New Age Islam
Wed Feb 12 2025, 09:55 AM

Urdu Section ( 9 Feb 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Punishment for Apostasy In The Light Of Quran and Hadith مُر تد کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں

 

محمد نجیب قاسمی سنبھلی (ریاض)

26 دسمبر، 2014

حالیہ ( 2014 ) پارلیمانی الیکشن کے بعد ہندوستان کی سیاست میں زبردست تبدیلی رو نما ہوئی ہے،جس کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے  خلاف زہر افشانی کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی  کو نیست و نابود کرنے کی سر گرمیوں کو تیز کردیا ہے۔ چنانچہ کبھی شر آمیز بیانات سےمدارس اسلامیہ کی کردار کشی کی جارہی ہے تو کبھی ‘‘ لو جہاد’’ کے نام سے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بو کر یہاں  پر امن ماحول کو بگاڑ ا جارہا ہے ۔ تازہ واقعہ آگرے کا ہے جہاں ایک فتنہ پرور تنظیم نے پیسوں اور دیگر مادی فوائد کا لالچ دےکر غریب مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے اور اپنے اس عمل کو ‘‘ گھر واپسی’’ کا نام دیا ہے ، جس کی وجہ سے صورت حال بد سے بد تر ہو نے کا خدشہ ہے ۔ اسلامی  نقطۂ نظر میں مذہب کی تبدیلی یعنی  مرتد ہوجانا مسلمان کے لئےبہت بڑی مصیبت  ہے جو دنیا و آخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے۔

لہٰذا میں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس تباہ کن گناہ کا ذکر کروں تاکہ عام لوگ اس کے بڑے بڑے نقصانات سے واقف ہوسکیں ۔ الحمد اللہ! آگرے کے مسلمانوں کی تبدیلی  مذہب حقیقت میں اُن کے ساتھ ایک دھوکہ ثابت ہوئی جو جلد ہی ان کے سامنے واضح ہوگیا جس سے فوراً ہی وہ حضرات اپنے حقیقی مالک و رازق و خالق سے تائب ہوکر اپنے مذہب اسلام میں واپس آگئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسلام پر ثابت قدم رکھے ، ہم تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے ناپاک ارادوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ مضمون کے آخر میں چند  ایسی تدابیر بھی ذکر کی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس تباہ کن گناہ سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور اپنے بھائیوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اسلام میں غیر مسلموں کے لئے تبلیغ و تر غیب تو ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق جبراً کسی غیر مسلم کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا ۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ مذہب اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ دوبارہ مذہب اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ  کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر دین اسلام سے پھرنے والا یعنی  مرتد مذہب اسلام کو دوبارہ اختیار کر لیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کے ساتھ کلمہ شہادت بھی پڑھنا ہوگا، لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو جس طرح دنیاوی  حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکا یا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باغی کو بھی کسی طرح رعایت نہیں دی جائے گی او راسے اسلامی حکومت قتل کرائے گی جیسا کہ ابتدا اسلام سے آج تک تمام مفسرین ، محدثین فقہاء و علماء کرام نے قرآن و حدیث اور خلفاء راشدین کے اقوال و افعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے۔ ہند جیسے  ملک میں  اس حکم کی تنفیذ  اگر چہ نہیں  ہوسکتی ، پھر بھی کم از کم ایک مسلمان کو یہ ضرور معلوم ہوناچاہئے کہ شوہر کے مرتد ہونے پر بیوی کا اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں ، اس کے مسلمان والدین یا قریبی رشتہ دار کے انتقال پر اس کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اتداد کی حالت میں انتقال پر اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور نہ مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے گا ، وغیرہ وغیرہ۔

آیات قرآنیہ:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل  کے بعض لوگو ں کا ذکر فرمایا ہے  کہ وہ بچھڑ ے کی عبادت کرنے  کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق  حکم فرمایا : فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ( 2:54) لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ جن لوگوں نے گئو سالہ پرستی  کی تھی اور مرتد ہوگئے تھے، ان کو اُن لوگوں کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قتل کرایا گیا جنہو ں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی ۔ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرما کر اللہ تعالیٰ سورۃ الا عراف ، آیت 152 میں ارشاد فرمات ہے:وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ اور یہی  سزا ہم دیتے ہیں بہتان باندھنے والو ں کو۔ بنی اسرائیل کے اس واقعے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت جاریہ بیان فرمائی کہ مرتد ہونے والے شخص کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں یا دیں گے کیونکہ نَجْزِي فعل مضارع کا صیغہ ہے جس میں حال او رمستقبل  دونوں  کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ غرض یہ کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مرتد ہونے والے شخص کے متعلق اپنا فیصلہ بیان فرمایا۔ قرآن  وحدیث کی روشنی میں علمائے اُمت کا اتفاق ہے کہ گزشتہ شریعتوں کے احکام جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیان کئے ہوں اور ان پر کوئی نکیر نہ کی ہو تو اس اُمت پر وہ عمل اسی نوعیت سے باقی رہے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرتد ہونے والے شخص کو  وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِينَ کہہ کر قتل کرنے کی تائید کی ہے۔ نیز قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد ہونے والے شخص کو واضح طور پر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ زمین میں فساد برپا کرنے والوں اور قتل غارت گری کرنے والوں کے لئے سورۃ المائدہ  آیت 33 میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی روشنی میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیت اُن لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو مرتد ہوگئے ہوں ۔ چنانچہ عکل اور عرینہ والوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال  کے اونٹوں کو ہنکالے جانے او ران چرواہوں کو قتل کرنے کے جرم میں جو عبرت انگیز سزا دی ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو اسی آیت کے تحت ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے مانعین  زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۃ اللہ و رسولہ کے تحت آتاہے۔

احادیث نبویہ:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ بَدّلَ دِینَہ فَا قتلوہ جس نے  اپنا دین (اسلام ) بدل دیا تو اس کو قتل کردو۔ ( صحیح بخاری، ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد)

حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ غَیَّرَ دِیْنَہ فَا ضْرِ بُو ا عَنْقَہ جس نے  اپنا دین ( اسلام ) بدل دیا تو اس کی گردن کو اڑا دو۔ ( موطامالک)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بنا کر  بھیجا جب کہ حضرت معاذ  رضی اللہ عنہ  کو ان کے بعد دوسرے  صوبے کا گورنر بنا کر بھیجا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گئے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اکرام ضیف کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے لے تکیہ ڈالا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ابھی سوار تھے کہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص بندھا ہوا دیکھا ۔ پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابو موسیٰ  اشعری رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا،  اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا اے معاذ ! بیٹھ جاؤ ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ  جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، میں  نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ تعالیٰ  او راس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے ۔ تین دفعہ  حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور و ہ قتل کردیا گیا۔ ( صحیح بخاری ، صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی  مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتاہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، خون بہانا جائز نہیں مگر تین چیزوں میں سے  کسی ایک کے ارتکاب پر۔ (1) شادی شدہ ہونے کےبعد زِنا کرے۔ (2)  کسی کو قتل کردے تو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا ۔( 3) اپنے دین اسلام کو چھوڑ کر ملت سے خارج ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم، ابوداود، ابن ماجہ ، مسند احمد)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں  ہے مگر تین چیزوں سے ۔(1)  یہ کہ شادی کے بعد زنا کرے۔(2) کسی انسان کو قتل کردے۔(3) اسلام کے بعد کفر اختیار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔ ( نسائی ، ابوداود ، مسند احمد)

ام المؤمنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  مَنْ ارَتَدَ عَنْ دِیْنہِ فَا قْتلوہ جو شخص اپنے دین ( اسلام ) سے پھر گیا تو اسے قتل کردو۔( مصنف عبدالرزاق)

مشہور تابعی حضرت ابو قلا بہ رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  کی بھری ہوئی عدالتی  اور علمی مجلس میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ کی قسم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیامگر تین جرائم میں ۔(1) وہ شخص  جو ناحق  کسی کو قتل کرتا تو اسے قصاص میں قتل کرتے ۔(2) شادی کے بعد زنا کرتا تو اسے قتل  کرتے ۔(3) اسلام سے پھر کر مرتد ہوجاتا تو اسے قتل کرتے۔ ( صحیح بخاری )

غرض یہ کہ دنیامیں حدیث کی کوئی بھی مشہور و معروف کتا ب ایسی  موجود نہیں ہے جس میں توبہ نہ کرنے پر مرتد کو قتل  کئے جانے کے متعلق رحمۃ  اللعالمین  کا ارشاد موجود نہ ہو۔

 خلفاء راشدین اور قتل مرتد:

شیخ جلا ل الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سےنقل کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور مدینہ  منورہ  کے ارد گرد  میں بعض حضرات مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان کے قتل میں تامل کررہے تھے ، لیکن  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا  کہ اگر چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی،  لیکن اللہ کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت  تک  جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار کو پکڑ سکے گا۔ ( تاریخ الخلفاء)

اس واقعہ کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اجماع صحابہ مرتد قرار دیا گیا تھا ، چنانچہ  ایک لشکر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا گیا جس نےمسیلمہ کذاب کوموت کے گھات اتار دیا۔ (فتح الباری)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کوگرفتار کیا اور ان کے سزا کے بارےمیں مشورہ کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا،  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر کیا  کہ ان پر دین حق پیش  کرو، اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑ دو ورنہ  قتل کردو۔ اسی طرح حضرت  امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے تحریر کیا ہے کہ حضرت مرتضی رضی اللہ عنہ نے بعض  مرتدین کو قتل کیا ۔ ( صحیح بخاری)  یہ ان خلفاء راشدین کا عمل ہے جن کی اقتداء کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک آنے والی پوری امت کو حکم دیا ہے: تم پر لازم  ہے کہ میری سنت او رمیرے خلفاء راشدین کی سنت  کو لازم پکڑو۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبید کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر قتل کیا تھا ۔ ( فتح الباری)

26 دسمبر، 2014  بشکریہ : روز نامہ اردو ٹائمز ، ممبئی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-punishment-apostasy-light-quran/d/101423 

Loading..

Loading..