محمد یونس، نیو ایج اسلام
(معاون مصنف، اشفاق اللہ سیدEssential Message of Islam, Amana Publications, USA, 2009)
نزول قرآن کا ایک مختصر تعارف
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ایک ایسے زمانے میں نازل ہوا جب اس کائنات کا بیشتر حصہ جاہلیت کی زد میں تھا، (ایک لغوی تشریح) جاہلیت عربی کا ایک لفظ ہے جس کا استعمال ظلمت و تاریکی کی صورت حال پیش کرنےکے لیے کیا جاتا ہے، اور اس زمانے میں عالمی انصاف کا کوئی تصور نہیں تھا، ظلم و بربریت سے بھری سزائیں متعین کی جاتی تھیں، عام لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا، ان پر ظلم کیا جاتا تھا اور ان کا استحصال کیا جانا ایک عا م بات تھی، اس زمانے میں غلامی ایک عام رجحان تھا، عورتوں کے ساتھ ایک مال و متاع کا سا برتاؤ کیا جاتا تھا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، یہ اس زمانے کی چند بڑی برائیاں تھیں۔ ایسے ماحول میں قرآن کا نزول ہوا اور اس کی تعلیمات نے پوری انسانیت کو ظلم و جاہلیت کے اندھیرے سے علم و عرفان کی روشنی میں لا کر کھڑا کر دیا (2:257, 14:1, 57:9)، اور ان کے کندھوں سے جاہلیت اور تاریکی کے اس بارگراں کو ہٹا دیا جس کا شکار وہ اسلام کی آمد سے پہلے تھے(7:157)۔ چونکہ اس زمانے میں غلامی بہت ساری سماجی برائیوں کی جڑ میں شامل تھی اور اس کا خاتمہ کیا جانا تھا تاکہ اس معاشرے میں مختلف محاذوں پر اصلاح کا کام کیا جا سکے۔
کسی بھی معاشرے کے سماجی رسوم و روایات اس کے مختلف پہلوؤں میں سرایت کیے ہوئے ہوتے ہیں اور دفعتاً اس کو ختم کرنے میں بمشکل ہی کامیابی حاصل ہو پاتی ہے، اسی لیے قرآن کا منصوبہ اسلامی اصلاحات کو بتدریج متعارف کرانا تھا۔ لہٰذا، اسلام نے اپنی سماجی اور اخلاقی اصلاحات کے ساتھ متلازمانہ طریقے سے غلامی کے خلاف اپنے احکامات کو نافظ کیا۔ اس طرح اسلام نے مندرجہ ذیل آیات میں غلاموں کو آزاد کرنے کی ایک واضح ہدایت دی:
(90:13-16)۔وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے، یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے، قرابت دار یتیم کو، یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہے ۔
(4:92) اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام / باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔
(5:89) اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قَسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کرلو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے۔
(2:177) نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے۔
(9:60) بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے کے لیے..........۔
(58:3) جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار (ایک ایسا عمل جس کے بعد شوہر بیوی کے تئیں اپنی تمام تر ذمہ داریوں اور فرائض سے آزاد ہو جا تا ہے) کر بیٹھیں پھر جو کہا ہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، تمہیں اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے۔
چونکہ غلامی اور عصمت فروشی ایک ساتھ پائی جاتی تھی، اسی لیے قرآن کا مقصد شادی کے قانون کے ذریعہ مرد اور عورت غلاموں کو آزاد کر کے غلامی کو ختم کرنا تھا۔قرآن کا یہ حکم ہے کہ ‘‘ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں’’ (4:25)، ‘‘اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو) (24:32)، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو (24:33)۔
‘‘اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں.....’’ (4:25)۔
‘‘اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو مکاتب (کچھ مال کما کر دینے کی شرط پر آزاد) ہونا چاہیں تو انہیں مکاتب (مذکورہ شرط پر آزاد) کر دو اگر تم ان میں بھلائی جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے دو جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے’’ (24:33)۔
قرآن میں جہاں ایک غلام کے لیے فتاۃ، رقاب اور عبد کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں تاریخی تناظر میں باندی کہا جاتا ہے وہیں غلاموں اور باندیوں کے لیے ما ملکت ایمان جیسے معزز و محترم لقب کا بھی استعمال کیا گیا ہے اسی لیے اس سے ہر وہ شخص مراد ہو گا جو کسی کی شرعی ملکیت میں ہو۔ اکثر علماء ‘ما ملکت ایمان’ کا لغوی ترجمہ ‘‘جو تمہاری ملکیت میں ہیں’’ کرتے ہیں اور اس کے معنیٰ کو صرف مؤنث قیدیوں، باندیوں اور غلاموں تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جبکہ ایسی کوئی بھی تشریح غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس کا سب سے قریبی لغوی معنیٰ یہ ہو گا کہ جو شرعاً تمہاری ملکیت میں ہوں، تاہم قرآن نے ‘ایمان’ کے اس لفظ کومجازاً ایک مثبت شرعی حالت کو بیان کرنے کے لیے کیا ہے، مثلاً کسی ‘عظیم المرتبت’ کے رفقاء اور اللہ کا ‘داہنا ہاتھ’۔ لہٰذا اس جملے کا بہتر ترجمہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ‘‘ جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں۔’’ حکمت و دانائی سےبھرے ان الفاظ کے ذریعہ قرآن غلاموں اور باندیوں کو ایک پر وقار مرتبہ عطا کرتا ہے جنہیں تاریخی طور پر معاشرتی نظام کا ایک سب سے نچلا طبقہ قرار دیا گیا تھا۔ ان سے نفرت کی جاتی تھی، انہیں حقیر گرداناجاتا تھا، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور ان پر سخت ترین پابندیاں عائد کر کے انہیں ہر قسم کی آزادیوں سے محروم رکھا جاتا تھا اور اس کا شکار ان کی کئی کئی نسلیں ہوا کرتی تھیں۔
قرآنی جملہ ملکت ایمان (واحد ملک یمین) کوئی مجاز نہیں ہے یا محض کوئی حسن تعبیر بھی نہیں ہے۔ دور نبوت میں جنگی قیدیوں کو ان کے تحفظ کے لیےمدنی مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ جنگی قیدی خواہ مرد ہوں یا عورت وہ بظاہر ‘غلام ہوا کرتے تھے لیکن انہیں ملک یمین سمجھا جاتا تھا اور ان کے محافظین اسی کے مطابق ان کے ساتھ ہمدردی اور غور و فکر کے ساتھ پیش آتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح نگاروں کا ایک سب سے بڑا دشمن ایک قیدی کے حوالے سے یہ اقتباس نقل کرتا ہے: ‘‘مدینے کے لوگ خود پیدل چلتے اور ہمیں سواری فراہم کرتے، کھانے کی قلت کے وقت میں بھی انہوں نے ہمیں گندم کی روٹی دی، جبکہ خود انہوں نے صرف کھجور پر ہی اکتفاء کیا’’ [1]۔
ایک دوسری سطح پر، اسلام سے پہلے، صدیوں تک دوسرے قانونی دفعات کے برخلاف قرآن سول قوانین اور غلاموں کے لیے قوانین میں کوئی خط امتیاز نہیں کھینچتا۔ قرآن ماضی یا موجودہ روایات کے تناظر میں بھی غلامی کا حوالہ پیش کرتا ہے، لیکن اس کے سول، کمرشیل، وراثت اور خاندانی قوانین آزاد یا غلام کے کسی بھی حوالہ سے قطع نظر تمام مسلمانوں کے لیے یکساں ہیں۔
مختصر یہ کہ غلاموں کو آزاد کرنے پر قرآن کی پر زور تاکید، ان کی دیکھ بھال کرنے،انہیں آزاد کرنے اور ان سے شادی کرنے کے واضح احکامات، غلاموں، لونڈیوں اور جنگی قیدیوں کے لیے اس کے مؤقر الفاظ اور سماجی اور سول قوانین میں آزاد ار غلام کے درمیان کسی بھی طرح کی تفریق سے اس کا گریزاں ہونا ان تمام حقائق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد غلامی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اسی طرح خلیفہ حضرت ابو بکر نے عرب کے آبائی باشندوں کے درمیان غلامی کو کالعدم قرار دیا تھا۔ انہوں نے قرآنی تائید کے ساتھ اپنے اعلٰی فوجی عہدیداروں کو یہ حکم بھی دے رکھا تھا کہ وہ مفتوح اقوام کے عام لوگوں کو غلام نہ بنائیں [2]۔ حالانکہ اس پر انہیں اپنے بہت سارے فوجی جنرلوں کی سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور ان کی اس پالیسی کو ان کی وفات (24 ہجری) کے بعد دو دہائیوں سے بھی کم میں پہلی اسلامی حکومت کے قیام (40 ہجری) کے ساتھ ہی موقوف کر دیا گیا۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بمشکل تیس سالوں کے بعد ہی اسلامی ممالک میں خود بخود ہی پھر سے غلامی کا آغاز ہوا غلاموں کی تجارت کرنے والوں اور ذاتی مفادات سے وابستہ لوگوں نے اس شعبہ کو زور و شور کے ساتھ صدیوں تک جاری رکھا۔
غلام سے آزاد معاشرے کا تصور لوگوں کے ذہنوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً بارہ سو سالوں سے زیادہ کے بعد بیدار ہوا، وہ بھی اسلامی ممالک میں نہیں۔ امریکہ کے 16ہویں صدر ابراہم لنکن (1861-1865) نے تنسیخ غلامی کو اعلان حریت ‘‘mancipation Proclamation’’ (1جنوری1863) کے ذریعہ قانونی شکل عطا کیا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ کلاسیکی اسلامی شریعت نے کہ جس کی تدوین و ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے ایک ہزار سالوں سے زیادہ کے بعد عمل میں آئی، غلامی پر توجہ دیا؛ اور غلام، باندیاں اورداشتائیں بہت سارے مسلم ممالک میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے سماجی نظام میں ایک جزو لاینفک کی شکل اختیار کر گئیں۔ چند بنیاد پرست مسلم مفکر اور عالم جو ہو سکتا ہے کہ دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافقوں اور عربی دہقانیوں کے ہم پلہ ہوں جو کہ کفر و نفاق میں سخت تھے [3] قبل از اسلام کے اس معمول کی وکالت کرتے ہیں لیکن یہ قرآن کے پیغام کے خلاف ہے۔ تاہم اس کے لیے قرآنی ہدایات و احکامات کی جنسی جانبداری سے آزاد ایک تفسیر و تشریح کی ضرورت ہے جیسا کہ اس کا اظہار مندرجہ ذیل متصل قرآنی آیات سے ہوتا ہے۔
جنسی جانبداری سے آزاد متصل قرآنی آیات کی 23:5/6, 70:29/30 تفسیر
قرآن کی آیات 23:1-11 اور 70:19-35 میں مذکور ان متصل آیات کا ترجمہ پیش ہے، جن کے معانی و مفاہم تقریباً ایک ہی جیسے ہیں:
‘‘اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، (23:5) سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں (23:6)’’۔
‘‘اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، (70:29) مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت نہیں (70:30)’’۔
بریکٹ میں مندرج ابتدائی نکات سے اس بیان کا جواز ثابت ہوتا ہےاور ان کا مصدر سابقہ پیراگراف ہیں۔
اس امر کے پیش نظر کہ آیت 23:6 میں مؤمن، انسان اور 70:29 میں ازواج کے لیے استعمال کیے گئے تمام کے تمام الفاظ کا تعلق جنس مشترک سے ہے۔ اور ان قرآنی آیات کا زیادہ بہتر ترجمہ اس طرح کیا جا سکتا ہے:
‘‘اور (ایمان والے) (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں، (23:5) سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں (23:6)’’۔
‘‘اور (ایمان والے) (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں، (70:29) سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں (70:30)’’۔
سچائی یہ ہے کہ ان آیات میں روایتی طور پر جنسی جانبداری کی چھاپ مندرجہ ذیل بنیادوں پر پائی جاتی ہے:
ان آیات کا تعلق ان ابتدائی مکی آیات سے ہے جب مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ اس روئے زمین پر کمزور و ناتواں اور بے یار و مددگار تھے جنہیں ہمیشہ اس بات کا خوف لگا رہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے دشمن ان پر مظالم ڈھائیں یا ان کا اغوا کر لیں (8:26)۔ اسی طرح قرآن کی مکی آیتیں مسلمانوں کے لیے صبر اور ضبط نفس کی تلقین سے بھری ہوئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں قرآن نے صرف اس عمل کی اجازت دیتے ہوئے جنسی لائسنس فراہم کیا ہے جو کہ اس زمانے میں ایک عام رویہ تھا، جس وقت شادی کے متعلق قوانین کا کوئی تصور نہیں تھا۔
آیات 70:21-35 اور 23:1-11 جن میں مذکورہ آیتیں شامل کی گئی ہیں سچے مسلمانوں کی کچھ صفات بیان کرتی ہیں۔ لہٰذا، اگر اس میں جنگی قیدیوں اور باندیوں کے ساتھ غیر ازدواجی جنسی تعلقات بھی شامل ہوتے تو قرآن جنگی قیدیوں اور باندیوں کو یا ان کی اولاد کو وراثت کے قوانین میں جگہ دیتا جو کہ تمام قسموں کے تعلقات یا رشتوں کا احاطہ کرتے ہیں (4:33)۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جائداد کے وارثین میں ما ملکت ایمان یا ان کی اولاد کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن نے غیر ازدواجی جنسی تعلقات کا کوئی بھی قانونی جواز فراہم کیا ہوتا تو کفار عرب نے بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا الزام لگایا ہوتا۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا (30:58)، مجنون اور دیوانہ کہا (44:1،68:51) اور انہیں مجنون شاعر کہا (37:36)۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ گوئی اور جادوگری کا الزام لگایا (34:43, 38:4)، اللہ کے خلاف جھوٹ بولنے والا اور جعل سازی اور قصے کہانیاں بیان کرنے والا کہا (11:13, 32:3, 38:7, 46:8)، مجنون کہا (21:3, 43:30, 74:24)، ان کی باتوں کو واضح جادو جو کہ بہکا دینے والی ہے کہا (10:2, 37:15, 46:7) یہی نہیں بلکہ کفار عرب نے انہیں ایک ایسا شخص قرار دیا ہے جو کسی جنّ کے اثرات سے متأثر ہے (17:47, 23:70, 34:8)۔ اور انہوں نے قرآن کو غیر مانوس اور نا قابل یقین بھی مانا (38:5, 50:2)، اور انہوں نے وحی الٰہی کی اس طرح مذمت کی گو کہ وہ پرانے زمانے کے قصے اور کہانیاں ہوں (6:25, 23:83, 27:68, 46:17, 68:15, 83:13)۔ لیکن ان تمام نے ایک بھی لفظ ایسا نہیں کہا کہ جس سے دور دور تک بھی یہ پتہ چلتا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر ازدواجی جنسی تعلقات کی کسی بھی شکل کو جائز قرار دیا ہے۔
ما ملکت ایمان کی روایتی تشریح سے غلامی کے ادارے اور آئین کا ایک مطالبہ پیدا ہوتا ہےجو کہ قرآنی اور تاریخی تناظر میں یکسر غلط ہے جیسا کہ اس کی ذکر اس مضمون کے مرکزی حصہ میں ہو چکا ہے۔
قرآن بہت سارے معاملوں میں اسی طرح کے ‘حقوق اور ذمہ داریوں’ کی تصدیق مرد اور عورت دونوں کے لیے کرتا ہےاور ایک سماجی معیار کے طور پر یک زوجگی کے ساتھ دونوں پر مناسب اور متوازن ‘حقوق اور ذمہ داریوں’ کو نافذ کرتا ہے۔ لہٰذا، اگر جنگ میں قید کی گئی عورتیں، غلاموں اور باندیوں کے ساتھ مردوں کو بے حد و حساب جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی دینے کے لیے آیات 23:5/6, 70:29/30 کی تشریح یا ان کا ترجمہ ایسے انداز میں کی جائے جس پر جنسی جانبداری کی چھاپ ہو تو یہ ایک فاش غلطی ہو گی۔ مزید یہ کہ جیسے جیسے نزول آیات کا سلسلہ بڑھتا گیا قرآن نے اس کی وضاحت خود ہی کر دی۔ لہٰذا، محمد اسد نے الراضی اور الطبری کا حوالہ پیش کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ایک شرعی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کو قرآن نے ممنوع قرار دیا ہے ۔ [4]
لہذا، غلامی یا جنسی غلامی کا کوئی بھی تصور قرآنی پیغامات کے خلاف ہے۔
نوٹس:
1. رفیق زکریا، محمد اور قرآن، لندن 1992، صفحہ 408۔
2. شبلی نعمانی، الفاروق، دہلی 1898، طباعت دوم 1991 کراچی، صفحہ 258۔
3. The Qur’an Prescribes Monogamy Is The Social Norm For Humanity
5. محمد اسد، Message of the Qur’an, Gibraltar, 1980، باب 4، نوٹ 26۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزیکیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور اور اس کتاب کو یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو آمنہ پبلیکیشن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا ہے۔
URL for English article:
https://www.newageislam.com/islam-human-rights/abolition-slavery-including-sex-slavery/d/35148
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/abolition-slavery,-including-sex-slavery/d/35667