محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
12 جون 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
14۔ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ کون ہدایت پر ہے
چونکہ قرآن لوگوں کو اپنی مرضی کو رضائے الٰہی کےتابع کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اسی لیے ہمارے اعمال اور ہماری نیکیوں کو اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول بنانے کے لیے سچا ایمان اور پرخلوص ارادہ بہت اہم ہے۔ قرآن بار بار اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ صرف خدا کو اس بات کا علم ہے کہ کون ہدایت پر ہے (16:125; 6:117, 17:84) ۔1
"بیشک آپ کا رب ہی اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا ہے اور وہی ہدایت یافتہ لوگوں سے (بھی) خوب واقف ہے" (6:117)۔ [یہی بیان آیات 28:56، 28:85 اور 68:7 میں بھی دہرایا گیا ہے]
‘‘فرما دیجئے: ہر کوئی (اپنے) اپنے طریقہ و فطرت پر عمل پیرا ہے، اور آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ سیدھی راہ پر کون ہے’’(17:84)۔
14.1۔ کوئی بھی روحانی برتری کا دعوی نہیں کر سکتا
بہت سے نام نہاد آیت 'روحانی رہنما' آیت 42:23 کا حوالہ دیتے ہوئے دوسرے مسلمانوں پر روحانی بالادستی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مکی دور کی اس آیت میں ایک بہت ہی واضح پیغام ہے، یعنی اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے دشمنی رکھنے والے اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں (قربہ) سے اپنے لیے محبت اور عزت کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی انہیں ان سے توقع تھی:
‘‘..............فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں).............’’
تاہم، اگر لفظ ‘فی’ کا ترجمہ ‘سے’ کے بجائے ‘‘کے لیے ’’ کیا جائے تو اس کا معنیٰ تمام مسلمانوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں اور اولاد 'کے لیے' محبت اور احترام کا مطالبہ ہو گا۔ جبکہ تکنیکی طور پر اس طرح کا ترجمہ غلط نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کہ قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد کے لیے کسی امتیازی درجہ یا روحانی برتری کے کسی بھی دعوے کی حمایت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دراصل، قرآن کی واضح آیتیں ایسے کسی بھی تصور کو مسترد کرتی ہیں:
I۔ بے شمار قرآنی آیتوں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ ہی کسی دوسرے نبی نے خود اپنے لیے یا اپنی اولاد کے لیے اپنی امت سے کسی بھی اجرت یا کسی خصوصی استحقاق کی توقع کی تھی۔
II۔ بلکہ قرآن کی کچھ آیتوں میں اس کا بیان اثبات کے ساتھ ہے: 2 "میں تم میں سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا........."تم ان سے کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے"۔
III۔ کچھ آیتوں میں اس کا بیان سوالیہ جملوں کے ساتھ ہے: “کیا............؟"3، "" 4
IV۔ قرآن میں ایک بھی آیت ایسی نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امت سے اپنے لیے یا اپنی آل اولاد کے لیے کسی اجرت یا کسی خاص استحقاق کا مطالبہ کیا ہو۔
V۔ قرآن میں ایسی بے شمار آیتیں5 ہیں جن میں اس بات کا ذکر ہے کہ نوح، ہود، صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام میں سے کسی نے بھی خود اپنے لیے یا اپنی آل اولاد کے لیے کسی اجرت یا کسی خاص استحقاق کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔
VI۔ قرآن مجید کی مختلف آیتوں (باب 16) میں اس امر کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ ہر انسان کا فیصلہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت ایمان اور اعمال کی بنیاد پر خدا کرے گا۔
VII۔ قرآن کا مزید یہ اعلان ہے کہ خداکے ساتھ کسی کو سفارش کی مجال نہیں ہے سوائے اس کے جسے خدا چاہے6۔ اس امر کی عکاسی حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کی عدم قبولیت میں بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے اپنے کافر بیٹے کی بخشش کے لیے دعا کی تھی7۔
ان تمام قرآنی ہدایات و ارشادات کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ کسی ایسے شخص کو کوئی سماجی استحقاق یا روحانی برتری عطا کرنے کی کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہو یا ہونے کا دعوی کرتا ہو، اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے ہے، ایک روحانی رہنما کے طور پر خدا کے ساتھ شفاعت کرنے کے کسی کے بھی دعوی کی کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہے۔
نوٹ
1۔ 28:56، 28:85، 53:30، 68:7۔
2۔ 6:90، 12:104، 25:57، 34:47، 38:86۔
3۔ 52:40، 68:46۔
4۔ 23:72۔
5۔ 10:72، 51-11:29127-/145/164/180/ 26:109۔
6۔ 2:255، 10:3۔
7۔ 11:46۔
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/only-god-knows-rightly-guided/d/103461
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/only-god-knows-rightly-guided/d/103586