مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی
24 تا 30 اگست ، 2014
اسلام حقائق ، صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل دین ہے، تو ہمات و خرافات ، دور اذکار باتوں ، خیالی و تصوراتی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، بدشگونی و بدگمانی اور مختلف چیزوں کی نحوست کے تصور و اعتقاد کی یہ بالکل نفی کرتا ہے ، اسلام دراصل ایک اکیلے واحد یکتا اور ایسی قادرمطلق ذات پر یقین و اعتقاد کی تعلیم دیتا ہے جس کے تنہا قبضہ قدرت اور اسی کی یکا و تنہاذات کے ساتھ اچھی و بری تقدیر وابستہ ہے، آدمی کی اپنی تدبیریں یہ محض اسباب کے درجے میں ہوتی ہیں، ان سے کچھ نہیں ہوتا، سب کا سب اس ایک اکیلے اللہ کے کرنے سے ہوتاہے، یہی وہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس سے شرک و کفر ، اوہام و خرافات اور خیالی تصوراتی دنیا کی بہت ساری اعتقادیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
آج کل کی مشکل اور دشوار گذار زندگی میں غیروں کو تو چھوڑ ئیے ، جن کے مذہب کی بنیادی اوہام و خرافات پر ہوتی ہے، دیومالائی کہانیاں اور عجیب وغریب قصے جس کا جزوِ لازم ہوتے ہیں ، غیروں کے ساتھ طویل بود و باش اور رہن سہن کےنتیجے میں خود مسلمانوں میں بھی دنوں ، مہینوں جگہوں ، چیزوں اور مختلف رسوم و رواج کی عدمِ ادائیگی کی شکل میں بے شمار تو ہمات در آئے ہیں کہ فلاں دن اور فلاں مہینہ منحوس ہوتاہے، فلاں رخ پر گھر بنانے یا جائے وقوع یا سمت اور رُخ کے اعتبار سے سعد و نحس کا اعتقاد کیا جاتاہے، مختلف تقریبات ، بلکہ بچے کی پیدائش سے لے کر، اس کے رشتہ ازدواج کے بندھن میں بند ھ جانے ، اس کے صاحب اولاد ہونے ، پھر اس کے عمر کے آخری مراحل سے گزر کر اس کےموت کےمنہ میں چلے جانے، بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے دفنانے، بلکہ اس کے بعد بھی مختلف رسوم و رواج کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، جس کی عدمِ ادائیگی کی نحوست کا باعث گردانا جاتا ہے ، ان بے جا تصورات و خیالی توہمات کے ذریعے جانی، مالی ، وقتی ہر طرح کی قربانیاں دے کر اپنے آپ کو گراں بار کیا جاتاہے، الغرض لوگوں نے ان توہمات و خرافات کی شکل میں زندگی کے مختلف گوشوں میں اس قدر بکھیڑے کھڑا کردیئے ہیں کہ شمار و احصاء سےباہر، سچ کہا ہے شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے :
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جہاں ہم نے ایک اکیلے ، واحد و تنہا اور قادر مطلق ذات کو حقیقی معبود و مسجود اور اس کی بارگاہ کی حاضری اور اس کے سامنے جبینِ نیا زخم کرنا چھوڑدیا، اسی کی ذات کے ساتھ نفع و نقصان کی وابستگی کے اعتقاد کو کیا پس پشت ڈال دیا ، عجیب بھول بھلیوں میں گم ہوگئے، مختلف پتھروں ، مورتیوں ، رسموں رواجوں ، مختلف اوقات و گھڑیوں او رمہینوں و ایام سے اپنی تقدیر وابستہ کر بیٹھے اور اپنی منفعت و مضرت کو ان سے منسوب کردیا، ایک اکیلے اللہ کو راضی کرنا کتنا آسان تھا ، اس سے بڑھ کر بےزبان، بے عقل جانور، کتے ، بلیوں ، طوطوں، الوؤں اور کوؤں تک سے اپنے نفع و نقصان کا اعتقاد یہ کس قدر نادانی اور بچکانی اور گئی گذری ہوئی حرکت ہوسکتی ہے، اگر ہم ایک اکیلے اللہ کو حقیقی نافع وضار سمجھ کر اس سے اپنی تقدیر کا بننا و بگڑنا وابستہ کرتے اور اسی یکا و تنہا ذات کو اپنی مقدس پیشانی کے جھکانے کے لئے چن لیتے تو آج کا یہ انسان اس قدر حیران و سرگرداں نہ ہوتا کہ ہر چھوٹی بڑی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہونے سےبچ جاتا۔
زمانہ جاہلیت کی بد شگونیاں :زمانہ جاہلیت میں بھی اسلام کی آمد سے قبل لوگوں میں مختلف چیزوں سےشگون لینے کا رواج تھا ۔
(1) ایک طریقہ یہ تھا کہ خانہ کعبہ میں تیر رکھے ہوئے ہوتے جن میں سے کچھ پر ‘‘لا’’ لکھا ہوتا، یعنی یہ کام کرنادرست نہیں ، اور بعض میں ‘‘نعم’’ لکھا ہوتا یعنی یہ کام کرنا درست ہے ، وہ اس سے فال نکالتے اور اسی کے مطابق عمل کرتے ، یا جب کسی کام سے نکلنا ہوتا تو درخت پر بیٹھے ہوئے کسی پرندے کو اڑا کر دیکھتے کہ یہ جانور کس سمت اڑا ، اگر دائیں جانب اڑ گیا تو اسے مبارک اور سعد جانتے تھے کہ جس کام کے لئے ہم نکلے شگونیوں کو یوں رد فرمادیا ہے (مرقات)
(2) اور فرمایا ‘‘ لا عدوی’’ ( تعدیہ کوئی چیز نہیں ہوتی) یعنی زمانہ جاہلیت کا ایک تصور یہ بھی تھا کہ بیماریاں ایک دوسرے کو متعدی ہوتی ہیں، ایک دوسرے کو منتقل ہوتی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقادِ بد کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ :تعدیہ کوئی چیز نہیں ہے، اس تعدیہ کے متعلق ایک دیہاتی نےجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اونٹ رتیلے علاقوں میں بالکل ہرنوں کے مانند تیز و طرار ہوتے ہیں کہ کوئی عارضہ یا کوئی بیمار ی انہیں نہیں ہوتی ان میں ایک خارش زدہ اونٹ آکر گھل مل جاتا ہے، وہ سب کو خارش زدہ کردیتاہے ( یہ تو تعدیہ ہوا) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ پہلے اونٹ کو خارش کہا سے ہوئی؟’’ یعنی جب پہلے اونٹ کی خارش من جانب اللہ ہے تو ان تمام کا خارش زدہ ہونا بھی اسی کی جانب سے ہے۔ (بخاری :5287)
(3) اور فرمایا : ‘‘ ولا ھامۃ’’ ( ہامہ بھی کوئی چیز نہیں ہے) ‘‘ہامہ’’ کہتے ‘‘ الو’’ کو ، اہل عرب کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ مردار کی ہڈیاں جب بالکل بوسیدہ اور ریزہ ہوجاتی ہیں تو وہ ‘‘الو’’ کی شکل اختیار کر کے باہر نکل آتی ہیں اور جب تک قاتل سے بدلہ نہیں لیا جاتا اس کے گھر پر اس کی آمد و رفت برقرار رہتی ہے ، زمانہ جاہلیت کی طرح موجود ہ دور میں بھی ‘‘ الو’’ کو منحوس پرندہ تصور کیا جاتا ہے ، اس کے گھر پر بیٹھنے کو مصائب کی آمد کا اعلان تصور کیا جاتاہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام اعتقادات اور توہمات کا انکار کردیا۔ ( مرقات) اس طرح کی بعض ملتے جلتے اعتقادات آج بھی پائے جاتےہیں کہ شب معراج ، شب برأت اور شب قدر اور عید وغیرہ میں روحیں اپنے گھر آتی ہیں۔ یہ سب توہمات ہیں۔
(4) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ ولاغول ’’ ( بھوت پریت کا کوئی وجود نہیں) یعنی اہل عرب کا یہ تصور بھی تھا کہ جنگلوں اور بیابانوں میں انسان کو بھوت پریت نظر آتے ہیں جو مختلف شکلیں دھارتے رہتے ہیں اور لوگوں کو گم کردۂ راہ کردیتےہیں اور ان کو بسا اوقات جان سےبھی مار دیتے ہیں ،اس طرح اعتقادات اس دور میں دیہاتوں وغیرہ میں بہت پائے جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب خرافات کا انکار کردیا ۔ ( اشعۃ اللمعات)
(5) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : ‘‘ولانوء’’ ( ایک ستارے کا غروب ہونا اور دوسرے کاطلوع ہونا ) یا چاند کی مختلف منزلیں مراد ہیں، اہل عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ بارش کو چاند کے مختلف برج یا منازل کے ساتھ منسوب کرتے تھے کہ چاند کے فلاں برج یا منزل میں ہونے سے بارش ہوتی ہے، یا فلاں ستارے کے طلوع ہونے یا غروب ہونے سے بارش ہوتی ہے، یعنی وہ بارش کی نسبت بجائے اللہ عز و جل کے ان ستاروں کی جانب کردیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انکار فرمایا ۔( ابوداؤد : 3912) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر ایک دفعہ فجر کی نماز پڑھائی، فجر سے پہلے بارش ہوچکی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو ان لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، فرمایا کہ : ‘‘ اللہ عز وجل نے فرمایا: میرے بندوں میں سےکچھ نے تو حالتِ ایمان میں صبح کی اور کچھ نے کفر و شرک کی حالت میں صبح کی ، جنہوں نے یہ کہا کہ :اللہ کے فضل و رحمت سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا انہوں نے انکار کیا اور جنہوں نے یہ کہا کہ : فلاں ستارے کے فلاں برج میں ہونے سے بارش ہوئی تو اس نے میرا انکار کیا اور ستاروں کے ساتھ اپنا ایمان وابستہ کیا ’’( مسلم : 170) ستاروں اور سیاروں کی گردش اور ان کا طلوع و غروب ہونابارش ہونے یا نہ ہونے کا ایک ظاہری سبب تو ہوسکتے ہیں ، لیکن موثر حقیقی ہر گز نہیں ہوسکتے، موثر حقیقی اور قادر مطلق محض اللہ جل شانہ کی ذات ہے (معارف القرآن)
عصر حاضر کی بدشگونیاں اور توہمات : یہ زمانہ جاہلیت میں بدفالی اور تو ہم پرستی کا ذکر تھا، عرب کے جاہلوں کی طرح آج کل بھی نام و نہاد مسلمان طرح طرح کی بدگمانیوں اور بد شگونیوں میں مبتلا ہیں، خصوصاً عورتوں میں اس قسم کی باتیں مشہور ہیں، اگر کوئی شخص کام کونکلا اور بلی یا عورت سامنے سے گذر گئی یا کسی کو چھینک آگئی تو سمجھتے ہیں کہ کام نہیں ہوگا ، جوتی پر جوتی چڑھ گئی تو کہتے ہیں کہ سفر درپیش ہوگا، آنکھ پھڑ کنے لگی تو فلاں بات ہوگئی، گھر پر کوئے کی چیخ و پکار کو مہمان کی آمد کا اعلان اور الو کی آمد کو نقصان کا باعث تصور کیا جاتا ہے، ہچکیوں کے آنے پر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی قریب عزیز نے یاد کرلیا ، یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ ہتھیلی میں خارش ہونے سے مال ملتا ہے اور تلوے میں خارش ہونے سے سفر درپیش ہوتا ہے، اس طرح روز مرہ کی زندگی میں بے شمار تصورات و خیالات ہیں جو رات و دن لوگوں سے سننے میں آتے ہیں ، عجیب تو ہم پرستی کی دنیا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اور واضح ارشاد ہے ‘‘ الطیرۃ شرک ’’ بد شگونی کا لینا شرک ہے۔ (ابوداؤد: 3910)
آج کل جانوروں سے بھی قسمت کے احوال بتائے جاتے ہیں، بہت سے لوگ لفافوں میں کاغذ بھرے ہوئے کسی چالو روڈ یا گاؤں او ردیہاتوں میں نظر آتے ہیں، طوطا یا مینا یا کوئی چڑیا پنجرے میں بند رکھتے ہیں اور گزرنے والے جاہل ان سے پوچھتے ہیں کہ آئندہ ہم کس حال سے گزریں گے؟ او رہمارا فلاں کام ہوگا یا نہیں؟ اس پر جانور رکھنے والا آدمی پرندے کے منہ میں کوئی دانہ وغیرہ دیتا ہے اور وہ پرندہ کوئی بھی لفافہ کھینچ کر لاتا ہے، پرندے والا آدمی اس میں سے کاغذ نکال کر پڑھتا ہے اور دریافت کرنے والی کی قسمت کا فیصلہ سناتا ہے .... یا آج کل بہت سارے رسالے اور میگزین نکلتے ہیں جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے ‘‘الف’’ سے لے کر ‘‘ ی’’ تک تمام حروف خانوں میں لکھے ہوتے ہیں، جس حرف سے نام شروع ہوتا ہے، نیچے تمام حروف کے اعتبار سے اس کے احوال زندگی اچھی با بری تقدیر لکھی ہوتی ہے، اس کو پڑھ کر احوال اور آئندہ پیش آنے والے خوشی مسرت کی گھڑیوں یا مصائب کے لمحوں کو معلوم کیا جاتاہے، یا خانہ میں مختلف حروف یا ستاروں کے نام لکھے ہوتے ہیں، آنکھ بند کرکے ان پر انگلی رکھنے کو کہا جاتا ہے ، جس پر انگلی پڑتی ہے، اس کے اعتبار سے نیچے اس حرف کے سامنے لکھی ہوئی پیشین گوئیاں پڑھ کر اپنے احوال معلوم کرتے ہیں ، یہ سب سراسر جہالت اور گمراہی ہے ، بلکہ آج کے مشینی دور میں قسمت کے احوال جاننے کے لئے مشین بھی تیار ہوگئی ہے، بس اڈوں ، ریلوے اسٹیشنوں پر دیکھا ہے کہ دل کے احوال بتانے والی کوئی مشین ہوتی ہے، جو انسانوں کے دل کے احوال کا علم دیتی ہے، لوگ کان میں لگانے والے آلہ کے ذریعے اس مشین کے واسطے سے اپنے احوالِ قلب کو سنتے ہیں اور وہاں لوگوں کی بھیڑ اور ایک تانتا لگا ہوا ہوتا ہے۔
یاد رکھئے ! غیب کو سوائے اللہ عز و جل کے کوئی نہیں جانتا ، خود طوطا، مینا لے کر بیٹھنے والے کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ کل کیا کرے گا؟ اور اگر اس کو قسمت کاعلم ہوتا تو اس چالو روڈ پر بیٹھ کر یہ چالو کا م کرتا ہوا نہیں ہوتا ، کوئی شخص نہیں جانتا وہ کل کیا کرے گا؟ اور نہ ایک دوسرے کو اس بارے میں کوئی علم ہے، ارشاد باری عز وجل ہے: ‘‘ کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا ’’۔ نیز ارشاد ِ خداوندی ہے کہ ‘‘( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ فرما دیجئے کہ جو لوگ آسمان و زمین میں ہیں وہ غیب کو نہیں جانتے، غیب کو صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔)’’یہ عجیب بات ہے کہ آدمی تو خود اپنا حال نہ جانے اور غیر عاقل جانور کو پتہ چل جائے کہ اس کی قسمت میں کیا ہے۔
ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ : جو شخص کسی ایسے آدمی کے پاس گیا جو غیب کی باتیں بتاتا ہو، پھر اس سے کچھ بات پوچھ لی تو اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی (مسلم، حدیث :2230) اور ایک حدیث میں ارشاد بنوی ہے کہ : ‘‘ جو شخص کسی ایسے شخص کے پاس گیا جو غیب کی خبریں بتاتا ہو اور اس کے غیب کی تصدیق کردی، تو اس چیز سے بری ہوگیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی ’’( ابوداؤد: 3904)
ماہ صفر کے نحوست کا تصور: بعض لوگ صفر کے مہینے کے تعلق سے یہ نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس مہینہ میں مصیبتیں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں، اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ مختلف قسم کے توہمات اور وسوسوں اور غلط عقائد میں گھرے ہوئے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر کے مہینے کی نحوست کا انکار کرتے ہوئے فرمایا : ‘‘ ولا صفر’’ ( تیرہ تیزی کی کوئی حقیقت نہیں) عرب خصوصاً صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں اور عموماً پورے مہینے کو منحو س سمجھتےتھے ، زمانہ جاہلیت میں مثلاً اس میں عقد نکاح، پیغام نکاح اور سفر کرنے کو منحوس اور نا مبارک اور نقصان کا باعث سمجھا جاتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے اس اعتقاد کی پرزور تردید فرمائی کہ صفر میں نحوست کا اعتقاد سرے سے غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دن، مہینہ یا تاریخ منحوس نہیں ہوتے کہ فلاں مہینے میں ، فلاں تاریخ میں ، فلاں دن میں شادی کے انعقاد کو بابرکت تصور کیا جائے اور بعض دنوں جیسا کہ مشہور ہے کہ ‘‘ تین تیرہ، نو اٹھارہ’’ یہ منحوس دن تصور کئے جاتے ہیں، بلکہ اس تعبیر ہی کو بربادی اور تباہی کے معنی میں لیا جاتا ہے، یہ سب خرافات اور خود ساختہ اور بناوٹی باتیں ہیں، زمانے اور دنوں میں نحوست نہیں ہوتی، نحوست بندوں کے اعمال و افعال کے ساتھ وابستہ ہے، جس وقت یا دن یا لمحہ کو بندے نے اللہ کی یاد اور اس کی عبادت میں گزارا وہ وقت تو اس کے حق میں مبارک ہے اور جس وقت کو بد عملی، گناہوں اور اللہ عز وجل کی حکم عدولیوں میں گزار دیا تو وہ وقت اس کے لئے منحوس ہے، حقیقت میں مبارک عبادات ہیں اور منحوس معصیات ہیں، الغرض منحوس ہمارے برے اعمال اور غیر اسلامی عقائد ہیں۔ الغرض اگر کسی مسلمان کو کوئی ایسی چیز پیش آجائے جس سے خواہ مخواہ ذہن میں بد خیالی اور بد فالی کا تصور آتا ہو تو جس کام سے نکلا ہے اس سے نہ رکے اور یہ دعا پڑھے : ‘‘ اے اللہ! اچھائیوں کو تیرے سوا کوئی نہیں لاتا اور بری چیزوں کو تیرے سوا کوئی دور نہیں کرتا اور گناہ سے بچنے اور نیکی کرنے کی طاقت صرف اللہ ہی سےملتی ہے ۔’’ ( ابوداؤد:89193) بہر حال مسلمانوں کو چاہئے کہ ٹونا،ٹوٹکہ ، بدفالی ، بد شگونی اور رسوم ورواج سے سختی سے پرہیز کرے ، ورنہ خود یہ چیزیں اس کی اخروی تباہی اور اس کے تعلق مع اللہ کو کمزور کر ہی دیں گے، بلکہ اس کانقد عذاب یہ ہوگا کہ وہ ہر وقت اور ہر ہر قدم پر بدفالی ، بدشگونی اور نحوست کے تصور سے ذہنی کوفت و اذیت میں مبتلا رہے گا اور بے جا اپنے آپ کو پریشانیوں کامحل بنائے گا۔
24 تا 30 اگست، 2014 بشکریہ : جدید مرکز، لکھنؤ
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islamic-point-view-belief-ill/d/98862