New Age Islam
Sat Feb 15 2025, 09:16 AM

Urdu Section ( 1 May 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

This also is a Way of Governance ایک طرز حکومت یہ بھی ہے

مفتی محمد زبیر حق نواز

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت عامر بن ربعیہؓ کو ایک علاقہ کا گورنر بنا کر بھیجا ،کچھ عرصہ گزر نے کے بعد ان کے نظام اور احوال کی تحقیق کیلئے لوگوں سے معلومات کروائیں ۔ عام طور پر ان کی تعریف کی گئی، مگر ایک شخص نے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی تین شکایتیں کیں۔ ایک یہ کہ یہ فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر چلےجاتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد یہ دربار میں آتے ہیں، جبکہ پچھلا امیر صبح کی نماز کے بعد سیدھا دربار میں آجاتا اور لوگوں کے مسائل سننا شروع کردیتا ۔دوسری شکایت یہ پیش کی کہ یہ ہر جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد گھر چلے جاتے ہیں اور کافی دیر گھر میں گزارتے ہیں اور ان کی کئی گھنٹوں کے دوران اگرکوئی ان کا دروازہ بھی کھٹکھٹا ئے تو یہ دروازہ نہیں کھولتے اور نہ باہر آتے ہیں ۔ تیسری شکایت یہ ہےکہ یہ ہر دس پندرہ دن کے بعد کسی بیماری یا کسی نامعلوم سبب کے بنا پر بے ہوش ہوجاتے ہیں ۔ ان پر غشی کے دورے پڑتے ہیں اور یہ بے ہوشی بعض اوقات کئی گھنٹوں ،بلکہ نصف سے زائد د ن تک رہتی ہے۔ اس دوران میں ظاہر ہے کہ یہ کوئی مسئلہ وغیر ہ حل کرنے یا سننے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضرت عمرؓ نے انہیں طلب فرمایا اور لوگوں کے سامنے ان سے ان باتوں کی وضاحت طلب کی۔ اس پر انہوں نے عرض کیا: امیر المومنین کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں ، میں تنہا ئی میں آپ سے بات کرلوں گا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور حکم دیا کہ ابھی اسی مجلس میں لوگوں کے سامنے ان امور کی وضاحت پیش کرو۔چنانچہ حضرت عامر ؓ کو یا ہوئے:امیر المومنین جہاں تک پہلی شکایت کا تعلق ہے کہ ہو صبح کی نماز کے بعد گھر چلا جاتا ہوں اور پچھلے امیر کی طرح براہ راست دربار میں نہیں آتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میری اہلیہ ایک طویل عرصہ سے اتنی بیمار ہے کہ وہ بستر پر ہی ہوتی ہے، وہ اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔میرے گھر میں کھانے پکانے والا کوئی نہیں ہے، میں صبح خود بکری کا دودھ دوہتا اور اپنے اور اپنی بیمار بیوی کے لئے کچھ مختصر کھانے کا انتظام کرتا ہوں اور اس سے فارغ ہوکر دربار میں حاضر ہوتا ہوں۔ دوسر ی شکایت سے متعلق وضاحت یہ ہے کہ امیر المومنین میرے پاس پہننے کیلئے کپڑوں کا صرف یہی ایک جوڑا ہے جو اس وقت میں پہنا ہوا ہے، میں جمعہ کے دن اسے اتار کر خود دھوتا ہوں اور پھر اس کے سوکھنے کے کا انتظار کرتا ہوں، اس لئے جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد کپڑوں کے سوکھنے تک گھر میں رہنا پڑتا ہے ،ظاہر ہے جب تک یہ کپڑے خشک نہ ہوں، باہر آنا ممکن نہیں ۔ جہاں تک تیسری شکایت کا تعلق ہے تو امیر المومنین کچھ دن گزر نے کے بعد مجھے ایک واقعہ یاد آجاتا ہے ،جس کی وجہ سے مجھ پہ یہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔ وہ واقعہ خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے کہ میں اس وقت کافر تھا، جب حضرت خبیبؓ کو زنجیروں سے جکڑ کر تختہ دار کی طرف لایا جارہا تھا ، کفار کا ایک بہت بڑا مجمع جمع تھا ،جو شادیانے بجارہا تھا اور خوشی سے تالیاں پیٹ رہا تھا ،میں بھی ان کافروں میں شامل تھا، اسی حال میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، جنہیں دیکھ کر کافروں نے خوشی کا اظہار کیا اور میں بھی اس وقت انہی میں شامل تھا ۔

 حضرت خبیب ؓ کو اسی حالت میں لاکر پھانسی دے دی گئی ۔مجھے جب بھی وہ دردناک قصہ یاد آتا ہے اور اپنا کافر وں کے ساتھ مل کر خوشی ہونا یاد آتا ہے تومیرے دل ودماغ کی کیفیت بدل جاتی ہے ، میرے ذہن پر ا س کا ایسا شدید قسم کا اثر پڑتا ہے کہ پھر مجھے کچھ ہوجاتا ہے اور مجھے کوئی ہوش نہیں رہتا ۔حضرت عامرؓ یہ وضاحت پیش کرچکے ہیں ،مجمع میں کئی لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے تربیت یافتہ شاگرد کی وضاحتیں سن کر جذباتی ہوگئے۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا جب تک عمرکو ایسے ساتھی میسر ہیں انشا اللہ عمر ناکام نہ ہوگا۔یہ ایک گورنر کا حال ہے، جس نے نبویؐ تعلیمات سے سبق سیکھا تھا ، یہ اس نبیؐ کے سچے غلام تھے، جن کے اپنے گھر میں فاقوں کی حکمرانی تھی، جن کے پیٹ پہ دودو پتھر بندھے رہتے تھے ، اسلام کی تاریخ ان جیسے عالمی حکمرانوں سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے حکمرانی کو گلے کا طوق سمجھا ۔خود فاروق اعظمؓ کو شہادت کے وقت جب اپنی اولاد میں کسی کو جانشین بنانے کا مشورہ دیا تو فرمایا کہ ایک تو میں انہیں اس کا اہل نہیں سمجھتا ،دوسرے یہ کہ میں اپنی اولاد کے گلے میں ہمیشہ کیلئے یہ طوق ڈال کر نہیں جانا چاہتا ۔ خلیفہ اول صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے بعد حسب معمول کپڑوں کی گٹھڑی اٹھا کر بازار کی طرف چلے تو راستہ میں فاروق اعظمؓ کی تجویز خلافت راشدہ کی مجلس شوریٰ کا پہلا اجلاس بلایا گیا اور صدیق اکبرؓ کیلئے محض بقدر ضرورت وظیفہ مقرر کیا گیا۔

صلاح الدین ایوبی سے آج کون واقف نہیں؟ جو اپنے عہد کی سب سے بڑی اسلامی حکومت کافرماں روارہا ، جس کی حکومت شام کی شمالی حدود سے افریقہ کے صحر ا توبہ تک پھیلی ہوئی تھی، جس نے اپنے زمانہ کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو شکست دی۔ ان کے ذاتی رفیق ابن  شداد نے لکھا ہے کہ ‘‘وہ دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ ان کی تجہیز و تکفین کا سارا سامان قرض لیکر حاصل کیا گیا، یہاں تک کہ قبر کیلئے گھاں کے پولے بھی قرض سے آئے ، کفن کا انتظام ان کے وزیرو کا تب قاضی فاضل نے کسی جائز وحلال ذریعہ سے کیا’’ خدا کی قسم اسلام کی نشر واشاعت کسی شاہ وکج کلاہ کی مرہوم منت نہیں ،وہ ان گدڑی نشینوں کا کارنامہ ہے ۔سچ یہ ہے کہ ہم آج بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ،یہ صدقہ ہے نبیؐ کے اس سچے غلاموں کا! یہ انہی گڈریوں کی جہانبانی کا اعجاز تھا کہ نصف کائنات مسلمانوں کے زیر نگیں ہوگئی۔ کیا ان جیسے واقعات میں ہمارے ان ارباب اقتدار کیلئے کوئی سبق ہے، جن کے وجود عالیہ پرٹو کول کلچر نے خول میں پیک رہتے ہیں ، جنہیں اپنے شیش محلوں سے باہر جھانکنے کی فرصت نہیں جو روزانہ اپنے سرکاری دفاتر میں ذمہ داریاں اداکرنے نہیں بلکہ ‘‘بزنس اور کاروبار’’ کرنے جاتے ہیں ، جن کےدفتری اوقات ذاتی منفعتوں کے حصول کی نت نئی راہیں تلاش کرنے میں گزرتے ہیں، جن کی مشاورت او ر تدبروتفکر کی معراج ذاتی منفعتوں کے حصول کیلئے نئے رخ، نئے باب نئے دروازے کرنا ہے، جن کے سامان تعیش ،طرز رہائش ،رہن سہن کے پر آسائش ماحول کو چھوڑ یئے ،جن کی صرف لکژری گاڑیوں کو دیکھ کر خود ان ممالک کا میڈیا جن سے امداد کیلئے ہم کشکول لئے پھر رہے ہیں ، کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں آنے والے ان لیڈروں کو دیکھ کر قطعاً کوئی یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ کسی غریب قوم کے نمائندے ہیں۔ کیا غریب ترین قوم کے ان امیر ترین لیڈروں اور مملکت خداداد کے والیوں کیلئے خلافت راشدہ اور ان کے غلاموں کے مذکورہ طرز حکومت میں کوئی کشش کا سامان ہے؟ انہی کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ ذرا توجہ فرمائیے ،ایک طرز حکومت یہ بھی ہے!

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/this-way-governance-/d/1376

 

Loading..

Loading..