سید معروف شاہ شیرازی
(حصہ اول)
1 جولائی 2022
بدی کبھی اپنی اصلی شکل میں رونما ہونے کی جرأت نہیں
کرتی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی نیکی کا لبادہ اوڑھ کر ہی سامنے آتی ہے اور یوں خود
اپنی شکست کا خاموش اعتراف کرلیتی ہے۔ اس سے انسان کی حقیقی فطرت کا بھی پتہ چلتا
ہے جو خیر اور حسنِ خلق سے عبارت ہے۔ انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممیز کرنے والی
چیز اخلاق ہی ہے۔ اس کے سنوارنے سے انسان کا سنوار ہے اور اس کے بگاڑنے سے انسان
کا بگاڑ ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ تہذیب میں تمام معاشرے اور تمام تمدن جس چیز پر
متفق نظر آتے ہیں وہ حسنِ اخلاق ہے۔ سچائی، پاسِ عہد، رحم، فیاضی، صبر، تحمل ،
بردباری ، اولوالعزمی، شجاعت، ضبط نفس، خودداری ، میل ملاپ، شائستگی ، فرض شناسی ،
اتفاق اور دوسری اچھی صفات کو سب نے سراہا ہے اور اس کے برعکس تقریباً تمام
معاشروں نے جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بخل، بے
صبری، بزدلی، ذلت، ترش روئی، خیانت، چغلی، غیبت اور تمام دوسری برائیوں کو برا
سمجھا ہے۔ یہ اقدار انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں اور اسلام نے ان معروفات اور
منکرات کو اپنے نظام میں سمو لیا ہے۔ البتہ جس پہلو سے قرآن کا نظام اخلاق منفرد
ہے وہ یہ ہے کہ اس نے فلسفۂ اخلاق کے تمام بنیادی امور کے بارے میں ایک منظم اور
مربوط نظریہ پیش کیا ہے اور وہ اپنا ایک خاص ماخذِ علمِ اخلاق، قوت ِ ناقَدہ
(پرکھنے والی) اور قوتِ محرکہ رکھتا ہے
اور یہ سب مل کر اسکے فلسفۂ اخلاق کی مکمل تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب
سے پہلے یہ بنیادی باتیں قابلِ ذکر ہیں:
(الف) قرآن کی اخلاقی
تعلیمات کی پہلی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں
آزمائش اور امتحان کے لئے بھیجا ہے اور ایک دن انسان کو پوری زندگی کا حساب اللہ
تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنا ہوگا۔ اسلام نے اخلاقی امور کا کمال یہ قرار دیا ہے
کہ وہ یہ سمجھ کر ادا کئے جائیں کہ یہ خدا کے احکام ہیں اور انسانوں کو خدا کے
بتائے ہوئے معیارِ خیر و شر کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی میں اُن کی فلاح ہے۔
(ب) انسان خود اپنے مفاد
اور برے بھلے کے متعلق محض اپنی عقل کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ اکثر ایسا
ہوتا ہے کہ ایک چیز کو اچھی اور مفید سمجھتا ہے لیکن درحقیقت وہ مضر ہوتی ہے ، اور
بعض چیزوں کو وہ مضر سمجھتا ہے حالانکہ وہ اس کے لئے حددرجہ مفید ہوتی ہیں۔ قرآن
کے یہ الفاظ اسی مضمون کی ترجمانی کرتے ہیں:
’’(اﷲ کی راہ میں) قتال تم پر فرض کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں
طبعاً ناگوار ہے، اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے
لئے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً)
تمہارے لئے بری ہو، اور اﷲ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (بقرہ:۲۱۶)
آخر میں وجہ بھی بتادی
کہ اللہ ہی حقائق ِ اشیاء سے کماحقہ باخبر ہے اور تمہارے علم کا دائرہ محدود ہے۔
اگر ہر انسان یا انسانی گروہ اپنے لئے خود اخلاقی ضابطے وضع کرنے لگے تو انسانی
معاشرہ انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاق کا تعلق باہمی معاملات
و مسائل سے ہے۔ یا یوں کہئے کہ باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی کا دوسرا نام اخلاق
ہے۔ دنیا کی ساری خوشی، خوشحالی اور امن
وامان انہی اخلاق کی دولت سے ہے۔ ویسے تو دنیا کے ہرمذہب اور نظام نے اخلاق
پر زور دیا ہے لیکن قرآن نے اخلاق کی بلندی کا وہ معیار پیش کیا ہے جہاں انسان
اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور اس کی زندگی میں اسمائے حسنیٰ کا پرتو نظر آتا
ہے۔
قرآن نے اخلاقی تعلیمات
کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے:
(۱) اسلام میں چونکہ اخلاق
بھی دوسرے مذہبی امور کی طرح ایک عبادت ہے اس لئے اس کی غرض و غایت بھی ہر قسم کی
دنیاوی، نفسانی اور ذاتی اغراض سے پاک ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی
حیثیت کچھ نہیں ہے اور نہ ان اخلاقی امور
کا کوئی اخروی فائدہ ہوگا:
’’اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے
ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور ہم عنقریب
شکر گزاروں کو (خوب) صلہ دیں گے۔‘‘ (آل عمران:۱۴۵)
کوئی بھلائی کا کام اگر
بدنیتی، ریاکاری اور نمائش کے جذبے سے کیا جائے، وہ باطل ہوگا اور اس کا کوئی اجر
نہ ملے گا :
’’اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص
کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔‘‘ (بقرہ:۲۶۴)
(۲)اخلاق درحقیقت انسانوں کے
باہمی تعلقات میں خوش نیتی اور اچھائی برتنے کا نام ہے یا یوں کہئے کہ انسانوں کے
باہمی میل جول سے جو فرائض اور ذمہ داریاں ایک دوسرے پر عائد ہوتی ہیں ان کا بحسن
و خوبی ادا کرنا اخلاق کہلاتا ہے۔ اس لئے اخلاق کے وجود کے لئے انسانوں کا باہمی
میل جول اور وابستگی ضروری ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت سے منع
فرمایا ہے ۔ قرآن کریم یہ کہتا ہے:
’’اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض
نہیں کیا تھا۔‘‘ (الحدید:۲۷)
(۳) اسلام میں جماعت کے افراد
پر ، ان کی قوت کے مطابق ، جماعت کے دوسرے افراد کی نگرانی فرض ہے ۔ اسی اخلاقی
اور شرعی فرض کا نام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ قرآن کریم کی وضاحت کے
پیش نظر امت مسلمہ کی فضیلت ہی اس بات پر ہے کہ یہ امت امربالمعروف اور نہی عن
المنکر کا فریضہ سرانجام دیتی ہے:
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی
ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔‘‘
(آل عمران: ۱۱۰)
لہٰذا ہر مسلمان کا فرض
ہے کہ وہ جہاں بھی برائی کو دیکھے اسے مٹانے کی کوشش کرے اور ہر حالت میں حق بات
کہے :
’’اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ
حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
(العصر:۳)
(۴) عدل و انصاف کو ہمیشہ
مدنظر رکھنا چاہئے، کسی فرد یا قوم کی دشمنی کی وجہ سے راہِ اعتدال سے ہٹنا یا سچی
شہادت دینے سے گریز کرنا ناجائز ہے ، خواہ اس کی خاطر رشتہ داروں ، دوستوں اور
انتہا یہ کہ اپنی ذات کے خلاف ہی گواہ کیوں نہ بننا پڑے اور اسی طرح اگر دو
آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا معاملہ پیش آئے تو بے لاگ فیصلہ کرنا چاہئے:
’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا
کرو۔‘‘ (النساء:۵۸)
’’کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ
تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ ‘‘ (مائدہ:۸)
’’اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض)
اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے)
والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو۔‘‘ (النساء:۱۳۵)
اس سے بھی آگے بڑھ کر
قرآن نے عدل کے ساتھ احسان کو بھی
مسلمانوں کی ایک اخلاقی خصوصیت بتایا ہے۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی کمی کو پورا کردینا ، تاکہ معاشرے
اور زندگی میں حسن قائم رہے۔ فرمایا گیا :
’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے ۔‘‘
(النحل:۹۰)
(۵) قرآن کے نزدیک وہ تمام
صفات مذموم ہیں جو معاشرے کی اخلاقی فضا کو مکدر کریں اور مسلمانوں کے اتحاد و ضبط
کو نقصان پہنچائیں اور جن سے اس بات کا خطرہ ہو کہ پوری سوسائٹی ناقابل اعتماد قرار پائے۔ مثلاً جھوٹ، انتشار و
افتراق، افتراپردازی، بدگمانی، چغلی، غیبت، نفاق اور تحقیر وغیرہ ، یہ، وہ محرکات ہیں جن سے کسی سوسائٹی کی فضا
مکدر ہوسکتی ہے۔ ان سب سے بچنے کے لئے اس طرح ہدایات دی گئیں:
’’اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو۔‘‘ (الحج:۳۰)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ۔‘‘ (آل
عمران:۱۰۳)
’’اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘ (التوبہ:۱۱۹)
’’زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو ۔‘‘
’’ ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔‘‘
’’اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو ۔‘‘(الحجرات:۱۲)
’’آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی نہ کیا کرو ۔‘‘ l’’کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ۔‘‘ l’’اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو۔‘‘ (الحجرات:۱۱) (جاری)
1 جولائی 2022 ، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism