New Age Islam
Sun Jul 13 2025, 04:24 PM

Urdu Section ( 26 Jun 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hazrat Shahbaz-e-Deccan Mufti Mujeeb Ali: Life and Contributions to 20th-Century Sufism حضرت شہباز دکن مفتی مجیب علی: بیسویں صدی میں تصوف کے حوالے سے ان کی حیات و خدمات

 ساحل رضوی، نیو ایج اسلام

 26 مئی 2025

 حضرت شہباز دکن مفتی مجیب علی (2021-1955)، حیدرآباد میں ایک صوفی عالم دین اور اداروں کے معمار تھے، جنہوں نے سنی-قادری روایات کے تحفظ، اصلاح پسندی کا مقابلہ کرنے، اور مابعد نوآبادیات ہندوستان میں، اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں بے مثال کردار ادا کیا۔

 اہم نکات:

 1.            حیدرآباد میں (1955) میں پیدا ہوئے، جامعہ حمیدیہ، سنبھل میں قرآت قرآن اور فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی۔

 2.            مفتی اعظم ہند سے بیعت کی، بعد میں قادری رضوی اور رفاعی صوفی سلسلوں میں خلافت حاصل کی۔

 3.            اسلامی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے مدارس (دارالعلوم فیض رضا) اور لڑکیوں کے اسکول کی بنیاد رکھی۔

 4.            تصوف و روحانیت کو جدید ادارہ جاتی فریم ورک کے ساتھ ملا کر موافقت پذیر حکمت عملیوں کے ذریعے، اہلسنت کے تشخص کو مضبوط کیا۔

-----

دکن کا خطہ، خاص طور پر حیدرآباد، طویل عرصے سے اسلامی علوم و فنون اور صوفی روایات کا مرکز رہا ہے ۔ 20ویں صدی کے دوران، تحریک اہلسنت کو نوآبادیاتی جدیدیت، تبلیغی جماعت جیسی اصلاحی تحریکوں، اور بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات کے تحت وجودی چیلنجوں کا سامنا تھا ۔ حضرت شہباز دکن اس ماحول میں ایک اہم شخصیت کے طور پر ابھرے، ان کی شخصیت کلاسیکی علوم و فنون اور زمینی سطح کی سرگرمیوں کا سنگم تھی ۔ ان کی زندگی جدید جنوبی ایشیائی تصوف میں مذہبی اتھارٹی، تعلیمی اصلاحات، اور شناخت کی سیاست جیسے وسیع موضوعات کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے ۔

 1955 میں ایک قادری رضوی گھرانے میں پیدا ہوئے، حضرت مفتی مجیب علی کی پرورش حیدرآباد میں ہوئی، ایک ایسا شہر جو اپنی ہم آہنگی کی ثقافت اور صوفی ورثے کے لیے مشہور ہے، اِس کا اُن کی فکری اور روحانی تربیت پر بڑا گہرا اثر ہوا ۔ ان کے والد، قاری حبیب علی، جو ایک مشہور قاری قرآن تھے، انہوں نے ہی ان کے اندر تلاوت قرآن کا شوق پیدا کیا، جو بعد میں ان کی پہچان بن گئی ۔ 1968 اور 1973 کے درمیان، انہوں نے جامعہ حمیدیہ، سنبھل میں اعلی اسلامی تعلیم حاصل کی، یہ مدرسہ سنی بریلوی مکتبہ فکر کا ہے ۔ اس ادارے نے ان کے اندر فقہ حنفی کے کلاسیکی علوم و فنون میں مہارت پیدا کیا، جس سے دکن کے طلباء کی شمالی ہند کے تعلیمی مراکز کی طرف رخ کرنے کے وسیع رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔

 14 سال کی عمر میں حضرت مجیب علی نے بریلوی تحریک کی ایک اہم شخصیت مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان (متوفی 1981) سے بیعت کی ۔ اس بیعت نے انہیں سنی اسکالرشپ اور صوفی اتھارٹی کی ایک کڑی سے جوڑ دیا ۔ 1981 میں، انہوں نے قادری رضوی سلسلے میں خلافت حاصل کی، جس کے بعد 1986 میں انہیں رفاعی سلسلے میں اجازت ملی ۔ اس طرح کئی سلسلوں سے وابستگی، جیسا کہ نیل گرین جیسے اسکالر نے لکھا ہے، اس دور جدید میں متفرق مذہبی اتھارٹی کو ساتھ لیکر چلنے کی، جنوبی ایشیائی صوفیاء کرام کی حکمت عملی کو اجاگر کرتی ہے۔

 حضرت مجیب علی بیک وقت تین باہم جڑے ہوئے شعبوں میں خدمات انجام دیتے تھے: تقریر، ادارہ جاتی تعمیر، اور روحانی مشیخیت ۔ اپنی تقریر سے انہوں نے، جو ان کی جذباتیت کے لیے مشہور ہے، سنی تشخص کو مستحکم کرنے اور تبلیغی جماعت جیسے اصلاح پسند گروہوں پر تنقید کرنے کے لیے، ایک آلے کے طور پر کام لیا ۔ ان کی تصنیفی خدمت میں، 'تبلیغی جماعت کی ایکس رے رپورٹ'، بڑی اہم کتاب ہے، جو کہ دیوبندیوں اور سلفیوں کی تنقیدات کے خلاف، مزارات اولیا پر مبنی تصوف کے دفاع میں، بریلوی تحریک کی حمایت میں ہے ۔

ادارہ جاتی طور پر، انہوں نے دارالعلوم فیض رضا اور مرکز اہلسنت جیسے مدارس قائم کیے، جو کلاسیکی درس نظامی نصاب اور وہابیت مخالف سرگرمیوں کا سنگم ہے ۔ ان اداروں سے مدرسہ کی جدید کاری کے وسیع تر رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے، جن میں زمینی سطح پر خدمات پر زور دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے لڑکیوں کے ایک مدرسے، مدرسۃ البنات فاطمہ جان کی بنیاد رکھی، جو سنی راسخ العقیدہ لوگوں کے اندر، خواتین کے لیے مذہبی تعلیم کی طرف ایک محتاط تبدیلی کا اشارہ ہے ۔

 ایک روحانی رہنما کے طور پر بھی ان کے کئی علاقوں میں پیروکار پائے جاتے ہیں، جس سے سیاسی اسلام پر تصوف و روحانیت کی ان کی ترجیح واضح ہوتی ہے، جو کہ انتخابی سیاست میں شمولیت کے برخلاف ہے، جو اس دور کے سید احمد بخاری جیسے مشائخ میں رائج تھی ۔

 حضرت مجیب علی کی حیات و خدمات اس بات کی زندہ مثال ہے، جسے علماء نے "موافقت پذیر قدامت پسندی" کا نام دیا ہے، یعنی پرنٹ میڈیا اور ادارہ جاتی تعلیمی نظام جیسے جدید آلات کو اپناتے ہوئے، مذہبی اصلاح پسندی کے خلاف مزاحمت ۔ براہ راست سیاسی مشغولیت کے بجائے روحانی اور تعلیمی اصلاح پر ان کی توجہ، حضرت خواجہ بندہ نواز جیسے، دکن کے ماقبل بزرگوں کی حکمت عملیوں کی بازگشت ہے ۔ تقابلی طور پر، ان کا نقطہ نظر حیدرآباد کے شیعہ رہنما علامہ رشید ترابی جیسے معاصرین سے الگ تھا، جو زیادہ تر فرقہ وارانہ سیاست میں سرگرم عمل رہے ۔

 شہباز دکن مفتی مجیب علی قادری نے 25 ذوالقعدہ 1442 ہجری بمطابق 7 جولائی 2021 کو فجر کے وقت داعی اجل کو لبیک کہا ۔

 حضرت شہبازِ دکن کی زندگی جدید ہندوستان میں صوفی روایات کی لچک کو واضح کرتی ہے ۔ تعلیم، روحانی رہنمائی، اور سیاسی مشغولیت کے ذریعے، انہوں نے اصلاح پسند اور سیکولر چیلنجوں کے خلاف، سنی-قادری شناخت کو مضبوط کیا ۔ ان کی میراث نوآبادیاتی دور کے بعد کے جنوبی ایشیاء میں مذہب، تعلیم اور شناخت کی سیاست کے باہمی تعامل کو اجاگر کرتی ہے، جو موافق پذیر قدامت پسندی کا ایک روشن نمونہ ہے، جو اب بھی اس خطہ میں اسلامی بیانیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

 --------

English Article: Hazrat Shahbaz-e-Deccan Mufti Mujeeb Ali: Life and Contributions to 20th-Century Sufism

URL: https://newageislam.com/urdu-section/mufti-mujeeb-contributions-20th-century-sufism/d/135986

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..