محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
25 جولائی 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
23.1۔ قرآن سود خوری کو حرام قرار دیتا ہے
قرآن سود کے لئے لفظ ربا کا استعمال کرتا ہے جو کہ حد سے زیادہ سود کی شرح پر رقم قرض دینا ہے، جیسا کہ روایتی قرض دہندہ قدیم دور میں بھی یہ عمل کرتے تھے۔ قرآن سود سے منع کرتا ہے اور منصفانہ کاروباری عمل کی ہدایت دیتا ہے (276/2:275)۔ اور قرآن اہل ایمان کو قرضے سے سود کی رقم ہٹانے (2:278)اور اصل بقایا رقم پر اکتفا کرنے کا حکم دیتا ہے (2:279)۔
"جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے* مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (2:275)۔ اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا (2:276)۔ [* 'ان لوگوں کی طرح جو کھڑے ہوں گے']
"اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو (2:278)۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے (2:279)"۔
23.2۔ قرض کی واپسی میں نرمی اور قرض معاف کرنے کا بیان
قرآن میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مختلف مواقع پر کوئی قرضدار اپنا قرض ادا کرنے کے قابل نہ ہو، لہٰذا، قرآن اس قرضدار کے لیے قرض کی ادائیگی میں نرمی برتنے یا مناسب صورتوں میں قرض کو معاف بھی کر دینے کی ہدایت دیتا ہے:
‘‘اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اﷲ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)’’ (2:280)۔
23.3۔ سود کا قرآنی تصور
قرآن سود کو کسی کی مال و دولت سے 'دگنا اور کئی گنا زیادہ' مال حاصل کرنے کا بھی ذریعہ قرار دیتا ہے (3:130)، اور دوسروں کی کمائی سے دولت کے ڈھیر جمع کرنے سے منع کرتا ہے (30:39)۔
‘‘اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ’’(3:130)۔
‘‘اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ (و خیرات) میں دیتے ہو (فقط) اﷲ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عند اﷲ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں’’(30:39)
23.4۔ کیا جدید بینکاری سود پر مبنی ہے؟
جدید بینکاری اور جدید مالیاتی اداروں اور آلات کی آمد کے ساتھ ہی اس بات پر ایک مسلسل بحث و مباحثہ جاری ہے کہ کیا دیگر مالیاتی آلات اور بینک سے سود کے طور پر حاصل ہونے والا منافع سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ ہم اس کی وضاحتیں قرآن سے طلب کرتے ہیں جو ہمارے تمام معاملات میں ایک حتمی فیصل ہے۔
اوّل، قرآن مسلمانوں تمام جائز چیزوں کو حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے جو کہ جائز طریقوں سے اپنی روزی کمانے سے عبارت ہے۔ (2:168، 2:172):1
‘‘اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے’’(2:168)۔
‘‘اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو’’(2:172)۔
دوم، قرآن مومنوں سے ان کے کاروبار اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہنے کی توقع رکھتا ہے۔ اسی لیے قرآن جمعہ کی جمات کے بعد فوراً مومنوں کو زمین پر منتشر ہونے اور خدا کی نعمتوں (فضل اللہ) کی تلاش میں جڑ جانے کا حکم دیتا ہے، [یعنی معاش کے لئے معمول کے کے مطابق کام کو دوبارہ شروع کرنا]۔ (62:10 / باب 45.1)۔
سوم، قرآنی نقطہ نظر سے انسانوں کو خدا کا نائب یا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا ہے2 (2:30/ باب 5.1)۔ اور تمام قدرتی وسائل کو ان کی خدمات کے لیے مہیا کیا گیا ہے (31:20 45:13/ باب 10) ۔3
یہ تمام آیتیں واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ قرآن مجید انسانوں کو زمین اور سمندروں میں حلال کاروبار اور تجارت میں خود کو مشغول رکھنے اور صنعتی منصوبوں کے ذریعے مظاہر فطرت کو مسخر کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قرآن دولت کمانے کو تسلیم کرتا ہے جب تک کہ وہ ‘‘deposits’’ مال امانت کے طور پر جمع کرنے یا ‘‘loans’’ قرض کے طور پر مال دینے میں حد سے زیادہ سود کی شرح (ربا) سے یا دجل و فریب سے یا مجموعی طور پر اشیاء یا خدمات کے لیے کم اجرت دیکر حاصل نہ کیا گیا ہو (22.3)۔ کیا بینک سے سود کے طور پر حاصل ہونے والا مال سود کے زمرے میں آتا ہے جس کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا جائے؟ اس پر غور و فکر کرنے کے دو طریقے ہیں:
1۔ اگر جدید بینکاری نظام قرضداروں سے ان کی مالی حالت یا صلاحیت کی قطع نظر ایک مقررہ سود کی شرح پر رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اور قرضدار کے لیے قرض کی واپسی کے شرائط میں نرمی کا کوئی راستہ نہیں دیتاہے اور نہ ہی قرآنی حکم کے مطابق صدقہ کے طور پر قرض کو معاف کرنے کا کوئی طریقہ کار فراہم کرتا ہے(2:280)، تو ‘‘deposits’’ مال امانت کے طور پر جمع کرنے سے سود کے طور پر بینک سے حاصل ہونے والی رقم سود ہے اور اس بنیاد پر یہ حرام ہے۔ اس کے علاوہ، اگر جدید بینکاری کی خالصتا تجارتی بنیاد، غریبوں کی مال و دولت کی بنیاد پر مالداروں کو مزید مالدار بننے کا موقع فراہم کرتی ہے، غیر اخلاقی تاجروں کو ہیرا پھیری کا موقع فراہم کرتی ہے، اور یہاں تک کہ جوا اور جسم فروشی جیسے غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے، تو یہ قرآنی نقطہ نظر سے متصادم ہے۔
2۔ اگر جدید بینکاری نظام قرض کی واپسی میں نرمی اور لیکویڈیٹی پٹیشنز کے لیے قرض معاف کرنے کی شقوں پر مشتمل ہو۔ ان کا نفاذ منصفانہ اور شفاف انداز میں کیا جائے اور اس جگہ ڈائریکٹرز کی طرف سے دھوکہ دہی اور ہیرا پھیری کو روکنے اور سماجی طور پر نقصان دہ سرمایہ کاری کو روکنے کے لئے داخلی جانچ اور حساب و کتاب کا طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہو تو جدید بینکاری کو حرام قرار دینے کی کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایک بینک اکثر اپنے ‘depositors’ رقم جمع کرنے والوں کی رقم کو حلال کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے؛ بینک سے قرض حاصل کرنے والوں میں تمام اقسام کے لوگ شامل ہوتے ہیں؛ عام شہری، طالب علم، کسان، مریض، اور چھوٹے موٹے تاجروں سے لیکر بڑے بڑے تاجر اور ہر طرح کے صنعتکار اور ہسپتال، ہاؤسنگ کمپلیکس، کار اور طیارے وغیرہ بنانے والے کارپوریٹ سیکٹر؛ یہ سب اس میں شامل ہیں۔ اور جب تک اس طرح کی سرمایہ کاری جائز طریقے سے کی جائے، اور جب تک اس سے ‘depositors’ رقم جمع کرنے والے اور بینک کے بورڈ کے ارکان دھوکہ دہی کے ذریعہ اپنے مال میں ناجائز اضافہ نہ کرتے ہوں، تب تک یہ منصفانہ تجارت کے ذریعہ مال کمانے سے مختلف نہیں ہوگا جس کی اجازت قرآن دیتا ہے (2:279)۔
23.5۔ جدید بینکاری کا جواز
جدید بینکاری نظام کا کردار تمام قسم کی تجارت اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے ایک مرکز کا ہے جو کہ اسلام میں حلال ہے۔ اس کے ذریعہ کسی آرڈر کے لیے پیشگی رقم ادا کی جاتی ہے یا اس کے ذریعہ کسی آرڈر کے حصول کے بعد رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ مالیاتی خدمات فراہم کنندہ بھی ہے اور اس سے صارفین کو رقم ادا کرنے ، ٹیکس ادا کرنے اور دوسروں کے اکاؤنٹس میں رقم منتقل کرنے کی سہولت ملتی ہے۔ یہ صارفین کو سرمایہ کاری کے اختیارات کا مشورہ بھی دیتا ہے اور سرمایہ کاری کرنے میں ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ اس طرح، جدید بینکاری ایک کثیر جہتی مالی ادارہ ہے جس سے ایک عام آدمی اور سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچتا ہے اور یہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر تجارت اور صنعت و حرفت کو فروغ دیتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روایتی سود خوری سے صرف سود خور فائدہ اٹھاتا ہے جو قرضداروں سے ضرورت سے زیادہ سود کی رقم وصول کرتا ہے۔ اس طرح، جدید بینکاری نظام کا سود کے روایتی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے سودی نظام کے مشابہ نہیں قرا ردیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ، جدید بینکاری نظام کاغذی کرنسی پر مبنی ہے جو کہ ایک اقراری آلہ کار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، جس کی 'اصل مالیت' میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہوتی ہے۔ لہذا، ایک قرض خواہ قانونی طریقے سے اپنے پیسے کی اصل قدر کو برقرار رکھنے کے لئے ایک بینک سے مناسب 'اضافی مہلت' لے سکتا ہے، اور اس طرح اپنے مال کو برقرار رکھ سکتا ہے، جس کی اجازت قرآن میں دی گئی ہے(2:279)۔ لہٰذا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وقت کے اقتصادی تناظر میں اپنے جمع شدہ مال کے لیے مناسب 'اضافی مہلت' حاصل کرنے سے لازمی طور پر سود کا ثبوت نہیں ہوگا۔
آخر کار اب کچھ جدید بینکوں نے منافع کے اشتراک اور لچکدار وصولیٔ قرض کے قرآنی اصولوں پر مبنی اسلامی بینکاری کے نظام کو بھی اپنا لیا ہے، اور انسانیت اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اگر اس میں سماج کے غریب طبقے کو بھی شامل کیا جائے۔
حوالہ جات:
1۔ 5:4، 5:88، 23:51۔
2۔ 6:165، 27:62، 35:39۔ [نوٹ 6 / باب 5]
3۔ 14:32، 16:12، 67:15۔ [نوٹ 1 / باب 10]
[3 حوالہ جات]
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/the-primacy-justice-qur’an-essential/d/104027
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/against-usury-profiteering-/d/104083