New Age Islam
Mon May 12 2025, 01:46 PM

Urdu Section ( 3 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Mosques, Dawah and Non-Muslims مساجد، دعوت امور اور غیر مسلم

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 01 فروری 2023

 مساجد میں تبلیغ کرکے تعصبات اور اسلام فوبیا پر قابو پانا ناگزیر

 اہم نکات

1.      مسلمانوں کی پہلی نسل میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے امور کی رہنمائی خود فرماتے تھے، مساجد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

2.      مساجد کی زیادہ تر کمیٹیوں میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کے پاس کوئی مذہبی تربیت یا علم نہیں ہے، لیکن وہ اماموں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ تمہیں ہماری باتوں کا احترام کرنا چاہیے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔

3.      اگر مساجد مختلف سرگرمیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیں اور اجتماعی امور میں شامل ہو جائیں تو اس فرقہ واریت پر قابو پایا جا سکتا ہے جس نے زیادہ تر مساجد کو مسجد ضرار بنا دیا ہے۔

 ...

 مساجد کسی بھی مسلم معاشرے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر چند مسلمان کسی مخصوص علاقے میں رہتے ہیں، تو اسلامی نظام میں اس کی مرکزی حیثیت کے پیش نظر سب سے پہلے وہ مسجد تعمیر کرتے ہیں۔ اگر اس علاقے میں مسلمانوں کا غلبہ ہے تو وہاں ایک سے زیادہ مساجد بنائی جاتی ہیں کیونکہ فرقہ پرست مسلمانوں کو اپنی نماز کے لیے علیحدہ مساجد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایک مختلف فرقے سے تعلق رکھنے والی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں سمجھا جاتا۔ لہٰذا مسلمانوں کے زیر تسلط ہر علاقے میں مساجد ایک مستقل خصوصیت کی حامل ہوتی ہیں جو اس علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی شناخت اور دینداری کی تصدیق کرتی ہیں۔ مقامی لوگ لاکھوں مالیت کی مساجد تعمیر کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمعہ کی نماز کے علاوہ مساجد خالی ہی رہتی ہیں اور وہاں روزانہ پانچ بار باقاعدگی سے حاضر ہونے والے مسلمان بہت کم ہی ہوتے ہیں۔

 مسلمانوں کی پہلی نسل میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے معاملات کی رہنمائی خود فرماتے تھے، مساجد کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مسلمانوں کے تمام معاملات صرف مسجد میں ہی لائے جاتے تھے اور مرکزی مسجد صرف ایک ہی ہوتی تھی جس میں تمام مسلمانوں کے معاملات حل کیے جاتے تھے۔ مسلمانوں میں منافقین موجود تھے اور انہوں نے ایک مختلف مسجد بنانے کی کوشش کی جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے حکم پر مسمار کر دیا گیا تھا، کیونکہ اس میں پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے اقتدار کو کمزور کرنے کی طاقت تھی اور یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جانے والی تھی۔ پس اس انہدام سے ایک اصول اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی مسجد متنازعہ ہو جائے اور جہاں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہوں تو اسے گرایا جا سکتا ہے۔ تو ان تکفیری مساجد کا کیا حشر ہو گا جو مسلم محلوں کے ہر کونے میں موجود ہیں اور مسلمانوں کو فرقوں اور مکاتب فکر کی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہیں؟ یہ بات خود کو علمائے حق کہلانے والوں کے لیے باعث فکر ہونی چاہیے۔ ایک اور اصول جو مسجد نبوی سے اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے صرف ایک مرکزی مسجد کی اجازت ہے۔ لیکن اب عملی وجوہات کی بنا پر، مثلاً آبادی اور فاصلے کی وجہ سے بہت سی چھوٹی مساجد تعمیر کی جا سکتی ہیں لیکن اس سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔

  ہم ایک جامع مساجد کے بڑھتے ہوئے مطالبات کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مساجد کو جامع بنانے کے لیے ایک پورا پروگرام اور باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے، لہٰذا، یہ جامع مساجد کیا ہیں؟ یہ ایسی مساجد ہیں جہاں خواتین، LGBTQI اور غیر مسلموں کو بھی داخلے کی اجازت ہو۔ زیادہ تر مساجد میں مسلم خواتین اور مخنثات کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، وہاں دوسری اقلیتوں اور غیر مسلموں پر بھی پابندی ہے۔ اسلام میں عملی طور پر زندگی گزارنے کا بہترین تجربہ مساجد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب وہ پر اسرار ہو جاتے ہیں تو سب کچھ مشکوک ہو جاتا ہے۔ اولیاء کرام کے مزارات اور عبادت گاہوں کی طرح مساجد کو بھی سب کا استقبال کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔

 نیز، مسجدوں کو یقینی طور پر بیت المال کو چلانے کا اختیار حاصل ہے۔ وہ امیر مسلمانوں سے خیرات، زکوٰۃ اور دیگر عطیات جمع کر سکتے ہیں اور انہیں غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ چونکہ دولت اسلامیہ کو یہ لازمی رقوم (زکوٰۃ) امیروں سے جمع کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن چونکہ اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے، اس لیے مساجد غریبوں کی مالی مشکلات کو کم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ محلے کے غریبوں کی مدد کریں کیونکہ صدقہ پر پہلا حق رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا ہے۔ نیز، اس فنڈ کو ان اماموں کی تنخواہوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے جن کا مسلمانوں میں سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔ وہ ایک طرف مساجد کو روزانہ پانچ وقت خدمت کرتے ہیں اور اس کے عوض میں انہیں پر انہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے لیے وقف کر رکھی ہے، لیکن مسلمان ان کی روزمرہ کی ضروریات کو بھی پوری کرنے میں ان کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہمیں مساجد کے ذریعے اسلام کو زندہ رکھنے کے حوالے سے ان کی بھرپور کوششوں کو بھی سراہنا چاہیے۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ ان اماموں کی وجہ سے روزانہ پانچ وقت مساجد میں اذانیں اور نمازیں ہوتی ہیں اور مسلمانوں کی عبادات کا نظام جاری و ساری ہے۔ لیکن انہیں ان کی خدمات کا مناسب معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔ نیز ان اماموں کی جگہ بھی پکی نہیں ہوتی اور مساجد کمیٹیوں کی خواہش پر انہیں کسی بھی وقت بغیر کسی وارننگ کے نکالا جا سکتا ہے۔

 زیادہ تر مساجد کمیٹیوں میں ریٹائر شدہ، بڑے تاجر، بوڑھے یا بااثر افراد ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس کوئی مذہبی تربیت یا دینی علم نہیں ہوتا، لیکن وہ اماموں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ تمہیں ہماری باتوں کا احترام کرنا چاہیے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک تربیت یافتہ امام کو مسجد کمیٹیوں غیر تربیت یافتہ، مذہبی طور پر ناخواندہ اور کرپٹ ارکان کی پیروی کرنا پڑتی ہے جو کہ سب سے بڑی تباہی ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ ائمہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

 بڑی مسجدیں بھی اس عظیم کردار کا زندہ مظہر ہیں جو مسلم کمیونٹی میں مذہب ادا کر سکتا ہے۔ لیکن شاہانہ انداز کی مسجدیں بھی اس افسوسناک صورتحال حالت کا مظہر ہیں جب اسی علاقے کے غریب لوگ مناسب کھانا، رہائش اور طبی سہولیات کے متحمل نہیں ہوتے۔ پس بے شمار مساجد کی تعمیر سے اسلام کی روح مجروح ہوتی ہے کیونکہ اسلام ہر گلی میں مساجد تعمیر کرنے سے زیادہ غریبوں اور پسماندہ لوگوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مساجد جو رہنمائی اور سماجی ذمہ داریاں ادا کرتی تھیں اب بہت حد تک اس میں پیچھے ہٹ گئی ہیں کیونکہ خطبات، علماء کی تقریریں اور اسلامی رہنمائی کتابوں میں اور انٹرنیٹ پر مفت دستیاب ہیں۔ اب اکثر مولانا اور ملا یوٹیوب ویڈیو لیکچرز کے ذریعے اپنے سامعین تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، غریبوں کی امداد کا مالیاتی نظام این جی او اور دیگر فلاحی ٹرسٹوں کے ذریعے کیا جانے لگا ہے۔

 لیکن ان پہلوؤں کے باوجود، دعوت میں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کو پیش کرنے اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں کے درمیان تفرقہ کو ختم کرنے میں بھی مساجد کی ذمہ داریوں میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ مساجدوں کو اگر جامع بنا دیا جائے تو یقیناً اسلام کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ ہر مسجد کے ساتھ ایک لائبریری اور کمیونٹی ہال ہونا چاہیے جہاں مختلف سرگرمیاں انجام دی جا سکیں۔ اگر مساجد مختلف سرگرمیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیں اور اجتماعی امور میں شامل ہو جائیں تو اس فرقہ واریت پر قابو پایا جا سکتا ہے جس نے زیادہ تر مساجد کو مسجد ضرار بنا دیا ہے۔ اس سے یقینی طور پر مسلمانوں کو غیر مسلموں تک اور ایسے دوسرے مسلمانوں تک بھی پہنچنے کا ایک نیا راستہ کھل سکتا ہے جن کے خلاف فرقہ وارانہ مبلغین کی بدولت نفرت کی دیواریں کھڑی کی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ، خواتین اور دیگر طبقے جنہیں کبھی یہ تجربہ کرنے کا موقع نہیں ملا کہ مسجد کے اندر نماز پڑھنا کیسا ہوتا ہے، یقیناً اس تجربے سے بار بار ہم کنار ہونا پسند کریں گے۔ نیز، ہمیں غیر مسلموں کی مذمت کرنے کے لیے بحث کرنے والوں کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن یہ مساجد انہیں تعصبات اور اسلامو فوبیا پر قابو پانے میں مدد کریں گی۔

English Article: Mosques, Dawah and Non-Muslims

URL: https://newageislam.com/urdu-section/mosques-dawah-non-muslims/d/129020

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..