محمد یونس، نیو ایج اسلام
(مشترکہ مصنف (اشفاق اللہ سید)، اسلام کا بنیادی پیغام۔ آمنہ پبلیکیشن ، امریکہ ، 2009۔
07 دسمبر 2016
یہ مضمون اس حالیہ پریس رپورٹ کے جواب میں ہے کہ جس کے مطابق امریکہ کے منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ٹیلی فون پر اپنی پہلی گفتگو میں بنیاد پرست اسلام کو اس زمانے میں دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے بنیاد پرست اسلام سے مراد وہ قاتلانہ تکفیری نظریہ مراد لیا ہے جو معصوم لوگوں کو یا کسی جماعت کو 'کافر' قرار دیکر دہشت گردانہ حملوں میں انفرادی طور پر موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کو ان کے اس تبصرہ سے تکلیف ہوئی ہو یا انہیں اس سے حیرانی ہوئی ہو اس لیے کہ ان کا یہ تبصرہ اسلام کے پیروکاروں کی ایک انتہائی چھوٹی سی اقلیت کے سنگین جرائم کی بنیاد پر مذہب اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کے مترادف ہے۔ لیکن انہیں ان عظیم رہنماؤں کے بیانات کو اسلام مخالف بیان بازی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کی روح کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
گزشتہ چند سالوں (2002-2005) کے دوران راقم الحروف سلسلہ وار مضامین میں دہشت گردی کے نظریہ سازوں کے فتوں کی تردید کی شکل میں دہشت گردی کی لعنت پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ عالمی رہنماؤں کا مندرجہ بالا تبصرہ محض ان تنبیہات کا خلاصہ ہے جس کا خلاصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
1۔ "سیاسی اور فرسودہ سلفی اسلام جو عالمی سطح پر بنیاد پرستی کو فروغ دے رہا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اب مسلم اکثریتی اور اقلیتی ممالک سمیت مغرب اور باقی پوری دنیا کے لیے ایک عظیم لعنت اور شدید خطرہ بن چکا ہے۔ "[1]
2۔ "(دہشت گرد روایات کو) اس کے قارئین کے دماغ میں ایک ایسی وحشیانہ اور اذیت پسند ذہنیت پیدا کرنے کے لیے فروغ دیا جا رہا ہے جو کہ آسانی کے ساتھ 9/11 حملوں سمیت مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کے جواز میں ایک جامع فتوی کو قبول کر لے گی۔ لہٰذا، ایک فتوی کی آڑ میں ایک مہلک روحانی زہر تیار کیا جا رہا ہے جو متعدد بنیادوں پر قرآن کے خلاف ہے، تضادات کا شکار ہے، اپنے آپ میں منفرد ہے، دوسروں کے لیے نا معقول ہے، اسلام اور وسیع تر مسلم برادری کے لئے تباہ کن ہے اور انسانی تہذیب کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ "[2]
3۔ "(یہ انتہاء پسندروایت) انتہائی خوف ناک انداز میں سادہ اور بے گناہ مسلمانوں پربمباری کا جواز پیش کرتی ہے، اور ان سے قرآنی آیات کو مبہم رکھتی ہے، اور ان روایات میں انتہاء پسند خود اپنے فتوں کو فروخت کرنے کے لئے قرآنی آیات کے مفہوم سے ان کی جہالت کا استعمال کرتے ہیں، خواہ ان کا فتویٰ کتنا ہی غیر قرانی کیوں نہ ہو ۔ و اللہ اعلم با الصواب۔"[3]
4۔ "(انتہاء پسندوں کے فتوی میں) اپنے دفاعی میدان عمل میں سانپ، بچھو اور دیگر خطرناک کیڑے مکوڑے چھوڑنے اور (بچوں، عورتوں اور بوڑھوں) سمیت عام شہریوں اور خاص طور پر عام امریکیوں کو قتل کرنے جیسی لرزہ خیز کارروائیوں کا جواز پیش کیا گیا ہے۔"[4]
5۔ "لہٰذا، امن، ہم آہنگی اور عالمی بھائی چارے کے مذہب اسلام کو حیوانی تشدد اور ننگی دہشت گردی کے ایک فرقے میں تبدیل کرنے کے لیے عالمی سطح پر ایک نظریاتی جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔ اس کے خونی نتائج کی بات چھوڑ دیں اس لیے کہ یہ خود اسلام سے ایک بہت بڑی غداری اور اسلام کے خلاف ایک شیطانی سازش ہے۔ "[5]
کچھ مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں کہ 9/11 کے بعد سے یورپی ممالک اور امریکہ کے تمام بڑے دہشت گردانہ حملوں میں بمشکل ایک سو دہشت گرد ہی ملوث پائے گئے ہیں جن کی تقریبا دو سو ملین کی آبادی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے لہٰذا، اس صورت میں مندرجہ بالا تبصرہ کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ تعداد کی کمی سے قطع نظر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان شخص ممکنہ طور پر بنیاد پرستی کا شکار ہو سکتا ہے اور تن تنہاء یا بمشکل چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر کہیں بھی کسی بھی وقت کسی گروہ کے خلاف ہے اور کسی بھی ملک میں ایک خونی دہشت گردانہ حملہ انجام دے سکتا ہے۔ یہ عملی طور پر ہر مسلمان کو غیر مسلموں کی نظر میں اور بالخصوص مغربی اور مسلم اقلیتی ممالک میں رہنے والے لوگوں کی نظروں میں ایک ممکنہ 'بنیاد پرست' کی حیثیت سے پیش کر سکتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ داعش کی انتہائی ہولناک ویڈیو کلپ مغربی لوگوں کے دماغ میں مسلمانوں کا خوف پیدا کرتی ہے۔ لہذا، حتمی تجزیہ یہی ہے کہ بنیاد پرستی کا مقصد "امن، ہم آہنگی اور عالمی بھائی چارے کے مذہب اسلام کو حیوانی تشدد اور ننگی دہشت گردی کے ایک فرقے میں تبدیل کرنا ہے"۔ جیسا کہ راقم الحروف نے پہلے ہی بیان کر دیا ہے [5]۔ اب سوال یہ ہے کہ عام امن پسند اور ترقی پسند مسلمانوں کو بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔ اس مضمون کی سرخی سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے۔
عملی طور پر نام نہاد بنیاد پرست اسلام اس قدر خفیہ ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلمان کا پڑوسی یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار انتہا پسندی کا شکار ہو جائے اور عوامی مقام پر ایک دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہو تو کسی مسلمان کو کوئی اندازہ بھی نہیں ہوگا –اور حملوں کے لیے وہ جگہ کوئی مسجد، کوئی چرچ، کوئی کمیونٹی سینٹر، کوئی مال، شادی کی کوئی تقریب، جنازے میں موجود کوئی مجمع، میراتھن ریس کا کوئی فنشنگ لائن یا پھر بھرا ہوا آرکیسٹرا ہال بھی ہو سکتا ہے۔ روئے زمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے گزشتہ چند سالوں کے دوران مسلم ممالک کے خلاف انتہائی جدید ترین جنگی آلات اور بحری اور فضائی طاقت کے استعمال سے اس لعنت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اسی کے نتیجے میں حیوانیت پسند دہشت گرد تنظیم داعش کو جنم ہوا جو کہ بنیاد پرستی کی بیج بو رہی ہے۔ یہ تاریخ کا ایک عظیم المیہ ہے کہ اس کی وجہ سے پناہ گزینوں کی آمد کے ذریعے یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا جن کے ساتھ بنیاد پرست عناصر کا ان ممالک میں دخول ایک امر ناگزیر ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خطرے میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ لہذا، کیا کوئی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان مسلم ممالک کے خلاف پابندی، تشدد یا پیش بندی کے طور پر مزید تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے جن کے رہنما نظریاتی یا مالی طور پر دہشت گردی کی اعانت کر رہے ہوں گے –جیسا کہ کچھ انتہاء پسند اس کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری مچانے والے قابل نقل و حمل ہتھیاروں کو اسمگلروں کی خفیہ دنیا میں خیریدا جا سکتا ہے اور دن بہ دن یہ مزید مہلک ہو رہے ہیں۔ لہٰذا، بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری یا اجتماعی تعزیراتی اقدام کا نتیجہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے اضافہ کی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے -کسی کو کیا معلوم کہ دہشت گرد تنظیمیں اس کے لیے خود کو تیار کر رہی ہوں۔
چونکہ دہشت گردی کے حملوں اور انسداد دہشت گردی کے فوجی اقدامات کے متاثرین بنیادی طور پر مسلمان ہیں اور اجتماعی طور پر انہیں مشتبہ سمجھا جاتا ہے،خاموشی کے ساتھ انہیں ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے مذہب کے نام پر دہشت گردی کے لیے ان کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ان کی شخصیتوں کو داغدار کیا جاتا ہے اسی لیے ان کے مفادات سب سے زیادہ ہیں۔ لہذا، ان کا دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے خلاف جنگ میں صف اول میں ہونا ضروری ہے۔ راقم السطور نے پہلے ہی علماء (روایتی مبلغین) اور اسلام کے مذہبی علماء کو نشانہ بناتے ہوئے بے شمار مضامین سپرد قلم کیا ہے اور مذہبی (قرآن) اور ابتدائی اسلام اور تاریخی مثالوں کی بنیاد پر داعش اور اس کی ملحقہ جماعتوں کو اسلام خارج قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے [6-11]۔ لیکن وہ روایتی اور ترقی پسند اسلامی علوم میں اس پر کوئی بحث چھیڑنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، شاید اس کی وجہ ان کی انتہائی تکنیکی مذہبی مع تاریخی بنیادیں ہوں، اور یقیناً اس میں ایک مہلک ردعمل کا خوف بھی مضمر ہے۔ جیسا کہ اس منظرنامے سے تقریباً غائب اور پوشیدہ راقم الحروف کے برعکس، مسلم حلقوں میں پوری دنیا کے علماء اور مسلم اسکالر بڑے پیمانے پر دستیاب ہیں ، اور وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار کر کے اپنی زندگی کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے۔
جیسا کہ کچھ علماء برادری کے ذہنوں کو بھانپنا ناممکن ہے اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بہت سارے علماء کو اسلام اور انتہاء پسندی کے درمیان عدم تعلق کا بالکل ہی یقین نہ ہو اس مضمون میں ان مسلم تنظیموں کو مخاطب گیا ہے جو ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سخت الفاظ میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی مذمت کر چکے ہوں، کہ وہ تکفیری نظریات کی تمام مختلف شکلوں کو تار تار کرنے اور انہیں بے نقاب کرنے کے لیے مہم شروع کر دیں اور دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے اپنی پوری تونائیاں صرف کریں کہ اسلام ایک اجنبی یا خوفناک مذہب نہیں ہے بلکہ انتہا پسندی کا اسلامی تعلیمات سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔
لہٰذا خاص طور پر مغرب میں مسلم تنظیموں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کسی بھی مذہبی بنیادوں کی بنیاد پرستی کے (خونی تکفیری نظریے) کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک بنیاد پرستی مخالف روایت کو فروغ دیں اور انتہائی پریشان حال مسلم عوام اور حیران و ششدر مغربی دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں کہ یہ قاتلانہ نظریہ شیطانی دماغ کا نتیجہ ہے۔ اور یہ ہر ایک فردِ مسلم کے لیے واجب ہے کہ وہ شدت پسندی کی حالت میں مارے جانے والوں کو اسلامی تدفین سے محروم کر کے اپنے ایمان کے کسی بھی حصے کے طور پر انتہاء پسندی کی تردید کرے۔
چونکہ بنیاد پرستی کی بنیاد (قرآن میں مذکور) ہمارے مذہب کے کچھ بنیادی اصولوں کی غلط تشریحات اور کچھ دوسرے اصولوں کے انکار اور اسلام کے مقبول شرعی قانون اور اس کی الہی شریعت کے درمیان پیچ و خم پر ہے اسی لیے مجوزہ شدت پسندی مخالف روایتوں کی بنیاد مذہب کے مندرجہ ذیل اصولوں پر ہو سکتی ہے۔
I) ہم اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس کی تمام مومن لوگ کرتے ہیں۔
II) ہم دین میں کوئی امتیازی دعوی نہیں کرتے- خدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔
III) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے 23 برسوں کے دوران کبھی بھی کسی بھی شکل میں جبر کا استعمال نہیں کیا –آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بنیاد پرستی کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
VI) ہم تکثیریت، پرامن بقائے باہمی اور پوری انسانیت کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں یقین کرتے ہیں۔
V) ہم انسانی زندگی کے وقار اور اس کے تقدس پر یقین رکھتے ہیں۔
IV) ہم عالمی انصاف پر یقین رکھتے ہیں
VII) ہم عالمگیر انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔
VIII) بحیثیت مسلم ہماری بنیادی ذمہ داری انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔
IX) ہم اس زمانے میں اسلامی خلافت کے تصور کی حمایت نہیں کرتے۔
X) ہم نام نہاد اسلامی شرعی قانون کا مطالبہ نہیں کرتے۔
XI) ہمیں ہمسایوں اور اجنبی سمیت تمام لوگوں پر مہربان ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
XII) ہمیں پرانے دشمنوں کو معاف کرنے اور اجتماعی بھلائی کے لئے ان کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
XIII) ہم قرآن کے سیدھے راستےکی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اس کے بہترین معانی میں مضمر ہے۔
XIV) ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو لوگ قرآن یا کسی دیگر اسلامی کتابوں سے چنندہ حوالہ جات کا سہارا لیکر زمین پر فساد کا برپا کرتے ہیں وہ مذہب کے غدار ہیں۔
اس مضمون کے آخر میں راقم الحروف پیرس حملوں کے فورا بعد لکھی گئی اپنی تحریر کے مندرجہ ذیل اختتامی اقتباسات کے حوالے کے ساتھ بنیاد پرستی کے اپنے روحانی ابطال کی حمایت کرتا ہے اور بنیاد پرستی کو ایک شیطانی فرقہ قرار دیتا ہے۔
"خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی ایک ایسا نظریاتی کینسر ہے جس نے شیطان کو دہشت گردوں کے ذہن پر غلبہ حاصل کرنے کی شہ دے رکھی ہے۔ لہٰذا، ان کے تمام سنگین جرائم شیطان سے متاثر ہیں، اور اجانب بیزاری کے اپنے بھرم کی بنیاد پر وہ اسے ذات خدا وندی کے ساتھ خلط ملط کرتے ہیں- جو کہ انتہائی رحمٰن و رحیم ہے۔ دہشت گردی کا ارتکاب کرتے وقت ان کا نعرہ ‘‘اللہ اکبر’’ کے بجائے ‘‘شیطان اکبر’’ ہونا چاہیے (خدا اس لفظ کے استعمال کے لئے مجھے معاف فرمائے)۔ یہی وہ لوگ ہیں جو شاید شرک سے کہیں زیادہ سنگین گناہ کرتے ہیں- وہ اجانب بیزاری کے اپنے جنون کے نشے میں جو کہ اپنے تمام حدود کو تجاوز کر چکا ہے شیطان کی جگہ پر اللہ کا نام لیتے ہیں- تاہم خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مسلم علماء خلاف دستور اس انتہائی ناپاک اقدام کے خلاف کیوں احتجاج نہیں کر رہے ہیں، جبکہ یہی وہ علما ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں کارٹون یا کوئی رپورٹ میڈیا میں شائع کی جاتی ہے تو ان پر آسمان ٹوٹ پڑتا ہے۔ "[12]
راقم الحروف بنیاد پرستی کے علم بردار داعش کے لیے علماء برادری کی ایک خاموش ہمدردی یا اس جماعت سے ان کے خوف سے بھی اپنے سامعین کو آگاہ کرے گا (و اللہ اعلم بالصواب)۔ اس کا اظہار تب ہوتا ہے جب خود ساختہ خلیفہ البغدادی اور اس کے پیروکار بار بار یہ کہتے ہیں کہ "اسلام کبھی ایک دن کے لیے بھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے" تو ان کی جانب سے کوئی مضبوط آواز بلند نہیں کی جاتی ہے۔ اور یہ کہ "یہ ہمیشہ جنگ اور تنازعات کا ایک مذہب رہا ہے "۔ جیسا کہ نیو ایج اسلام کے بانی و ایڈیٹر سلطان شاہین نے اس کا حوالہ پیش کیا ہے۔ [13]
اس مضمون کا دوسرا حصہ جلد ہی پیش کیا جائے گا۔ جس میں مذہب کے مذکورہ معتقدات کے ضروری دلائل کو قرآن کی روشنی میں پیش کیا جائے گا جو کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں اور جماعتوں کے لیے اسلام کی بنیادی کتاب اور خدا کا مقدس کلام ہے۔ مجوزہ مہم کا مقصد قرآن کے نور سے برائی کی ظلمات کو ختم کرنا ہے اس لیے کہ صرف قرآن ہی اپنے بہتر دفاع کے لیے کافی ہے۔ اور اس کے دفاع کے لیے کسی ضمنی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین:
1. The Qur’anic Perspective on Jihad and Greater jihad: SOS to Global Muslim Community
2. Refutation Of Sheikh Yousuf Al-Abeeri's Fatwa Appearing In English Translation In New Age Islam Website Supporting Wanton Killing Of Innocent Civilians Under Special Circumstances And Thus Justifying The 9/11 Attacks - Part-1
3. Refutation Of Sheikh Yousuf Al-Abeeri's Fatwa Appearing In English Translation In New Age Islam Website Supporting Wanton Killing Of Innocent Civilians Under Special Circumstances And Thus Justifying The 9/11 Attacks - Part-4.
4. Refutation of Sheikh Yousuf Al-Abeeri's Fatwa Supporting Wanton Killing of Innocent Civilians – Part 7
5. A Comprehensive And Conclusive Refutation Of “Azan: A Call To Jihad - On The Road To Khilafah”
6. Call For International Fatwas To Declare The Terrorists Who Advocate Wanton Killing Of Innocent People In The Name Of Islam As ‘Terrorist Apostates’, Like The Kharijites Of Early Islam
7. Declare The ISIS As The Kharijites (Those Who Seceded From Islam) As This Article Demonstrates And Declares: Global SOS To The Ulama, Muftis, Intellectuals And Scholars Of Islam
8. The ISIS And Its Likes – The Muslim Violent Extremists Of This Era Must Be Outlawed On Historical Precedent To Save The Middle East From A Tsunami Of Bloodshed And The World From A Clash Of Civilizations
9. Countering Violent Terrorism – Muslim Community Leaders Must Warn Youngsters against the Dangers of Radicalization
10. Countering Violent Extremism – Muslim Ulama And Custodians Of Faith Must Avert A Potential Holocaust
11. The Heinous Crimes That ISIS Is Perpetrating Totally Opposed To Islam And Those Killed Fighting For ISIS May Earn Divine Wrath Instead Of Paradise And ‘Hurs’ – An SOS To All Mosque Imams
12. The Shamelessness of Ulema of Islam in Bearing with the Penultimate Blasphemy by ISIS Brutes without a Thunderous Global Protest Is Despicable
13. Open Letter to Maulana Firangimahali: Why Do Moderate Ulema Stay Silent When Terrorists Claim - 'Islam Has Never Been A Religion Of Peace, Not Even For A Day'?
URL for English article: hhttps://newageislam.com/radical-islamism-jihad/radicalism-under-banner-islam-mutation/d/109310
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/radicalism-under-banner-islam-part-1/d/109424
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism