معین قاضی ، نیو ایج اسلام
31 مئی 2018
تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔
(قرآن 3:92)
یہ نظریہ ہزاروں سالوں سے موجود رہا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا ایک بامعنی زندگی کا حصہ ہے ، مسلمانوں کے لئے صدقہ و خیرات ان کے معتقدات و معمولات کا بنیادی پہلو ہے۔ مذہب اسلام میں دینے کا کلچر ایک عبادت کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ غریبوں کی مدد ایک مذہبی حکم ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت کہ ہر چیز خدا کی طرف سے ہے اور آخر میں سب کو خدا کی ہی طرف لوٹ جانا ہے - مسلمانوں کو خدا کی نعمتوں کا امین بن کر زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس نظام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں کی خدمت کی جائے جو ہم سے کم مراعات رکھتے ہیں۔ زکوٰۃ و صدقات کے ذریعہ لوگوں کی معاشرتی حیثیت سے قطع نظر تمام لوگوں کے درمیان دولت اور زمینی وسائل کی یکساں تقسیم صرف عمل تقوی ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ایک اہم ذمہ داری بھی تصور کیا جاتا ہے۔ رمضان انسان دوستی ، ہمدردی اور خدمت خلق کی بہاریں لیکر آتا ہے۔ اس ماہ مقدس میں غریبوں کی حاجت روائی کرنے کا اسلامی فریضہ پابندی اور سختی کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ مثلا،جو لوگ روزانہ روزہ نہیں رکھ سکتے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک غریب کو کھانا کھلائیں۔
یہ نظریہ ہزاروں سالوں سے موجود رہا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا ایک بامعنی زندگی کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کو خدا کی نعمتوں کا امین بن کر زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ روزہ اور نماز کے علاوہ زکوٰۃ اور صدقات و خیرات تقویٰ کا ایک اعلیٰ ترین عمل ہے۔ قرآن دولت حاصل کرنے کا روحانی فریم ورک اور اسے خرچ کرنے کے لئے عملی ہدایات دونوں فراہم کرتا ہے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر اس بات پر ہمارا یقین ہے کہ ہر چیز بالآخر خدا کی ہی طرف سے ہے تو ہر چیز خدا کے ہی منصوبہ کے مطابق خرچ کرنا ہم پر زیب دیتا ہے۔ اپنے ساتھ کفایت شعاری سے اور دوسروں کے ساتھ سخاوت سے کام لینا صدقات و عطیات کے قرآنی پیغام کی بنیاد ہے۔
مسلمان جو زکوٰۃ کی صورت میں ادا کرتے ہیں وہ ان کے اوپر فرض ہے، اور جو صدقات و عطیات کی صورت میں عطا کرتے ہیں وہ فرض کے علاوہ نفلی عمل ہے۔ زکوٰۃ معاشرے کے سرمایہ دار اور غریب طبقے کے درمیان ایک معاشرتی معاہدہ ہے جس میں معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسے ایک اخلاقی دار ذمہ داری کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ زکوۃ کا مطلب صفائی ہے اور اس کا ماخذ عربی زکاء ہے جس کا مطلب ‘‘پھلنا پھولنا’’ ، "خالص ہونا" ، اور ‘‘تندرست و تواناں ہونا’’ ہے۔ مسلمان اپنے مال کا ایک خاص حصہ رکوٰۃ کی شکل میں ادا کر کے اپنے مال کو ‘‘پاک صاف’’ کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے:
" اے محبوب! ان کے مال میں سے زکوٰة تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔" (9:103)۔
مذہب اسلام کے پانچ بنیادی اہداف یعنی مقاصد شریعت میں ایمان ، نسل، زندگی، دولت اور عقل و خرد کی حفاظت شامل ہے۔ قرآن کے قوانین کے مطابق جن مسلمانوں پر زکوة واجب ہے انہیں غریب و نادار یعنی زکوٰۃ کے مستحقین کی بہتری اور فلاح و بہبودی کے لئے اپنی مال سے کم از کم 2.5 فیصد زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ یہ 2.5 فیصد کی شرح صرف نقد، سونے چاندی، اور تجارتی اشیاء پر لاگو ہوتی ہے۔ فصلوں اور کانوں اور مویشیوں پر زکوٰۃ کی شرح دیگر ہے۔
خدا کے لئے دولت خرچ کرنے سے مال و دولت کی محبت سے دل صاف ہوتا ہے اور سخاوت و فیاضی کا جذبہ مضبوط ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر جو شخص اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں خدا کی محبت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے اور وہ خدا کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔
قرآن کا فرمان ہے:
"اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو اور اپنی جانوں کے لئے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے" (2:110) زکات غریبوں کا ہمارے اوپر ایک ہے ، "اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے، اس کے لیے جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم رہے" (25-70:24)۔
زکات پانچ اقسام کی چیزوں پر واجب ہے۔ اناج؛ پھل، اونٹ ، مویشی، بھیڑ، اور بکری؛ سونے اور چاندی؛ اور متحرک مال - اور ہر سال ایک سال کے قبضے کے بعد اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مستحقین کا ذکر اس انداز میں ہے:
‘‘زکوٰة تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا، اور اللہ علم و حکمت والا ہے’’۔ (9:60)۔
زکوٰۃ کا اسلامی تصور فلاح و بہبود، ایثار اور انصاف سے عبارت ہے ، جسے انسانی معاشرے کو درپیش ناقابل تسخیر چیلنجوں کو حل کرنے کے لئے انسان کی صلاحیت کے استعمال کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ، دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے صدقات و خیرات اور ایثار و قربانی ایک بنیادی ضرورت ہے، جبکہ اسلام نے اس میں انصاف کا تصور بھی شامل کیا ہے ، جو ایک انصاف پرست سماج کی تعمیر کا ذریعہ بھی ہے۔ قرآن کے مطابق،
"ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے"۔ (2:261)۔
قرآن کا مطالعہ کرنے پر ایمان کی دلیل کے طور پر زکوٰۃ کی اہمیت نماز کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کے اندر دونوں کا ایک ساتھ ذکر کثرت کے ساتھ وارد ہوا ہے۔
قرآن دولت مندوں کے طبعی میلان کے خلاف انتباہ کرتا ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ روحانی طور پر ناقص لوگ غیر محتاط طریقے سے عطیات و صدقات ادا کر کے اپنی اخلاقی ساکھ کو خطرے میں ڈال کر غربت و افلاس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ قرآن کی کچھ آیتیں (بشمول 17:29 اور 25:67 کے) فضول خرچی اور کفایت شعاری کے درمیان توازن قائم کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ یہ اس انسانی فطرت کی شناخت ہے جس میں محبت اور درد مندی کا احساس دوگنا اور مال کی محبت جبلی طور پر ہوتی ہے۔ اس طرح اسلام کی قانونی تعلیمات میانہ روی اور احتیاط پر مشتمل ہے ، جبکہ اسلام کی روحانی تعلیمات بے غرضی ، ایثار اور سخاوت کا مطالبہ کرتی ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے صدقہ صرف رقم یا مادی ساز و سامان تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس میں علم بانٹنا ، عاجزی و انکساری کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت ، ہر قسم کی تکلیف اور دکھ میں امید باندھنے کا جذبہ ، معاف کرنے کی صلاحیت ، دوسروں کو عزت اور وقار دینا بھی شامل ہے ، اس سوجھ بوجھ کے ساتھ کہ صرف شفقت اور محبت ہی ہمیں مشترکہ انسانیت سے جوڑے رکھتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک معروف حدیث سے انسان کے جسم کے ہر اعضاء سے صدقہ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے:
"ہر روز کہ جب سورج نکلے انسانی جسم کے ہر عضو کے لئے ایک صدقہ ہے: دو لوگوں کے درمیان انصاف کرنا ایک صدقہ ہے۔ کسی شخص کا بوجھ اٹھانا ، اسے اس کی سواری پر بیٹھانا یا اس کا بوجھ اس پر رکھنا ایک صدقہ ہے؛ میٹھے بول بولنا صدقہ ہے اور سڑک سے کوئی نقصان دہ چیز دور کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔ "(بخاری ، مسلم)
خدا اور انسانوں پر ہمارا یقین لوگوں کے ساتھ ہماری شفقت و مہربانی ، اخوت و بھائی چارگی ، اور روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ربط و بے تکلفی سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے موقع تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا موقع ہمارے سامنے ہر قوت موجود ہے ، بس ہمیں اس کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ اگر بحیثیت ماں ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری ہے تو ہمیں ایک عظیم ماں بننا چاہئے۔ اگر ہم سرکاری ملازمین ہیں تو ہمیں لوگوں کی خدمت پوری مستعدی ، ایمانداری ، اور خوش اخلاقی کے ساتھ کرنی چاہئے۔
لوگوں کو عطا کرنے کا حقیقی لطف اس بات میں مضمر ہے کہ آپ کس انداز میں لوگوں کو نوازتے ہیں۔ صدقہ و زکوٰۃ اس جذبہ کے ساتھ نہیں ادا کیا جانا چاہئے کہ اس کے بدلے میں آپ کو کچھ حاصل ہو ، بلکہ اس میں بے لوث جذبہ اور خلوص ہونا چاہئے۔ اس پر بدلے کی امید کے ساتھ کسی کو عطا کرنے سے نہ صرف یہ کہ اپنی خوشیاں ختم ہو جاتی ہیں بلکہ یہ وصول کرنے والے پر بھی بوجھ بن جاتا ہے۔ اپنے بیجوں کو بو دینے کے بعد آپ کو بالکل ہی کسی بھی چیز کی امید نہیں کرنی چاہئے۔ اس ضمن میں اس مقدس پیغام کو ذہن میں رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ "آپ اگر داہنے ہاتھ سے کسی کو کچھ دیں تو اس کی خبر آپ کے بائیں ہاتھ کو نہ ہو ۔" حقیقت میں دینا اور لینا ایک ہی ہے۔ کسی بھی مفاد سے اوپر اٹھ کر اگر آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں –خواہ وہ کوئی مادی تحفہ ہو ، خواہ وہ کسی کی حوصلہ افزائی ہو یا آپ کا وقت ہو ، آپ کو بھی اتنی ہی توانائی محسوس ہوگی جتنی اسے محسوس ہوگی جسے آپ نے کچھ دیا ہے۔ قرآن کا فرمان ہے:
‘‘ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لیے کھانا دیتےہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے’’۔
(ق 75:9)
خليل جبران کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے پورے دل ، پوری خوشی اور پوری محبت کے ساتھ دینا چاہئے ، یاد رکھیں کہ آدھی بیج سے کبھی کوئی پودھا نہیں اگ سکتا۔ وہ دی پروفیٹ (The Prophet) میں لکھتے ہیں: "جب تم کسی کو کچھ دیتے ہو تو اپنے مال میں سے تھوڑا ہی دیتے ہو۔ دینا تو در حقیقت تب ہے جب آپ اپنا سب کچھ دیدو"۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ:"جب تک زندگی میں دینے کا موقع ہے دیتے رہو تاکہ جب تمہاری موت ہو تو تمہارا خزانہ خالی نہ رہے۔"
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/muslim-zakat-reigniting-fire-camaraderie/d/115406
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism