgeIslam.com)
“Indeed! Whoever commits (asslama) his whole being to God, and does good deeds - will get his reward from his Lord. There will be no fear upon them nor shall they grieve.” (2:112).
“When his Lord said to him (Abraham), ‘Submit (asslim)’, he said, ‘I submit (asslamtu) to the Lord of the worlds’. Abraham enjoined his sons to do so, as did Jacob: ‘O my sons, God has chosen the religion (din) for you; so you should not die unless you have submitted (muslimun). Were you witnesses when death came to Jacob? He said to his sons, ‘What will you serve after I am gone?’ They said, ‘We will serve your God; the God of your fathers, Abraham, Ishmael, and Isaac - the One God; and to Him we have truly submitted (muslimun)’” (2:131-133).
“They say: become Jews or Christians and you will be guided. You say, ‘(Ours is) the creed of Abraham, who was truly devoted to God, and did not associate anything with Him’ (2:135). You say, ‘We believe in God, and in what was revealed to us, and what was revealed to Abraham, Ishmael, Isac, Jacob, and the tribes and what is given to Moses and Jesus and to the Prophets from their Lord, and We make no distinction between any of them and we have truly submitted (muslimun)’” (2:136).
“Say: ‘We believe in God, and in what has been revealed to us, and in what has been revealed to Abraham, Ishmael, Isaac, Jacob, and the tribes, and to Jesus and Moses and (other) prophets from their Lord. We make no distinction between any of them; and surely to Him do we all submit (muslimun)” (3:84).
URL for English article:
مذہبی لوگوں کی روحانی نسل
کشی
محمد یونس،نیو ایج اسلام ڈاٹ
کام
(شریک مصنف) اسلام کا اصل پیغام ،آمنہ پبلیکیشن ،یو ایس اے ،2009
خداداد اختیار کی ایک جرأت
مندانہ ذمہ داری کے تحت پاکستانی پارلیمنٹ نے 1974میں ایک آئینی ترمیم (بل نمبر 7،29ستمبر)
منظور کیا جو ‘شہادت’ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد
صلی اللہ علی وسلم اللہ کے رسول ہیں) کے لفظ کو وسعت دیتا ہے اور اللہ کے رسول محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان کرتاہے۔چونکہ احمدیوں کے ذریعہ کی گیٔ
خاتم النبین (33:40) کی قرآنی تشریح اس نئے بیان کے مطابق نہیں ہے، اس ترمیم نے ان
کی مذہبی حیثیت کو منسوخ کردیا اور ان کے غیر مسلم ہونے کا اعلان کردیا۔ اس طرح ایک
آئینی جھٹکے میں ہر ایک احمدی سے اس کی سب سے پیاری روحانی حیثیت خدا ،اس کے رسول
اور قرآن پر ایمان کو چھین لیا گیا۔ احمدیوں کے اس سے جو ذہبی کرب اور صدمہ پہنچا
ہوگا وہ تخیل سے باہر ہے۔ اس آئینی ترمیم کے اعلان کے وقت احمدیوں اورمرکزی دھارے
کے مسلمانوں کے بیچ ہوئی بین فرقہ شادیوں کو منسوخ کردیا گیا، دونوں فرقوں کے ان نوجوان
مردوں اور خواتین کو بے رحمی سے علیحدہ کردیا گیا ، تمام احمدیوں کوحج کرنے اور یہاں
تک کہ مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور ان کی خواتین کو تقریبا مشرکات یا فاسقہ
بنادیا گیا جو کسی بھی خاتون کے لئے سب سے بڑی ذلت ہے۔ ایک طرح سے یہ روحانی نسل کشی کے مترادف تھا ، اپنے
مومن بھائیوں کے ساتھ اس طرح کا عمل ایک شیطانی
روح والا اور ذہنی طور پر بیمار شخص ہی کرتا ہے۔
اپنے مخالف فرقہ کو کافر لقب
دینے کا رجحان اسلام کی پہلی صدی سے ہی جاری ہے۔ اس لفظ کی عام تعریف حق کا انکار کرنے
والا کو دیکھتے ہوئے ایک طبقہ دوسرے کو نظر یاتی طور پر ایسا کہہ سکتا ہے ۔ لیکن ایک
فرقے کو اسلام سے خارج کرنےکیلۓ قرآن کے بنیادی اصول کی نئی تشریح کرنا زمین پر خدا
بننے جیسا ہے اور یہ برائی ہے،گھنونی اور شیطانی حرکت ہے۔
پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ
میں اس آئینی ترمیم کو قرآنی اتفاق رائے کے قیام کے لئے عطا کیا گیا حق مان کر دفاع
کرتے ہیں، اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو قرآن کے پیغام کو مسخ کررہے ہیں، کیو نکہ قرآن
کی جوآیت مشاورت کے لئے متحد ہونے کی بات کہتی ہے اس آیت کے بعد کی آیت مشاورت کے
دائرے کا ر کو محدود کرتی ہے۔
(خدا کا انعام) ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لے آئے اور اپنے پروردگار
پر بھروسہ رکھتے ہیں (42:36) اور جو بڑے بڑے گناہوں او ربے حیائی کی باتوں سے پرہیز
کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں، (42:37) اور جو اپنے پروردگار کا
فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور
جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (42:38)
آیت (42:37) بڑے گناہوں اور
بے حیائی سے ممانعت نے آپسی مشاورت اور اتفاق رائے کی گنجائش کو محدود کرتی ہے۔ یہ
بڑے گناہ کا جواز نہیں پیش کرسکتا ہے ،جیسے قرآن کی ایک مسلمان کی تعریف پر سوال اٹھانا
۔
قرآن کس طرح ایک مسلمان کی
وضاحت پیش کرتا ہے؟
قرآنی نقطہ نظر سے تمام مذہبی
طبقات ۔عیسائی ،یہودی اور دیگر، خواہ ان کا ذکر قرآن میں ہے یا نہیں (40:78،
4:164) جو بھی اللہ کے سامنے خود سپردگی کرتا ہے یا اپنی گردن جھکادیتا ہے اور اچھے
اعمال کی نیت رکھتا ہے ، وہ سبھی مسلمان ہیں۔ لہٰذا قرآن اعلان کرتا ہے: ‘ہاں جو شخص
خدا کے آگے گردن جھکادے،(یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکی کرنے والا بھی ہوتو اس کا
صلہ اس کے پرور دگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف
ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے، (2:112)۔
جب ان سے ان کے پروردگار نے
فرمایا کہ اسلام لے آؤتو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سراطاعت خم
کرتا ہوں۔ اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ( اپنے
فرزندوں سے یہی کہا) کہ بیٹا خدا نے تمہارے لئے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے
تو مسلمان ہی مرنا ۔ بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں
نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعدتم کس کی
عبادت کروگے،تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کےباپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل
اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اسی کے حکم بردار ہیں۔
(2:133۔2:131)۔
‘اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہوجاؤ تو سیدھے
رستے پرلگ جاؤ (اے پیغمبر ان سے ) کہہ دو( نہیں ) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کئے
ہوئے ہیں) جو ایک خدا کے ہورہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ، (2:135) (مسلمانوں
) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لے آئے اور جو (کتاب) ہم پر اتری ،اس پر اور جو (صحیفے
) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور
جو (کتابیں ) موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں، ان پر،اور جو دیگر پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ،ان
پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی
(خدائے واحد ) کے فرمانبردار ہیں) 2:136) ۔
کہوکہ وہ کتابیں جوموسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے انبیا کو پروردگار
کی طرف سےملیں سب پر ایمان لائے ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور
ہم اسی (خدائے واحد) کے فرماں بردار ہیں،( 3:84)۔
‘اور اس شخص سے کس کا دن اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا کو قبول کیا
اور وہ نیکو کار بھی ہے اور ابراہیم ؑ کے دین کا پیرو ہے جو یکسوں (مسلمان) تھے اور
خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا۔ (4:125)
’اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سےکہ نہایت اچھا ہو۔ ہاں
جو ان میں سے بے انصافی کریں( ان کے ساتھ اس طرح کا مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو
(کتاب ) ہم پر اتری ہے اور جو (کتابیں ) تو پراتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک
ہی ہے اور ہم اس کے فرماں بردار ہیں۔’ (29:46)۔
اور جو شخص خودکو خدا کافرماں بردار کردے اور نیکو کار بھی ہوتو اس
نے مضبوط دستاویز ہاتھ میں لے لی ۔ اور (سب) کاموں کا انجام خدا کی ہی طرف ہے۔’
(31:22)
اور اس شخص سے بات کا اچھا
کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے او رکہے کہ میں مسلمان ہوں۔ (
41:33)(انہیں بھی دیکھیں ۔46:15، 28:53، 3:83، 3:80، 3:64، 3:52)۔
وحی آنے کا سلسلہ بند ہونے
جارہاتھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ایک مذہبی شناخت چاہتے تھے ۔قرآن نے ان کے مذہب کے لئے اسلام نام کا انتخاب کیا:
......آج کافر تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور
مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں
تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کا دین پسند کیا..... (5:3)
اس طرح مخصوص معنوں میں جو
کوئی بھی قرآن کے الہٰی کتاب ہونے پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا
ہے ، ایسا بیان کرنے والا بھی اسلام کے آفاقی مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور جو خدا کے
سامنے جھکتا اور خود سپردگی کرتا اور اعمال صالحہ کرتا ہے ۔ قرآن نے اپنے نزول کے
دور (632۔610) میں اسلام /مسلمانوں کے تصور اور تعریف میں بغیر کسی کمی کے تسلسل کو
برقرار رکھا تھا۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم پروحی کے کچھ الفاظ اور مواد کو تبدیل کرنے کا زبردست الزام لگایا۔
اس پر خدا نے یہ جواب بھیجا:
اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت
کوئی بات جھوٹ بنا لاتے ( 69:44) تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ( 45) پھر ان کی
رگ گردن کاٹ ڈالتے (46) پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔’
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی وفات کے چودہ سوسال کے بعد پاکستانی اراکین پارلیمنٹ قرآن کے بنیادی اصطلاح
‘مسلمان ’ کو تبدیل کررہے ہیں۔ یہ کس قدر سنکی پن، نادانی، بدنام کرنے والا، بے ہودہ
اور توہین آمیز ہے۔
نتیجہ : یہ کہے بغیر نہیں
رہا جاتا کہ کوئی بھی انسانی عدالت کسی بھی ایک مسلمان کی مذہبی شناخت کو چھین نہیں
سکتی ہے۔ جو شہادت دیتا ہو ، جیسا کہ احمدی فرقہ کرتا ہے۔ آیت (33:40) میں کہیں بھی
قرآن نے خاتمہ کی کوئی تشریح نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی فرقہ یا کسی فرد کا مذہبی شکل
میں کوئی فقہی یا نظریاتی مطلب بتایا ہے۔ اس طرح ایک ایسا قانون وضع کرنا جو احمدی
فرقے کے تمام اراکین کو فقہی ،تشریحی اور نظریاتی اوربنیاد پر بطور غیر مسلم اور بد
مذہب ظاہرکرتا ہے ،تو آج علامہ اقبال موجود ہوتے تو وہ اپنی رزمیہ نظم ‘تصویر درد’
کو ضرور یاد کرتے:
زمین کیا آسمان بھی تیری
کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطر ے قرآن کو کج
پاکر دیا تونے
(اس دنیا کی کیا بات کی جائے، یہاں تک کہ جنت بھی تمہارے عیاری پر روتی
ہے ۔ تم پر لعنت ہے جو تم نے قرآن کی سطروں کو تبدیل کردیا۔)
پاکستان میں بڑھتے ہوئے تشدد
اور فرقہ وارانہ تقسیم کو دیکھتے ہوئے، اس کی پارلیمنٹ کو مسلمانوں کی تعریف نو کرنے والے قانون کو واپس لےلینا چاہئے
اس سے پہلے کی ‘بڑے بھائی’ تاریخی حقائق اس کے لئے مجبور کریں۔ مصنف ، احمدی نہیں ہے
لیکن وہ ان تمام لوگوں کو غیر مسلمان ماننے کی جرأت نہیں کرسکتا ہے۔
محمد یونس نے آئی آئی ٹی
دہلی سے کیمیکل انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزیکیو ٹیو کے عہدے سے
سبکدوش ہوچکے ہیں اور 90کی دہائی سےقرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو
سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف
،قاہرہ کی منظوری حاصل ہوگئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت
اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیشن ،میری
لینڈ ،امریکہ نے ،2009میں شائع کیا۔
انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن
،نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-spiritual-genocide-religious-people/d/5945