محمد یونس، نیو ایج اسلام
23 مئی 2017
(مشترکہ مصنف (اشفاق اللہ سید کے ساتھ)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشنز، امریکہ، 2009)
میرا یہ مضمون NALSAR یونیورسٹی آف لاء کے وائس چانسلر فیضان مصطفی کے مورخہ 20 مئی کو شائع ہونے والے مضمون (Supreme Court as Clergy) اور 11 مئی کو اور تین طلاق کے مسئلہ پر جنوری 2012 میں شائع ہونے والے ان کے متعدد مضامین کے جواب میں ہے جن کا حوالہ ذیل میں پیش کر دیا گیا ہے۔
اسلام کے بارے میں بعض عالمگیر حقائق اور مراسم بحث و مباحثہ سے پرے ہوتے ہیں اور انہیں نہ تو مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی توثیق کی ضرورت ہے خواہ وہ ایمان کے ضروری یا غیر ضروری اجزاء ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن ایک ہی خدا کی تعلیم دیتا ہے۔ مسلمان اپنی روز مرہ کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو نماز شروع کرنے سے پہلے وضو (یا تیمم) کرنا ضروری ہے۔ قرآن غذا کے طور پر خنزیر کا گوشت حرام قرار دیتا ہے۔ قرآن نے نوزائیدہ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے رواج کو ختم کر دیا ہے۔ قرآن نے فوری طور پر تین طلاق کے رواج کو بھی ختم کر دیا ہے اور طلاق کے لئے ایک وقت کی حد کا تعین کیا ہے۔ قرآن واضح طور پر معروف قریبی تعلقات کے درمیان ازدواجی تعلقات کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
اب اگر کوئی مذہبی رہنما یا کوئی سیکولر شخص بھی مذکورہ بالا احکام میں سے کسی ایک کی بھی نفی کرتا ہے تو وہ محض قرآن پر افتراء باندھتا ہے یا مکمل طور سے قرآن کی تعلیمات سے نا واقف ہے۔
اس سے فوری طور پر تین طلاق کے تناظر میں مضمون کے اندر اس بیان میں مضمر متعدد سوالات اجاگر ہوتے ہیں: اسے [کورٹ کو] یہ فیصلہ کرنے میں مہارت حاصل نہیں ہے کہ مذہب کی کون سی رسم غیر ضروری ہے اور کون سی ضروری ہے۔ یہ خالصتا مذہبی سوالات ہیں اور انہیں مذہبی رہنماؤں پر ہی چھوڑ دینا بہتر ہے۔"
اس بیان میں خامی یہ ہے کہ 1) اس میں ‘مذہبی رہنما’کی وضاحت نہیں کی گئی ہے 2) اس میں اس امر کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے کہ قرآن کسی بھی مذہبی رہنما طبقے یا کسی دوسرے ادارے کو اس کے پیغام کی تشریح کرنے کا حقدار تسلیم نہیں کرتا۔
آئینی طور پر تین طلاق کو غیر آئینی قرار دینے پر راقم الحروف کی مسلسل وکالت کی دلیل کی بنیاد تین طلاق کی شکار غریب مسلم خواتین پر ہمیشہ کے لیے ایک مہلک اور تباہ کن اثرات کا مرتب ہونا ہے۔
ایسی صورت میں پلک جھپکتے ہی وہ اپنا شوہر، اپنے بچوں، اپنے گھر بار، اپنا مقام و مرتبہ اور اپنا ذریعہ معاش سب کچھ کھو دیتی ہیں۔ وہ اپنے تمام قرآنی حقوق سے محروم کر دی جاتی ہے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کی جاتی ہے۔ ذلت و رسوائی کے ساتھ انہیں غیر انسانی برتاؤ کا سامنا ہوتا ہے، زبردست جھٹکا، صدمے اور اس قدر ذہنی اذیت پہنچتی ہے کہ اگر وہ زندہ دفن کر دی جاتیں تو بھی اس سے کم ہی تکلیف ہوتی۔ اس کے علاوہ زندہ دفن کی جانے والی عورت کے برعکس فوری طور پر تین طلاق کا شکار ہونے والی عورت کو تاحیات بدنامی، رسوائی اور محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی تین طلاق کی شکار عورت کو زندہ دفن کی جانے والی عورت سے کہیں زیادہ شدید نقصان اٹھانے ہوتے ہیں –یہی موازنہ ہندوستان کے سابق مرکزی وزیر محمد عارف محمد خان نے ایک حالیہ عدالتی سماعت کے دوران پیش کیا تھا۔
مذکورہ بالا گفتگو کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ 'عدالت' کو تین طلاق کے معاملے میں ضروری اور غیر ضروری امور کا فیصلہ کرنے کی مہارت نہیں ہے۔ جج کوئی روبوٹ نہیں ہیں۔ وہ بھی انسان ہی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ مسلم علماء ایک ایسے معاملے میں کیا کہتے ہیں جو قرآن (مسلمانوں کی مقدس کتاب) کے پیغام اور عالمگیر انسانی اقدار سے واضح طور پر متصادم ہے اور انصاف، رحم دلی، ہمدردی کے عظیم تصورات کے خلاف ہے جو کہ انسانوں کو حیوان سے ممتاز کرتے ہیں –عدالت یہ تو یقیناً کہہ سکتی ہے کہ اس قسم کے مراسم و معمولات ‘اسلام اور دیگر مذاہب میں بھی’ ضروری نہیں ہو سکتے۔
ہمیں عمرانہ [06 جون ، 2005] کا معاملہ نہیں بھولنا چاہیے۔ جس کی آبروریزی اس کے سَسُر نے کی اور مقامی علماء نے اس بدکار کو عصمت دری کی شکار خاتون کا جائز شوہر میں بنانے کے لیے فقہ حنفی کا سہارا لیا۔ سپریم کورٹ نےاس معاملے کو مذہبی رہنماؤں پر نہیں چھوڑا۔ بلکہ عدالت نے اس معاملے میں مداخلت کی اور بدکار سَسُر کو مناسب سزا دی۔
عمرانہ کی ان بے شمار بہنوں کے بارے میں ذرا غور کریں کہ جن نے شوہر نشہ یا غصے کی حالت میں فوری طور پر طلاق دیدیتے ہیں پھر انہیں اپنے کسی دوست سے شادی اور اس کے ساتھ جماع پر مجبور کرتے ہیں، پھر اس دوست سے بھی اس کا طلاق کرواتے ہیں اور دوبارہ پھر ان سے شادی کر لیتے ہیں۔ اور یہ تمام معاملات محض چند دنوں میں ہی طے کر لیے جاتے ہیں –یہ مسلم پرسنل لاء کے دائرہ میں حقوق انسانی کتنی بڑی خلاف ورزی ہے۔ کیا عدالت اس معاملے کو ایسے علماء کے حوالے کر دے گی جنہیں اسلام کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کرتا۔
نکاح نامہ میں یہ شق ‘‘کہ اس نکاح کو تین طلاق سے فسخ نہیں کیا جائے گا’’شامل کرنے کی فاضل پروفیسر کی تجویز پر راقم الحروف پھر یہی کہے گا کہ اس بات کی تصریح کرنے کا مطلب مرد کے حقوق پر پابندیا عائد کرنا ہو گا، جو کہ عملی طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور اس معمول کا سہارا لے سکتا ہے جو کہ ایک قسم کی صنفی دہشت گردی ہے جیسا کہ میں نے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں تفصیل کے ساتھ اس پر گفتگو کی ہے [1]۔ بہ الفاظ دیگر فوری طور پر تین طلاق کے عمل کو نکاح نامہ میں قبل از نکاح کے معاہدے کے طور پر شامل کرنے کے بجائے اسے آئینی طور پر غیر قانونی اور قانون کی میں ایک قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔"[5]
راقم الحروف جو کہ ان لوگوں کی دلیلوں پر گہری نظر رکھ رہا ہے جو مسلم پرسنل لا میں یا نکاح نامہ میں ایک مانع شق طور پر 'تین طلاق' کو برقرار رکھنے پر بضد ہیں، اور جو مسلسل ایسے لوگوں کے خلاف دلائل پیش کر رہا ہے، اب یہ کہنے پر مجبور ہے:
اپنے حالیہ حلف نامہ میں قرآن کے بارے میں جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنے موقف کو ثابت کرنے میں ناکام ہونے کے بعد جیسا کہ میڈیا نے رپورٹ کیا اور راقم الحروف نے بھی اپنے آخری دو مضامین [3-5] میں اس کا پردہ فاش کیا ہے، تین طلاق کو ایک اسلامی رسم کہنے والوں نے اپنے موقف کی حمایت کے لیے ایک پیچیدہ قانونی دلیل کا سہارا لیا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پیچیدہ فتووں کی یاد دہانی ہے جو مختلف دور کے مختلف علماء کرام کی رائے کا حوالہ دیں گے اور ان کے نظریات قبول کرنے پر ایک عام قاری کو مجبور کریں گے، لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں اور یہی حال ان کا بھی ہے جو فوری طور پر تین طلاق کی حمایت کرتے ہیں جس کی تفصیلات میں نے ذیل میں محولہ اپنے مضامین میں درج کی ہے:
................................................................
AIMPLB Advocates Of Instant Triple Talaq Are Gender Terrorists And Traitors Of Islam And May Be Sued For Human Rights Violation Under Cover Of Religion
This is this writer’s 7th article on the subject consistently advocating constitutional invalidation of triple Talaq:
[1] Qur’anic Sharia (Laws) On Divorce: Triple Divorce, Temporary Marriage, Halala Stand Forbidden (Haram)
[2 ] The Medieval-Era-Rooted, Qur’an-Conflicting Muslim Personal Law (Sharia Law) Must Be Reformed To Avoid Injustices to Muslim Women – An SOS to the Indian Ulema Fraternity
[3] Indian Muslim Ulema Who Insist On Retaining the Anti-Qur’anic Triple Talaq (Instant Divorce) In Muslim Personal Law Are Sinners, Haters of Their Women-Folk and Criminals and Must Be Resisted
[4] Supreme Court Has Already Declared Triple Talaq Invalid – So What Is the Need for the Recent Petition to the Supreme Court
[5] Triple Talaq Must Be Invalidated Constitutionally and Criminalized – Inclusion of Prohibitive Clause in Nikahnama Could Allow Its Perpetuation by Defaulters
----
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL for English article: http://www۔newageislam۔com/islam,-women-and-feminism/muhammad-yunus,-new-age-islam/judges-are-not-robots-with-encyclopaedic-juristic-knowledge-and-no-heart,-intellect-or-common-sense-or-sense-of-justice/d/111252
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/judges-robots-with-encyclopaedic-juristic/d/111422
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism