New Age Islam
Mon Dec 02 2024, 09:53 PM

Urdu Section ( 13 Apr 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Can Muslim Women Lead Men in Prayers کیا خواتین نماز میں مردوں کی امامت کر سکتی ہیں

 

 مشتاق جمیل ، نیو ایج اسلام

5 مارچ، 2013

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)

 اسلام عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ اصل میں، اسلام میں اس کی سخت مخالفت کی  گئی ہے، اس لئے کہ مردوں اور عورتوں (غیر محرم) کے اختلاط کو اخلاقی اور جنسی جرائم کے باعث کے  طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ اسلام میں مرد اور خواتین کی علیحدگی کو ، پردے (ڈھانپنے) کے متعلق قرانی آیت  کے نزول کے ذریعہ قانونی شکل   دی گئی ہے۔

اسلام میں   کچھ ایسے رہنما اصول بنائے  گئے ہیں ،کہ کس طرح اور کس حد تک، مرد اور عورتیں  ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کر سکتے  ہیں ۔اگرچہ عوامی مقامات  میں جانے کے تعلق سے ان پر  مکمل پابندی نہیں لگا ئی گئی ہے ، اس لئے کہ انہیں  کچھ شرائط کے ساتھ ،قرآن کے ذریعہ ،غیر  محرم مردوں کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی ہے ، اور یہاں تک کہ  کچھ خواتین کو  جنگ میں مختلف محاذ پر   لڑنے کی  بھی اجازت دی گئی تھی ، اس سے  خواتین کو ہر چیز کی آزادی نہیں ملتی ، خواہ عوامی معاملات میں ، یا مذہبی معاملات میں۔

لہذا، بحث کا ایک موضوع یہ رہا ہے، کہ  کیا  عورتیں، مرد اماموں کے پیچھے ، مساجد میں اجتماعی نماز میں شرکت کر سکتی ہیں ۔ اگرچہ پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدت حیات میں ، جنہوں نے  عورتوں کی نماز کی امامت کی ،صرف یہ  مخلوط جماعت کی نماز کی عورتوں کی امامت کے لئے ، ایک قابل اعتماد نظیر بن سکتی ۔ تاہم، ایک یا دو حدیثیں ایسی ہیں  جس میں  ہے کہ خواتین کو مردوں اور عورتوں کی مخلوط جماعت کی نماز کی امامت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ایک حدیث ایسی ہے جو خواتین آئمہ کی نظیر پیش کرتی ہے  ، حدیث اس طرح ہے:

نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)  نےام ورقہ کو ، وہ عورت جنہوں  نے قرآن کو جمع کیا تھا، اپنے علاقے کے لوگوں کی  نماز کی امامت کرنے حکم دیا ۔ ان کے پاس  اپنا مؤذن تھا ۔ 1 (الفتح الربانی لترتیب مسند امام امام احمد بن حنبل ۔ شیبانی مع شرح بلوغ الامانی  )

اس حدیث کے مطابق، ام ورقہ کو  حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے  اپنے  علاقے (دار) کی نماز کی  امامت کے لئے حکم دیا تھا ۔ تاہم، عربی لفظ دار میں علماء کرام کا اختلاف ہے جس کا  معنی گھر اور علاقہ ہے ، جیسے دارلاسلام یا دارلحرب دونوں ہے ۔ علماء کی رائے  ہے کہ ، چونکہ ام ورقہ ایک مذہبی عالم اور قرآن کو جمع کرنے والی اور حافظ قرآن  تھیں، اسی لئے انہیں  اپنے گروہ ،   قبیلے، یا متعلقہ خاندانوں کے مجمع کی امامت کا حکم یااجازت دی گئی تھی ، جیسا کہ عرب معاشرے میں دستور  تھا۔ اس زمانے میں گھر آج کی طرح مرکزی  خاندان کے نہیں تھے، بلکہ اسی قبیلے یا فرقے کے خاندانوں کی ایک جماعت  ہوتی تھی  ۔ ان کی  مثال سے، یہ بھی واضح ہو جاتا ہے، کہ ایک عورت ایک مفتی یا ایک مذہبی اتھارٹی بھی بن سکتی ہے، اگر اس کے پاس  قرآن، سنت اور فقہ کا مطلوبہ علم ہے۔

ایک اور ایسی حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ، عورتوں نے حضور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امامت میں ،مساجد میں اجتماعی نماز میں شرکت کی ہے۔

ابوہریرہ نے روایت کی کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : (اگر نماز میں کچھ ہوتا ہے) تو اللہ کی تکبیر  مردوں کے لئے ہے، اور ہاتھوں کی تالی  عورتوں کے لئے ہے  ۔ ہرملہ  نے ان کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ابن شہاب نے ان سے کہا: میں نے کچھ علماء کرام کو اللہ کی تکبیر ، اور اشارہ کرتے ہوئے  دیکھا ہے۔ (صحیح مسلم: 850)

اگر نماز کے دوران کچھ غلطی ہو تی ہے ، تو اس حدیث میں مردوں کو  اللہ کی تکبیر اور خواتین کو تالی بجانے کا حکم دیا گیا ۔

ایک اور ایسی حدیث ہے جس  سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو بھی مساجد میں نماز میں شرکت کرنی چاہئے :

ابوہریرہ نے کہا کہ: مردوں کے لئے سب سے اعلیٰ درجے  کی صف  پہلی صف ہے، اور سب سے کم  تردرجے کی صف  آخری صف ہے ، اور عورتوں کے لئے سب سے بہترین صف  آخری صف ہے  اور ان کے لئے سب سے کم  تر درجے کی صف پہلی صف ہے ۔ (صحیح مسلم 881)۔

اس سلسلے میں ایک اور حدیث ہے:

"سہل بن سعد نے روایت کی : میں نے دیکھا کہ ایک مرد، بچوں کی طرح،اپنے کم کپڑوں کو ، کپڑے کی کمی کی وجہ سے، اپنی گردنوں کے گرد باندھے ہوئے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)  کے پیچھے، نماز ادا کر رہا تھا  ۔ منادی لگانے والوں  میں سے ایک نے کہا: ائے مستورات  اپنے سر نہیں اٹھائیں جب تک  مرد (انہیں ) اپنا سر  نہ اٹھا لیں ۔ (صحیح مسلم: 883)

ایک دیگر حدیث، جس سے  عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت ثابت ہوتی ہے :

سلیم نے اس کی روایت اپنے باپ (عبداللہ بن عمر ) سے کی ہے،کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ : جب عورتیں مسجد میں جانے کے لئے اجازت طلب کریں ، تو انہیں منع نہ کرو۔ (صحیح مسلم: 884)

ایک اور حدیث سے اس مسئلہ کا تصفیہ ہوتا ہے:

ابن عمر نے روایت کی : عورتوں کو رات میں مسجد میں جانے کی اجازت دو۔ ان کے بیٹے  نے جن کا  نام واقد ہے کہا کہ: تو وہ فساد پیدا  کریں گی ۔ (راوی) نے کہا: انہوں نے ان (بیٹے) کے  سینے پر  تھپکی ماری اور کہا کہ: میں تم سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حدیث بیان کر رہا ہوں ، اور تم کہتے ہو: نہیں! (صحیح مسلم: 890)

‘ عبداللہ (بن عمر) کی بیوی زینب نے روایت کی : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم سے کہا: جب تم میں سے کوئی مسجد آئے  تو ، اسے  خوشبو نہیں لگانی چاہئے۔ (صحیح مسلم: 893)

مذکورہ بالا تمام احادیث اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نےخواتین کو مساجد میں جانے کی اجازت دی ہے ۔ تاہم مساجد میں جانا ان کے لئے لازمی نہیں کیا گیا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صرف اتنا کہا کہ، اگر کوئی عورت مسجد میں نماز ادا کرنا چاہتی ہے،تو  رات میں بھی اسے ایسا کرنے سے نہیں روکا جانا چاہئے ۔ خواتین کو یہ کہا گیا تھا کہ جب وہ مسجد میں جا رہی ہوں تو ،خوشبو نہ لگائیں  ۔

ایسا  نہیں تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زندگی کے دوران، مقدس صحابہ اور عام مسلمانوں کے تحفظات نہیں تھے، لیکن انہیں اس معاملے میں  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے موقف کو قبول کرنا پڑا۔ اوپر بیان کی گئی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ مقدس صحابہ اپنی عورتوں کو مساجد میں بھیجنے کے خیال پر متفق  نہیں تھے ۔ ان کے تحفظات، آزادی کے ان سماجی اور اخلاقی اثرات پر مبنی تھے جو  عورتوں کو دی گئی تھی ۔ انہوں نے سوچا کہ رات کی نماز کے لئے اور صبح میں نماز فجر کے لئے خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت دینا، خطرات سے بھرا ہوا ہے، اور اخلاقی اور جنسی جرائم کے لئے راستہ پیدا کر  سکتا ہے۔ اس کے  برعکس، مذہبی عقائد کے معاملے میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطہ نظر ،انتہائی  نتیجہ خیز اور وسیع النظر تھا ۔ ان کا نظریہ، یہ تھا کہ، کسی عورت کو ،فرض نمازوں کی ادائیگی کے لئے ،مسجد میں جانے سے کوئی بھی شخص ، محض اس شک یا اندازہ کی بنا پر نہیں روک  سکتا، کہ مسجد  جانے کی آڑ  میں، وہ  غیر اخلاقی یا جنسی جرائم کا خوگر ہو سکتی ہے ۔ ایسا کرنے کا مطلب تمام عورتوں کو خراب اور غیر محفوظ سمجھنا  ہو گا۔ ایک دوسرا نقطہ ہے،کہ کچھ سماج دشمن عناصر کو ، رات یا صبح کے وقت میں، خواتین کو ہراساں کرنے کا موقع مل سکتا ہے، جس کی تردید اس بنیاد پر کی جا سکتی ہے کہ ، عورتوں کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، لہذا ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا کامی  کی وجہ سے، خواتین کو محروم نہیں ہونا چاہئے ۔

حضرت عائشہ نے ایک حدیث میں، اس طبقہ کے اندیشہ کو بیان کر دیا  تھا:

‘عمرہ ، عبدالرحمٰن  کی بیٹی نے روایت کی  کہ : میں نے سنا ہے عائشہ، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اہلیہ،  فرماتی ہیں  کہ: اگر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان  نئی باتوں کو دیکھا ہوتا، جو عورتوں نےکرنا شروع کر دیا ہے  (اپنی زندگی کے راستے میں) تو انہوں  نے  ضرور ان کو مسجد میں جانے سے روک دیا  ہو تا ، جیسا کہ  بنی اسرائیل  کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا ۔ (صحیح مسلم: 895)

تاہم، گزشتہ چند سالوں سے ، ہندوستان اور مغرب میں بعض خواتین تنظیمیں، مسجد میں، مردوں کے ساتھ، نماز ادا کرنے کے، اپنے حقوق کے لئے لڑ رہی ہیں ۔ تاہم، ان کی  لڑائی کا کوئی پھل ظاہر نہیں ہوا، اس لئے کہ  مردوں کے غلبہ والے معاشروں نے ، ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا، اور مساجد میں خواتین کی  شمولیت کے  انتظامات نہیں کئے گئے ۔ یہ ان کے ، ہندوستان  میں کھلی جگہوں پر، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی طرح چند اہم تہواری نمازوں کے  انعقاد  کا باعث بنا  ۔

لہذا ، یہ بات واضح ہو جاتی ہے، کہ اس حقیقت میں  کوئی اختلاف نہیں ہے،کہ خواتین کو مساجد میں نماز ادا کرنے، اور  خواتین کی امامت کرنے  کی بھی اجازت دی گئی ہے  ۔ بلکہ  بحث کا ایک موضوع یہ ہے کہ خواتین کو  مسلمانوں کی مخلوط جماعت  کی نمازوں  کی امامت کی اجازت دی جانی چاہئے یا  نہیں ۔

وہ لوگ جو عورتوں کے ذریعہ مردوں اور عورتوں کی نماز کی امامت  کے حق میں ہیں ، وہ ام ورقہ  کی مثال پیش کرتے ہیں ، جنہیں  مبینہ طور پر اپنے  دار (برادری، قبیلےاور خاندانوں کے مجمع ) کی امامت کرنے کی اجازت دی گئی تھی ، بلکہ حکم دیا گیا تھا ۔ یہاں دار سے  ایک مخلوط جماعت مراد لیتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ، ایک عورت اپنے  گھر میں نماز کی امامت کر سکتی ہے، جہاں اس کے خاندان کے مرد اور خواتین اراکین موجود ہوں ۔ لیکن جدید دور  مغرب میں مخلوط جماعت  کی خواتین کے ذریعہ امامت کی ایک روایت نہیں رہی ہے بلکہ  یہ نظیر خارجیوں کے دورمیں بھی پائی جا تی ہے   جو بد قسمتی سے  مسلم فرقوں میں سب سے زیادہ قدامت پسند ہیں ۔

غزالہ جو کہ ، خارجی فرقے کے حبیب ابن یزید الحروری کی  بیوی تھی اس نے کوفہ میں 699 عیسوی میں، مرد سپاہیوں کی ،ایک جماعت کی حیثیت سے،  نماز کی امامت کی تھی ،جس سے  خیال کیا جا تا ہے  کہ ایک عورت مردوں کی امامت کر سکتی ہے اگر اس کے پاس  اسلام کا مطلوبہ علم ہو ۔ قبل ازیں، ابو سفیان  کی بیٹی، جویریہ نے  جنگ یرموک    میں نماز کی امامت کی تھی۔

مغرب جو عورتوں سے متعلق معاملات میں آزاد خیال  ہے، اور عورتوں کے پاس  ایک جارحانہ ذہنیت ہے، جو کہ بچپن سے ہی ان میں پختہ ہو گیا ہے  ،اس  نے  عورتوں کی صرف مسلمان مردوں کے ذریعہ  قائم کئے گئے بنیاد کو توڑنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اسی لئے وہ نو مسلم خواتین جنہوں نے اسلام قبول کیا، اپنے ساتھ لبرل ذہنیت لائی ہیں ،  ان کے ساتھ اسلام کا بھی مطالعہ کیا  ،اور یہ پایا کہ انہوں نے جو  نیا دین اختیار کیا ہے ، اس نے انہیں بڑا کردار عطا کیا ہے ۔

سب سے پہلی امینہ ودود، ایک عیسائی جس نے اسلام قبول کیا ہے ، وہ  اسلامی اسکالر ہے ،جس نے  کلیرمونٹ   مین روڈ مسجد، کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ میں جمعہ کا خطبہ دیا تھا ۔ یہ ایک روایت  توڑنے والا اقدام تھا  جس نے  دوسرے خاتون  اسلامی اسکالر اورتانیثیت  کے مذہبی علم برداروں کو، اس  اصلاحی روایت کو آگے لے جانے کی حوصلہ افزائی کی۔ اور دوسرے مقررین جنہوں نے کیپ ٹاؤن اور جوہانسبرگ میں جمعہ کا  خطبہ ديا وہ،  عائشہ جینیفر رابرٹس، زکیہ سیگورو، فرحانہ اسماعیل، اور موئی فیدہ جعفر تھیں۔ اگلے دو سال کے اندر اندر، افریقہ میں مساجد میں خواتین کے ذریعہ نماز کی امامت کی یہ روایت عام ہو جائے گی، جہاں مرد اور عورتیں دونوں امام کے طور پر کام کریں گے ۔

یہ ذکر کیا جانا چاہئے کہ ، خواتین کے ذریعہ نماز کی امامت  کی روایت کی ترویج ، عیسائی نو مسلم  خواتین کے ذریعہ کی گئی ہے، اگرچہ پیدائشی  مسلم خواتین نے بھی اس سمت میں امامت کرنا  شروع کر دیا ہے۔ یہ  روایت کینیڈا میں جڑ پکڑ گئی ہے، جہاں خواتین مساجد میں نماز کی امامت کر رہی ہیں ۔ یونائٹیڈ مسلم ایسوسی ایشن اور مسلم کینیڈین کانگریس، خواتین کو مساجد میں مردوں اور عورتوں کے مجمع  کی نماز کی امامت  کرنے کا موقع دینے کی تحریک کے صف اول میں ہیں ۔ مریم مرزا، یاسمین شدیر، راحیل رضا اور پامیلا جے ٹیلر،ٹورنٹو کی  مساجد میں عید اور جمعہ کی  نماز کی امامت میں ممتاز ہیں ۔

مراکش میں ایک مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ  خواتین کو تربیت دے رہی ہے تا کہ  وہ مساجد میں اماموں کے طور پر کام کریں ۔ ترکی میں حکومت مساجد میں، واعظ  (مبلغین) کے طور پر خواتین کی تقرری کے کام میں مصروف ہے۔ حکومت، مکہ حج کے لئے جانے والی جماعت کی امامت کرنے جیسے ،مختلف مذہبی مقاصد کے لئے، اور مساجد کے اماموں کے کام کی نگرانی کے لئے، نائب مفتی  مقرر کرتی ہے ۔

2008 ء کے بعد سے امینہ ودود اور راحیل رضا نے، برطانیہ اور امریکہ میں بھی نماز جمعہ کی امامت کرنے کی روایت شروع کی ہے۔ اور بھی ،دیگر مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے  ممالک ہیں جہاں اسی طرح روایت پر عمل کیا جا رہا ہے ۔

تاہم، ایسا نہیں ہے کہ خواتین مبلغین اور آئمہ کی اس نئی روایت کو،  مزاحمت اور مخالفت کا سامنا  نہیں ہوا ہے۔ امینہ ودود  کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں اور مخلوط مجمع کو  برطانیہ میں قدامت پسند گروپوں کی جانب سے مساجد کے باہر، ہراساں کیا گیا ہے ۔ لیکن مغرب میں اور افریقی ممالک میں  مخلوط جماعت کی،  خواتین کے ذریعہ  امامت  کا یہ نظریہ مسلمانوں کے درمیان عام ہو گیا ہے ۔

جہاں تک اسلامی تاریخ میں اس کے نظیر کی بات ہے ، یہ ایک انتہائی اطمنان بخش  تصویر پیش نہیں کرتا۔ خارجیوں کے خیالات وسیع  سنت والجماعت کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ میدان جنگ میں، ابو سفیان  کی بیٹی اور حروریہ  کی بیوی کے ذریعہ نماز میں مردوں کی امامت  کی نظیر ،  آج  امن کے دور میں، اس  پر عمل  کرنے کے لئے مثال نہیں بن  سکتی ہے۔ انہیں جنگ کے وقت کی اشد ضرورت  سمجھا جا سکتا ہے۔ اور وہ کہ جس میں  حضور نبی (صلی اللہ  علیہ وسلم ) نے ام ورقہ کو  ان کے قبیلےیا فرقے کی  مخلوط جماعت کی امامت کا حکم دیا ،وہ ان کے قبیلہ کی صورت حال کے مطابق ایک مخصوص صورت حال  ہو سکتی ہے۔ ایسی کوئی عام حدیث نہیں ہے جس میں  مساجد میں مخلوط اجتماعات کی امامت  کرنے کے لئے تمام خواتین کو  اجازت ہو۔ اور وہ مبینہ حقیقت بھی ،کہ اسلام آزادانہ طور پر عوامی مقامات میں اجنبی مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو منظور نہیں کرتا، مساجد میں خواتین  اماموں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف جاتی ہے۔

URL for English article 

https://newageislam.com/islam-women-feminism/muslim-women-lead-men-prayers/d/10647

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/muslim-women-lead-men-prayers/d/11120

 

Loading..

Loading..