محمد علی (انگریزی سے ترجمہ۔
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
20 جنوری، 2012
اسلام انسانیت کے اتحاد پر
زور دیتا ہے، یہ انسانی رنگا رنگی کو بھی تسلیم کرتا ہےاور معاشرے میں نسلی، قبائلی
اور مذہبی اختلافات سے نمٹنے کے لئے قیمتی اصول بھی فراہم کرتا ہے۔
تاہم، اس کے معاشرے کے لئے
اہمیت کے باوجود یہ تکثیریت کےتناظر میں اسلامی تعلیمات کو ہمارے وقت میں بہت کم توجہ
حاصل ہوئی ہے۔ آج گلوبلائزڈ اور کبھی کبھی قطبیت (پولرائزڈ) والی دنیا میں، اسلامی
تعلیمات کو تکثیریت کےتناظر میں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ معاشرے میں پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی کا ماحول تیار کیا جا سکے۔ اسلامی تعلیمات اور تاریخ کے منبع میں
کئی مثالیں ہین جو اسلام کے تکثیریت کے نقطہ
نظر کو واضح کرتی ہیں۔.
قرآن میں کئی آیات ہیں جو انسانی تکثیریت جیسے کہ، معاشرتی، حیاتیاتی، اور مذہبی اختلافات کو واضح کرتی ہیں۔
قرآن کے مطابق، تمام نوع انسان
ایک ہی روح سے بنے ہیں لیکن ان کی تخلیق اختلاف کے ساتھ کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت
انسانی تکثیریت کو خوبصورتی کے ساتھ واضح کرتی ہے: ‘لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور
ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔
اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ
جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے’(49:13)۔
مندرجہ بالا آیت ثابت کرتی
ہے کہ تکثیریت انسانی معاشرے کا فطری حصہ ہے اور انسانی تشخص کے لئے اہم ہے۔ ایک انسان کی شرافت کا انحصاراس
کے عمل پر ہوتا ہے اور اللہ ہی ہے جو ایک انسان
کے تقوی اور شرافت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ قرآن مذہبی فرقوں کی تکثیریت پر بھی روشنی
ڈالتا ہے۔قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے خاص غرض سے مختلف فرقوں کو پیدا کیا ہے،اور اگر وہ چاہتا تو پوری انسانیت کاایک فرقہ بنا سکتا تھا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے، ‘ہم نے تم میں سے ہر ایک (فرقے) کے لیے ایک دستور
اور طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کر دیتا مگر جو
حکم اس نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے سو نیک کاموں میں
جلدی کرو (5:48)’۔ عقیدے اور فرقے کی تکثیریت کا ادراک کرتے ہوئے قرآن ہمیں درس دیتا
ہے کہ ہم اپنے عقیدے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں؛ بلکہ اس کے برخلاف اختلافات پر روادارانہ
رویہ اپنانے پر زور دیتا ہے۔‘ دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے’ (2:256)۔اور ‘تم اپنے
دین پر میں اپنے دین پر’ (109:6)۔
لہذا، انسانی معاشرے میں تکثیریت
پر قرآن کی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات بھی
اسلام میں تکثیریت کے نقطہ نظر اور طرز عمل کے لئے بہترین مثالیں فراہم کرتی ہیں۔ تاریخی
اعتبار سے، ایسے کئی مواقع ہیں جب پیغمبر محمد ﷺ نے دیگر عقائد کے لوگوں کے ساتھ رواداری اور احترام کا اظہار کیا اور اپنے مخالفین
کے ساتھ بھی احترام کے ساتھ پیش آئے۔
مثال کے طور پر، جب ایک ممتاز
مسیحی وفد نجران سے مدینہ میں پیغمبر محمد ﷺ کے ساتھ ایک مذہبی مباحثے کے لئے آیا،
اس وفدکے اراکین کو نہ صرف نبی کریم ﷺ کی مسجد میں رہنے کے لئے مدعو کیا گیا بلکہ مسجد کے ہی اندر ہی انہیں اپنی مذہبی رسومات کو
انجام دینے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ اسی طرح، مشہور صلح ہدیبیہ کے موقع پر نبی کریم
ﷺ نےانتہائی تکثیریتی نقطہ نظر کا مظاہرہ کیا جبکہ ان کی نبوت کو قریش کے ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا اس کے باوجود آپ ﷺ نے بظاہر تلخ مطالبات کوقبول کیا۔
فتح مکہ کا واقعہ بھی نبی
کریم ﷺ کے تکثیریت اور انسانی نقطہ نظر کی ایک اور مثال تھی ۔ فتح مکہ کے بعد اس سے
قطع نظر کہ کس نے اسلام قبول کیا اور کس نے نہیں، آپ ﷺ نے مکہ کے تمام لوگوں کے لئے
عام معافی کا اعلان کیا اور اپنے بد ترین مخالف
ابو سفیان کےگھر کو پناہ اور امن کی جگہ قرار دیا۔
پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی
حیات طیبہ اور تعلیمات میں ایسی بہت سی دوسری مثالیں ہیں جو اسلام کی معاشرے میں تکثیریت کے ادراک و احترام
کو سمجھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ آپ ﷺ کی تعلیمات اور طرز عمل میں، آنے والے تمام زمانے کی انسانی تہذیب کے لئے تحریک کا
ایک منبع ہے۔ یہ واضح ہے کہ اسلام کی تاریخ کے1400 برسوں میں جب بھی مسلم معاشرے
نے فلاح حاصل کی اور انتہائی ترقی یافتہ معاشرے کا قیام کیا، تکثیریت ان معاشروں کی
ایک اہم خصوصیت رہی۔
عباسیوں کا بغداد، فاطمیوں
کا مصراور امیہ کاقرطبہ مختلف علاقوں، پس منظر و عقائد وغیرہ کے بہترین دماغ کےلوگوں
کے استقبال اور ان کی پر ورش کرنے کے سبب یہ مقامات علم اور حکمت کے شاندار مراکز بن
گئے، ان خاندانوں نے اپنے تکثیریتی نظام کے
نتیجے میں طاقتور اور متحرک تہذیبوں کو قائم کیا۔
آج، ہم ایک گلوبلائزڈ دنیا
میں رہتے ہیں، جہاں جدید مواصلاتی ٹکنالوجی مختلف اقوام کو قریب لائی ہے، تاہم، اس
عمل نے قوموں کے درمیان اور ساتھ ہی ساتھ اپنے
معاشروں کے اندر بھی کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اس صورت حال میں ہمیں اسلامی تعلیمات اور نظریات
پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، جس نے ماضی میں تکثیریتی معاشرے کو قائم کرنےمیں تعاون
کیا ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں
مختلف نسلوں، ثقافتوں، زبانوں، عقائد، ایک ہی عقیدے کی الگ الگ تشریح وغیرہ کی بنیاد
وغیرہ پر اس کے شہریوں کی تکثیریت معاشرے کی
ساخت کا بنیادی پہلو ہے۔ کبھی کبھی یہ تکثیریت
، قطبیت کی جانب لے جاتی ہے اور جس کا مقابلہ دشوار گزار ہو جاتا ہے۔ لہذا، اس تنوع
کا ایک زندہ حقیقت کے طور پر ادراک ہونا ضروری
ہے اور کسی ایک یا مجبور نظریے کے تحت اس کے خاتمے کی کوشش کے بجائے احترام کئے جانے کی ضرورت ہے۔
ایک معاشرے میں شامل اختلافات
کو کنٹرول کرنے کے لئے تکثیریت کی قبولیت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کی
ضرورت ہے۔ ان تعلیمات پر عمل کر کے ہم اس رنگا رنگی کو ایک طاقت میں تبدیل کر سکتے ہیں اور ایک ایسا ماحول تیار
کر سکتے ہیں جس میں مختلف طبقوں کے درمیان
اختلافات سے انکار کے بجائے انہیں تسلیم کرنے، ان کا احترام کرنے اور ان کا
جشن منا سکتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات اور تواریخ
ہمیں بہترین اصول اور طریقے فراہم کرتی ہے۔ آج کی دنیا کی اور خاص طور پر ہمارے اپنے
ملک کے حقائق، کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ہم تکثیریت کے اصولوں اور اس کے
نقطہ نظر کو سمجھیں، جس کی اسلام میں مکمل اجازت ہے۔ ایک پر امن معاشرے کی تشکیل
کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے اسلام کی تکثیریتی تعلیمات کو افراد کے ساتھ ہی ساتھ
سماجی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے سنجیدہ کوشش کر نے کی ضرورت ہے۔
مصنف کراچی میں ایک کمیونٹی
ادارے میں پڑھاتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/pluralism-in-islam--the-quran-and-prophet-mohammad’s-example/d/6428
URL: