محمد یونس ، نیو ایج اسلام
محمد یونس ، شریک مصنف (اشفاق اللہ سید کے ساتھ) ،اسلام کا اصل پیغام ،
آمنہ پبلکیشنز ، یو ایس اے 2009
26مئی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ: غلام رسول،
نیو ایج اسلام)
ایک مقالہ جس کا پڑھنا ہر
غیرعرب مسلم کے لئے ضروری ہے۔
اور جو قرآن کریم کے پارۂ
عم ّکے ان اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے جنہیں ہر مسلمان اپنے بچپن میں محنت و مشقت کے
ساتھ پڑھتا ہے ۔
یہ مضمون تمام عالم انسانیت
کو بلا تفریق مذہب وملت ،ان بنیادی اخلاقی فرائض کی دعوت دیتا ہے جو تمام آسمانی مذاہب
کا حقیقی جو ہر ہیں ، حتیٰ کہ باشعور ملحدین بھی ان کی علمبرداری کرتے نظر آتے ہیں
۔
یہ ایک دعوت فکر ہے ان مولویوں
، ائمۂ مساجد او رعلما کے لئے جو عام مسلمانوں
کو قرآن کریم کی تلاوت تک محدود رکھتے ہیں اور انہیں اس کے حقیقی مفہوم سے نابلد رکھتے
ہیں:
‘‘جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز
دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ سن نہ سکے ۔ (یہ) بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں کہ (کچھ) سمجھ ہی نہیں سکتے’’
بہت ہی کم مسلم گھرانے ایسے ہوں گے (نو مسلموں کے استثنا کے ساتھ) جہاں بچوں کو قرآن کے آخری پارہ ٔعمّ کی تلاوت
نہ سکھائی جاتی ہو ، اس جز میں 114 ۔ 78چھوٹی
چھوٹی سورتیں پائی جاتی ہیں جن کی ابتدا مکی دور کے اوائل ( 613/612۔610) سے ہوئی تھی (مگر ان میں 98ویں اور 110ویں سورتیں مستثنیٰ ہیں)
غیر عرب دنیا میں ایسے خاندانوں
کی تعداد نسبتاً بہت کم پائی جاتی ہے جن میں،
چھوٹے بچے تو درکنار ، جوان مرد عورت بشمول ان حضرات کے جو مدارس کی روایتی تعلیم کے
حامل ہوتے ہیں، ان سورتوں میں بیان کئے گئے
اخلاقی فرائض سے آشنا ہوں ، حالانکہ یہ لوگ
ان سورتوں کو جمعہ کی نماز کے علاوہ اپنی روز مرّہ کی نمازوں میں سیکڑوں مرتبہ سنتے
اور تلاو ت کرتے ہیں۔
اس مقالہ کا مقصد یہ ہے کہ
ان سورتوں میں پنہا ں اخلاقی اصول وخطوط کو اجاگر کر کے موجود ہ غیر عرب مسلم قارئین
کو قرآن کے ان بنیادی اخلاقی فرائض سے متعارف کیا جائے جو بتدریج نزول وحی کے ساتھ
ساتھ واضح اور وسیع ہوتے گئےاور ایسا بالخصوص مدنی دور ( 632۔622)
میں ہوا۔ چونکہ مذکورہ سورتیں تاریخی ،
سیاسی، سماجی اور قانونی حیثیت سے وحی کے تشکیلی دور یعنی مدنی دور (632۔622)
سے قبل کی ہیں۔ اس لئے ان کے مخاطب بلا امتیاز مذہب وثقافت دنیا کے تمام انسان
ہیں (1)
لہٰذا یہ انکشاف پوری انسانیت اورمسلم وغیر مسلم سب کے لئے سود مند اور بار
آور ثابت ہوسکتا ہے ۔
(1) ابتدائی وحی کی وسعت اور
اس کا ایجنڈہ :
شروع میں نازل ہونے والی وحی الٰہی کا بنیادی ہدف قرآن
کے ابتدائی مخاطبین یعنی کفار عرب کے اعتقادات و اوھام کو چیلنج کرنا تھا۔ یہ لوگ اپنی
بت پرستی اور قبائلی روایات کو سر مایۂ افتخار سمجھتے تھے۔وہ حشر نشر اور خدا کی بارگاہ
میں اعمال کے حساب وکتاب کے عقیدہ کو نہیں مانتے تھے۔ وہ وحی کے بارے میں گہرے شک میں
مبتلا تھے اور اسے گڈمڈ قسم کے بے ترتیب خوابوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے (21:5) وہ لوگ اس فکر سے متفق نہ ہوسکے کہ خدا محمد
( صلی اللہ علیہ وسلم) جیسے معمولی انسان کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجے گا (
43:31)۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ وحی کے ابتدائی دور میں ، جس سے قرآن کا آخری پارہ متعلق ہے، وحی کا ایجنڈہ بالکل مختلف تھا، جو صرف اپنے پیغام کو تفصیل سے سمجھانے تک محدود
نہ تھا۔ چنانچہ اس وقت کی بیشتر سورتیں وجودیات سے متعلق مباحث ، جہنم کے عذاب کے مناظر
، جنت کی لطافتوں اور ان خطاکار قبائل کے انجام کی طرف اشارات وکنایات سے متعلق ہیں
جن سے عرب شناسا تھے ۔ علاوہ ازیں خدا کی حمد کا بیان اور وحی کی حقانیت کا ذکر بھی
ان میں شامل تھا۔ وحی کی خدائی اصل کو ثابت کرنے کےلئے ان سورتوں کو اسی زبان میں پیش
کیا گیا جو ناقابل تسخیر جمال، پرُ اسرار نکات (حیرت و استعجاب اور خوف سے بھرپور) باقاعدہ اتار
چڑھاؤ ، دور رس غنائیت کی حامل ہے اور جس میں مر تعش لفظی تصویریں اور مضبوط وپائیدار
اور پیچیدہ قسمیں اپنے مضامین کو تائید و توثیق کرتی نظر آتی ہیں۔ ان خصوصیات کی کوئی بھی دیگر تشریح مقصد کی تکمیل
نہیں کرسکتی کیونکہ قرآن کریم کے پیرایۂ بیان کی لطافت اوور اس کے جمال کو قید تحریر
میں لانا ناممکن ہے ۔ کسی اجنبی زبان میں
کلاسیکی کام کی بات تو چھوڑیئے ، قرآن
کریم پوری کائنات میں عزلی نثر کا عمدہ ترین نمونہ ہے ( 2) ذیل میں ہم قرآن کریم کی 81ویں سورہ (التکویر)
کو اس کے اسلوب بیان کی مثال کے طور
پر پیش کررہے ہیں :
جب سورج کی دھوپ تہہ ہوجائے (81:1) اور جب تارے میلے ہوجائیں (2) اور
جب پہاڑ چلائے جائیں (3) اور جب بیاتی اونٹنیاں
چھٹی پھریں (4) اور جب جنگل کے جانوروں میں
رول پڑ جائے (5) اور جب دریا جھونکے جائیں(6)
اور جب روحوں کو جسموں کے ساتھ جوڑ دیا جائے (7)
اور جب زندہ گاڑدی گئی بیٹی سے پوچھا
جائے ( جیسا کہ کفار عرب کیا کرتے تھے)
(8) کہ کس گناہ میں وہ ماری گئی ؟ (81:9)
(2) قرآن کریم کا وسیع تر ایجنڈہ :
ابتدائی مرحلہ میں قرآن کو
ایک بہت بڑا چیلنج درپیش تھا، اور وہ تھا انسانیت
کو تاریکی (دور جاہلیت ) سے باہر نکال کر روشنی (روشن خیالی کے دور) کی طرف لانا
(14:1) انسانوں پر سے ان کے بوجھ اور ان قیودکو اتارنے کے لئے جو ان پر پہلے
تھے ( 7:157)
یہ امرا س بات کا متقاضی تھا
کہ وہاں پھیلے ہوئے غیر منصفانہ ، قبائلی ، جاگیردانہ ، ظالمانہ اور خود مختار انہ نظام اور متعذر ممنوعات
کا خاتمہ کیا جائے اور ان کی جگہ خدا کے بنائے ہوئے منصفانہ ، جنسی طور پر غیر جانبدار انہ ، مساویانہ اور نرمی ورحم دلی سے بھرپور صحیح اخلاقی
قوانین (الدین القیم98:5، دین الحق 9:29) کا
نفاذ کیا جائے اور انسانی روح کو آزاد رکھا جائے ۔ یہی وہ مقصد تھا، جس کی تکمیل الہٰی ہدایات کے زیر سایہ ( ھدی اللہ 2:120) ہونی تھی اور جس کے ذریعہ صحیح راستہ (الصراط المستقیم 36:4، 1:6) تک پہنچنا مقصود تھا۔
قرآن نے اپنے ظہور کے دن
سے ہی اس وسیع وہمہ گیر مشن کے مد نظر ہدایت الٰہی کے تصور کی ترجمانی کی ہے۔چنانچہ
دوسری وحی (زمانی ترتیب کے لحاظ سے ) جس میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( انہیں مدثر
کے لقب سے پکارتے ہوئے) اپنے مشن کے اعلان
کا حکم دیا گیا تھا، وہ اخلاقی اصول کی گہرائی
لئے ہوئے ہے (6/74:5)
اے لحاف میں لپٹنے والے (مدثر)
(اپنے افکار میں) (74:1) کھڑےہوجاؤ پھر ڈرسناؤ (اپنے لوگوں کو ) 2۔ اور اپنے رب کی بڑائی بولو (3) اور اپنے نفس باطن کو صاف رکھو (کپڑوں کو)
(4) اور گندگی سےدور رہو (5) احسان
کر کے بدلہ نہ چاہو (6) اور اپنے رب سے امید رکھو (74:7)
مندرجہ ذیل آیات میں بھی
ہدایت الہٰی یا اخلاقی فرائض کے بعض پہلوؤں
پر زور دیا گیا ہے:
78:31 ‘‘بے شک متقین (اخلاقی طور پر دیانتدار لوگ) کو ان کی
مراد ملنی ہے’’
79:40-41اور جو شخص اپنے رب
کے سامنے ڈر تے ہوئےکھڑا ہو اور اس نے اپنے نفس کو خواہشوں سےروکا ہو (79:40)
ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہی ہے (79:41)
83:1-3 تباہی ہے گھٹانے والوں کے لئے ( 83:1) وہ لوگ کہ جب ماپ کرلیں لوگوں سے تو پورا بھرلیں (2) اور جب ماپ کردیں ان کو یا تول دیں تو گھٹادیں (83:3)
(نوٹ: موجودہ تناظر میں جب کہ افراط زر نے قدیم مبادلہ کے نظام کو بدل
کر رکھ دیا ہے، اس آیت کا اطلاق چیزوں اور
سامانوں کی رقم کی صحیح ادائیگی پر ہوگا)
84:25‘‘ (لوگوں کے لئے ایک
ہولناک عذاب تیار رکھا ہوا ہے) مگر وہ لوگ
جو یقین لائے اور نیک عمل کئے ، ان کے لئے
بے انتہا ثواب ہے’’۔
85:11‘‘ بے شک جو لوگ ایمان لائے نیک عمل کئے ، ان کے لئے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، یہ ہےبڑی کامیابی
’’
87:14-15‘‘بے شک کامیاب ہوا وہ شخص جس نے تزکیہ کیا (یعنی جس نے اپنی حقیر نفسانی خواہشات کو دبا کر
اپنے نفس کا تزکیہ کیا ( 87:14) اور اس نے اپنے رب کا نام لیا اور پھر نماز پڑھی’’
89:14-20‘‘بے شک تمہارا پروردگار تاک میں ہے (87:14)
مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ ) جب اس
کو اس کا پروردگار آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا ہے اور نعمت بخشتاہے ،تو کہتا ہے کہ
میرے پروردگارنے مجھے عزت بخشی (15) اور جب
(دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی
تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے!) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا ( 16) نہیں بلکہ
تم لوگ یتیم کی خاطرنہیں کرتے (17) اورنہ مسکین
کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو (18) او رمیراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو (19)
اور تم مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو (20)’’
90:10-16‘‘ہم نے اس کو (انسانیت
کو ) دونوں راستے (خیر وشر کے )
دکھا دیئے (10) مگر وہ گھاٹی پر سے ہوکر نہ گزرا ( 11) اور
تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا ہے؟ (12) کسی کی گردن کا چھڑانا (13) یا بھوک کے دن کھانا کھلانا (14) یتیم
رشتہ دار کو (15) یا فقیر خاکسار کو (16) پھر ان لوگوں میں بھی داخل ہو جو ایمان لائے اور
صبر کی نصیحت اور (لوگوں پر ) شفقت کرنے کی وصیت کرتے رہے (17) یہی لوگ صاحب سعادت ہیں ’’ (90:18)
91:7-10‘‘اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے نفس )
کو برابر کیا (90:7) پھر اس کو بدکاری (سے بچنے )
اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی (
8) کہ جس نے اپنے نفس (یعنی روح ) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا (9) اور
جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارہ میں رہا’’ (91:10)
92:17-20‘‘ اور جو بڑا پرہیز گار ہے وہ اس سے (جہنم کی آگ سے) بچا لیا جائے گا ( 17) جو مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو ( 18) اور اس لئے نہیں (دیتا کہ )
اس پر کسی کا احسان (ہے) جس کاوہ بدلہ
اتار تا ہے (19) بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کےلئے دیتا ہے ( 92:20) اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا’’ (92:21)
94:4-6 ‘‘ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا (95:4)
پھر رفتہ رفتہ اس (کی حالت ) کو ( بدل
کر) پست سے پست کردیا (5) مگر
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے بے انتہا اجر ہے ( 95:6)
96:6-14 بے شک انسان سرکش ہوجاتا ہے ( 96:6)
جب کہ اپنے تئیں غنی دیکھتا ہے (
96:7) کچھ شک نہیں کہ اس کو لوٹ کر تمہارے
پروردگار ہی کی طرف جاناہے (96:8) بھلا تم
نے ا س شخص کو دیکھا ( اے محمد!) جو منع کرتا
ہے (96:9) یعنی ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے
لگتا ہے ( 96:10) بھلا دیکھو تو اگر یہ راہ راست پر ہو ( 96:11)
یا پرہیزگاری کا حکم کرے ( تو منع کرنا
کیسا؟) ( 96:12) اور دیکھو (اے محمد!) اگر اس نے دین حق کو جھٹلا یا اور اس
سے منھ موڑا ( تو کیا ہوا) ( 96:13)
کیا اس کو معلوم نہیں کہ خدا دیکھ رہا
ہے ؟ ( 96:14)
مفسرین کا اس بات پر اتفاق
ہے کہ ‘‘وہ شخص ’’ جس کی طرف ان آیتوں میں خاص اشارہ کیا گیا ہے، اس سے مراد ‘‘ابو
جہل’’ ہے، جومکہ کا وہ قدآور لیڈر تھا جس نے وحی الٰہی کی شدو مدّ کے ساتھ مخالفت
کی تھی۔ اسی طرح یہ آڑی ترچھی تاریخی وضاحیتی
عدم تشدد کے اصول کے ترجمانی کرتی ہیں۔ او
روہ یہ ہے کہ جب ایک عبادت گزار کو کوئی ظالم عبادت کرنے سے روکے تو وہ بجائے اس کے
کہ اس ظالم سے ٹکرائے ،اپنا معاملہ خدا کے
حوالے کردے جو ہر چیز دیکھتا ہے اور جانتا ہے ۔
99:6-8اس دن لوگ گروہ در گروہ ہوکر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال
دیکھا دیئے جائیں (99:6) تو جس نے ذرہ بھر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ( 99:7)
100:6-8 ‘‘ بلاشبہ انسان اپنے پروردگار کا احسان ناشناس ( نا شکرا )
ہے( 100:6) او وہ اس سے آگاہ بھی ہے
( 100:7) کیونکہ وہ تو مال سے سخت
محبت کرنے والاہے ’’ (اور وہ اسے محتاجوں میں
نہیں بانٹنے والا ہے خدا کے حکم کے مطابق )
( 100:8)
103:2-4‘‘بے شک ! انسان گھاٹے
میں ہے ( 103:2) مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ( 103:3)
اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ’’ (
103:4)
04:1-41.ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے چغل خو ر کی خرابی ہے ( 104:1)
(اور بربادی ہے ) اس شخص کے لئے جو
مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے
( 104:2) اور وہ خیال کرتا ہے کہ اس
کا مال اس کی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہوگا
(104:3) ہر گز نہیں وہ ضرور حطمہ میں
ڈالا جائے گا (حشر کے دن ) ( 104:4)
107 ‘‘ بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا کو جھٹلا تا ہے؟
( 107:1) یہ وہی بدبخت ہے جو یتیم کو
دھکے دیتا ہے (2) اور فقیر کو کھانا کھلانے کےلئے (لوگوں کو )
ترغیب نہیں دیتا (3) تو ایسے نماز یوں
کو لئے تباہی ہے (4) جو نماز کی طرف سے غافل
رہتے ہیں (5) جو ریاکاری کرتے ہیں (6) اور (دوسروں کی)
مدد کرنے میں پیچھے رہتے ہیں (
107:7)
تنبیہہ:
مندرجہ بالا آیات منقطع اور
خشک ہیں اور انہیں موضوعاتی انداز میں نہیں رکھا گیا ہے، اگر چہ یہ ان بنیاد ی اخلاقی
فرائض وواجبات اور ان موضوعات کااحاطہ کرتی ہیں جنہیں قرآن کے فرمان کے مطابق ہمیں ہلکے سے نہیں لینا چاہئے
( 86:14) قرآن کریم جو کہ اس گفتگو
میں شامل حصہ سے 30گنا زیادہ حصوں پر مشتمل
ہے، اپنے پیغام کو واضح اور متعین کرنے کےلئے ہر قسم کی تشبیہ وتمثیل (39:27،30:58، 18:54: 17:89)
اور تشریح ( 50:2، 38:5)
پیش کرتا ہے ۔ قرآن کے مخاطبین انتہائی ضدی اور اڑیل قسم کے لوگ تھے جنہیں بار بار
وعظ ونصیحت اور پند وموعظت کی ضرورت پڑتی ، تب جاکر وہ قرآنی پیغام کو سنجیدگی
سے لیتے، یہ لوگ دراصل کفار مکہ ، بدوی عرب اور عرب یہودی او ر عرب عیسائی تھے مگر
موجودہ دور کے مسلمان ، چند نو مسلموں کو چھوڑ کر ،سب پیدائشی مسلمان ہیں ۔ انہیں اس
موضوع پر بمشکل ہی کسی تاریخی و کتابی تشریح یا بار بار یاد دہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔لہٰذا
پیش کردہ تشریح سے ان کے اذہان وعقول روشن ہوسکتے ہیں بشر طیکہ وہ اس میں کھلے دماغ
سے غور وخوض کریں ۔ تاہم آج کے وسیع الذھن
قارئین کی تفہیم کے لئے، ذیل میں مندرجہ ذیل بالا آیات کے مباحث کا مزید خلاصہ موضوعاتی
اسلوب میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس کا آغاز چار
بنیادی اصول سے کیا جارہا ہےجس کے بعد ان اوصاف وخصائل او ررویوں کا ایک خاکہ پیش کیا جائے گا جو قرآن کے پیغام سے متصادم
ہیں۔
4.1 اعمال حسنہ (عملوا الصٰلحت)
:
وہ مومنین جو اعمال صالحہ
پر چستی سے کار بند ہیں ۔ ان سے عظیم انعامات
( 84:25,85:11) کا وعدہ کیا گیا ہے،
اور اس بات کا کہ یہ لوگ ناکام ونامداد نہیں
ہوں گے (103:2) جیسے جیسے مدنی دور میں وحی الٰہی نازل ہوتی گئی،
مذہبی وابستگی سے قطع نظر اعمال حسنہ کی ادائیگی
ہی خدا کی خوشنودی اور جنت کے حصول کا معیار بن گئی۔ (4)
4.2 تقوی:
تقویٰ اخلاقی راست بازی کے
مثبت انسانی جذبات کا مظہر ہے جو انسان کے اخلاقی فساد کے منفی جذبات کے متوازی ہے ( 91:8)
چنانچہ متقی (جو تقویٰ پر عامل ہو) وہ شخص قرار دیا جائے گا جو اپنے آپ کو ہر قسم
کی برائیوں ،بے اعتدالیوں اور شیطانی تحریکات سے دور رکھے او رجو اپنی عالمی، سماجی،
اخلاقی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے ہمہ وقت آگاہ ہو(5) قرآن نے تقویٰ کو اپنے ان احکامات
کے ساتھ مربوط کیا جو بعد کی وحی میں آنے والے تھے ( جس کا احاطہ اس محدود تشریح میں نہیں ہوسکتا )
او رمتقین کے لئے خدا کی بارگاہ سے مقبولیت اور انعام واکرام کا وعدہ کیا۔
(78:21)
تزکیہ:
تقویٰ او راعمال حسنہ کی طرح
تزکیہ بھی قرآن کا ایک آفاقی اصول ہے، جو قرآن کے پورے متن کو محیط ہے۔ تقویٰ سے
بالکل ہم آہنگ تزکیہ ایک حساس انسانی کوشش کا نام ہے جس کے ذریعہ حقیر خواہشات کو
دبا کر انسانی نفس کی تطہیر کی جاتی ہے
(91:9، 87:14) لفظ زکوٰۃ کی جمع ‘‘زکات
’’ جس کی تشریح وحی الٰہی کے آخری دور (مدنی
دور) میں کئی گئی ،یہ زکاۃکی ادائیگی کے طریقوں
میں سے ایک ہے ۔ تاہم قرآن نے لفظ ‘‘زکاۃ’’ کو ہر قسم کے فلاحی وخیراتی کاموں کے لئے
استعمال کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآنی الفاظ کا ذخیرہ انتہائی بیش قیمت ہے ۔ چنانچہ اس
کے اہم بنیادی فرائض (تقویٰ ، تزکیہ، اعمال
صالحہ) کے معانی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں
،جو سیاق وسباق اور لسانی کیفیت پر مبنی ہیں ۔ کیوں کہ بیشتر قرآنی الفاظ کسی ایک
ہی مشترکہ اصل سے مشق ہوتے ہیں ۔مفسرین نے ان الفاظ اور ان کے مشقات کی تشریح اپنے
اپنے تفسیری مصادر و مراجع ،لغات ومعاجم ،قیاس آرائیوں اورعقلی فیصلوں کی رو سے کی
ہے، اگر چہ اللہ ہی اپنے کلام کو سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے اور قرآن کریم اس ضمن
میں سب سے بہتر ین مثال پیش کرتا ہے ( 25:33)
ارادے کی آزادی:
قرآن نے دو اہم شاہراہوں
کی تمثیل (90:10) پیش کرتے ہوئے اور اخلاقی راست بازی و اخلاقی فساد
کے درمیان نفس انسانی کی گردش کاذکر کرتے ہوئے
(تقویٰ 91:8) خدا کی عطا کردہ آزادیٔ
ارادہ کو بیان کیا ہے ، یعنی یہ کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہے کہ وہ چاہے تو
صحیح راستہ اختیار کرے یا دنیا کی کس دوسری راہ میں گم ہوجائے۔ چونکہ یہ آزادی ایک خدائی حکم ہے، اس لیے یہ خدا
کے ارادے کی جانب توجہ منعطف کرتی ہے ( 18:29)
تاہم چو نکہ خدا کی ذات تمام تر انسانی نسبتوں سے ماورا سے ،ا س لئے اس اصطلاح
کا استعمال انسانی طرز پر خدا کے لئےنہیں کیا
جاسکتا اور ‘‘ارادۂ قدرت’ کے تصور کو سمجھنے کی ہر کوشش زیادہ سے زیادہ قیاس آرائی
پر مبنی قرار دی جائےگی۔
4.5 وہ عادات وخصائل جو قرآنی
پیغام سے متعارض ہیں:
طعن آمیز اشارے کرنا اور
چغل خوری کرنا (104:17)
یتیموں (اور محتاجوں) کے ساتھ
سخاوت نہ کرنا (89:17)
یتیموں اور محتاجوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کی ترغیب نہ دینا (107:3، 89:18)
نماز میں ریاکاری کرنا تاکہ
شہرت حاصل ہو بغیر کسی کی مدد کئے ہوئے
(107:4)
نفسا نی خواہشات میں مبتلا
ہونا ( 79:40)
چیزوں اور سامانوں کو دینے میں کمی کرنا اور لینے میں زیادتی کا مطالبہ
کرنا ( 83:1-3)
نفسانی خواہشوں کی پیرو ی
کرنا ( 79:40)
کسی شخص کا سرکش ہوجانا ( 96:6)
احسان کرتے وقت اور دوسروں
کی مالی مدد کرتے وقت بدلہ کی امید رکھنا
( 92:19، 74:6)
برسر اقتدار حکومت کا مذہبی
پابندی عائد کرتے ہوئے سختی اور تشدد کے ساتھ رد عمل ظاہر کرنا ، کیو نکہ خدا سب کو
دیکھ رہا ہے۔ (96:9-14)
مفسرین نے قرآن کے اخلاقی
فرائض کو واضح کرنے کےلئے اپنی اپنی ذہنیت ،تجربات ، معلومات ، عالمی نقطۂ نظر اور
اپنے اپنے ذخیرہ ٔالفاظ کے مطابق بے پناہ جدوجہد کی ہے، اور ایسی بہت سے روایات اور
وجوہات موجود ہیں جو ان واضح تفصیلات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تاہم قرآن کا اعلان یہ ہے کہ اس کے پیغام کے بنیادی
عناصر (جیسے کہ وہ چیزیں جو اس تشریح میں موجود
ہیں) واضح طو رپر بیان کردیئے گئے ہیں (3:7)
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب
نازل کی (اے محمد!) جس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں،
اور بعض متشابہ ہیں۔ تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشا بہات کا اتباع کرتے ہیں
تاکہ فتنہ برپا کریں اورمراد اصلی کا پتہ لگائیں ،حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی
نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دستگاہ کا مل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر
ایمان لائے ، یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں ، اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے
ہیں ۔ (3:7)
لہٰذا کوئی بھی کھلے ذہن کاقاری
، کسی بھی زمانے میں ، کسی بھی تہذیبی نظام
کا ماننے والا ان آیات کا ادراک کرسکتا ہےاور انہیں اپنے خود کے احوال سے جوڑ
کر دیکھ سکتا ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو سچائی کا انکار کرنے پر مصر ہیں ، اور جن کے
بارے میں قرآن گویا ہے:
‘‘جو لوگ کفر پر مصر ہیں ، انکی مثال اس شخص کی سی جو کسی ایسی چیز
کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ( یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں کر کچھ سمجھ
ہی نہیں سکتے ( 2:171)
خلاصہ :
سچائی یہ ہے کہ قرآن کے اخلاقی
اصول اور آزادی کے نمونے دنیا بھر میں سرایت کرچکے ہیں (بغیر اس بات پر مباحثہ کئے
ہوئے اس معاشرتی تبدیلی کے پس پردہ کون سے اسباب محرک ہیں) مگر اسلام سے انحراف نے
عملی طور پر گذشتہ ملینیم کے دوران ثقافتی نظام کو ہی پلٹ کر رکھ دیا ماضی میں مسلمانوں
نے اپنے عہد کی سب سے عظیم ترین ثقافت کی بنیاد ڈالی تھی او ردیگر مذاہب وممالک کے
لوگوں کو اپنے دین اور مراکز کی طرف متوجہ کرلیا تھا ۔ انہی ذاتی خوبیوں کی بنا پر
انہیں غیر مسلموں کا اعتماد ،احترام اور ان کی ستائش حاصل تھی ۔ وہ اعمال حسنہ تقویٰ
او رتزکیہ پر بخوبی کار بندتھے ،اپنے تجارتی معاملات میں ایماندار او رقابل اعتماد سمجھے جاتے تھے، غریبوں اور محروم طبقات
پر مہربان تھے ،وہ سادگی ، اعتدال اور سخاوت میں مثالی نمونہ تھے، اس طرح گویا وہ لوگ
قرآن کے آخری جز میں بیان کردہ اخلاقی اصولوں کے مظہر تھے ۔ مگر آج کے مسلمانوں
کو غیر مسلم حضرات حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، انہیں بے اعتماد سمجھتے ہیں ، ان
سے کراہت محسوس کرتے ہیں اور انہیں ظالم وسفاک اور رجعت پسند قرار دیتے ہیں ، گویا
کہ وہ انسانی تہذیب کے لئے کوئی خطرہ یا بوجھ ہوں۔ اس لئے آج ضرورت ا س بات کی ہے
کہ مولوی حضرات، علما ،میڈیا میں نمایاں رہنے والے مبلغین ، او رہر طبقہ سے تعلق رکھنے
والے ماہرین علوم دینیہ اور منتظمین مذہب آگے آئیں او رمسلم عوام کو کم از کم قرآن کے آخری جزو میں
بیان کردہ ان اخلاقی اصولوں سے روشناس کریں ، جنہیں وہ لوگ اپنے بچپن میں رٹ کر تو
آسانی سے پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے حقیقی مفہوم کو نہیں سمجھ پاتے ۔ چنانچہ اگر انہوں
نے ا س وضاحت کو دیکھ کر بھی ان دیکھا کردیا تو وہ حق کے سخت منکر (کافر)
کہلائیں گے ۔قرآن نے اس بات کی طرف
آیت (2:171) میں اشارہ کیا ہے جو اوپر گذر چکی ہے۔
اخیر میں اس امر کا اعتراف
ضروری ہے کہ ممکن ہے کہ یہ تشریح قرآن کی ابتدائی آیا ت (جن میں پارۂ عمّ بھی شامل ہے) کے ان جمالیات ، لطافتو ں او رحیرت انگیز باریکیوں
کو بیان کرنے سے قاصر ہو، جنہوں نے اہل عرب
(جو اس وقت علم وادب کے بلند مقام پر فائز تھے) کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور اتنا مرعوب کردیا
تھا کہ وہ قرآن سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے، ٹھیک اسی طرح جس طرح خوفزدہ گدھے شیر سے
ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ( 74:49-51) تاہم قرآن کی حیثیت ایک چشمۂ ہدایت کی ہے ( ھدی 2:2,2:185, 3:138, 7:52, 16:64, 27:77,
31:3) جو اپنا پیغام واضح اور متعین کرتا ہے
(12:1, 15:1, 16:64, 26:2, 27:1, 36:69, 43:2, 44:2) تاہم
اس کے مقصد کی مطابقت کے ساتھ تجز یاتی
نقطۂ نظر سے اس پر کام جاری وساری ہے، اگر چہ اللہ سب سے بہتر جاننے والا ہے۔
تعلیم یافتہ مسلمانوں کے لئے
ایک تنبیہہ:
عام طور پرمسلمانو ں کا روشن
خیال او رفیشن ایبل طبقہ مولویوں کی تضحیک کرتا ہے او رغیر معقول فتاوی کی وجہ سے فتویٰ
دینے والوں کا استہزا کرتا ہے، مگر وہ طبقہ اس پر غور نہیں کرتا کہ جن باتوں کا وہ
مذاق بنارہے ہیں وہ تو ان کے دینی نصاب کا اٹوٹ حصہ ہیں جو دراصل ان کے دینی مدارس
میں شامل درس ہیں۔
دین کی بنیادی تعلیمات سے
ناواقفی کی وجہ سے ایسے تعلیم یافتہ مسلمان او رمعاشرہ کے بااثرمسلم افراد بھی اس بات
کے اہل نہیں ہوتے کہ وہ دین کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے والے بیہودہ لوگوں کا جواب منظم
علمی انداز اور طاقتور طریقہ سے دے سکیں ۔ امید ہے کہ اس حقیقی غذا میں قرآن کے اس
آخری تیسویں پارہ کا لب لباب ملے گا ،جسے لوگوں نے بار بار تو پڑھا ہے مگر بغیر سمجھے
ہوئے پڑھا ہے ، اس سے ان مولویوں ، علما، اور فتویٰ بازوں کو چیلنج کرنے میں تقویت
ملے گی جو خود اپنے رویوں سے دین کی تحقیر اور تذلیل کا باعث بن رہے ہیں ۔
نوٹ:
1۔ مائیکل سیلس ، اپرو چنگ دی قرآن ، دوسرا ایڈیشن ، آریگن 2007، صفحہ
4
2۔ ایلن جونس ، دی قرآن، لندن
1994افتتاحی صفحہ
3۔ سواّھا : یہ قرآن کی اعلیٰ ترین اصطلاحات میں سے ایک ہے، جو تخلیق
کائنات کے مراحل کے تسلسل کی تصویر کشی شروع سے لے کر آخری مرحلہ تک پیش کرتی ہیں
۔ چنانچہ قرآن نے اس اصطلاح کا استعمال آسمان کے پیچیدہ توازن کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے بھی کیا ہے ( 2:29, 79:29) یوں ہی رحم مادر میں جنین کے ارتقائی عمل کی تکمیل
کو بیان کرتے ہوئے بھی (82:7)
4۔2:62, 4:124, 5:69, 22:17, 64:9, 65:11
5۔ محمد یونس اور اشفاق سید، ا ینشیل میسیج آف اسلام ،آمنہ پبلیکیشنز
،ریاستہائے متحدہ امریکہ، 2009 ، باب 8.1
ایبد ،باب : 46.3
26مئی، 2012
محمد یونس انڈین انسٹی ٹیوٹ
آف ٹیکنالوجی سے کیمیکل انجینئرنگ گریجویٹ اور ریٹائر ڈ کارپوریٹ ایگز یکٹیو ہیں
۔ 1990کے اوائل سے ہی قرآنیات کے عمیق مطالعہ
میں مصروف ہیں ۔قرآن کا بنیادی پیغام ان کا مصلح نظر ہے۔ انہوں نے مشترکہ طور پرتفسیر
کے فن میں ایک قابل ذکر خدمت انجام دی ہے جسے الازہر الشریف ،قاہرہ ، مصر سے 2002میں
سند قبولیت حاصل ہوئی اور جس کی توثیق وتایید ڈاکٹر خالد ابوالفضل یو سی ایل سی نے
کی۔ اس کی طباعت آمنہ پبلیکیشنز میری لینڈ
، ریاستہائے متحدہ نے 2009 میں کی۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/tracking-the-moral-trajectories-of-the-juz-‘amm-(last-one-thirtieth-part)-of-the-qur’an/d/7457
URL: