کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں
کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں؟ (القرآن 47:24)۔
"پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر‑ مرد ناداں پر کلام
نرم و نازک بے اثر"۔ محمد اقبال ۔ بال جبرئیل۔ مقدمہ
محمد یونس، نیو ایج اسلام
شریک مصنف (اشفاق اللہ سید
کے ساتھ)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے 2009
30 جون، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
قرآن کے کسی فرمان کو براہ راست فن حکمرانی میں شامل کرنے یا قرآن
کو کسی بھی انداز سے سیاسی رنگ دینے کی کوششش کرنے کی بات تو چھوڑ دیجئے، یہ تجویز دینا بھی مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہ متنوع
سمت والے سیاسی جماعتوں کو قرآن کی مصلحت آمیزانہ تشریح یا اپنے نظریات اور تمنّائوں کے لئے جواز دینے کا موقع فراہم کرے گا۔ اس مشق کا مقصد مومنوں کو ہدایت کی اس ابدی کتاب
کے مطالعہ (2:121) کی ترغیب دینا اور اس کے بہترین معنی (/ 5539:18) کی تلاش کیلےٗکےٗ
جانے والے مطالعہ کے لئے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے
تاکہ مسلم امت کے دلوں اور ذہنوں کو تاریخی
ادوار میں وضع کئے گئے فقہی مکالمہ کے غلبہ سے آزاد کرا سکیں، جو ،گرچہ اپنے زمانے کے لئے شاندار تھی لیکن آج
کے دور میں یہ پابندی لگانے والی، تقسیم، خصوصی،
ذہنی رکاوٹ اور قدیم اسلاف سے متعلق ہیں۔
اور روز قیامت ہر ایک شخص
کو اس کے اعمال کا ریکارڈ (17:71،-11 84:7،-7
99:6) بنچ مارک کے طور پر اسکے حوالے کر دیا
جائے گا، جیسا کہ قرآن میں کامل طور پر الہی رہنمائی / ضروریات کا ذکر آیا ہے
(5:3)۔ لہذا، یہ ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے جو اس سے رہنمائی حاصل کرنے
کے لئے قرآن کے خدائی ہونے میں یقین رکھتا ہے اور جو روزانہ کی ہر ایک نماز میں خدا سے درخواست کرتا ہے‑" اھد نا الصراط
المستقیم"۔
جہاں تک اپنی رائے پر قائم
رہنے والے قارئین اور خود کی تعریف کرنے والے
دانشوران - مسلمان اور غیر مسلموں دونوں کا تعلق ہے، چودہ صدیوں پرانی کتاب کا حوالہ
دینے پر شبہ کرنے والوں کے لئے معاصر زمانے میں اسلامی اور عیسائی اسٹڈیز کے ایک ممتاز
عالم کینتھ کریگ کا مندرجہ ذیل قول، دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کافی ہونا چاہیئے
[1]۔
"قرآن میں جو کچھ لکھا ہے اس کا ہمارے زمانے کی مصیبتوں اور پریشانیوں
سے گہرا تعلق ہے۔ اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں قرآن کی ضرورت ہے۔ بے شک انسانیت
کی بڑی تعداد کے لئے جدیدیت کے بارے میں رہنمائی یا اس کے قائل ہونے کے لئے قرآنی
طریقے سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی ..... وہاں
بھی جہاں سیکولر ازم لوگوں کے درمیان بہت مقبول ہویٗ ہے ان کے فیصلے اور ان کی سمجھداری، ان کی ترجیحات
اور ان کے معیار، بڑے پیمانے پر ہمیشہ قرآنی
تعلیمات کی حد تک ہی ہوں گے۔"
قرآن سے تعلیم یافتہ مسلمانوں
کی لا تعلقی
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ نوجوان
طلباء، فیشن کرنے والے اور تعلیم یافتہ نوجوان، گھریلو خواتین، اساتذہ، تمام اقسام
کے پیشہ ور افراد، اور مسلمانوں کے درمیان دانشورانہ اشرافیہ طبقہ کے پاس
در حقیقت کوئی وقت نہیں ہے، اور نہ ہی اپنے مذہب کے بنیادی اصولوں کی تحقیقات
کرنے کے لئے کوئی تجسس ہے۔ جیسا کہ اس کے عرب
ناظرین خوف میں قرآن سے دور ہو گئے‑ جیسے ایک بدکا ہوا خچر شیر سے بھاگ کھڑا ہوا ہو
(-5174:49)، اور مسلمانوں کی بڑی آبادی اس سے نفرت نہیں تو احترام
یا بے حسی اور خوف میں اس سے دور ہو گئی۔ ان میں سے کچھ جزوی یا مکمل طور پر خدا
کو خوش کرنے کے لئے، بر تر ہونے کا تجربہ کرنے کے لئے اور امن و سکون حاصل کرنے کے لئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اور کچھ حفظ بھی کرتے ہیں۔ تاہم، وہ شاذ و نادر ہی اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرنے
کے لئے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ اسے ایسے
نہیں پڑھتے جیسے پڑھنا چاہیے اور اپنا نقصان کرتے ہیں (2:121)۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ اس روایت پر عمل کرتے ہیں "جو شخص خدا کی
کتاب (قرآن) کے بارے میں بحث کرتا ہے وہ غلطی
کرتا ہے،یہاں تک کہ اگر وہ صحيح ہے تو بھی [2] ۔
قرآن نے انسانی تاریخ میں
سب سے بڑے سماجی، سیاسی اور دانشورانہ انقلاب پیدا کےٗ۔
قرآن کی آمد - ساتویں صدی
کے عرب میں خدا کے کلام کے نزول نے انسانی تاریخ میں یکایک ہنگامہ برپا کر دیا، جس کی لہر نے جلد ہی
پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ اس کے
افتتاح کے سو سے کم سال کے اندر ہی اس کی متحرک
روح اور آزاد کرانے والی مثالوں نے اس زمانے کی سب سے عظیم تہذیبوں کے قیام میں مدد کی جو اس زمانے کے سیاسی نقشے پر تقریبا تمام مشرق سے مغرب (اسپین سے چین ) تک پھیلا تھا اور اس دوران علم کے مختلف شعبوں میں
قابل ذکر ترقی درج ہوئی۔حکمت کے احترام نے
اس کے اسکالروں کو بڑے پیمانے پر ترجمہ کے
ذریعہ گریکو رومن فلسفیوں کے کاموں کو محفوظ کرنے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں اسلامی فلسفیانہ ورثہ پھلاپھولا (مثال کے طور پر امام غزالی، ابن رش، ابن العربی، رومی، سعدی کے
کام )۔ اس کے عالمی علم پر زور دینے کے نتیجے میں عالمی سائنس کے تمام شعبوں‑ ریاضی، فزکس، کیمیا، علم نباتیات، فلکیات، طب، میٹا
لرجی، اور صنعتی ٹیکنالوجی (کاغذ، کپڑے وغیرہ) میں غیر معمولی ترقی کی راہیں ہموار ہوئیں۔ اس کے اسکالروں کی سرپرستی کرنے کے سبب مذہب
سے قطع نظر بہت سے ذہین لوگ اس کے مرکز (بغداد) کی طرف متوجہ ہوئے اور اس وقت کی دنیا
کے دور دراز کے علاقے سے تعلق رکھنے والے بہت
سے لوگ اس کے دائرے میں داخل ہوئے۔ غیر مسلمانوں
کی اس کی عزت کرنے اور رواداری، آزاد کرانے والی سماجی مثالیں اور پابندی لگانے والے مذہبی ممانعت سے مثشنیٰ کرنے کا عمل ، علم دین میں غور و فکر اور متکلما نہ تعلیم نے ایسے بے شمارلوگ منظر عام پر لایاجنہوں نے ایمان کو نیئ
حرکت اور عقل عطا کی۔ عقل استعمال کرنے کی اس کی نصیحت، عقلی طور پر غور
و فکر اور انصاف پر اس کے زور دینے سے علم قانون کے شعبے میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ خواتین
کو با اختیار بنانے کے اس کے عمل نے ان کو علم کے سب سے بلند سطح پر
جانے میں مدد کی اور وہ ماہرین قانون
اور اسکالروں کے مرتبہ تک پہنچیں اور جو مخلوط
طالب علموں کو پڑھاتی تھیں اور فارغ ہونے پر انہیں اسناد
عطا کیا۔ مختلف شعبوں میں ان کامیابیوں
نےترجمہ کے ذریعہ یورپ میں اپنا راستہ
بنایا، سب سے پہلے لاطینی زبان میں اور بعد میں یورپی زبانوں میں یہ علم منتقل ہوا، اور یورپ میں انقلاب کے بعد
کی ترقی کے لئے اصل بنیادکے طور پر خدمات انجام دیں۔
مذکورہ بالا باتیں بناوٹی نہیں ہیں اور نہ ہی فخریہ بیان ہے۔ مغرب
کے کچھ نمایاں عیسائی اسکالر اسلام کی انسانیت
کے لئے غیر معمولی شراکت کو تسلیم کرتے ہیں اور عقیدے اور اس کے بانی محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے اعلی درجے کی
تعریف کرتے ہیں‑ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول
ماننے سے انکار کرتے ہیں:
مائیکل ہارٹس تاریخ کی
100 عظیم شخصیتوں کے درمیان میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اوّل مقام پر رکھتے
ہیں [3]۔
تھامس کارلائل
(1795-1881)، انبیاء کرام کے درمیان ہیرو پر اپنے
مشہور خطاب میں سے ایک میں اعلان کرتے ہیں: "ایک غریب چرواہا ریگستان میں
دنیا کی تخلیق کے بعد سے گھوم رہا تھا اس پر
کسی کا دھیان نہیں گیا: ایک ہیرو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان ان الفاظ
کے ساتھ بھیجے گئے جن پر وہ یقین کر سکتے تھے... جیسے کوئی جنگاری گری ہو، ایک چنگاری ایسی دنیا
پر گری جو ناقابل توجہ سیاہ ریت لگتی تھی،
لیکن ریت دھماکہ خیز پاؤڈر ثابت ہوئی، دہلی
سے گریناڈا تک یہ جنگاری پہنچی۔ میں نے کہا کہ عظیم انسان جنت سے باہر برق کی طرح ہمیشہ تھا، باقی کے انسان ایندھن کی طرح ان کا انتظار کر رہے تھے، اور پھر وہ بھی شعلہ بن گئے
"[4]۔
الفانسو ڈی لا مارٹین
(1790-1869) عربوں کے قابل ذکر ترقی کو دوبارہ
یاد کرتےہوئے اعلان کرتے ہیں: "وہ تمام
معیار جن کے ذریعے کسی
انسان کی عظمت کا تعین کیا جا سکتا
ہو، ان کو مد نظر رکھتے ہوئے پوچھا جا سکتا ہے، کیا کوئی شخص ہے جو ان (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عظیم ہو؟"
[5]۔
رابرٹ بری فالٹ
(1867-1948) کہتے ہیں: " جدید دنیا کی
تہذیب میں عرب [مسلم] لوگوں کا سب سے اہم تعاون
سائنس ہے، لیکن اس کا پھل کافی دنوں بعد سامنے آیا۔ طویل وقت کے بعد جب اسلامی ثقافت اندھیرے میں واپس ڈوب گئی، تب جس سائنس کو انہوں نے جنم دیا تھا وہ اپنی پوری
طاقت کے ساتھ سامنے آیا"[6]۔
جوناتھن بلوم اور شیلا بلیئر (شوہر بیوی کی ٹیم کو مشترکہ طور پر اسلامی اور
ایشیائی فن میں نارما جین کالڈر ووڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر
تقرر کیا گیا) کا اعلان ہے: "اسلام جو عیسائیت کے مقابلے صرف ایک نصف درجن صدی
چھوٹا ہے اس نے ایک طویل اور شاندار تہذیب
کی تخلیق کی ، ہم آج جو بھی ہیں اسی کے رہون منت ہیں... جب قرون وسطی کے چند راہب گریکو رومن تہذیب کے بارے میںجو کچھ جانتے
تھے اسے محفوظ کرنے کی از حد کوشش کر رہے تھے اس زمانے میں مسلم دنیا میں اکیڈمیاں اور یونیورسیٹیاں ترقی کر رہی
تھیں "[7]۔
کائونٹ لیون آسٹرو روگ اعلان
کرتے ہیں: "نویں صدی کے مشرقی مفکرین نے علم دین کی بنیاد پر
انسان کے حقوق کے اصول کی بنیاد رکھی .... جس کے انسانی اور تمیز دار نسخوں
نے جنگ عظیم کے بعض فریق کو
شرمندہ کر دیا؛ غیر مسلموں کے ساتھ
رواداری کے ایسے اصول کی وضاحت کی جو اس قدر فراخ دلی والا تھا کہ مغرب کو اس کے
برابر اصولوں کو اپنانے میں ایک ہزار
سال تک انتظار کرنا پڑتا "[8]۔
حوالے میں دئے گئے اسکالروں
کی افضلیت، دنیا کی تاریخ میں اسلام کے مثبت اور انقلابی کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ واضح طور پر سوال اٹھاتا ہے: اسلام میں ایسا کیا تھا کہ اس
نےاعتدال والے کردار کو ہوا دی۔ جواب
واضح ہے۔ "اسلام نے اپنے اخلاقی قانون
اور ترغیب قرآن سے حاصل کئے جس کا واحد مشن انسانیت کی رہنمائی کرنی تھی، خالص توحید کے دائرے
کے تحت " اسے اندھیرے(جہالت) سے روشنی (روشن خیالی )کی طرف لانا تھا" (2:257، 14:1، 57:9)۔ اس طرح اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن کے انقلابی
اصول ہیں۔ یہ اس کی اخلاقی ضروریات اور آزاد
کرانے کی قوت ، اس کی آفاقیت اور تکثرتیت ہے، انسانی دانش کو اس کی دعوت ہے جس نے تاریخ میں منفرد اور قابل ذکر مثبت کردار ادا کیا۔
مسلمانوں کا قرآن سے لاتعلقی
کے تکلیف دہ اثرات
جس وقت کہ اسلامی تہذیب ترقی
کی طویل کامیابیاں حاصل کر رہی تھی، اس کے مذہبی قوانین کے قدامت پسند ماہرین اور علماء
قرآن کی روح کے براہ راست متصادم مسلسل اسے
اپنے دور میں منجمد کرنے کی کوشش میں تھے۔
اس طرح ان لوگوں نے قرآنی پیغام کو ایک طرف رکھ دیا اور فقہی مکالمہ کا احترام کرنے لگے‑ خاص طور سے قرآنی
پیغام کو سمجھنے اور عمل در آمدکرانے کے لئے حدیث اور قدیم اسلامی قانون کو ضروری اور
معقول ذریعہ ماننے لگے۔ یہ لوگ قدامت
پسند اہل حدیث تھے۔ ان لوگوں کی دلیل تھی کہ جو کچھ سیکھا جانا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانے میں سیکھا جا چکا ہے اور وہ قرآن
اور نبی کریم صلی الللہ علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہے اور نسل در نسل اس کی
تقلید کئے جانے کی توقع کی جاتی ہے[9]۔ اس کے نتیجے میں علم کے معاملے میں جمود اور
کسی بھی سائنسی ترقی کے خلاف شدید نفرت پیدا
ہوئی اور عالمگیر علم، اسلامی اور یورپی زمرے میں تقسیم ہوا [10]۔ جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے رک گیا جبکہ مؤخر الذکر تیزی سے بڑھتا رہا۔ ان کے
رجعت پسند خیالات کی اس وقت کے ذی شعور فقہا‑
اہل الکلام نے اس کی مخالفت کی جو تمام شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کرتے تھے
اور قرآنی تعلیم کے دائرے میں مادّی خوشحالی کو فروغ دیا۔ تاہم، قدامت پسندی کی بالا دستی رہی اور اسلام میں دانشورانہ
سرگرمی تقریباً رک سی گئی۔ یہ اسلام کی چوتھی
صدی کے آخر کے آس پاس ہوا تھا جو اسلامی تہذیب کے زوال کی شروعات تھی اور اس نے اس
عقیدے اور اس کے پیروکاروں کو زوال کے راستے پر ڈال دیا۔
تقریباً ایک ہزار سال تک اور موجودہ وقت تک
مسلسل زوال اور وسیع تاریخی تناظر میں کبھی کبھی ترقی سے تھوڑا
ٹھہرائو کے باوجود مسلمان ناکامی کی سب سے پست
ترین حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ مختلف
مذہبی طبقات میں تاریخ کے اس موڑ پر محرومیوں، تکالیف اور ناانصافیوں کا کوئی بھی تقابلی جائزہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ
محروم اور تباہ طبقہ بتاتا ہے اور انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سب سے زیادہ متاثر طبقہ بتاتا ہے۔ اپنی عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد سے لے کر خونریز
تنازعات، فرقہ وارانہ تشدد، دہشت گردی، انصاف پسند اور ظالمانہ جنگوں،وار زون میں بالجبر
بندش کے لئے مجبور کئے جانے، پابندیوں کے نام
پر سزا، اسلاموفوبیا کی نفسیاتی تکلیف اور غیر مسلم ممالک میں بے قدری اور بے اثر بنانے تک آج کی دنیا میں مسلمانوں
کے حصے میں سب سے زیادہ تکالیف اور ذلت ہے۔
اسی طرح متنوع حلال سرگرمیوں اور زندگی کے
شعبوں (مثال کے طور پر پیشہ ورانہ شعبے، اکیڈمی، بیوروکریسی، کھیل، فن اور ثقافت)
میں کامیابی کے کسی بھی تقابلی تجزیہ
میں مسلمانوں کو غریب ترین اور گمنام کارکردگی
کرنے والا پائیں گے۔
اس طرح وسیع تاریخی تناظر
میں یہ قرآن کی انقلابی سماجی اور دانشورانہ مثالیں تھیں جس نے مسلمانوں کو اسلام کی آمد کے سو سال سے بھی کم مدت میں ان کی
تہذیب کے عروج پر پہنچا دیا اور اس نے ان لوگوں کو اس قابل بنایا کہ وہ آئندہ چار سے پانچ سو سال تک دنیا کی قیادت
کر سکیں اور یہ قرآن سے ان کی بتدریج لاتعلقی
تھی جس کے نتیجے میں جمود، زوال، تباہی نے آنے والی صدیوں میں ان کا تعاقب کیا۔
اس طرح، قرآن سے لاتعلقی
کی قیمت بہت زیادہ رہی ہے اور مسلمان اسے آج بھی برداشت کر رہے ہیں، کیونکہ وقت کے
ساتھ ساتھ ان کی لاتعلقی میں صرف اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ مضمون صرف ایک یاد دہانی اور انتباہ اور باشعور
مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج ہے۔
نوٹس
1 ۔ کینتھ کریگ،دی ایونٹ آف قرآن،ون ورلڈ پبلیکیشنس، راک پورٹ، یو
ایس اے، 1974، صفحہ نمبر۔ 22/23۔
2 ۔ سنن ابو داؤد، اردو ترجمہ وحید الزماں، والیوم3، اکسیشن 253 صفحہ۔
118۔
3 ۔ مائیکل ایچ ہارٹ، دی 100۔ اے رینکنگ آف دی موسٹ انفلوئینشیئل پرسنس
ان ہسٹری، ہارٹ پبلشنگ کمپنی انک، نیو یارک،یو
ایس اے 1978 ،صفحہ 33۔
4 ۔ http://www.scribd.com/doc/12685866/Hero-as-a-Prophet-by-Thomas-Carlyle
5 ۔ http://www.goodreads.com/author/quotes/693415.Alphonse_de_Lamartine
6 ۔ میکنگ آف ہیومانیٹی، صفحہ
202، اقتباس ، محمد اقبال کی ، ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹس، 6واں ریپرنٹ، نئی دہلی
1998,صفحہ 130
7 ۔ جوناتھن بلوم اور شیلا بلیئر,
اسلام‑
امپائر آف فیتھ، بی بی سی سیریز، یو کے
2001 صفحہ۔ 11.
8۔ آصف اے اے فیضی، آئوٹ لائن
آف محمڈن لاء، 5واں ایڈیشن، نئی دہلی
2005، صفحہ 53/54۔
9۔ ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، 1931، ریپرنٹ نئی دہلی 1989، والیوم
۔1 صفحہ 42،43۔
10 ۔ جمال افغانی، اقتباس جان
ایل اسپو سیٹوز، اسلام ان ٹرانزیشن، نیو یارک 1982، صفحہ نمبر 18۔
----------
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے
کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش
ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام
کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر
خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل
پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL
for English article: http://newageislam.com/islamic-ideology/muhammad-yunus,-new-age-islam/the-muslims’-ignorance-/disregard-of-the-qur’anic-guidance-and-its-colossal-and-recurring-cost/d/7795
URL: