محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
10 جولائی 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
20۔ عام اخلاقی اصول و معیار
20۔1۔ غصہ سے گریز کرنا ، بخشش، خوش اخلاقی اور تنازعہ اور ملامت نفس سے بچنا
قرآن لوگوں کو غصہ سے بچنے دوسروں کو معاف کرنے (3:134)، کسی کے سلام کا جواب بطریق احسن دینے (4:86)، نرمی کے ساتھ گفتگو کرنے، تنازعات سے گریز کرنے (17:53) اور کسی ظلم کے بغیر ہی عوامی سطح پر بری بات کرنے سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے (4:148)۔
"اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے(3:133)۔ کے طور پر (کے اوقات) میں (مال) خرچ کرتے ہیں ان کی کافی مقدار کے ساتھ ساتھ مشقت، (3:134) "۔
" اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو، بیشک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے (4:86)"۔
‘‘اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے (4:148)’’۔
"اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں، بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے" (17:53)۔
20۔2۔ تکبر کرنا، اونچی آواز میں بات کرنا اور سرگوشی کرنا عمل مذموم ہے
قرآن میں خاکساری اختیار کرنے، تکبر اور اونچی آواز میں کلام کرنے سے بچنے کا حکم وارد ہوا ہے (31:18/19/17:37) (31:19)، اور لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی کی گئی ہے کہ بلند آواز میں کلام کرنا کدھے کے آواز نکالنے کی مثل ہے۔ نیز قرآن حقائق کی تصدیق کیے بغیر کسی بھی شریر شخص کی باتوں پر یقین کرنے کے خلاف لوگوں کو تنبیہ کرتا ہے (49:6)۔
"اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (تو جو کچھ ہے وہی رہے گا" (17:37)۔
‘‘(اپنے بیٹے سے کہا لقمان) اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے (31:18)۔ اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے (31:19)’’۔
"اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ" (49:6)۔
20۔3۔ بہتان تراشی، خامہ تلاشی، توہین اور ضرورت سے زیادہ شک کی مذمت کی گئی ہے
قرآن میں بہتان تراشی(24:23)، غیبت، رسوائی پروری، ضرورت سے زیادہ شک و شبہ (49:12، 104:1)، اور بخل (47:38، 104:2) کی مذمت وارد ہوئی ہے اور اس کے علاوہ قرآن نے دوسروں کی توہین و تحقیر اور انہیں توہین آمیز عرفی نام دینے کو بھی ناپسند کیا ہے(49:11)۔
"بیشک جو لوگ ان پارسا مومن عورتوں پر جو (برائی کے تصور سے بھی) بے خبر اور ناآشنا ہیں (ایسی) تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت (دونوں جہانوں) میں ملعون ہیں اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے" (24:23)۔
"رکھو! تم وہ لوگ ہو جنہیں اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو بُخل کرتے ہیں، اور جو کوئی بھی بُخل کرتا ہے وہ محض اپنی جان ہی سے بخل کرتا ہے، اور اﷲ بے نیاز ہے اور تم (سب) محتاج ہو، اور اگر تم (حکمِ الٰہی سے) رُوگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ بدل کر دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے"(47:38)۔
"اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں (49:11)"۔
‘‘اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے’’ (49:12)۔
"ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے (104:1)، خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے" (104:2)۔
20۔4۔ عبادت گاہوں میں اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کرنا
"اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا"(7:31)۔
نوٹ: خدا کی عطا کردہ استعداد و صلاحیت کے مطابق زینت کے عام قرآنی تصور کی بنیاد پر لفظ زینت کا سب سے مناسب معنیٰ ‘خدا کی عطا کردہ استعداد و صلاحیت اور نعمت (زینت) کو اختیار کرنا’ ہو گا۔ ہم نے اس لغوی ترجمہ کے مفہوم کو اچھے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پورے احتیاط کے ساتھ اگر اس کا ترجمہ کیا جائے تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اچھے اور عمدہ کپڑے بھی خدا کی نعمت ہیں ، اور اسی کے مطابق اس لفظ کا روایتی طور پر ترجمہ عبادت کی ہر جگہ اور ہر موقع پر سب سے بہترین لباس پہننے کا مفہوم پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/moral-ethics-general-behavioural-norms/d/103848
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/general-behavioural-norms-/d/103949