New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:17 AM

Urdu Section ( 12 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Anti-Discrimination Movement of Bangladesh and Rise of Extremism بنگلہ دیش کی تفریق مخالف تحریک اور انتہاپسندی

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

12 اگست 2024

بنگلہ دیش میں 6 جون 2024ء کو شروع ہونے والی تفریق مخالف تحریک وہاں شیخ حسینہ کی پندرہ سالہ حکومت کے تختہ پلٹ پر منتج ہوئی۔ اس تحریک کو تفریق مخالف تحریک کا نام دیا گیا کیونکہ ملک میں 1971ء کے مجاہدین آزادی کے وارثین کے لئے 30 فی صد کوٹہ ان کی نگاہ میں سماجی تفریق کا باعث تھا۔ تحریک کے دباؤ میں سپریم کورٹ نے 30 فی صد سے گھٹا کر کوٹہ 5 فی صد کردیا ۔ واضح ہو کہ سرکاری ملازمتوں میں صرف مجاہدین آزادی کے لئے ہی کوٹہ مختص نہیں تھا بلکہ خواتین کے لئے بھی 10 فی صد نشستیں مختص تھیں۔ پچھڑے طبقوں اور اقمیتوں کے لئے بھی 10 فی صد نشستیں محفوظ تھیں۔ برصغیر کے تمام ممالک میں پچھڑے طبقوں ، خواتین اور اقلیتوں کے لئے نشستیں محفوظ کی جاتی ہیں تاکہ انہیں بیوروکریسی اور حکومت میں موجود اکثریتی فرقے کے نمائندوں کے تعصب کے نتیجےمیں تفریق اور امتیاز کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ بنگلہ دیش میں بھی کمزور طبقوں کے لئے ریزرویشن نافذ کیا گیا تھا لیکن نام نہاد تفریق مخالف تحریک کے دباؤ میں سپریم کورت نے مجاہدین آزادی کوٹہ کو گھٹانے کے ساتھ ساتھ جلد بازی میں خواتین ، اقلیتوں اور پچھڑے طبقوں کے کوٹے کو یکسر ختم کردیا اس کے بعدبھی تحریک نہیں تھمی اور خونیں شکل اختیار کرگئی۔ اس بدامنی اور خون خرابے میں خواتین ، اقلیتوں اور قبائیلیوں کو احتجاج کرنے اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے تک کا موقع نہ ملا کیونکہ اس افراتفری اور انارکی میں سماج کے تمام طبقوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ ملک کو دوسری آزادی مل گئی ہے اور ساری تفریق ختم ہوگئی ہے جبکہ تمام کوٹوں کوختم کرکے سماج میں تفریق کے لئے راہ ہموار کردی گئی۔ جس کوٹے کے خلاف تحریک چلائی گئی تھی وہ قائم رہا اگرچہ اس کو گھٹا دیا گیا۔ قبائلیوں کا کوٹہ ہٹاکر نئی عارضی حکومت میں سوپردیپ چکما کو قبائلی معاملات کا انچارج یا نمائندہ بنایا گیا ہے جبکہ قبائلی انہیں اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے اور یونس حکومت کے اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ عارضی حکومت (یہ عبوری حکومت نہیں ہے ) نے ان سے صلاح مشورہ کئے بغیر ان کا نمائندہ مقرر کردیا ہے۔ ایسے میں قبائلیوں کا بھلا کیسے ہوگا جب خود قبائلی حکومت کے مقرر کردہ نمائندے پر اعتبار نہیں کرتے عارضی حکومت میں جن سولہ شخصیات کو نمائندگی دی گئی ہے ان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی سرکردہ شخصیات ہیں اور ان کی حصولیابیوں اور سماجی خدمات کی صرف بنگلہ دیش ہی نہیں پوری دنیا معترف ہے۔

 عارضی حکومت کے سرنراہ محمد یونس خود ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت ہیں اگرچہ وہ خود,اعتراف کرتے ہیں کہ وہ سیاست میں نئے ہیں۔ ان کے علاوہ بنگلہ دیش بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر صلاح الدین ہیں۔ وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ آکٹر آصف نذرل ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کےپروفیسر ہیں اور طلبہ تحریک کے حامی ہیں۔سابق بریگیڈئیر جنرل سخاوت حسین بھی اس حکومت میں شامل ہیں ہیں وہ۔ 2007ء سے 2012ء تک الکشن کمشنربھی رہ چکے ہیں ۔ وہ بھی طلبہ تحریک کے حامی ہیں۔عادل الرحمان خان حقوق انسانی کارکن ہیں اس لئے ظاہر ہے حکومت مخالف تھے اور حسینہ حکومت میں وہ دوبرس جیل میں بھی رہے۔اس لحاظ سے انہیں نئی حکومت میں جگہ ملی۔ سیدہ رضوانہ حسن ماحولیات کے لئے کام کرتی ہیں اور شیخ حسینہ حکومت کے مخالفین میں سے ہیں۔ ان کے شوہر کو حسینہ حکومت میں اغوا کرکے غائب کردیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں رہائی ملی تھی۔سیدہ رضوانہ کو بین الاقوامی ایوارڈ بھی ملے۔ امریکہ سے بھی انہیں ایوارڈ ملا۔انہیں ایشیا کانوبل میگسیسے ایوارڈبھی ملا اور ٹائم میگزین نے ان کودنیا کی طاقتور خواتین میں سے ایک قرار دیا۔محمد توحید حسن بی این پی حکومت کے دوران ہندوستان میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر تھے ۔ توحید,حسن کٹر ہند مخالف ہیں۔ سوپردیپ2023ء تک عوامی لیگ حکومت میں تھے۔ حسن عارف جنرل ارشاد حکومت میں اٹارنی جنرل تھے۔ محترمہ شرمین مرشد سیاسی تجزیہ کار اور غیر سیاسی شخصیت ییں۔محترمہ فریدہ اختر حقوق نسواں کارکن ہیں اور اپنا این جی اوچلاتی ہیں۔ناہید,اسلا اور آصف محمود تفریق مخالف تحرہک کے قائد ہیں۔ ان کے ساتھ ابوبکر مجمدار بھی تھے لیکن ان کو اس حکومت میں نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ غالباً اختلافات کی وجہ سے ان کو ہٹادیا گیا ہے۔واضح ہوکہ طلبہ لیڈران میں سے ایک طبقہ تحریک کو حکومت مخالف تحریک بنانے اور حسینہ ہٹاؤ تحریک بنانے کے خلاف تھا ایسےطلبہ لیڈران کو مقصد پورا ہوجانے کے بعد یا تو بعد میں ہٹادیا گیا یا وہ خود کنارہ کش ہوگئے۔ عارضی حکومت میں سائنس کے شعبے سے کوئی نمایاں شخصیت کو جگہ نہیں دی گئی ہے جب کہ بنگلہ دیش کو سائنس اور تکنالوجی کے میدان میں آگے لے جانے میں وہاں کے سائنسدانوں نے گزشتہ بیس برسوں میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔فنون لطیفہ اور ثقافت کے میدان سے بھی کسی شخصہت کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جبکہ انتہا پسند اسلامی تحریک خفاظت اسلام کے نمائندے مولانا خالد حسین کو عارضی حکومت میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے اشارہ۔ملتا ہے کہ نئی حکومت میں سائنس اور فنون لطیفہ اور ثقافتی سرگرمیوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی اور مذہبی انتہا پسندی اور کٹر پسندی کو فروغ ہوگا۔ اس پرتشدد تحریک کے دوران شیخ مجیب نوازفلم پروڈیوسر سلیم۔خان اور اس کے اداکار بیٹے شانتو خان کو ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا گیا جبکہ عوامی سنگر راہل آنند کے گھر کو نذر آتش کردیا گیا۔ 5 اگست کے بعد سے بنگلہ دیش فلم انڈسٹری سے وابستہ بہت سارے افراد روپوش ہوگئے ہیں اورخوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔

جفاظت اسلام کے نمائندے کی نئی حکومت میں شمولیت کا جواز یہ دیا گیا ہے کہ وہ علماء کی نمائندگی کرینگے جبکہ سائنسی اور ثقافتی شعبے کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت اور طب و حکمت سمیت تقریبات دودرجن شعبوں کو محمد یونس نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ اس سے یونس حکومت کی شفافیت اور معیشت اور صنعت کے تئیں نئی حکومت کا رویہ ؓظاہر ہے۔ حسینہ حکومت کے خلاف سرگرم شخصیتیں نئی حکومت میں خاموش ہیں اور خواتین اور اقلیتوں پر بلوائیوں کے ذریعہ ظلم کے خلاف نہ انہوں نے کوئی کارروائی کی ہے اور نہ ہی کوئی رسمی بیان دیا ہے۔ حفاظت اسلام کے نمائندے کی موجودگی میں خواتین کوئی آواز اٹھا بھی نہیں سکتیں۔

یہ ساری باتیں اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ شیخ حسینہ کو ایک عالمی سازش کے تحت حکومت سے ہٹایا گیا اور نئی حکومت میں حسینہ مخالف اور ہند مخالف شخصیات کوشامل کیا گیا۔اس تحریک کا مقصد بنگلہ دیش میں انقلاب لانا قطعی نہیں تھا۔ امریکہ نے جن شخصیات کو ایوارڈ دے کر اپنا ہمنوا بنایا انہی کونئی حکومت میں شامل کیا گیا کیونکہ امریکہ شیخ حسینہ کے اقتدار میں رہتے اپنے فوجی اور سیاسی مقاصد کو پورا نہیں کرپارہا تھا۔ اس نے بنگلہ دیش کے سینٹ مارٹن جزیرے پر اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے کے لئے کئی برسوں سے اس تختہ پلٹ کے لئے زمین ہموار کی تھی کیونکہ اس نے دیکھ لیا تھا کہ الکشن کے ذریعہ شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹانا ممکن نہیں تھا۔ جب 2024ء کے الکشن میں بھی شیخ حسینہ اقتدار سے نہیں ہٹیں تو امریکہ اور پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ اگلے پانچ سال تک سینٹ مارٹن پر اس کا قبضہ نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے اس نے اپنا آزمودہ نسخہ اپنایا اور تحریک کو خانہ جنگی کی شکل دے کر حسینہ کا ٹختہ پلٹ کروادیا۔

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نئی اور عارضی حکومت میں ہندمخالف اور شیخ حسینہ مخالف اور انتہا پسند افراد کو جگہ دے کر نئےبنگلہ دیش کا خاکہ تیار کرلیا گیا ہے جہاں خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ تفریق و امتیاز برتا جائے گا۔ سائنس اور تکنالوجی کی جگہ مذہبی تنگ نظری اور مذہب کے نام پر تشدد اور منافرت کو فروغ دیا جائے گا۔ اور چین اور امریکہ کی رسہ کشی میں اس خطے میں سیاسی عدم استحکام اور سرحدی تصادم کی صورت حال پیدا ہوگی۔

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/movement-bangladesh-discrimination-extremism/d/132916

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..