محمد ناصر مصباحی
12 دسمبر ، 2012
ہم نے رام پور کے جناب طارق
عبداللہ صاحب کی وہ متنازع تقریر سنی جو انہوں نے حالیہ دنوں ضلع مراد آباد (یوپی
) میں کی اور جس کے خلاف ضلع رام پور کے حضرت مفتی سید شاہد علی رضوی صاحب نے بر وقت سخت مگر صحیح
اور ضروری ایکشن لیتے ہوئے فتوائے تکفیر جاری کیا اور اپنی شدید مسلکی اعتدال پالیسی
کے باوجود جس کے خلاف علمائے جامع العلوم فرقانیہ بالخصوص حضرت مفتی محبوب علی وجیہی
صاحب اور قاضی شہر حضرت مولانا خوشنوو میاں صاحب کو بھی مشروط تکفیری فتویٰ جاری کرنا
پڑا جس میں انہو ں نے یہ بھی کہا کہ یہ شخص (طارق عبد اللہ) جاہل معلوم ہوتا ہے جسے
یہ پتا ہی نہیں کہ وہ کیا بول رہا ہے اور کیا بول چکا ہے ۔ ہم شروع ہی میں یہ وضاحت
کردیں کہ طارق صاحب کی متنازع تقریر کا پس منظر غالباً ردِ تقلید اور نقدِ معمولات
اہل سنت وغیرہ رہا ہے ۔ طارق صاحب کی متنازع تقریر سننے کے بعد ہم پورے جذبۂ ایمان و انصاف کے ساتھ اس نیتجے پر پہنچے ہیں کہ تقریر
واقعی بہت تشویش ناک ہے، انہوں نے ایک آدھ جگہ یہ تو کہا ہے کہ ہم امکانی جہت سے گفتگو
کررہے ہیں او رگفتگو کے اول و آخر آدھے پونے جملے میں اس کا بھی مجمل دعوی کیا کہ
ہمارے پاس قرآن کے مکمل تحفظ پر دلائل موجود ہیں، مگر اس کے بعد انہوں نے قرآن مجید
کے عدم تحفط مسلسل اور عدم قطعیت متواتر پر جس انداز اور بظاہر جس دلچسپی اور تفصیل
سے گفتگو کی ہے، وہ یقیناً روح فرسا ہے ، انہوں نے بہت سے بھیانک اعتراض اٹھائے اور
خطرناک سوالات قائم کیے اور تشنہ ٔ جواب چھوڑ دیے ،اُنہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ کے زیر نگرانی قرآن مجید کی تدوین ثانی سےمتعلق جس انداز سے یہ کہا کہ یہ ممکن
ہی نہیں کہ پانچ چھ لوگ مل کر ایک قرآن کو الگ الگ لکھیں اور لکھنے میں اُن سےکہیں
غلطی نہ ہو، مخصوص انداز کے تناظر میں ذکر کی گئی وہ طارق صاحب کی اپنی ذاتی رائےمعلوم
ہوتی ہے، انہوں نے اپنی ذاتی رائے کی وکالت کے انداز میں یہاں سو فیصد غلطی کے امکان
کا صریح دعویٰ بھی کیا ، جس کا مطلب ہوا کہ غلطی کے عدمِ امکان کا دعویٰ ایک فیصد بھی
درست نہیں ، اُنہوں نے بات کے استحکام کے لیے یہ بھی کہا کہ میں خود کمپوٹر پر لکھتا
ہوں اور بار بار صحیح کے بعد بھی غلطیاں رہ جاتی ہیں، اُنہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا
کہ مسلمانوں کے پاس کچھ بھی اصلی ڈاکیو منٹ (original
document) نہیں
، یہاں تک کہ دین بھی اصلی نہیں ، سب ہوا میں ہے۔ اُنہوں نے ایک حدیث کاذکر کرتے ہوئے
‘‘مذہب’’ کا معنی لٹرین بتایا اور مسلمانوں کے درمیان اس کے رواج کو تاریخی سازش قرار
دیا ،اُنہوں نے اسلام کو دین کے بجائے ‘‘مذہب’’ کہنے کا نہایت بھدے انداز میں مذاق
اُڑا یا ۔ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے جو نسخۂ قرآنی حضرت عثمان رضی اللہ
عنہ نے حاصل کیا ، قرآن کی تدوین ثانی کے بعد وہ کہا ں گیا اور حضرت عثمان کی شہادت
کے وقت خود آپ کا وہ خون آلود نسخہ کیسے اور کہا ں غائب ہوگیا اور پھر نسخہ ایک مگر
اچانک اُس ایک نسخے کی موجودگی کی خبریں بیس الگ الگ جگہوں سے کیوں آنے لگیں، بقول
طارق صاحب اسی موقع پر اصل مصحف عثمانی کو غائب کیا گیا تھا جس کا تاریخ میں کچھ پتا
نہیں ملتا، (نعوذ باللہ ) ۔ غرض طارق صاحب نے مصحف مقدس کی معتبریت پرکئی طرح بھیانک
اعتراضات کیے او رپھر ماتم یہ کہ اس کے بعد موضوع سے ہٹ کر گفتگو چھڑ جانے کا عذر کر
کے آگے بڑھ گئے او رشبہات کا بالکل ازالہ نہ کیا ۔ طارق صاحب کی تقریر سننے کے بعد
اُن کے خلاف لگے فتوائے تکفیر کی مخالفت نہیں کرناچاہئے ، مزید یہ کہ ہم اُن کے اس
انداز تقریر کو قوم کے لیے سخت فتنہ انگیز اور براہ راست دین اسلام کے لیے نہایت نقصان
دہ قرار دیتے ہیں ، طارق صاحب کو یقیناً اپنی حالیہ متنازع تقریر پر توبہ کرنا چاہئے
، تکفیر کے مسئلے پر چاہے بہ تقاضائے انا اُنہیں مفتیان ضلع سے اختلاف ہو مگر اُن کے
کچھ جملے ضرور کفریہ انداز کے ہیں اور توبہ کا واجبی تقاضا کرتے ہیں اور آئندہ کے
لیے بھی ایسے انداز بیان سے حذر کو لازم ٹھہراتے ہیں۔
ہم نے طارق صاحب کی حالیہ
متنازع تقریر پر اس لیے خاص کر یہ آواز اٹھائی کیوں کہ اس سے پہلے ہم ان کی براہ راست
ایک تقریر سن چکے ہیں جس میں اتحاد ملت کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ
کے حوالے سے قرآن مجید کی آخری دو سورتوں کے متعلق ایک حساس بات پبلک میں ذکر کی
( یہاں صراحت مناسب نہیں : مصباحی) اور پھر اُس سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ جب ایسے
بڑے اختلاف میں وہاں تکفیری فتوے نہیں دیے گئے تو ہمیں بھی شدت پسندی سے بچنا چاہئے
اور ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرنا چاہئے ۔
اُن کے اس بیان سے بھی کئی شبہات کو جنم ملا ، مثلا مصحف مقدس کی کاملیت و قطعیت پر
بعض صحابہ کو اختلاف رہا ہے ؟ مصحف پاک کے کسی حصے کا انکار قابل تکفیر جرم نہیں ہے؟
تحفظ قرآن کی الٰہی ضمانت سچی نہیں ہے؟ ۔ ظاہر ہے عام پبلک تو یہی نتیجہ اخذ کرے گی
اور اخذ نتیجہ بہت حد تک صحیح بھی ہے اور یہ باتیں حقیقتاً فتنہ انگیز ہیں، اتحاد ملت
کی ضرورت پر اس سے استدلال کسی صورت مناسب نہیں، بلکہ یہاں خود ملت کے وجود پر سوالیہ
نشان لگ گیا کہ آیا ملت کیا ہے،یعنی یہ کہ کیا ملت (مسلمہ) وہ بھی ہے کہ جو قرآن
مقدس کی کاملیت و قطعیت پر شک ظاہر کرے یا اُس پر اظہار شک کو کفر نہ جانے ۔ یہاں یہ
کہنا قطعاً عبث ہے کہ میری مراد یہ نہیں تھی ، جیسا کہ آج بھی وہ یہ حیلہ کررہے ہیں
اور بجائے اللہ سے توبہ کرنے کے پبلک میں وضاحت کی سی ڈی بانٹ رہے ہیں ، کیونکہ پہلے
تو یہ قطعی نہیں کہ یہ مکر ہے یا واقعی دل کی سچی آواز اور دوسرے ممکن ہے کہ اللہ
کے یہاں یہ عذر قبول کر لیا جائے ، مگر دنیا میں از روئے شرع اس کی قطعاً اجازت نہیں
کہ آپ جہاں تہاں قرآن و حدیث کے خلاف شعوری یا غیر شعوری طور پر شبہات انگیز تقریریں
کرتے پھریں او رلوگوں کو ایک بڑے فتنے میں ڈالیں ، صحیح بات یہ ہے کہ اگر بالفرض آپ
پبلک کے سامنے اپنی مراد واضح نہیں کر پاتے ہیں اور دین و قرآن کے متعلق اپنے مافی
الضمیر کی ادائیگی سے قاصر ہیں تو آپ پبلک میں اپنا پیشۂ دعوت و تبلیغ تر ک کر دیجئے
، کیونکہ تقریر میں اہم یہ نہیں کہ آپ کی تقریر سے میسج کیا جا رہا ہے ۔ آج طارق
صاحب کہہ رہے ہیں کہ قرآن کے مکمل کلام الہٰی ہونے کے دعوی کو بھی صحیح ثابت کرسکتے
ہیں ، مگر یہاں اُنہیں سوچنا چاہئے کہ یہ تو آپ کے زورِ ذہانت کی بات ہوئی کہ جسے
آپ اپنی تقریروں میں مسلسل باطل ٹھہراتے پھر رہے ہیں ، بہ وقت ضرورت اُسے آپ سچ بھی
ثابت کر سکتے ہیں جب کہ موجودہ شدید اعتراض اُس پر ہے کہ جو آپ غلط سلط بولتے پھر
رہے ہیں ۔ طارق صاحب کا یہ کہنا بھی بے محل ہے کہ میں قرآن کے کامل ہونے پر ایمان
رکھتا ہوں کیونکہ اس سے یہ جواز نہیں نکلتا کہ آپ اُس کے ناقص و نامکمل ہونے کو ثابت
کرتے پھریں ، مزید یہ کہ اعتراض آپ کے عقیدۂ دل پر نہیں بلکہ آپ کی زبان سے نکلے
خطرناک جملوں پر ہے ، حالانکہ دیکھا جائے تو سامنے والے کے لیے تو آدمی کے جملے ہی
دل کی بات کا پتہ دیتے ہیں ، البتہ اب اگر دل و زبان کی عدم یکسانیت کی بات ہے تو یہ
کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔
طارق صاحب یہاں اس پر بھی
غور کریں کہ جب آپ اس بات کو بہ دعوائے خود قطعی بنارہے ہیں کہ حضرت عثمان غنی کے
زیر نگرانی جن مصاحف ِ مقدسہ کی تدوین ہوئی ، اُن میں سو فیصد غلطی ممکن ہے اور حضرت
حفصہ کے پاس جو قرآن کا تحریری نسخہ موجود تھا وہ لاپتہ ہوگیا اور مزید یہ کہ خون آلود اصل مصحفِ عثمانی کا بھی تاریخ میں
کوئی ثبوت نہیں ملتا ، تو پھر آپ کس بنیاد پر یہ دعوی کررہے ہیں کہ ہم قرآن کے کامل
تحفظ کے دعوی کو بھی صحیح ثابت کرسکتے ہیں، ظاہر تو یہ ہے کہ دلائل کے جس مثلث کو آپ
نے مشکوک ٹھہرادیا ، قرآن کے قطعی تحفط پر امت مسلمہ کے پاس یہی سب سے بڑی دلیلیں
تھیں او رآپ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن کا تحفظ الہٰی نظام نے کیا ہے ، تو یہ کہہ
کر آپ جس آیتِ قرآنی کی طرف اشارہ کررہے ہیں وہ بھی تو قرآن کو کامل کلام خداوندی
ثابت کرنے سے پہلے مشکوک قرآن کا حصہ نا معتبر قرار پائے گی اور اس طرح آپ کا اس
آیت پر تکیہ کرنا غلط ہوگا ، لہٰذا سوچئے کہ قرآن کے مسلسل تحفظ کو اس صورت میں آپ
ایک جگہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ قرآن کا حافظ
ہونا کوئی دلیل نہیں ہے ۔
معاف کیجئے ! مزاج سے ہٹ کر
ایک تلخ بات ذہن میں آرہی ہے اور وہ یہ آپ کے پاس ابھی ایک آپشن باقی ہے اور وہ
یہ کہ آپ دعویٰء نبوت کر ڈالیں ،کیو نکہ اس کے بعد آپ کی ہر بات بے چوں چرا تسلیم
کرلی جائے گی ، اُس وقت آپ امریکہ کی الفرقان کتاب کو بھی کامل قرآن ثابت کرنا چاہیں
گے کیونکہ تو لوگ آپ سے دلیلیں نہیں مانگیں گے کیونکہ لوگ آپ کو جدید مسیلمہ تسلیم
کرچکے ہوں گے ۔ بہر حال طارق صاحب کو ہمارا علمی مشورہ ہے کہ وہ قرآنی تحفظ کے قطعی
ثبوتوں کو رد کر کے اپنے پاس دیگر نئے ثبوتوں کے ہونے کا خالص جہل و دجل بھرا دعویٰ
کم از کم علمائے کرام کے سامنے نہ کریں ، کیونکہ اس سے آپ کو تو کچھ نہیں بگڑے گا
مگر قوم کو دو بڑے نقصان ہوں گے، ایک یہ کہ میڈیا میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے بہت
سے سادہ لوح مسلمان واقعی گمراہ ہوں گے اور دوسرے یہ کہ قطعیت ِ قرآن کی جس بنیاد کو آپ ڈھا رہے ہیں ، اُس کے بغیر ایک طرف
تو حقیقت یہی ہے کہ قیامت تک بھی آپ موجود ہ مصحف مقدس کو کلام خدا ثابت نہیں کرسکتے
ہیں اور دوسرے آپ تو دنیاسے چلے جائیں گے، مگر آپ کی نا محمود کوششوں سے دنیا میں
ایک نئے فتنے کے ابھرنے کا امکان بڑھ جائے گا جس کی چیرہ دستیوں سے خدا معلوم امت کب
تک جو جھتی رہے گی۔
ہمیں شدید افسوس ہے کہ آج
کل طارق صاحب اپنے بیان پر وضاحت کی سی ڈی بانٹنے کا ڈھونگ کرنے میں مصروف ہیں اور
اخبارات میں بھی وضاحت وضاحت کی رٹ لگارہے ہیں جس میں ایک آدھ جگہ رسمی طور پر معافی
کا لفظ بھی داخل کررہے ہیں، جبکہ احساس خطا کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے کفر
یہ کلمات بلکہ ذہن میں بیٹھے کفری نظریات سے سچے
دل سے تائب ہوں اور اُس کے بعد کایک بارگی ایک صریح اور مکمل تو بہ نامہ مختلف
اخبارات کو جاری کریں ، تو بہ کالہجہ بھی رعونت کے انداز سے یک سرخالی اور ندامت و
شرمندگی کے احساس سے مکمل بوجھل ہو کیو ں کہ اپنی غلطی پر اللہ سے تو بہ ور جوع کر
کے آپ کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں۔ جب کہ یہ جوہر دن اخبار وں میں بے سودو ضا حتیں
چھپوائے جارہے ہیں ، یہ قطعی نامکمل ہیں بلکہ یہ چیزیں شرع کے اصل مطالبے کو بھی گڈ
مڈ کررہی ہیں اور لو گ اس سے کنفیوژ ہورہے ہیں ۔ یوں بھی طارق صاحب کو سوچنا چاہئے
کہ وضاحت اُس چیز کی کی جاتی ہے کہ جو کسی کے سمجھ میں نہ آئی ہو یا مثلاً آپ نے
بہت گنجلک بات کہی ہو، جب کہ یہاں حال یہ ہے کہ علما آپ سے صریح طور پر کہہ رہے ہیں
کہ ہم نے آپ کی پوری تقریر سنی او رسمجھی ، آپ نے بہت صاف صاف کفری کلمات کہے ہیں،
آپ اُس پر توبہ کریں تو آپ بلا ضرورت وضاحت پر وضاحت کیوں دیے جارہے ہیں ، کیا اس
سے آپ علما کو جاہل او رناسمجھ ثابت کرنا چاہتے ہیں ، یا پھر کیا اس چال سے آپ عوام
کو گمراہ کر کے اپنے حق میں مثبت کرلینا چاہتے ہیں ، غالباً اسی لیے آپ رعونت آمیزسیاسی
وضاحت نامے میں چالاکی سے کہیں نہ کہیں معافی کا لفظ بھی اضافہ کرلیتے ہیں ۔ آپ یہ
بھی ڈھنڈ ورہ پیٹ رہے ہیں کہ ہم نے انٹر نیٹ اور یو ٹیوب کے ذریعے پوری دنیا میں وضاحت
پہنچادی ہے اور مختلف علما کو بھی وضاحتی سی ڈی دے دی ہے ، مگر ہماری آپ سے ضروری
مخلصانہ گزارش یہ ہے کہ ضلع مراد آباد او ررامپور سے باہر جن علما کو آپ وضاحتی سی
ڈی بھیج رہے ہیں اُن کو ہر حال میں اپنے کفر یہ بیان کی سی ڈی بھی ضروردیں تاکہ یہ
بھی معلوم ہو کہ آپ وضاحت دے کس پر رہے ہیں اور تاکہ وہ یہ بھی غور کرسکیں کہ یہاں
وضاحت کی نہیں بلک صریح کفر یہ نظریات سے باضابطہ تو بہ و تجدید ایمان کی ضرورت ہے ، ورنہ جب اُن کو یہ
ہی نہیں پتہ کہ آپ وضاحت دے کس پر رہے ہیں ، تو وہ آپ کی وضاحت کا کریں گے کیا، دیتے
رہیے آپ ہزار وضاحتیں ۔
ہمیں افسوس ہے کہ طارق صاحب
کے بعض معتقدین اُن کی حالیہ مکر وہ ترین تقریر کی شرعی مخالفت کو مسلکی رنگ دے کر
مسئلے کی حساسیت کو ہلکا کررہے ہیں، وہ طارق صاحب کے اس عذر کی ضرورت سے زیادہ وکالت
کررہے ہیں کہ مطلب یہ نہیں تھا ، جب کہ یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی اُنہیں یہ ضرور تسلیم کرناچاہئے کہ طارق صاحب کا یہ اندازِ
دعوت و تبلیغ قطعاً مذموم او راسلام و مسلمان دونوں کے لیے مضر ہے اور فی الواقع ایسی
تقریریں ادیان باطلہ پرنہیں بلکہ براہِ راست اسلام اور کتاب اسلام پر حملہ ہیں ، ایسی
تقریریں ہمارے دشمنوں ہی کو ہمارے خلاف ہتھیار فراہم کریں گی او رساتھ ہی بہت سے سادہ
لوح مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہ گمراہ کن سوچ بیٹھ سکتی ہے کہ قرآن میں بھی بہت اختلاف
ہے ۔ پھر ذرا سوچئے ! اگر کوئی شخص بھول کرہی ستونِ اسلام پر گرُز برسانے لگے تو کیا
اُسے روکا نہیں جائے گا او رکیا اُسے یہ کہہ
کر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اسلام کی بنیاد کو جان بوجھ کر کھوکھلا نہیں کررہا ہے اور
یہ کہ اس سے اُس کی مراد تہدیم اسلام نہیں
بلکہ اپنی بدنی ورزش ہے ۔ ہم یہاں طارق صاحب کے معتقدین سے گزارش کریں گے کہ
وہ اپنی آخرت کی بھلائی کے تئیں کامل ایمانی جذبے سے صرف اس بات کو یقینی بنا ئیں
کہ وہ بہر حال قرآن و حدیث کے ساتھ ہیں ، طارق جی کی تھیوری کے ساتھ نہیں ، نیز اپنے
ایمان کی کسوٹی یہ بنائیں کہ اگر کسی نے دس باتیں صحیح بولیں اور ایک غلط تو بلا کسی
پاس و لحاظ کے دس کی تائید اور ایک کی تردید کریں۔ مگر افسوس کہ کچھ لوگ خطا ونسیان
کے مرکب مطاع و مقتدیٰ کو بسا اوقات اس طرح سہو د نسیان کے امکان سے پاک خیال کرنے
لگتے ہیں کہ جہاں سے خدائے واحد کے علاوہ کئی خداؤں کے تصور کے جواز کو راہ ملتی ہے
یا کم از کم جہاں سے باب نبوت وا ہوتا نظر
آتا ہے ۔ ہم آخر میں بالخصوص اتر پردیش کے تمام بڑے علما و مفتیان کرام ( بہ شمول
علمائے بریلی و دیوبند) سے گزارش کریں گے کہ وہ ضلع رامپور کے سینئر علمائے کرام سے
طارق صاحب کی متنازع تقریر کی ویڈیو سی ڈی حاصل کر کے اُسے بذات خود سنیں اور پھر اُس
پر اپنا نقطۂ نظر واضح کریں او ربتائیں کہ کیا قوم مسلم کو ایسی تقریروں کی ضرورت
ہے اورکیا دیگر مذاہب کے لوگوں کے درمیان ایسی
تقریروں سے خود ہمارے ہی قرآن مجید کی قطعیت مشتبہ نہ ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ اسلام
کو اُس کے نادان دوستوں کی مضرتوں سےبھی محفوظ فرمائے ۔
آمین
مخالفت کو مسلکی رنگ دے کر
مسئلے کی حساسیت کو کم کرنے کی کوشش نہ کی جائے ، فی الواقع ایسی تقریریں براہِ راست
اسلام اورکتاب اسلام پر حملہ ہیں۔
‘‘علمانے پوری تقریر سن کر او رسمجھ کر فتویٰ تکفیر دیا ہے ، لہٰذا
کفرِ صریح پر وضاحت کی سی ڈی نہیں ، تو بہ و تجدید ایمان کی سی ڈی تقسیم کریں طارق
عبداللہ ’’
یہ بات مذہبی ہی نہیں بلکہ
تاریخی نقطۂ نظر سے بھی قطعی ہے کہ مذہب اسلام کی کتاب مقدس قرآن مجید جو آج بھی
ہمارے درمیان بشکل مصحف موجود ہے وہ مکمل آسمانی کتاب ہے اور اپنے یوم نزول سے آج
تک کسی بھی طرح کے تغیر سے پاک ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول
ہوا ، آپ نے اُسے زبانی حفظ کیا پھر اپنے زیر نگرانی انتہائی محتاط و معتمد اور تقویٰ
شعار صحابہ سے لکھوا کر محفوظ کرایا، شروع ہی سے مختلف صحابۂ کرام بھی حافظ قرآن
رہے ،پیغمبر اسلام کے بعد خلیفہ ٔ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے زیر
نگرانی متعدد صحابۂ کرام کے ذریعہ قرآن مجید کی ایک جگہ تدوین کرائی اور شدید اہتمام
کے طور پر اب تک کے لکھے تمام قرآنی شہ پارے
جمع بھی کرائے ، آپ کے بعد خلیفۂ ثالث نے اُس ایک مدون نسخے سے محتاط و معتمد انداز
میں متعدد تحریری نسخے تیار کرو اکر مختلف بلا د اسلامیہ میں تقسیم کرائے ، غرض قرآن
مجید اپنے یوم نزول سے کسی بھی طرح کے سہو و نسیان کے امکان سے مکمل پاک رہا ہے اور
یہ دونوں طریقوں پر رہا، زبانی حفظ کر کے بھی اور تحریری طور پر ضبط کر کے بھی ، یاد
رہے کہ قرآن کے حافظوں کی ہمیشہ کثرت رہی ہے اور تحریری طور پر بھی ایک ایک آیت کو
متعدد جگہ لکھ کر محفوظ کیا گیا، پیغمبر اسلام نے قرآن کی ہر ہر آیت کا شدید تحفظ
فرمایا، آپ نے قرآن کے عہد نزول میں احادیث تک
کو حیطۂ تحریر میں لانے سے منع کردیا تھا اور صرف قرآنی آیات کو ہی لکھ کر
محفوظ رکھنے کا حکم دیا تاکہ کسی طرح کے خلط کے امکان سے بھی بچا جائے، حضرت جبرئیل
جب آپ کے پاس آیا ت ربانی لے کر نازل ہوتے
اور آپ کو پڑھ کر سناتے تو آپ جلدی جلدی اُسے دہراتے اور یاد کرنے لگتے تاکہ کچھ
بھی یاد ہونے سے نہ رہ جائے ، حضرت جبرئیل
نے آپ کے ساتھ کئی مرتبہ قرآن کا مکمل دورہ بھی کیا یعنی سنا اور سنایا ، پیغمبر
اسلام کے بعد جملہ خلفائے راشدین نے تحفظ قرآن پر مکمل توجہ مرکوز رکھی اور بالخصوص
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس اہتمام خاص کے ساتھ خلیفہ اوّل کے زیر نگرانی مدون
کیے گئے قرآن کے ایک نسخے سےچند نسخے تیار کر ائے اور اس طرح باذنِ الہٰی تحفظ قرآن
کو جو دوام و قطعیت بخشی وہ تاریخی حیثیت سے بے مثال ہے اور اسی خدمت جلیلہ کی بنیاد
پر آپ کو جامع القرآن بھی کہا جاتا ہے، ویسے بھی دیکھا جائے کہ قرآن مجید تو جان
اسلام ہے ،پھر بھلا اس میں حذف و تغیر کیسے واقع ہوسکتا تھا ، جو لوگ دین کی خاطر اپنا
گھر بار چھوڑ سکتے تھے، مال و اولاد کو تباہ ہوتے دیکھ سکتے تھے ، بہ رضا و رغبت اپنی گردنیں کٹا سکتے تھے ، دوسروں کی
گردنیں کاٹ سکتے تھے ، اپنی اولادوں کو اپنے ہاتھو ں سےقتل کرنے کی خواہش رکھتے تھے
، وہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے جان ایمان
و اسلام یعنی کتاب الہٰی کے جمع و تدوین میں سہوونسیان سےکیسے کام لے سکتے تھے ، حقیقت
میں یہ بات عادتاً و عقلاً ہر طرح سے بعید ا ز امکان ہے اور اگر کوئی شخص جو اسلام
کے عہد نزول و خیر القرون کے متصلب دینی حالات اور پیغمبر اسلام و صحابۂ کرام کے نہایت
پختہ دینی و ایمانی جذبوں سے واقف ہے ، وہ اگر اس میں کوئی شک ظاہر کرنے جیسی
بات کہے تو یہ واقعی افسوس ناک ہے ۔
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
کے زمانے میں تو حفاظ ِ قرآن کے باوجود قرآن مجید کو دیکھ کر پڑھتے تھے، جیسا کہ
بہ وقت شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حافظ قرآن ہونے کے باوجود قرآن کو دیکھ
کر پڑھ رہے تھے ، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن میں کسی حروف و نقطے کی تبدیلی ہوجائے
اور اُنہیں پتہ نہ چلے اور وہ یوں ہی غلط سلط پڑھتے رہیں اور اگر پتہ چل جائے تو اُن
کا ایمانی خون جوش نہ مارے ، جو لوگ جنگ میں جائیں تو جوشِ شہادت میں آکر ہزاروں دشمنوں
کے بیچ اکیلے گھستے چلے جائیں ، جنہیں تحفظ
دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے میں نہ بڑھا پارو کے ، نہ ہاتھ پیر کی معذوری ، نہ
ماں کی اکیلی اولاد ہونے کا احساس ، نہ بچپنے
کی مجبوری ،نہ زفاف کی ادھوری رات، غرض جو کسی بھی حال میں دین کی خاطر کٹنے مرنے کو
ہر دم تیار رہیں، بلکہ بچّے تو اس خیال سے کہ کہیں رسول ہمیں چھوٹا سمجھ کر جنگ سے
روک نہ دیں، مجاہدین کی صف میں پنجوں کے بل کھڑے ہوکر اپنے بڑے ہونے کا احساس کرائیں
، وہ بھلا قرآن کی ذرہ برابر تبدیلی یا اُس کو غائب کرنے کی کسی بھی سازش پر یہ سوچ
کرکیسے خاموش رہ سکتے تھے کہ بولنے پر اُن کی جان چلی جائے گی ، آخر دین کے لیے وہ
اپنی جان قربان کرنے ہچکچا تے ہی کب تھے او رپھر اُن پر یہ الزام لگانا کہ اُن لاکھوں
لاکھوں سر فروش صحابہ و تابعین یا تابعین و تبع تابعین کو تحریف قرآن یا اس جیسی کسی
خطرناک سازش میں tools( الۂ کار) بنالیا گیا
تھا ،مذہبی طور پر ہی نہیں بلکہ تاریخی طور پر بھی انتہائی بدبختانہ بہتان ہے جب کہ
ایک صاحب ایمان کے لیے یہ حد کفر تک پہنچی ہوئی بات ہے۔ یوں بھی تاریخ ادیان عالم سے
واقف حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیگر سماوی یا غیر ادیان کی اصل کتابوں میں خذف و اضافہ صرف اس لیے ممکن ہوا کہ وہ کتابیں
صرف چند دھرم گروؤں کے پاس رہتی تھیں ، عام لوگوں کا اُنہیں زبانی حفظ کرنا تو دور
کی بات، عموماً وہ اُن کی زیارت سے بھی محروم رہتے تھے، جب کہ قرآن ہمیشہ زبانی یا
تحریری حفظ و ضبط کی شکل میں سب لوگوں کے درمیان موجود رہا، قرآن کے مکمل حفظ کرنے
والے بھی عہد ِ رسالت ہی سے متواتر موجود رہے ۔ پھر بھلا سوم خلیفۂ راشد کے عہدِ متاخر
میں کہ جب حفاظ کی واقعی بہتات تھی ، قرآن کے اندر حذف و اضافہ کیسے ممکن ہوسکتاتھا
، جب کہ عربوں کی قوت حافظ کی بھی اپنی تاریخ رہی ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا آج
تک عاجز ہے۔
مجلس فکر اسلامی ، بریلی گیٹ
12 دسمبر ، 2012 بشکریہ : روز نامہ جدید میل ، نئی دہلی
URL: