دور حاضر میں ہندوستان کا
پڑھا لکھا طبقہ اب تک انگریزی اور دوسری زبانوں کے تعلق سے صحیح فیصلہ نہیں کرپایا
کہ اُسے پڑھایا جائے یا نہیں ۔
محمد ممتاز عالم رضوی
25مئی 2012
آج ہمارا شیرازہ منتشر اور
اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان ،دوسرے مسلمان کو سب وشتم ہی نہیں،
قتل بھی کرڈالتا ہے ۔ بے شرمی کی انتہا ہے کہ ایک سگا بھائی ،اپنے بھائی کا قتل زر،زن
، زمین کی خاطر کررہا ہے۔ اس کا سبب تعلیمات
قرآنی سے بیزاری ہے۔ اگر ہمارے اندر قرآن وسنت پر چلنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تومسلم
آزادی توکجا ،کبھی کسی مسلمان کو ترچھی نظر سے نہیں دیکھے او رہمارا معاشرہ مستحکم
و مضبوط ہوجائے۔ عقیدت مندان غریب نواز رحمۃ
اللہ علیہ کے لئے ضروری ہے کہ صرف خوبصورت منارو مناظر کی یادلے کر اجمیر سے نہ لوٹیں
بلکہ تعلیمات خواجہ کو سمجھنے اور عملی زندگی میں لانے کی کوشش کریں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل سلوک کے نزدیک
اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ ایک مسلمان ،
دوسرے مسلمان کو بلاوجہ ستائے ۔ پھر بطور تعلیم
یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک ظالم بادشاہ نے ایک زمانے سے اپنی رعایا کو پریشان کررکھا
تھا ۔ مدتوں بعد اُسے لوگوں نے مفلسی اور مفلوک
الحالی میں دیکھا۔ ایک شخص نے کہا تو وہی ظلم
پرور شہنشاہ ہے جو کسی پر ترس نہیں کھاتا تھا؟ بادشاہ نے کہا تو مجھے کب سے جانتا ہے
؟ اُس آدمی نے جواب دیا جب تو بادشاہ تھا۔
تو افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس نے کہا میں نے لوگو ں پر ظلم ڈھایا تھا، اسی
کا نیتجہ ہے کہ آج اس صورت میں کھڑا ہوں ۔
یہ تعلیم غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں بتائی ہے کہ حکومت وشوکت کے زمانے
میں لوگوں پر ستم نہیں ڈھانا چاہئے۔ موجودہ زمانے کے سیاستداں اور ارباب اقتدار لوگ
بار بار اس تعلیم کو پڑھیں جو صرف خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت کا مفہوم
یہ سمجھتے ہیں کہ پھولوں کو ڈلیا سر پر رکھو اور حاضر دربار ہوجاؤ اور چند گز کپڑے
پیش کردو یہی فرض محبت ہے ۔ اگر واقعی انہیں غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت ہے
تو ہندوستان میں کہیں بھی انسان تو کجا جانور کا بھی ظلما قتل نہیں ہونا چاہئے
۔ اگر یہ شعور پیدا ہوگیا تو انشا اللہ اُن
کے اقتدار کا زمانہ بھی دراز ہوگا اور عاجز وبیکس کی دعاؤں کے طفیل شوکت و سلطنت محافظت
بھی ہوگی۔
جھوٹ انسان کے لئے کتنا مہلک
ہے اس سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ مگر افسوس
کہ آج انسانی جاہ و حشم کی ساری عمارت جھوٹ کی دیوار پرکھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج
انسانی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں جو جھوٹ بولتا ہے اس کا گھر ویران ہوجاتا ہے۔ اس کے گھر سے خیر وبرکت اُٹھ جاتی ہے۔ آج بالخصوص مسلمان اور بالعموم تمام انسانوں کے
لئے ضروری ہے کہ سچائی کو اپنائیں اور تجارت ومعیشت ،سیاست وقانون کی دیوار کی از سرنو
تعمیر سچائی کی اینٹ پر کریں تاکہ برباد ہوتی دنیا کی عمر دراز ہو اور خوش حال معاشرہ
کی پرواز کرتی روح دوبارہ پلٹ آئے۔ یہ اُسی
وقت ہوگا جب ہر طرف سچائی کی بہار نظر آئے گی۔
قرآن وحدیث کی تعلیمات سے بے اعتنائی کا ماحول پیدا ہوتے ہی ہمارے معاشرے میں
ظلم و برائی کی روک تھام برائے نام رہ گئی ہے۔
ہمارے ملکی قوانین بھی مال وزر کی نذر ہوتے جارہے ہیں ۔ اچھائی کو روکنے اور برائی کو پنپنے کا ماحول بڑی
تیزی سے جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی رہنمائی ملاحظہ ہو۔حدیث
پاک میں آیا ہے ظلم کو دیکھو تو طاقت سے روک دو،
یہ اگر ممکن نہیں تو زبان سے روک دو اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم دل
سے برا مانو اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ
ہے ۔ قرآن مجید میں آیا ہے اللہ تعالیٰ
ظالموں کو پسند نہیں فرماتا ۔
خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ
علیہ نے لوگوں کوبرائی سے روکنے کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک بزرگ کو میں نے دریائے
دجلہ کے کنارے صومعہ میں خلوت گزیں دیکھا ۔
حاضر بارگاہ ہوکر ادب سے سلام کیا۔
اشاروں میں سلام کاجواب ملا او ربیٹھنے کو کہا۔ پھر درویش نے مجھ سے کہا کہ میں پچاس برس سے اس
جگہ گوشہ نشین ہوں۔ ایک بار ایک سخت گیر آدمی
کو لوگوں پر ظلم ڈھاتے دیکھا اور میں نے اُسے ظلم سے باز رہنے کی تعلیم نہ دی اور چشم
پوشی کی۔ غیب سے آواز آئی اے درویش ،اگر
تو اسے ظلم سے باز رہنے کو کہہ دیتا تو تیرا
کیا بگڑ جاتا۔ لیکن تو نے صرف ترک مروت کے خوف سے ایسا نہیں کیا۔ پھر کہنے لگے اُس دن سے مجھے اتنی شرمندگی ہوئی کہ صومعہ میں معتکف ہوگیا۔
سوچتا ہوں کہ اگر باہر نکلا اور ظلم وبرائی کو دیکھا نیز باز آنے کی تعلیم
نہ دی تو خدا ئے تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔
میں نے اُس دن سے قسم کھائی کہ باہر نہیں جاؤں گا تاکہ کسی واقعے کا گواہ نہ
بنوں ۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی
حیات وتعلیمات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو ظلم سے روکنے کا جذبہ پوری زندگی
اُن کے اندر کافر ما رہا چنانچہ ایک مرتبہ ایک بے کس کسان کا قطعہ ٔ ارضی سلطان شمس
الدین التمش کے کارندوں نے جبراً ہڑپ لیا۔
وہ مجبور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔اور اپنی پریشانی بیان کی۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بذات خود سلطان
شمس الدین التمش کے پاس گئے اور اُس غریب کسان کی سفارش کی۔ بادشاہ نے کہاحضور کو زحمت اُٹھانے کی ضرورت نہیں
تھی، فقط حکم دے کر کسی کو بھیج دیتے تو یہ
خادم آپ کے حکم کی تعمیل میں کوئی تامل نہ کرتا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا مظلوم کی حمایت میں جو وقت گزرتا
ہے و ہ عبادت میں شمار ہوتا ہے اس لئے میں خود ہی چلا آیا ۔ خدمت خلق کی تعلیم دیتے
ہوئے آپ نے فرمایا خدائے تعالیٰ کے نزدیک اس سے بہتر کوئی اطاعت نہیں ۔ قطب الاقطاب
حضرت بختیار کا کی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ وہ کون سی اطاعت ہے جس سے بہتر کوئی اطاعت نہیں ؟فرمایا عاجز وں کی فریاد رّسی ، حاجت
مندوں کی حاجت براری اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اس سے بڑھ کر اور کوئی نیک کام نہیں
۔
مذکورہ بالا سطور آج کی معاشرتی
زندگی میں کتنی فوائد رکھتی ہیں اسے نافذ العمل کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کتنے
لوگ ہیں جن کا محبوب مشغلہ اور پسندیدہ کام خدمت خلق ہے؟ اپنے حقوق کی لڑائی تنہا لڑنے
والے بے کس کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ کتنے لوگ رکھتے ہیں ؟ آج مسلم ممالک وافراد کے مابین انتشار کا عالم
یہ ہے کہ ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک کو فنا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ایک ظالم بزور
طاقت مسلمان کے ہی ملک کو استعمال کررہا ہے۔
اور ایک مسلمان کاقتل مسلمان ہی کے ذریعہ کروارہا ہے مگر بے حسی کا عالم یہ
ہے کہ مسلمان قال اللہ و قال الرسول کے بجائے قال گالفاسد دقال الظالم پر عمل کررہے
ہیں۔
آعندلیب مل کے کریں آہ وزار
یاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں
ہائے دل
معاشرتی زندگی کا عالم یہ
ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر رسوم کی ادائیگی پر خون پسینے کی کمائی بے تحاشا صرف ہورہی
ہے۔ دوسری طرف چند خوراک دوا کے لئے تڑپتے اور جو ان بیٹی کو دیکھ دیکھ کر کڑھنے والے
انسان اور دیگر ضرورت مندوں تک ضروریات حیات نہیں پہنچتیں ۔ اگر اُن کے تدارک کی صورت مسلمان پیدا کرلے تو کیا
اس سے مفلس کے جان و ایمان کی حفاظت نہیں ہوگی؟ اور اگر یہ برتاؤ غیر مسلموں کے ساتھ کیا جائے تو کیا وہ اس سلوک کو دیکھ کر اسلام کے
مداح نہیں ہوجائیں گے۔ بلکہ عجب نہیں کہ وہ
ایک دن مسلمان ہوجائیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنی
زندگیوں کو قرآن وسنت اور اقوال صوفیا کی روشنی میں گزاریں ۔ یہ بات بلا تفریق مذہب وملت ہر باشعور انسان جانتا
ہے کہ صحبت اختیار کرتا ہے وہ ویسا ہی ہوجاتا ہے ۔ ہر ماں باپ خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم
، اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کےبچے اچھی صحبت اختیار کریں اور بروں کی صحبت سے
بچیں ۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار اسی کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
( ترجمہ) صحبت میں اثر ہے۔ اگر کوئی برا شخص نیک کی صحبت اختیار کرے تو اُمید ہے کہ
اچھا ہوجائے گا۔ اور اگر ایک شخص بروں کی صحبت
میں بیٹھے گا تو برا ہوجائے گا۔ آپ فرماتے ہیں نیکوں کی صحبت ، نیک کاموں سے بہتر
ہے اوربدوں کی صحبت بدکام سے بدتر ۔ مگر افسوس
کہ انسان کی طبع آزاد پر جو ظاہری حسن کا دیوانہ اور بروں کا مصاحب ہے ، آج انسان
بروں کی صحبت پر فخر کرنے لگا ہے۔ سنیما ہال
اور برائی کے اڈوں کی رونق بڑھانے لگا اور نیک باتیں سماعتوں پر بوجھ بن گئی ہیں۔ او رنیکوں کی صحبت سے تنفر پیدا ہوگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی
تعلیمات کی اہمیت کو اُجا گر کیا جائے اور انسان اپنی بھلائی کے لئے اچھوں کی صحبت اختیار کرے تاکہ اس
کے دین ودنیا سنور جائیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں میں نے اپنے بھائی شیخ شہاب الدین سہروردی سے سنا ہے کہ دُنیا میں دوچیز
یں خوش تر ہیں۔اول صحبت فقرا ۔ دوئم حرمت اولیا ۔
آپ زندگی بھر فقیرانہ طور طریقے کے عادی رہے اور فقرا کے مصاحب رہے۔ اور
عمر بھر اولیا اللہ کی تعظیم بجا لاتے رہے ۔
کبھی کسی اللہ والے کی بے حرمتی نہیں کی۔
حضرت مالک بن دینا ر رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم نقل کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اللہ
والوں کی غلامی کرتا ہے وہ ضرور واصل ہوجاتا ہے اور جو شخص بروں کی صحبت اختیار کرتا
ہے اس کی اوقات گھٹ جاتی ہے۔ ہمیں اللہ والوں کی تعظیم کرنی چاہئے اور ان سے
دل کا اُجالا طلب کرنا چاہئے ۔ جو اپنے آپ
کو دیکھنے کی مغرور انہ عادت پیدا ہوگئی ہے
اُسے ترک کرنا چاہئے ۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں خود پرستی او رنفس پرستی بت پرستی ۔ جب تک خود پرستی نہ چھوڑ ے گا ، خدا پرستی حاصل
نہ ہوگی۔
دور حاضر میں ہندوستان کا پڑھا
لکھا طبقہ اب تک انگریزی اور دوسری زبانوں کے تعلق سے صحیح فیصلہ نہیں کرپاتا کہ اُسے
پڑھایا جائے یا نہیں ۔ حالانکہ آج انگریزی
زبان و ادب ایک عالم گیر زبان وادب ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزی جاننے والا کبھی بھوکا
نہیں رہتا ۔یہ اُن کا اپنا خیال ہے۔ مگر ہم انگریزی کو رزاق نہیں خائق کائنات کو رزاق مانتے ہیں ۔
جہاں تک انگریزی تعلیم کی ضرورت وحاجت کا سوال ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ اسلام
کی اشاعت کے لیے یہ زبان کو ادب حاصل کرنا نہایت زبان و ادب خواہ اُس پر کسی دین ودھرم
کا تشخص ہی کیوں نہ قائم ہو ، اشاعت اسلام کی خاطر اُس کا سیکھنا جائز نہیں ثواب کا
ذریعہ ہے ۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کی تقدیر خاموش رہ کر نہیں بدلی
ہے۔ بلکہ جب آپ کی ملتان میں تشریف آوری ہوئی تو لاہور تشریف لائے اور پانچ مساجد میں قیام کے دوران آپ نے ہندی کی تعلیم
حاصل کی جب کہ تعصب کا دور دورہ تھا۔ اس دور میں آپ نے پہلی بار تعصب کی دیوار ڈھادی
او رہر زبان کے آفاقی اور انسانی ہونے کی تعلیم دی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس طرز
عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دوسروں تک اپنی بات بالخصوص اپنے اسلام کو بغیر اس
کی زبان کی واقفیت کے نہیں پہنچا سکتے۔ کیا یہ عملی تعلیم ہمیں وہ سب کچھ نہیں فراہم کرتی ہے عصرحاضر میں ہم جس کی ضرورت محسوس کررہے ہیں ؟
بشکریہ: ماہنامہ کنز الایمان ، دہلی (روزنامہ انقلاب نے اس مضمون کو 25مئی 2012 کو شائع
کیا)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/teachings-khawaja-(ra)-its-importance/d/7442