محمد یونس، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام
(انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
(شریک مصنف۔اشفاق اللہ سید کے ساتھ مشترکہ طور پر) اسلام کا اصل پیغام،
آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے، 2009
ایک عہد سے متعلق اعلان (4:1) میں
قرآن نے خواتین کے لئے مخصوص طور پر استعمال
ہونے والے ذلیل ،امتیازی، اور ظالمانہ قوانین، روایتوںاور اہم تہذیبوں میں ممنوع مانی
جانے والی باتوں کو یکسر ختم کر دیا۔’لوگو ں اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک
شخص سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و
عورت (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلا دئے۔اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت پر
آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے(بچو)‘ ( 4:1)
آیت کی شروعات خدا سے ڈرنے
کی یاد دہانی سے ہوتی ہے اور یہ عمل تولید تک پہنچتی ہے اور اختتام ارحام کا احترام
اور ڈرنے سے ہوتا ہےجو ظاہر طور پر خواتین کی علامت ہے۔اس کے ساتھ ہی شادی سے متعلق
اس کے قوانین کی وضاحت پر آتے ہیں اور اسی سورۃ کی تیسری آیت سے شروعات کرتے ہیں:’اور
اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان کے
سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو۔اگر اس
بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں
سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بے انصافی
سے بچ جاؤ گے۔‘ (4:3)
اس آیت میں ایک ناقابل تردید
وجود کا پہلو ہے۔جنگ میں جانی نقصان کے سبب بڑی تعداد میں خواتین غیر محفوظ ہو گئی
تھیں جن کا کوئی نزدیکی رشتہ دار (والد، شوہر،
بھائی) نہیں تھا۔قرآن نے ان میں سے چار ایسی
خواتین سے نکاح کرنے کی اجازت جن کے ساتھ برابری کا سلوک کر سکیں۔بعد کی ایک آیت میں
قرآن اعلان کرتا ہے کہ کسی بھی مرد کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی سبھی بیویوں
کے ساتھ برابر محبت رکھ سکے۔’اور تم خواہ کتنا بھی چاہو عورتوں میں ہر گزبرابری نہیں
کر سکو گے ‘ (4:129)
آیت4:3 اور 4:129
کے اعلانات ایک ساتھ جوڑنے پر بتاتے ہیں کہ قرآن بنیادی طور پر ایک نکاح کا
مشورہ دیتا ہے۔قرآن اس تصور کے توثیق کے لئے کئی مثالیں پیش کرتا ہے۔(1) قرآن میں جہاں
کہیں بھی دوسرے پیغمبروں کی بیویوں کا ذکر آیا ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ (11:71, 51:29) ، حضرت نوحؑ (66:10)
، حضرت لوتؑ (11:81, 5:60, 29:33,
66:10) ، حضرت عمران ؑ (3:35) ، حضرت ایوبؑ (38:44) اور حضرت ذکریاؑ (3:40, 21:90) ، ان سبھی آیات میں اشارہ ملتا ہے
کہ ان تمام پیغمبروں کے صرف ایک ہی بیوی تھی۔(2) قرآن میں لفظ زوجہ سے مراد ایک جوڑاہے،مخالف
اصناف میں سے ہر ایک کا واحد۔ اس طرح حضرت آدمؑ کی زوجہ کو واحد (2:35, 7:19, 20:117) شکل میں پیش کیا گیا ہے اور دونوں کو ایک جوڑے کے
طور پر پیش کیا گیا ہے (2:36, 7:20-22, 20:121) (3) قرآن میں جن دوسرے لوگوں کی بیویوں کا ذکر ہے جیسے
فرعون (28:9, 66:11) مصر کے اس شریف انسان جس نے حضرت یوسف ؑ
(12:21, 12:23-26) کو خریدا تھا اور ابو لہب (111:4)
ان سب کے ذخر سے معلوم ہوتا ہے کہ سبھی کی صرف ایک بیوی تھی۔(4) وراثت سے متعلق
قرآنی قانون میں بیٹے اور بیٹیوں (4:11) دو
سے زائد بیٹیوں (4:11) , ، بہنوں اور بھائیوں (4:176)
، دو بہنوں ( 4:176) ، دو زیادہ بہنوں اور بھائیوں (4:12) کے کئی حصوں کے مقابلے ایک شوہر کا ایک بیوی (4:12) سے بدل کرتا ہے۔(5) ایک عورت جس کے شوہر
کا حال ہی میں انتقال ہوا ہو وہ اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں ایک سال تک نان نفقہ لے
سکتی ہے۔قرآن کی یہ اجازت ظاہر کرتی ہے کہ شوہر نے ایک بیوی کو اپنے پیچھے چھوڑا ہے۔قرآن
کی یہ مثالیں واضح طورپر عیاں کرتی ہیں کہ قرآن ایک نکاح حمایت ایک عمدہ سماجی معیار
کے طور پر کرتا ہے۔یہ قول اسلام کی تقریباًتیسری صدی میں پیش کیا گیا تھا اور اسے کئی
نامور علماء جیسے یوسف علی (1) اور امیر علی (2) نے اس کا استعمال کیا تھا۔محمد اسد
اور حسین ہیکل آیت4:3 کی مشروط شک کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح ایک سے زائد
شادیوں کی اجازت ’غیر معمولی حالات‘ میں ہی دی جاتی ہے۔(3,4)
اگر ایک نکاح کی اجازت دی
گئی تھی تو کیوں اس کی وضاحت نہیں کی گئی؟یہ سوال کئی لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ سکتا
ہے اور ان کے جواب کی ضرورت ہوگی۔اگر سختی سے ایک نکاح پر عمل کیا گیا ہوتا تو وحی
کے نزول کے فوراً بعد تاریخی اعتبارسےخواتین
کی مشکلوں اوران کے استحصال میں اور اضافہ ہو گیا ہوتا۔(1) قرآن کے نزول کے سیاق و سباق میں اگر ایک ہی جھٹکے
میں ایک نکاح کو لاگو کیا جاتاتو ایک سے زائد شادیاں کرنے والے مسلمان اپنی بیویوں
میں سے کسی ایک کے حصےمیں آتے۔اور اگر ایسا ہوتا تواچھی خاصی تعداد میں خواتین شوہر کےبغیر سماجی تحفظ سے محروم رہ جاتی یعنی خواتین
بغیر کسی قانونی پہچان کے رہ جاتیں۔یہ ان خواتین کی حیثیت ،ذریعہ معاش اور ان کے مستقبل
اور اپنے سابق شوہروں سے علیحدگی کے سبب ان سے پیدا بچوں کی ذمہ داری اور پرورش سے
متعلق سنجیدہ قسم کی مشکلات کو پیدا کر دیتا۔(2)
تاریخی سیاق و سباق میں دیکھیں تو صرف مرد ہی تجارت کرتے تھے اور دوسرے سول،
سیاسی اورفوجی کاموں کے سبب اپنی بیویوں کو اپنے پیچھے چھوڑ جاتے تھے کیونکہ دور مقامات
کا سفر مشکل ترین تھا اور اس میں کافی وقت بھی لگتا تھا۔یہ مرد کبھی کچھ ماہ تو کبھی
کچھ برسوں کے لئے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر جاتے تھے ایسے میں ان کی جسمانی، جذباتی اور
حیاتیاتی ضرورت کے مد نظرعورتوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ایسے حالات میں اگر ایک نکاح پر
سختی سے عمل ہوتا تو اس طرح سفر کرنے والے مرد بغیر شادی کۓقید کی گیٔ خواتین کا استعمال
کرتے جس کے نتیجے میں خواتین کا استحصال ہوتا اور اس ے جڑی دوسری سماجی برائیاں بھی
پیدا ہوتیں۔(3) زندگی کی ایک عالم گیر حقیقت
کے طور،اگر ایک شخص کی بیوی بیماری یا کسی حادثے وغیرہ کے سبب مستقل طور پر اپنے ازدواجی
کردار کو نبھانے سے معزور ہو جائے، تو ایک نکاح کی سخت تاکیدکے سبب ایسے شخص کی دوسری
شادی ممکن نہیں ہوتی، ایسے میں یا تو یہ شخص اپنی معزور بیوی کو طلاق دے اور دوسری
شادی کرے یاکسی کو داشتہ رکھے جس کے ساتھ کوئی ازدواجی ذمہ داری نہ ہو۔کسی بھی صورت
میں خواتین ناانصافی کا شکار ہوتیں اور سماج بھی متاثر ہوتا، اگر مرد کو دوسری شادی
کی اجازت ہوتی تو یہ زیادہ بہتر ہوتا جس میں وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہی اپنی پہلی
معزور بیوی کو بھی ساتھ رکھ سکتا تھا۔ (4) تاعمر ایک شادی کاحکم الٰہی ایک بیوا کے
لئے بڑی سنجیدہ مشکلات پیدا کر دیتا جس کی دوبارہ شادی کرنے کے امکانات ہی ختم ہو جاتے،
جیسا کہ کچھ تہذیبوں میں پچھلی صدیوں تک ہوتا رہا ہے جس کا ان بیواؤں کوخوفناک نتائج
برداشت کرنےپڑتے۔نتیجہ: ایک سے زائد نکاح کی شرط سے متعلق قرآنی آیت (4:3) اس کی مشروط
شق اور آیت4:129 اور مندرجہ بالا سطروں میں
درج ایک نکاح سے متعلق قرآن کی مثالوں پر غور کرنےکے بعد قرآن کےایک نکاح کےپیغام کی
تشریح بہتر سماجی معیار کے طور پر کر سکتے ہیں۔ناقدین جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں
اسلام ایک سے زائد نکاح کی تعلیم دیتا ہے اور مثال کے طور پر نبی کریم ﷺ کو بتاتے ہیں
۔آپ ﷺ نے ایک سے زائد نکاح کئے تھے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺنے اپنی پہلی بیوی
حضرت خدیجہؓ کی رحلت سے قبل 25برسوں تک ایک
نکاح پر عمل کیااور آپﷺ کے بعد کے نکاح غیر معمولی حالات کے سبب ہوئے تھے۔اس کے علاوہ
قرآن واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو نکاح سے متعلق (33:50, 33:52) منفرد اختیار ہے اور مسلمانوں کے لئے ان کی مثال
معیار نہیں ہے۔اس کے علاوہ اگر مسلمان ان کی مثال پر عمل کرناہی چاہتے ہیں تو انہیں
اس خیال سے ڈر لگے گا کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کے شباب میں پہلے اپنے سے 15 برس بڑی
بیوہ سے شادی سے ابتداء کریں اور پوری ایمانداری کے ساتھ اس کے ساتھ ایک نکاح میں اگلے25برسوں
تک رہیں۔یہ مسلم ماہرین قانون کے لئے وقت ہے کہ وہ اپنی پدرانہ طرز فکر کو چھوڑ کر
قدیمی اسلامی شرعی قانون میں ترمیم کریں جو مر د کو سوائے غیر معمولی اور قانونی طور
پر مناسب حالات کے علاوہ دوسری شادی سے روکے ،اگر پہلی بیوی اجازت دے تب بھی، کیونکہ
ایک مسلم بغیر جائز بنیادوں کے قرآنی قانون کو توڑ نہیں سکتا ہے۔ماہر قانون نکاح کے
معاہدہ کی نوعیت پر اصرار کرتے ہیں لیکن نکاح نامے مین ایک شک جوڑ کر وہ زوجین کے درمیان
محبت اور رحم کے ساتھ ان میں سے کسی کو ایک نکاح کے قرآنی اصول سے تجاوز کرنے کی اجازت
نہیں دے سکتے ہیں۔’اور اسی کے نشانات(اور تصرفات)میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری
ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ ان کی طرف (مائل ہو کر) آرام حاصل کرو اور تم میں محبت
اور مہربانی پیدا کر دی جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے ان باتوں میں(بہت سی نشانیاں
ہیں‘(30:21)
.........نوٹس۔عبد اللہ یوسف علی ، دی ہولی قرآن، لاہور
1934،ریپرنٹ، میری لینڈ 1983، نوٹ509سید
امیر علی، دی اسپرٹ آف اسلام۔دہلی، 1923 ،
ریپرنٹ 1990۔ صفحہ229محمد اسد، میسیج آف قرآن،
جبرالٹر1980، چیپٹر۔4، نوٹ۔4محمد حسین ہیکل، دی لائف آف محمد، انگریزی ترجمہ۔ اسمٰعیل راگی،8 واں ایڈیشن،
کراچی1989، صفحہ293لفظ سکینہ سے اخذ کیا گیا ہے جس سے مراد اس الٰہی نعمتوں
سے ہے جو غم اور مایوسی کی حالت میں نبی کریم ﷺ اور انکے صحابہ پر اللہ تعالیٰ بھیجتا
ہے۔نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ مکہ سے مدینہ کے راستے میں اپنے دشمنان سے بچنے کے
لئے ایک غار میں چھپ رہے تھے۔(9:40)
عمرہ کرنے کے لئے مکہ میں
داخل ہونے کی اجازت کے انتظار میں پیغمبر ﷺ کے غیر مسلح صحابہ مایوسی اور غیر یقینی
حالات میں حدیبیہ کے میدان میں انتظار کر رہے تھے۔(48:4)
حدیبیہ میں غیر مسلح صحابہ
نے نبی کریم ﷺ سے بیعت کر یہ قسم کھائی تھی کہ وہ مکہ کی افواج کے کسی بھی حملے کی
صورت میں آپکا دفاع کریں گے۔(48:18)
جیسے ہی مسلمان مکہ میں داخل
ہونے لگے تو قریش کے درمیان سب سے زیادہ جنونی لوگوں نے مسلمانوں کو روکنے اور اکسانے
کی کوشش کی۔(48:26)
جیسا کہ ہوازین نے مارچ کر
رہی مسلم فوج پر گھات لگا کر حملہ کیا اور ان میں بھگدڑ پیدا کر دی۔محمد یونس نے آئی
آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے
سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام
کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ
کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور
توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ
،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/the-qur’an-prescribes-monogamy,-the-social-norm-for-humanity/d/6172
URL: