مفتی فاروق علوی
سلفی تکفیری گروہ داعش کی موجودہ دھشت گردی کی پشت پر سید مودودی کی کتابیں نہیں بلکہ امام ابن تیمیہ · کے اجتہادات ھیں ،، اسلامی تاریخ کے مختلف پسِ منظر رکھنے والے واقعات سے امام ابن تیمیہ نے جس طرح استنباط کر کے ان کو دوسرے پسِ منظر رکھنے والے احوال پر جس بے دردی کے ساتھ چسپاں کیا ، اور جس کو ان کی علمی ھیبت سے دھشت زدہ عقول حرف آخر سمجھ کر صدیوں سے پوجتے چلے آئے تھے ، اس نے آخر انڈے بچے دینے شروع کر دیئے ھیں ،،
امام ابن تیمیہ کے فرمودات لٹریچر میں رُل رھے تھے ان کو کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں تھا ،، سید مودویؒ کے بارے میں علمائے دیوبند کہا کرتے تھے کہ ھم مودودی کے امام ابن تیمیہ کو گھاس نہیں ڈالتے ،یہ مودودی کیا بیچتا ھے ،، ابن تیمیہ اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ سعودی نجدی انقلاب نے گود لیا اور چار فقہوں کے مقابلے میں پانچویں فقہ کے طور پر پالا پوسا اور پروان چڑھایا ،، اس سے پہلے کبھی بھی فقہ تیمیہ اقتدار میں نہیں آئی تھی ،، اب یہی فقہ سعودیوں کے گلے کا پھندہ بن گئ ھے ،
گزرے کل میں یہی نجدی داعش ھی کی طرح کا ایک گروہ تھے جن کو لارنس آف عریبیا نے عرب نیشنلزم کی بنیاد پر اسلامی خلافت کو ٹکڑے کرنے کا ٹاسک دیا تھا ، مشرک واجب القتل کا فتوی بھی ابن تیمیہ کا تھا اور حرمین میں ھزاروں ترک تہہ تیغ کیئے گئے جو حرمین کے تقدس میں شھید اور پسپا تو ھوتے گئے مگر پلٹ کر فائر نہ کیا کہ مقدس شہروں کی حرمت پامال نہ ھو ، داعش کی طرح بس مزاروں کو مسمار کرنا ھی ان کا بھی منتہائے مقصود تھا جیسا کہ داعش نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں کیا ،آج داعش انہی کی ٹرو کاپی بن کر ان کے سامنے کھڑی ھے ، وھی متشدد نظریات ، وھی مسلمانوں کے واجب القتل ھونے کے فتوے ، اور وھی دولے شاہ کے چوہوں جیسی محدود سوچ اور اپروچ ،، سعودیوں میں ٹھہراؤ اور اعتدال باقی امت کے ساتھ تعامل کی وجہ سے آیا ھے ورنہ امام ابن تیمیہ کے فتوؤں نے ان کو راکٹ بنایا ھوا تھا ،، آج کئ جید سعودی علماء یہ کہتے ھوئے قطعاً نہیں شرماتے کہ نظریاتی طور پر داعش ھمارے ھی ایجنڈے کو کاپی کر رھی ھے اور ھم علمی طور پر ان کا رد نہیں کر سکتے ،یہی بات اس عربی مضمون میں بھی کہی گئ ھے کہ جب تک آپ ابن تیمیہ کی پوری میتھالوجی کو ری وزٹ نہیں کرتے آپ کبھی بھی داعش کے نظریات کا رد علمی بنیاد پر نہیں کر سکیں گے ، ایک آدھ فتوے کی بات نہیں ابن تیمیہ کا پورا بیانیہ ھی محلِ نظر ھے
بہت کم لوگ جانتے ھیں کہ جب ترکوں نے مسجد نبوی کی تعمیر کی تو بچوں کو والدین سے لے لیا گیا ، رزقِ حلال سے ان کی پرورش کی گئ ، ان تمام کو معمار کی تربیت کے ساتھ حفظ قرآن کی تعلیم دی گئ ، جو دورانِ تعمیر باوضو حالت میں قرآن کی تلاوت کرتے ھوئے مسجدِ نبوی کی تعمیر کرتے رھے ،اگر پتھر کو چھوٹا کرنا ھوتا تو اس کو مدینے کی حدود سے باھر لا کر توڑا جاتا کہ نبئ کریم ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے ، وھی ترک واجب القتل ٹھہرے اور حرم نبوی میں پتھر نہ توڑنے والوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا اور ان کے سر قلم کئے گئے
ابن تیمیہ نے یہ فتوی دیا کہ مسلم بیٹا اپنے کافروالدین کو قتل کر سکتا ھے - ظاھر ھے کہ یہ ابوعبیدہ ابن الجراحؓ کے اپنے والد کو قتل کرنے اور حضرت حذیفہؓ کے اپنے کافر باپ عتبہ کو للکارنے پر قیاس کر کے دیا گیا فتوی ھے جو کہ پہلے دن سے غلط تھا ، ایک تو اس وجہ سے کہ مکے کے لوگوں کے لئے تو طے ھی یہ تھا کہ وہ یا تو ایمان لائیں گے یا قتل کر دیئے جائیں گے تیسرا کوئی آپشن ان کے لئے اللہ کی شریعت میں تھا ھی نہیں اس لئے کہ ان میں ھی رسول مبعوث ھوئے تھے اور ان پر ھی اس درجے کا اتمام حجت قائم ھوا تھا کہ اب وہ اللہ کی سنت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو رد کر کے اللہ کے عذاب کے مستحق ھو چکے تھے ، اور یہ عذاب حالتِ جنگ میں ھی آنا تھا کیونکہ اللہ پاک نے واضح کر دیا تھا کہ " قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزھم وینصرکم علیھم ویشف صدورقوم مؤمنین (توبہ14) ان سے لڑو اللہ ان کو تمہارے ھاتھوں عذاب دے گا ، اور ان کو رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور اس طرح مومنین ( کا غصہ نکال کر ) ان کے سینوں کو شفا بخشے گا ( ٹھنڈا کرے گا )
دوسرا اس وجہ سے کہ ابن تیمیہ کا یہ فتوی کہ بیٹا اپنے کافر والدین کو قتل کر سکتا ھے قرآن حکیم کے 180 ڈگری خلاف تھا جو واضح طور پر حکم دے رھا ھے کہ اگر والدین تم کو میرے خلاف شرک پر آمادہ کریں اور ایسا کرنے میں سختی بھی کریں تو بھی ان کی بات تو مت مانو مگر ان کے ساتھ رھو ، ان کو ساتھ رکھو اور جس طرح اولاد اپنے والدین کی معروف طریقے سے خدمت کرتی ھے اس طرح ان کی خدمت جاری رکھو’’ وان جاھداک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا .( لقمان -15) لقمان
سعودی اس فتوے کو جنگی حالات کا فتوی کہہ کر مٹی جھاڑ کر اس کا دفاع کرتے رھے ،مگر جب داعش نے ابن تیمیہ کے فتوے کو بنیاد بنا کر خود کو مسلمان اور سعودیوں کو کافر قرار دیا اور اپنے خلاف بولنےوالے والدین کی اولادوں کو حکم دیا کہ وہ ایسے والدین کو اپنے ھاتھ سے قتل کریں اور داعش کے اس حکم پر شام میں عملدرآمد شروع ھوا ،جہاں دو جڑواں بھائیوں نے اپنی والدہ کو اس جرم میں کہ اس نے ان کو داعش چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا بازار میں پبلک کے سامنے لا کر خود گولی ماری اور اس کی ویڈیو بھی بنائی جو غالباً یو ٹیوب پر دستیاب بھی ھے نہ صرف ماں کو قتل کرتے وقت ابن تیمیہ کا فتوی پڑھا گیا بلکہ اردنی پائیلٹ کو زندہ جلاتے وقت بھی ابن تیمیہ کا ھی فتوی پڑھا گیا تھا اب سعودیہ میں دو جڑواں بھائیوں نے اپنی 67 سالہ ماں ،73 سالہ باپ اور بھائی کو چھرے سے قتل کرنے کی کوشش کی جس میں والدہ تو قتل ھو گئ جبکہ باپ اور بھائی ریاض اسپتال میں داخل ھیں دونوں بھائیوں کو فرار ھوتے ھوئے یمن کی بارڈر پر گرفتار کر لیا گیا ھے ،، تو اب سعودیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ھیں اور ان میں ایک طاقتور گروہ یہ مطالبہ کر رھا ھے کہ ابن تیمیہ کے فتاوی بھی نظر ثانی کے محتاج ھیں ان کا بغور جائزہ لے کر ان کا محاکمہ کیا جائے اور ان کو ایک مخصوص وقت اور پسِ منظر تک محدود کر کے اس کی عمومیت کا انکار کیا جائے تا کہ اس قسم کے گروھوں کو اس فعل شنیع کے لئے کوئی شرعی جواز دستیاب نہ ھو ،،
پاکستان میں ٹی ٹی پی اور لال مسجد سرکٹ دیوبندی چہرہ رکھنے کے باوجود داعشی باطن رکھتے ھیں اور دیوبند کے لئے ایک بوجھ بن چکے ھیں ،جو دیوبندی عام آدمی کو اپنی دیوبندیت
سے متوجہ کرتے ھیں مگر داعشیت کے خیمے میں داخل کر دیتے ھیں ، اور الزام سارا دیوبند پر آ جاتا ھے ، اس بات کو مسلک کی اعلی قیادت بخوبی جان گئ ھے
اور اس نے اپنے آپ کو ان سے دور رکھنے کا فیصلہ کر لیا ھے ، دیکھ لیجئے گا کہ آئندہ لال مسجد تنازعے میں دیوبندی علماء قطعاً کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کریں گے
گویا ابن تیمیہ کی پوری فقہ تنازع کا شکار ھو گئ ھے
URL: