محمد علمی موسیٰ
8 نومبر 2013
پتراجایا میں ملیشیائی کورٹ آف اپیل نے 14 اکتوبر کو یہ فیصلہ دیا ہے کہ لفظ ‘‘اللہ ’’ کو ہفتہ وار کیتھولک دی ہیرالڈ میں نہیں استعمال کیا جا سکتا ۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ لفظ ‘‘اللہ ’’ عیسائیت کا ایک لازمی جز نہیں ہے ۔
یہ مسئلہ2009 میں اس وقت شروع ہوا جب ملیشیائی وزیر داخلہ سید حامد البر نے دی ہیرالڈ کو لفظ ‘‘اللہ ’’ کے استعمال سے روکنے کا حکم صادر کیا ۔ نتیجتاً، کوالالمپورکے ہائی کورٹ نے ایک عدالتی جائزہ کے لئے کیتھولک صَدَر اُسقُف کی درخواست کو قبول کر لیا اور اس پر سے حکومت کی پابندی کو منسوخ کر دیا ۔
کورٹ آف اپیل کی یہ تازہ ترین سماعت حکومت کی اس اپیل کی سنوائی کے لئے منعقد کی گئی تھی جسے برقرا رکھا گیا تھا ۔ کیتھولک صَدَر اُسقُف نے اس معاملے کو آفاقی کورٹ آف اپیل تک لے جانا چاہا ۔ آخری فیصلہ ہو سکتا ہے کہ دور رس اثرات کا حامل ہو اس لئے کہ مشرقی ملیشیا میں عیسائی صدیوں سے روایتی طور پر الفظ اللہ کا استعمال کر رہے ہیں ، تاہم اس بات کی یقین دہانہ کرائی گئی ہے کہ یہ فیصلہ صرف دی ہیرالڈ کے مسئلہ میں ہی نافذ کیا جائے گا۔
خدا اپنی کتاب میں عیسائی نہیں ہے ، ڈیسمنڈ توتو نے عیسائیوں کو بتایا کہ ‘‘ خدا صرف عیسائیوں کے لئے خاص نہیں ہے اور وہ تمام انسانوں کا خدا ہے ، جس پر اس نے اپنی ماہیت کو ظاہر فرمایااور تمام انسانوں کے لئے جس کا سامنا کرنا اور اس کے ساتھ ربط پیدا کرنا ممکن ہے ’’۔
ایک بروقت نصیحت یہ ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کو قبول کریں ۔ مزیدبرآں یہ کہ گاڈ یا اللہ ان لوگوں سے نفرت کرتا ہے جو ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں حقیر گردانتے ہیں ۔
لفظ اللہ کے استعمال سے ساتویں صدی میں اسلام کی آمد کا پتہ چلتا ہے ۔ اسلام کی آمد سے بہت پہلے عربی بولنے والے عیسائی خدا کے لئے لفظ اللہ کا ہی استعمال کیا کرتے تھے ۔ ایک مذہب کے طور پر اسلام کی یہ ایک انفرادی خصوصیت ہے کہ وہ اسلام سے پہلے کی تہذیب و ثقافت اور روایتوں کو اپناتا ہے بشرطیکہ ان کا تصادم اسلامی تعلیمات سے نہ ہو ۔ مثال کے طورپر قرآن میں لفظ اللہ کا پایا جانا اس کی ایک مثال ہے ۔
قرآن کے مشمولات کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے قرآن میں ایسے الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے جو اس وقت عرب معاشرے میں رائج تھے اور لوگوں کے لئے قریب الفہم تھے ۔ اس کی ایک اور مثال قرآن میں جانوروں کا حوالہ ہے ۔ قرآن میں ان جانوروں کا ذکر ہے جنہیں عرب اچھی طرح جانتے تھے ، جیسا کہ قرآن میں اونٹ اور چینٹیوں کا ذکر ہے لیکن اس میں شیر کا ذکر نہیں ہے اس لئے کہ عرب میں شیر نہیں پائے جاتے ۔
اس کے علاوہ یہ کہ قبل از اسلام عربی معاشرے میں لفظ ‘‘اللہ ’’ بڑے پیمانے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اور اس وقت یہ بات بالکل ہی عام تھی اس لئے کہ لوگوں کے ناموں سے لفظ اللہ جڑا ہوتا تھا ۔ مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام عبداللہ تھا جس کا مطلب ہے اللہ کا بندہ۔
لیکن اس بات کا سب سے واضح اشارہ کہ اللہ مسلمانوں کے علاوہ کا بھی خدا ہے یہ ہے کہ سورۃ عنکبوت کی آیت 46 میں اللہ مسلمانوں کو یہودیوں اور عیسائیوں سے یہ کہنے حکم دیتا ہے کہ ‘‘ ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہے اور ہم اسی کو سجدہ کرتے ہیں (اسلام میں)’’۔
مشہور و معرووف اسکالر اصغر علی مرحوم نے اپنی کتاب ‘‘On Developing Theology of Peace in Islam’’ میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ، چونکہ قرآن کا فرمان ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو تمام اقوام عالم کے لئے بھیجا ہے لہٰذا بہت سارے اسلامی مفکرین ، فقہا اور اولیاء و اصفیاء یہ مانتے ہیں کہ غیر اہل کتاب معاشروں میں اللہ کے پیغمبر ہیں ۔
سکھ مت میں بھی لفظ اللہ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ملیشین گرودوارا کونسل کے صدر جاگیر سنگھ نے کہا کہ گرو گرنتھ صاحب میں (جو کہ ان کی مقدس کتاب ہے ) متعدد مقامات پر لفظ ‘‘اللہ ’’ پایا جاتا ہے۔
ان تنازعات کا حل عدالتوں کے ذریعے نہیں
لہٰذا ڈیسمنڈ توتو کی زبردست باتوں سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اللہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی خاص نہیں ہے ۔ وہ تمام انسانوں کا رب ہے ۔قانونی عدالتوں کے ذریعہ اس قسم کے حساس مذہبی مسئلہ کو حل کرنے سےمعاشرے میں اختلاف و انتشار پیدا ہو سکتا ہے ۔ دوٹوک فیصلہ دینا عدالت کی فطرت ہے ۔ اور ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود رہے گا جو عدالت کے فیصلہ سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر رہے گا ۔
اس قسم کے مذہبی اختلافات کا حل عدالت سے باہر ہی تلاش کرنا چاہئے ۔ اس مسئلے کا حل عوامی دائرہ کار سے اوپر اٹھ کر ان مذہبی لیڈران کے ذریعہ تلاش کیا جانا چاہئے جو ایک دوسرے کے مقتضیات کو محسوس کر سکیں،جن کے پاس یہ تسلیم کرنے کی حکمت ہو کہ ہو سکتا ہے کہ عدم اتفاق کے بہت سے مواقع اصول کا مسئلہ نہ ہوں بلکہ کوئی جزوی مذہبی مسئلہ ہو ۔
جب 2009 میں لفظ اللہ کے استعمال پر اختلافات سامنے آئے ،تو سنگاپور کے لیڈران سنگاپور اسلامی ہب میں مل جل کر اس مسئلہ پر گفتگو کرنے کے لئے یکجا ہوئے ۔ اس مجلس میں کیتھولک چرچ کے آرچ بشپ، انگلیکن ڈیوکسے کے آرچ بشپ اور نیشنل کونسل آف چرچس کے صدر، سنگاپور کے مفتی اور ایم یو آئی ایس کے صدر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سنگاپور میں لفظ اللہ کے استعمال پر کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ انہوں نے اس مسئلے کو بھائی چارے کے ساتھ حل کر لیا اور اسے سنگاپور میں پھیلنے سے روک لیا ۔
ایک مذہبی ہن آہنگی کی تعمیر
ممکنہ مذہبی اختلافات دفع کرنے اور تنازعات کو حل کرنے کے لئے سنگاپور کی یہی روایت رہی ہے ۔سنگاپور میں مذہبی لیڈران کو بڑا عتماد حاصل ہے اور وہ ایک دوسرے سے مذہب کے ایک خادم کی طرح عاجزی و انکساری کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اور معاشرے میں ہم آہنگی کو بر قرار رکھتے ہیں ۔آخر کار مذہب کا مقصد معاشرے کو پرامن اور ہم آہنگ بنانا ہے اور مذہبی لیڈران کو بھی اس طرح پیش آنا چاہئے۔
سنگاپور میں جب بھی کبھی وہاں کے مذہبی قائدین کو متنازع فیہ حالات درپیش ہوئے ہیں ان کے بین المذاہب تعلقات کی یہی علامت رہی ہے۔ مذہبی قائدین نے وہاں کی متاثرہ جماعت کے ساتھ باہم مشورہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔وہ اپنے اصول و نظریات سے سمجھوتہ کئے بغیر ہی مسائل کو سلجھا لیتے ہیں ۔ عدالت کی دخل اندازی کئے بغیر مسائل کو حل کرنے کا یہ طریقہ زیادہ متاثر کن ہے۔
معاشرے میں تقسیم و تفریق کو روکنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے ۔ عوامی سطح پر خیر سگالی کمیٹیوں، بین المذاہب پلیٹ فارم، تنازعات کے حل کے طریقہ کار اور قانون سازی پر مشتمل سنگاپور کی ‘‘مذہبی ہم آہنگی کا ڈھانچہ ’’ مذہبی تنازعات کو حل کرنے میں ایک فاتح اور ایک شکست خوردہ کے نتیجے سے گلو خلاصی حاصل کر سکتا ہے ۔
محمد علمی موسیٰ ننینگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں اسٹڈیز ان انٹررلیجیس ریلیشنز ان پلورل سوسائٹیز کے سربراہ ہیں ۔
ماخذ : http://www.upi.com/Top_News/Analysis/Outside-View/2013/11/08/Allah-For-Muslims-only/UPI-82631383887040/?spt=op_l&or=1
URL for English article: https://newageislam.com/islam-pluralism/allah-muslims-only/d/24369
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/allah-muslims-only-/d/24441