آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
3 نومبر، 2014
ہندوستان میں مسلم صوفیوں کی آمد دسویں صدی ہی میں شروع ہوگئی تھی۔کئی بزرگ اور مشہور صوفیہ کرام موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے علاقوں میں آکر سکونت پذیر ہوئے۔ان کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی اشاعت تھا۔جو صوفیہ یہاں تشریف لائے ان میں حضرت داتاگنج بخش ہجویری ، حضرت شاہ یوسف گردیز،فخرالدین عراقی،حضرت عبداللہ شطار ،حضر ت خواجہ معین الدین چشتی وغیرہ اہم ہیں۔ان کے علاوہ چند دیگر صوفیائے کرام بھی ہوئے جن کی پیدائش تو ہندوستان میں ہوئی مگر ان کا سلسلہ ء نسب خلفائے راشدین سے ملتاہے۔انہی میں سے ایک صوفی ھضرت شاہ محمد غوث گولیاری ہیں جو ہندوستان کے گوالیار کے خطے میں پیدا ہوے اور یہیں اپنی آخری سانس لی۔ان کا شجرہ نسب حضرت علی ؒ سے ملتاہے۔
حضرت غوث گوالیاری شطاری سلسلے کے صوفی تھے ۔ بعد میں انہوں نے شطاری سلسلہ تصوف کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اسے ایک مستحکم سلسلے کی شکل دی۔ وہ شطاری سلسلے کے عظیم صوفی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انکے وسیلے سے مشہور نورتن اور عظیم موسیقار میاں تان سین نے اسلام قبول کیا۔ان کا مزار گوالیار میں موجود ہے۔ انہیں کے قریب میاں تان سین کا مزار بھی ہے۔
حضرت محمد غوث گوالیاری نے تصوف پر کئی کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ان میں جواہر خمسہ، بحرالحیات، رسالہ معراجیہ ،کلید مخازن وغیرہ اہم ہیں۔انہوں نے کئی بادشاہوں کا زمانہ دیکھا تھااور سیاسی اتار چڑھاؤ کے چشم دید گواہ تھے۔ انہوں نے ابراہیم لودھی ، بابر، ہمایوں او ر شیر شاہ کا زمانہ دیکھا۔ وہ ہمایوں کے اتالیق بھی ہوئے اور ان کے مشیر بھی رہے۔کہا جاتاہے کہ ابراہیم لودھی کی شکست اور زوال حضرت محمد غوث کی بدعاؤں کے نتیجے میں عمل میں آٗئی۔ شیر شاہ کے مقابلے ہمایوں کی شکست کے بعد شیر شاہ کے مشیروں نے ان کے خلاف شیر شاہ کو اکسایااور آخر کار انہیں شیر شاہ کی حکو مت سے نکل کر گجرات ہجرت کرنی پڑی۔محمد غوث کو اپنی تصنیف رسالہ معراجیہ کی وجہ سے شیر شاہ کا عتاب کا شکار ہونا پڑا اور کئی مفتیوں نے ان کے خلاف کفر کا فتوی صادر کیا۔اس رسالے میں انہوں نے معراج کا دعوی کیا۔ اس کی خبر ملنے پر گجرات کے مفتی وجیہ الدین نے ان سے باز پرس کی اور ان کے کمالات علمی اور روحانی مقام کا علم ہوجانے پر وہ انکے مرید ہوگئے ۔
آپکے زمانے میں ہندوستان کی مذہبی فضا میں اسلامی اور ہندو عقائد کے اختلاط سے ہندوستانی تصوف کی شکل ابھر رہی تھی۔ بھکت کبیراسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔محمد غوث نے ناتھ یوگیوں اور ہندوبھکتی تحریک کا گہرا مطالعہ کیاتھا۔ یوگا پر سنسکر ت کی مشہور قدیم کتاب امرت کنڈ کا جو ترجمہ عربی میں حوض الحیات کے نام سے دستیاب تھا اس کا فارسی ترجمہ بحرالحیات کے نام سے کیا۔اس ترجمے کے دوران انہوں نے ناتھ یوگیوں سے تبادلہ خیال کیا اور ناتھ پنتھ کے نظریات اور عقائد سے نہ صرف واقف ہوئے بلکہ ان سے متاثر بھی ہوئے۔ انہوں نے یوگ کے اعمال کو تصوف میں داخل کیا اور ان میں سنسکرت اور وید کے شلوکوں کو قرآنی کلمات سے مبدل کیا۔ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسانی جسم نہ مسلمان ہوتا ہے نہ ہندو اس لئے اس کے روحانی امکانات کو فروغ دینے کے لئے جو ورزشیں اور اعمال معاون ہوں انہیں ہندو یا اسلامی نہیں کہاجاسکتا۔امرت کنڈ کے عربی ترجمے حوض الحیات نے پہلے ہی عرب ممالک میں پذیرائی حاصل کرلی تھی اور ابن عربی اور دیگر صوفیائے کرام اس کے مواد اور نظریات سے واقف تھے۔ لہذا، محمد غوث نے حوض الحیات کا فارسی میں ترجمہ کرکے ہندوستانی تصوف میں یوگی اعمال کو بھی داخل کردیا ۔ اور ہندوستانی تصوف کو ایک سیکولر رنگ اور مزاج عطاکیا۔ہندوستانی صوفیوں میں حبس دم ، اور ضبط نفس کے طریقوں کا رواج ناتھ یوگیوں کے طریقوں پر ہی مبنی ہے۔
ہندوستانی تصوف کی تاریخ میں بھکتی تحریک کو اس لئے اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے ہندوستانی خیالات ا معتقدات مشاغل اور یوگ کے طریقے یعنی جبس دم وغیرہ صوفیوں میں راہ پاگئے ۔ محمد غوث گوالیاری کی کتاب جواہر خمسہ صوفی حلقوں میں کافی مقبول ہوچکا تھا۔حتی کہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی اس کا اثر قبول کیا۔جواہرخمسہ مراقبے اور ریاضت کے طریقوں پر مبنی کتاب ہے جس میں یوگ کے آسنوں کو نقشے کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کے فوائد بیان کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب بھی سنسکرت سے ترجمہ ہے ۔ اصل کتاب میں صرف پانچ آسنوں کا ذکر تھا اس لئے اسے جواہر خمسہ کہاگیا مگر ترجمے میں محمد غوث گوالیاری نے پچیس آسنوں کا ذکر مع تصاویر کیا۔
محمد غوث گوالیاری کے نظریات اس بات کے عکاس ہیں کہ ہندوستان میں تصوف پر ہندوستانی روحانی فلسفے کا غالب اثر ہے۔ صوفیوں نے ہندوؤں کے قدیم صحایف اور ان کے اعتقادات سے اثر قبول کیا جو ان کے مذہبی عقائد سے متصادم نہیں تھے بلکہ ان کی ریاضت میں معاون تھے۔
’’پروفیسر خلیق احمد نظامی اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت ) میں لکھتے ہیں ’’ جب کوئی انسانی تحریک اپنے مولد سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پھیلتی ہے تو وہاں کی ذہنی آب و ہوا مخصوص اقتصادی اور جغرافیائی حالت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی ۔ ہر تحریک نئے ملک اور نئے ماحول میں پہنچ کر اس جگہ کے ہم آہنگ عناصر کو ساتھ لینے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کو تقویت حاصل ہو اور نشو ونما کا صحیح موقع ملے ۔ جب تصوف کی تحریک وسطی ایشیا پہنچی تو ناگزیر تھا کہ بدھ مذہب کے کچھ اثرات قبول کئے جائیں۔ حضرت علی ہجویری نے اپنی کتاب( کشف المحجوب )میں کچھ صوفی گروہوں کا ذکر کیا ہے ۔ غور سے پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ بدھ مذہب کے کتنے اثرات اس طبقے نے قبول کرلئے تھے جب ہندوستان میں یہ تحریک پہنچی تو ناممکن تھا کہ یہا ں کے ان قدیمی مذہبی اصولوں کے جذب نہ کرلیتی جو اس کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں۔‘‘
محمد غوث کی جو کتاب تنازع کا شکار ہوئی وہ تھی رسالہ معراجیہ۔ دراصل محمد غوث نے معراج یعنی آسمانوں کے روحانی سفر کا دعوی کیاتھا جس کی وجہ سے ان کی شدید مخالفت ہوئی ۔۔مفتی شاہ وجیہ الدین گجراتی ان کے دعوے سے ناراض ہوکر ان کے خلاف فتوی جاری کرنے آئے مگر ان کے مقام سے واقف ہونے کے بعد انہوں نے شکست تسلیم کرلی اور ان کی مریدی ا ختیار کرلی۔ وہ کتاب اب دستیاب نہیں ہے مگر غالباؔ اس کی ایک کاپی خدا بخش لائبریری میں موجود ہے۔اس کی ایک کاپی کولکاتا کی ایشیا ٹک سوسائٹی لائیبریری میں بھی محفوظ ہے مگر اس کا نام اوراد غوثیہ ہے ، رسالہ معراجیہ نہیں۔ اسی کتاب کے آخر میں ان کے معراج کا بیان ہے۔کچھ محققین کا یہ بھی خیال ہے کہ علامہ اقبال نے مثنوی جاوید نامہ کا مرکزی خیال انہی کے رسالہ معراجیہ سے لیا ہے حالانکہ علامہ اقبال نے اعتراف کیا کہ انہوں نے جاوید نامہ کا خیال دانتے کی نظم سے لیا ہے یا اس کے جواب میں جاوید نامہ لکھا ہے۔
الغرض، شاہ محمد غوث گوالیاری نے ہندوستانی تصوف کو یوگ اور قدیم ہندو ریاضت کے طریقوں سے متعارف کرایا اور بھکتی تحریک کو اسلامی تصوف سے قریب تر کردیا۔لہذا، وہ ہندوستانی تصوف کے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/muhammad-ghaus-gwaliari-important-pillar/d/99832