مبینہ رمضان
6 مارچ ، 2015
انسان زندگی اور اس کی ترقیات کے پس پردہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے یہ ایک اس بات کوبحسن خوبی نہیں سمجھ سکتا دراصل اللہ سبحان اللہ و تعالیٰ نے پہلا حکم پہلی وحی میں نازل فرمایا جواس نظریہ کی تائید اور اسی تعلیم کی افادیت کو واضح کرنے کےلئے نازل ہوئی ۔ تعلیم و تعلم کو صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ تعلیم وہی قابل رشک ہے جس سے انسان دنیاوی اور ما بعد کی زندگی میں مستفید ہو ورنہ خانہ پری اور خالص دینوی اغراض کے حصول کے لئے جو تعلیم حاصل کی جاتی ہے وہ انسان کوصرف زندگی کے ایک شعبہ ( مالی) میں آگے ضرور بڑھا دیتا ہے لیکن ایسے لوگ اور اس پہنچ پر چلنے والے کارواں اخلاقی اقدار، سماجی اخوت ،انسانی ہمدردی، خداشناسی اور انسانی ہمدردی کی صفات سے اکثر عاری ہو جاتاہے، اس لئے اس تعلیم کو ہم مکمل نظام حیات کی کامیابی کا زینہ تصور کرنے سے قاصر ہیں اور وہی علم صحیح معنوں میں مقصد ہے جو ہردور میں بدلتے حالات میں ایک متعلم کی ہر طرح کی تشنگی بجھانے میں کار گر ثابت ہو اور دینی تعلیم کی ہر دور میں تشکیل نوناگزیر ہے۔
دراصل انسان کی زیست کا ایک عظیم مقصد ہے جس کی طرف قرآن میں واضح احکام موجود ہے کہ انسان کو خلیفہ یعنی نائب کا درجہ عطا کیا گیا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ انسانی عقل اور اس کے جملہ صفات علوم پر قابو پاکر اللہ کی اطاعت کے آگے سر جھکائے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر صفتوں کا خزینہ رکھا ہے اور اب انسان کی چاہت اور فن سےکہ کس صفت کوکھولے اور خزینوں کو تسخیر کرے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو القاب سے نوازا اور فرشتوں سےبھی اعلیٰ مقام پر جائز کیا۔ لیکن سوال ہے کہ انسان کے مربی اور تربیت کے مسائلک کو کیسے حل کیا جائے اور ان فرشتہ نما صفتوں کو کس رنگ و ڈھنگ میں نکھارا جائے کہ یہ واقعی عظیم اور خائب کہلا یا جاسکے۔اس لئے ایسی دانشگاہوں اور سانچوں کی ضرورت ناگزیر ہیں جہاں ایک طالب علم کو عقلی و نفسیاتی لحاظ سے نیز روحانی طور سے ایسا متوازن کیا جائے جس سے یہ طالب علم ایک اسلامی شخصیت بن کر نکلے اور یہاں داخل ہونے والے نونہال اس ادراک تک پہنچے اپنے مقصد زندگی کو سمجھ سکے ۔ انہیں یہ بات ذہن نشین ہوکہ ہماری تخلیق بے سود اور عبث نہیں بلکہ ہم ایک مقصد لے کر اس دنیا میں آئے ہیں ۔ یہ تحریر مدارس کے نظام تعلیم پر ہر گز تنقید نہیں بلکہ ان درسی نظام کو ایک مناسب پہنچ دینے کی ایک سعی کی ابتدا ہے۔ وادی میں جہاں جتنے بھی مدارس اس وقت دل و جان سے ترق و کامیابی کی طرف رواں دواں ہیں وہاں مدارس کے ذمہ داران کو ہر لحاظ سےٹھنڈے دل و دماغ سے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو ہر بار، ہر وقت باریک بینی سے پرکھنا ہےاور تعمیری تنقیدوں سے خامیوں کا ازالہ کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب انہی مدارس سے اعلیٰ معلم، معمار قوم اور دیگر فنی ماہر تیار ہوں گے۔
مدرسہ ۔ ایک ایسی جگہ جہاں طالب علم کو دینی علوم میں تربیت کرا سکے مدرسہ میں اکثر شعبہ حفظ ، اور عالمیت یعنی پانچ سالہ عالم کو رس پر نصاب مبنی ہوتاہے اس سالوں میں ابتدائی ، احادیث ، فن قرآن، ناظرہ، فقہ، عربی ادب، سیرت وغیرہ جیسے مضامین طالب علموں کو پڑھائے جاتے ہیں ۔ جب کہ اب ان مضامین کے ساتھ ساتھ اکثر مدارس میں اردو اور انگریزی زبانیں بھی پڑھائی جارہی ہے۔ نیز ہر ایک تربیتی سرگرمی کے پیچھے یہی مقصد ہوتا ہے کہ طالب علم قرآن و سنت کی راہ اختیار کریں اور ایک بہترین مسلمان و مومن بن سکے ۔ کیا یہ نصاب تعلیم جو کئی سال پہلے ترتیب دیا گیا ہے آج بھی کارگر ہوسکتا ہے یا وقت کے بدلاؤ کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم کے اصول، نصاب تعلیم اور تعلیم و تعلم کے اصول و منہج کی تبدیلی بھی ضروری تو نہیں اگر ہم ان نقطوں کو نظرانداز کرینگے تو ہم چاہے کتنی محنت کریں وہ بےسود ثابت ہوسکتی ہے ۔ ہمارانصاب ناقص اور کمزور ہوا تو ہمارے طلباء غیر محسوس انداز میں ان خامیوں کاشکار ہوسکتے ہیں اور ہمارے مفتی صاحبان و ذمہ داران و معلم جس کو ایک جوہر سے تشبیہ دے سکتے ہیں ۔ شاید ہیرا تراشنے میں کامیاب نہ ہوسکے گا اور پھر ایسی دانش گاہیں کس کام کی جس میں متوازن کردار تعمیر نہ ہوسکے ۔ عصر حاضر میں دینی مدارس کی حیثیت یقیناً قلعوں کی جیسی ہیں اس لئے ان کی درو دیوار کےساتھ ہمیں مدارس کی ہر ایک حصے پر نظر ثانی کرنی ہے ۔ آئے مدارس کی تربیتی نظام پر تھوڑی بحث کریں ۔
دینی تربیت کےمشمولات کو ہم بڑے چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں : پہلا عقائد، عبادت، اخلاق و آداب اور چوتھا معا ملا ت ۔ یہ چاروں شعبے یکساں اہمیت کے حامل ہیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ اگر ہم نے ان میں کسی ایک شعبہ کو زیادہ اہمیت دی تو دوسرے پہلو نظر انداز ہوسکتے ہیں اکثر مدارس میں زیادہ زور عبادت و ذکر پر دیا جاتا ہے یا مضامین میں زیادہ زور عربی زبان یا تفسیر پر دیا جاتاہے جب کہ اکثر مدارس میں سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکم توجہ دی جاتی ہے دراصل ہمیں غیر متوازن رویہ سےپرہیز کرناچاہئے اور ہر ایک پہلو کو یکساں طور پر اپنی اہمیت دینی ہے۔ یہ بھی کہہ سکتےہیں کہ یہ چاروں پہلو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس لئے اخلاق و آداب میں خامی رہی تو معاملات بھی بہتر نہیں ہوسکتے ۔ مدارس میں طالب علموں کی تربیت کامقصد فقط اتنا ہے کہ یہ عالم ایک مختصر مدت کے بعد جب مدارس سے باہر آئینگے تو باہری دنیا کے حالات جیسے بھی ہو یہ اپنے مقصد حیات، حسن و اخلاق ، معاملات، عبادات، معاشیات میں اعلیٰ مقام بنائیں گےاور دوسرے روش پیغمبر ی بھی جاری رکھ کر شریعت کا از سر نو احیا کرینگے ۔ اس لئے جتنا ان کی تربیت میں عصری امتزاج شام ہو اتنافائدہ مند ہوگا ۔ ایسا نہ ہو کہ اندرون مدرسہ کے نصاب میں عصری علوم کی بو بھی نہ ہوتو طالب علم مدارس سے نکل کر باہر ایک نئی دنیا کا مطالعہ ومقابلہ کرے ۔ تو نتائج مثبت کی جگہ منفی ہوسکتے ہیں ۔
مدارس کی تعلیم ہر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مدارس کی نظامت میں تین طرح کے مسائل فوری توجہ کےمستحق ہیں۔
پہلا مقاصد تعلیم، دوسرا نصاب تعلیم، تیسرا دین میں مسلک کا مقام ہمارے مدارس کے تعلیم کا مقصد ہر گز تنگ نظری پر مشتمل نہ ہو ہم ایسا نہ سوچیں کہ ہمارے طلبا صرف مولوی فاضل بن کر نکلے ۔ ہم اس کے مخالف نہیں کہ مدارس سے مولوی نہ نکلے دراصل عصر حاضر کے تقاضے یکسر بدل گئے ہیں جو ہمیں کسی بھی طرح قبول کرنی ہیں اور انہیں دینی نہج پر ڈھالنا ہے اور اس وقت مولوی فاضل کےساتھ ہمارے طلبا ء کو چند اور تربیتوں کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہیں جب وہ مدارس سے نکلے ۔ دینی مدارس کا یہ ہدف اُس وقت رائج تھا جب گذشتہ صدی میں ویسے ہی حالات تھے ۔ ہندوستان میں درس نظامی جب رائج تھا تو حکومتی عہدیدار پیدا کرنے کےلئے بنایا گیا تھا ۔ 1857ء سے پہلے انہی مدارس سے فارغ ہونے والے لوگ تحصیلدار او رکلکٹر ہوا کرتے تھے جو جج اور قاضی کے عہدوں پر فائز تھے ڈاکٹر اور طبیب بھی وہی بنتے تھے لیکن انگریزوں کے تسلط سے یہ درس نظامی کا تعلیمی ڈھانچہ درہم برہم ہوگیا فارسی اُس وقت قومی زبان تھی لیکن اب فارسی کی جگہ انگریزی زبان اختیار کی اور فارسی و عربی زبان بولنے والے بیکار پڑ گئے ۔
اس لئے مقصد کا ہدف منتخب کرتے وقت وسیع النظر ذہن سے سوچیں کہ مدارس میں طلباء کو دینی مضامین کے ساتھ عصری علوم کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ ہمارا ہدف یہ نہ ہو کہ مدارس سے نکلنے کے بعد طلباء صرف معاشی میدان میں آگے بڑھے ۔ او راپنے مقصد حیات کو بھول جائیں لہٰذا ذہین سازی کی بھی اپنی اہمیت ہیں جو شعوری طور پر ایک طالب علم کو یہ باور کرائیں کہ کسی بھی میدان میں کام کرو لیکن اللہ کے بندے بن کر اور اسلام کے داعی بن کر قرآن و سنت کے پیکر بنیں ۔
نصاب تعلیم : جب ہم مقاصد متعین کئے تو نصاب تعلیم خود بخود بدل جائے گا۔ یہ بات ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ نصاب تعلیم کوئی غیر متبدل چیز نہیں ہوتی ہے ۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نصاب صرف قرآن مجید تھا بعد میں احادیث کا اضافہ ہوگیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ علوم میں بتدریح اضافہ ہوتا گیا او راگلی صدی میں فقہ، اصول فقہ، تفسیر علوم المقاصد وغیرہ پڑھتے گئے ۔ اس لئے نصاب کی افادیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ ایسے موثر اور مجتھد علماء تیار کئے جائیں جو معاشرے تک بہترین او رموثر طریقے سےدین پہچان سکیں ۔ دین کی خدمت کرسکے او رلوگوں کے قول و عمل کو شریعت کے مطابق ڈال سکیں ۔ عصر حاضر کایہ اہم تقاضا ہے کہ ہمیں غلط و باطل کو پرکھنے کےلئے اس سے پہلے Study کرنا ہے مغربی تعلیم کو یکطرفہ چھوڑیں کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس دنیا کو سمجھیں اسلام مخالف یا دیگر مذاہب کی تعلیمات پر غور کریں ۔ عصری نظام تعلیم جو اس وقت سرکار ی وغیر سرکاری اداروں میں رائج ہیں اس کا بھی مطالعہ کریں ۔ ضرورت ہےبے شک اگر ہم قوموں او رمعاشروں کے غلط نظام کو بدلنے کی سوچ رہے ہیں ۔ اگر ہم بدعات و روسومات کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ساری چیزوں کے گہرائی میں مطالعہ کرکے ایک کاری ضرب لگانی ہے نہ کہ سطحی طور خانہ پڑی کریں ۔ اگر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ مجبوری تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں آج ہماری بھی مجبوری ہے کہ ہمارے علماء، محققین ، شیخ الحدیث ، مفتیان کرام ، عصر حاضر کے حالات واقعات پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں اور پھر اس کی تردید تائید کریں ۔ اگر ہم مسائل کامشاہدہ ، تجزیہ اور تفکر نہ کریں تو کیا اس کا حل ہم سے ممکن ہوسکیں گے۔ اس وقت دنیا میں انگریزی زبان رائج ہے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی ضروری نہیں ہے ہم جب اس زبان کو بھی پڑھ سکتے ہیں تو پتہ چلے گا کہ اسلام کے دشمن کیا لکھتے ہیں او رہمیں کس محاذ پر کیسے کام کرناہے۔
اور ایک مسئلہ درپیش ہے جو مسالک سے متعلق ہے بعض حلقوں میں مسلک کی اہمیت دین سے بھی شدید ہوگئی ہے جس کے لئے ذمہ داران ہی جوابدہ ہیں ۔ ہر ایک کامسلک ہونا ضروری ہے لیکن یہ دین نہیں بلکہ اجتہادی ہے اور انہیں ہم غیر ضروری اہمیت صرف کم علمی اور تعصب کی بنیاد پر دیتے ہیں۔
تحقیق : فکری و علمی تربیت کے دوسرے اجزاء میں تحقیق کا جُز سر فہرست رکھیں ایسا لگتا ہے کہ مدارس میں طالب علموں کا تحریری اثاثہ جیسے پھیکا پڑا ہے ہمارے طلباء کے ذہنوں پر جیسے جمود حاوی ہوگیا ہے ۔ ہمیں دینی علوم میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ مدارس کے اعلیٰ درجوں میں مطالعہ و تحقیق کی بڑی اہمیت ہے تحقیق سے ہی ہمارے طلبا ء نئے اور جدید مصنوعات پر بحث کر کے تحریریں پیش کرینگے اور ہر ایک نقطے کو دلائل سے ثابت کریں گے۔ اس وقت عالم اسلام میں آٹھ فقہی مسالک رائج ہے ان کے درمیان اختلاف بھی ہے اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ مسلمان اس کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے دشمن بنے ۔ اس طرح سے طلبا کوابتداء سے ہی یہ ذہن نشین کرانا ہے کہ موقعہ و عمل جان کر اپنی بات کو پیش کریں ۔
تعمیری تنقید کس طرح کی جائے ۔ مدارس میں عصری معلومات بھی بہم پہنچائیں جائے تاکہ طلباء کو ہر مسئلے ہر نظر ہو اور جدید مسائل پر بحث و مباحث ہو۔ نصاب میں فنی کورسوں کو بھی شامل کیا جائے ۔ مدارس کے کورسوں میں Technical Courses بھی میسر ہو ۔ مدارس میں طلبا ء کی ذہبی ورزش کےساتھ جسمانی ورزش پر اہمیت دیں ۔ مدارس میں طلباء کی جسمانی و ذہنی صحت کا پورا خیال رکھا جائے ۔ مدارس ایک نصاب اور ایک نظام الاوقات کے حساب سےچلیں جس میں وقت و مہینوں کے حساب سے وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جائیں ۔ مدارس کے طلبا ء یا طالبات کو تفریحی جگہوں اور معلوماتی جگہوں جیسے تاریخی مقامات ، میوزیم ، سیر گاہ وغیرہ لے جانالازمی ہے تاکہ انہیں درس و تدریس میں دلچسپی بڑھانے کےلئے تازہ دماغ ملے۔ درجوں کا ماہانہ امتحان ( تعلیمی جانچ) بھی ضروری ہے۔ مدرسوں میں Visiting تقرری کرائی جائے تاکہ بچوں کو کما حقہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی بھی جانکاری میسر ہو۔ نیز مدارس کےمنتظمین اور ذمہ داران مدارس میں بہترین پیداوار کے لئے طلبا ء یا طالبات کی نفسیات کا خیال رکھنا نہ بھولیں ۔ تاکہ مدارس پر ہونے والی کاوشوں ، سعی و جد وجہد، عصر حاضر میں صبغۃ اللہ کے رنگ میں اسلامی تہذیب کا از سر نو احیا کرنے میں مدد گار ثابت ہو۔
6 مارچ، 2015 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/madrasa-curriculum-modern-world-/d/101879