محمد یونس، نیو ایج اسلام
18 جولائی 2017
(مشترکہ مصنف (اشفاق اللہ سید)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلکشنز، امریکہ، 2009)
قرآن مجید کے مختلف پہلوؤں پر طویل مضامین لکھنا کلاسیکی اسلامی علماء کی ایک روایتی رہی ہے، جس کی وجہ سے آج ہمارے پاس تفسیر کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں تک کہ اس ویب سائٹ پر بھی اسلامی پیغام کے مختلف پہلوؤں پر طویل مضامین پڑھنا ذہن پر ایک بوجھ معلوم ہوتا ہے، جب کہ اس دور میں ٹویٹر پر چند الفاظ میں اپنی بات رکھنے کا رجحان تیزی کے بڑھ رہا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن چھوٹے چھوٹے حصوں میں نازل کیا گیا تھا تاکہ اس کے سامعین اس کے پیغام کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں، اسی وجہ سے اس کی تکمیل میں دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ اسی لئے زیادہ مناسب یہی ہے کہ چند آیات پر مشتمل مختصر مضامین لکھے جائیں اور قارئین کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ مندرجہ ذیل قرآنی آیات کی روشنی میں قرآن کے اس پیغام پر غور و فکر کریں:
‘‘یہ کتاب برکت والی ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں’’۔ (38:29)
‘‘کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں؟ (47:24)’’
ہم اپنی گفتگو کا آغاز قرآن مجید کی مندرجہ ذیل دو مختصر آیتوں کے ساتھ کرتے ہیں جن میں خطاب مکہ کے امیر اشرافیہ طبقے سے ہے:
‘‘یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتے، اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو، اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)، اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو’’۔ (20-89:17)
‘‘اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے، وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا، اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہے، وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے، یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدّ و جہد کرنا ہے)، قرابت دار یتیم کو’’۔ (15-90:10)
پیغمبر اسلام ﷺ نے جب قبیلہ قریش کے سامنے یہ پیغامات پیش کئے تو انہوں آپ کا مذاق اڑایا۔
بہت سے ایسے لبرل اور آزاد خیال مسلمان جو ایک بالکل آزاد اور آسان نظام زندگی کی خواہش رکھتے ہیں اور دہشت گرد اور انتہاپسند بھی جو اپنے حقیر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے قرآن کی غیر واضح اور آیات متشابہات کا سہارا لیتے ہیں وہ ان آیات کو یا تو نظر انداز کرسکتے ہیں یا انہیں فرسودہ قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مندرجہ بالا سوالات آج بھی نزول قرآن کے زمانے سے کم اہم نہیں ہیں۔ بلکہ آج تو یہ سولات ہماری زندگی کے اخلاقی طرز عمل کے لئے ایک واضح تنبیہ کی علامت ہیں۔ لیکن ہم نہ تو ان پر کبھی غور کرتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔
غریب مصیبت اور بدحالی کا شکار ہیں، کمزور اور لاغر بچے کوڑے کے ڈھیر میں اس لئے ہاتھ پاؤں مار ہے ہیں کہ انہیں کوئی ایسی چیز مل جائے جسے کھا کر وہ اپنی بھوک مٹائیں یا جسے فروخت کر کے کچھ سامان زندگی حاصل کریں، چھوٹے بچے سڑکوں کے کنارے گیریجوں اور بھاری بھرکم تعمیری کاموں میں مزدوری کر رہے ہیں، بھوک سے بدحال بچے کیمپوں اور پناہ گزینوں میں روٹی کے ایک ٹکڑے کے لئے سرگردہ ہیں، کم اجرت پانے والے گھریلو اور صنعتی مزدوروں کو کوئی سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے اور ہے بھی تو برائے نام، نیز وہ خدماتی شرائط اور طبی خدمات سے بھی محروم ہیں۔ لیکن اکثر مسلم تماشائی اور خاص طور پر مسلم معاشرے کے سرمایہ دار طبقہ، دانشور اشرافیہ اور سیاسی قیادت کو ان کے تمام مسائل معمولی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی واحد دلچسپی صرف اس بات میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال کمایا جائے، اپنی جائداد کو بڑھایا جائے اگر چہ ان کے حاصل کرنے کا ذریعہ دھوکہ، دغابازی یا زہر اور مہلک ہتھیار وغیرہ فروخت کر کے زبردست کمیشن ہی کیوں نہ ہو۔
ہم ابدی اور اخروی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے مساجد کی تعمیر کرتے ہیں، لیکن دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے غریب طبقے کے لئے پورے سال نہ کھانے کا انتظام کرتے ہیں، نہ ان کے بے گھر افراد کے لئے رہنے کا انتظام کرتے ہیں، نہ کے لئے مفت کھانے کا کوپن تقسیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لئے ان سماجی خدمات کا انتظام کرتے ہیں جن سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہوتی ہو جس کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اور ان سب کے باوجود ہم سب سے بہتر مذہب کی پیروی کا دعوی کرتے ہیں۔ کیا بدقسمتی ہے!
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ بہت سے مسلمانوں اور خاص طور پر لبرل، دہشت گردوں، انتہاپسندوں اور غافل نوجوانوں کا دعوی ہے کہ قرآن کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا ہے اور وہ قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ، جبکہ انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ مسئلہ قرآن کے ساتھ نہیں بلکہ خود ان کے ساتھ ہے۔ قرآن اور اس کی تعلیمات کے تئیں اپنی غفلت اور سردمہری کی قیمت خود انہیں اور ان کی اولاد کو چکانی ہوگی، خدا کو نہیں اس لئے کہ وہ ہر ضرورت و حاجت سے پاک ہے۔
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/reflections-social-justice-islam-part-1/d/112022
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism