محمد اظہر علی خان
12 دسمبر 2014
دو خطرناک افراد کے ہاتھوں کارپورل ناتھن اور وارنٹ آفیسر پیٹرس ونسنٹ کی المناک ہلاکت کے بعد کینیڈا کے باشندوں کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ کینیڈا میں دہشت گردی ایک خطرہ ہے اور انہیں ہم آہنگی اور باہمی احترام کے اقدار کو فروغ دینے کے لیے ایک ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہئے۔ لیکن بعض افراد اس کے برعکس کر رہے ہیں۔
---------
ٹورنٹو کے ایک سرگرم کارکن طارق فتح اور یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو کے ایک فاضل سلیم منصور نے قومی دفاعی اور سلامتی سینیٹ کمیٹی کے سامنے جو بیانات دیے ہیں وہ غلط اور تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں۔
25 نومبر کو ٹورنٹو سنڈے میں ان کے مضمون کے مطابق طارق فتح نے بیان دیا ہے کہ پورے کینیڈا کی مساجد میں جمعہ کی نماز کا آغاز عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے اوپر مسلمانوں کی فتح کی دعا کے ساتھ ہوتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ: "لہٰذا، بنیاد پرستی سے لڑنے کے لئے ان مذہبی علماء پر انحصار کرنا چکن کی حفاظت کے لئے لومڑی کو لگانے کے مترادف ہے"۔
شاہ فیصل مسجد اسلام آباد، پاکستان
----------
یہ بیان انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس لیے کہ نماز جمعہ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ خدا عظیم ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اس میں نمازیوں کو نماز کی دعوت دی جاتی ہے۔ فتح یا جنگ کی کوئی دعوت نہیں دی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ "بنیاد پرستی کے خاتمے" کے لیے سیکورٹی اداروں کی کوششیں نا کام رہیں گی کیوں کہ کے آر سی ایم پی (رائل کینیڈین ماؤنٹیڈ پولیس)کے شرکاء "نہ صرف یہ کہ اس پریشانی کا ایک حصہ ہیں بلکہ متعدد جہتوں سے وہ بنیاد پرستی کا سب بھی بن رہے ہیں۔"
---------
یہ ان رہنماؤں کے خلاف ایک سنگین الزام ہے جو دہشت گردی کو روکنے کے لئے آر سی ایم پی کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک مسلم رہنما کی اطلاع پر آر سی ایم پی نے ایک دہشت گرد سیل کا پردہ فاش کیا تھا۔
طارق فتح نے صرف ایک ہی ثبوت فراہم کیا کہ آر سی ایم پی سے تعلق رکھنے والے ایک کینیڈین عالم نے فیس بک پر یہ لکھا کہ وہ ایک معاہدے پر قطر میں طالبان کے سفارت خانے کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور طالبان "غیر مسلم ممالک میں تشدد، مجرمانہ کارروائیوں یا دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔"
---------
اگر کوئی کینیڈین عالم دین غیر مسلم ممالک میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے طالبان کو قائل کرتا ہے تو ضرور یہ کینیڈا سمیت مغربی ممالک میں تشدد کے خاتمے کی جانب ایک قدم ہے۔ کسی بھی صورت میں طالبان کے ساتھ کوئی عالم دین پرامن رابطہ رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ علماء بنیاد پرستی کو فروغ دے رہے ہیں اس لیے کہ امریکی حکومت بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے۔
طارق فتح نے مطالبہ کیا ہے کہ جو بھی مسلمان دیگر مذاہب کی توہین کرتا ہے اس کے خلاف نفرت انگیز تقریر کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔ میں نے شمال کے علاوہ ہر صوبے میں نماز جمعہ میں شرکت کی ہے میں نے کسی بھی عالم کو دوسرے مذاہب کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے نہیں سنا۔ اس کے برعکس ائمہ عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کے فضائل پر زور دیتے ہیں۔
مسجد مضائق مالاكا، ملاکا ملیشیا
----------
طارق فتح نے سفارش کی ہے کہ پاکستان، صومالیہ، ایران، عراق اور شام سے امیگریشن اس وقت تک کے لیے معطل کر دیا جائے جب تک کہ سیکورٹی، تشخیص اور یونیورسٹی کے دستاویزات بلیک مارکیٹ پر یا ریاستی ایجنسیوں سے خریدنے کا راستہ بند نہ ہو جائے ۔
جھوٹے دستاویزات کا بازار چین، بھارت، فلپائن، میکسیکو اور دیگر ممالک میں بھی پھل پھول رہا ہے۔ اگر کینیڈا کرپشن والے ممالک سے امیگریشن پر پابندی لگا دے تو کینیڈا کی معیشت متاثر ہو گی اس لیے کہ کینیڈا کو کارکنوں، سرمایہ کاروں اور صارفین کے طور پر تارکین وطن کی ضرورت ہے۔
بندر سری بگاوان، برونائی
-----------
سلیم منصور نے 9 دسمبر کو آٹوا سٹیزن میں یہ بیان دیا تھا کہ کینیڈا کی اکثر مسجدیں "اسلام پسندی کے مراکز" ہیں۔ انہوں نے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا اور نہ ہی ان مساجد کا نام بتایا جہاں اسلام پسندی کو فروغ دیا جاتا ہے جس کا موازنہ انہوں نے جہادیت سے کیا ہے۔
سلیم منصور نے نہ صرف آئمہ کو ہی بلکہ مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی کی تعلیم دینے اور جہادی اصولوں کو تسلیم کرنے میں مدد کرنے کے لئے وفاقی کثیر ثقافتی پالیسی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ اور اس بار بھی انہوں نے اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ کس ثقافتی تکثرتیت مسلمانوں کو انتہاپسند بنا رہی ہے۔ ثقافتی پالیسی بالکل واضح ہے کہ کینیڈا دو سرکاری زبانوں والا ایک ملک ہے لیکن کینیڈا کےباشندوں کا تعلق متنوع ثقافتوں سے ہے جن میں دوسرے کینیڈین ساتھی بھی شامل ہیں۔
----------
انہوں نے کہا کہ جب لوگ سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں تو "کینیڈا میں آباد ہونے کے باوجود اپنے آبائی علاقوں اور ثقافتوں سے منسلک رہتے ہیں۔" اگر چہ کینیڈا کی کوئی کثیر ثقافتی پالیسی نہیں ہے، یقینا مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے کینیڈین یہاں رہتے ہوئے اور یہاں کی خدمت کرتے ہوئے اپنے ممالک کے ساتھ منسلک رہیں گے۔ یہ خاص طور پر کینیڈا میں پہلے چند سالوں کے دوران تارکین وطن کے حق میں سچ ہو سکتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اسکولوں، پیشہ، پڑوسیوں اور دیگر رابطوں کے ذریعے کینیڈین طرز زندگی اور کلچر میں جذب ہو جاتے ہیں۔
بادشاہی مسجد یا رائل مسجد لاہور، پاکستان
----------
انہوں نے کہا کہ "سب سے اشتعال انگیز معاملہ یہ ہے کہ ائمہ منبروں سے جمعہ کی نماز کے دوران جمعہ کے دن مسلم ممالک کے سیاسی حالات پر گفتگو کرتے ہیں اور مسلمانوں کو امریکی خارجہ پالیسی، یہودیوں اور صیہونیت اور ہندوستان میں ہندوؤں کے ظلم و ستم سے متاثرین کے طور پر پیش کرتے ہیں"۔
مجھے معلوم نہیں کہ کن مساجد میں ائمہ ان معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ائمہ مسلم ممالک کے حالات پر گفتگو نہیں کرتے اس لیے کہ مساجد میں سیاسی تقریریں ممنوع ہیں، آئمہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نہیں ہوتے اور اجتماعات میں انڈونیشیا سے لیکر امریکہ کے مختلف لوگ شامل ہوتے ہیں۔
--------
انٹرنیٹ پر یہ معاملہ زیادہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
سلیم منصور نے کہا کہ لوگ جہاں سے بنیاد پرستی کی تعلیم حاصل کر رہےہیں ان میں سے ایک جگہ مسجد بھی ہے۔"
اگر سلیم منصورکبھی کسی مسجد میں جائیں تو انہیں یہ معلوم ہوگا کہ نوجوان لوگ جمعہ اور دوسری نمازوں کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے نسبتاً کم ہی مسجد جاتے ہیں۔ نمازی طلباء جو کہ بہت کم ہیں یونیورسٹیوں میں ہی مسلم طالب علموں کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔
اموی مسجد دمشق، شام
----------
مساجد اور اماموں کے بارے میں میں اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر طارق فتح اور منصور بنیاد پرستی کی وجہ انٹرنیٹ کے بجائے مساجد کو بتاتے ہیں تو وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔ وہ اپنے خیالات اور نظریات کے ذمہ دار خود ہیں اور انہیں اظہار رائے کا پورا حق ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر حکام، مسلمان اور کینیڈا کے دیگر باشندے چند افراد میں بنیاد پرستی کی وجوہات کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں اور اس بات کا تعین کریں کہ کینیڈا کے تمام باشندوں کو ایک محفوظ اور ہم آہنگ زندگی فراہم کرنے کے لیے کس طرح اس خطرے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، تو یہ زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
جامع مسجد دہلی، ہندوستان
---------
ماخذ:
http://www.huffingtonpost.ca/mohammed-azhar-ali-khan/countering-radicalization_b_6305630.html
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/don-t-blame-mosques-muslim/d/100754
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/don-t-blame-mosques-muslim/d/100784