محمد شعیب القاسمی
13اپریل ، 2017
آج انسان سائنس او رٹیکنالوجی کے ایسے عہد زریں سے گذر رہا ہے جس میں مختلف قسم کے انکشافات روبہ عمل آرہے ہیں ، آرٹس، اور سائنس کے مختلف شعبہ وجود میں آرہے ہیں ، بود وباش کے طریقے بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں ، فلک بوس محلات و قصور ، دلکش و دلفریب عمارتیں دعوت نظارہ دے رہی ہیں ، صنعت و تجارت کے دیدہ زیب اور خیر کن مراکز روزبروز ایک نئے وجود کے ساتھ ہیں ، یہ انسان بحروبر کے ہر گوشے میں اپنی فتح و تسخیر کی کمنڈیں ڈالے ہوئے ہے ، لیکن یہ سب مشاہدات او رمناظر ایک رخ پیش کرتے ہیں ، اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آج انسانی زندگی انتشار و بدنظمی اور تباہی و بربادی سے دوچار ہے ، ظلم و عدوان شباب پر ہے، فرد فرد جماعت میں آویزیش و تصادم کا سلسلہ جاری ہے، قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر منصوبہ بند طریقے سے انسانی دشمن طاقتیں انسانیت کو تہ تیغ کرنے کے درپہ ہیں روز بروز ان کوششوں میں اضافہ ہوتا ہے، یہ انسانیت دشمن طاقتیں اپنی طاقت وقوت کی بناء پر دنیا بھر میں ہزاروں او رلاکھوں افراد کو لقمۂ تر بنا لیتی ہیں، معصوم انسانوں کو ایسے کاٹا جاتا ہے جیسے بے جان درخت پر آرہے چل رہے ہوں، قوت و اقتدار کے متوالوں کے ذریعہ املاک کو ایسے تباہ کیا جارہا ہے جیسے کہ ساری دنیا انہی کی ملکیت ہو اور پوری انسانیت ان کی رعایا ہو۔ انسانیت کے دشمن ایسے ایسے طریقہ کار اپناتے ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ یہ ایسا اس لیے کررہے ہیں کہ ساری دنیا ان کی ماتحتی کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلے۔ انہیں کے رحم و کرم پر اپنی زندگی گزارے ، گویا کے پوری دنیامیں طاقت و قوت زور اور دبدبہ کی حکمرانی چل رہی ہے ۔کمزور وں کا کوئی پرسان حال نہیں، غربت زدہ طبقہ امیروں کے جبر و تشدد کے سائے میں زندگی بسر کرتا نظر آتا ہے، پوری انسانیت سسکتی اور بلکتی نظر آرہی ہے ۔
انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اور دنیا کا کوئی خطہ بدعنوانیوں اور دسیسہ کاریوں سے پاک نہیں ہے جس میں رہ کر انسان راحت وسکون اور امن و امان محسوس کرے دنیا کا کوئی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟فتنہ و فساد کس نے برپا کر رکھا ہے ، بدامنی وبدعنوانی کے اصول و ضابطے کون بنا رہا ہے ۔ قتل و غارتگری سفا کیت کا ماحول کس نے گرم کر رکھا ہے، معصوم انسانوں کے خون کو چوس کر اپنی تشنگی کو بجھا رہا ہے،پاک دامن عورتوں کی عصمت کون داغدار کررہا ہے، املاک کو تباہ وبرباد کون کررہا ہے ، دنیا میں امن و آشتی ،عدل و انصاف ، حقوق انسانی کے نام پر ظلم و ستم ، جبر وتشدد ،بد امنی کی فضا سے معاشرہ کو پر اگندہ کس نے کر رکھا ہے ، قانون کے نام پر لاقانونیت ، مذہب کے نام پر دہشت گردی کس نے پھیلارکھی ہے، ان تمام سوالوں کا جواب دنیا میں بسنے والے لوگوں کی چیخ و پکار ، آہ و بکا ،احتجاج خود اس کے گواہ ہیں ، لیکن ان تمام نا مساعد د منحو س حالات کو مغربی پالیسی نے اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ رکھا ہے، آخر یہ بھی دیکھے کہ اس میں سچائی کتنی ہے ،اسلام کن چیزوں کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے ماننے والوں کا انسانیت کے ساتھ کیا عمل رہا ہے ، کیا اسلام واقعی خونخوار اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے جسے مغرب نے اپنی تسبیح بنالی ہے ، اسلام کی روشن تعلیمات او راس کے زندہ و تابندہ اصول و احکام دنیا کے سامنے موجود ہیں اور پوری وضاحت کے ان کے سامنے ہیں، اسلام اللہ رب العزت کی جانب سے دنیائے انسانیت کے لیے طریقے زندگی ہے جو ہمدردی و محبت ، انسانیت نوازی اور انسان دوستی کی تعلیم دیتا ہے نہ یہاں دوسرے علمبردار ان مذہب کے تئیں ظلم و جبر پایا جاتا ہے ، اور نہ ہی دوسرے مذہب اور اہل مذہب کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، ہاں دعوت تبلیغ اس کے علمبردار وں کا طرہ امتیاز ہے او ریہاں بھی حکمت و موعظمت کی تعلیم دی جاتی ہے، ذیل میں اسلام کے امن پسند مذہب ہونے سے متعلق معروضات قابل ملاحظہ ہیں ۔
اسلام کو ایک جارح مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم قرار دینا اسلام کے محکم اصولوں سے بے خبری کی دلیل یا دیدہ و دانستہ تنگ نظری کی بدترین مثال ہے۔ اسلام ہمیشہ مذہبی تقدس اور قومی تشحص و امتیاز ، انسانیت نوازی برقرار رکھنے کے لئے عمل پیہم او رجہد مسلسل کی اجازت ضرور دیتا ہے اور تبلیغ وہدایت کی ہر ممکن راہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ( سورہ النحل ) میں فرمایا ’’ اے نبی اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں سے مباحثہ کروایسے طریقہ پر جو بہترین ہو‘‘۔ یہ تعلیم ان لوگوں کو دی جارہی ہے جن کے پاس فوج و سپاہ نہیں، آلات حرب و ضرب نہیں ہیں صرف اور صرف زبان کی طاقت ہے اس کو استعمال کرنے کے لیے بھی حسن گفتار او رطریقہ احسن کی قید لگا دی گئی ۔ تبلیغ وہدایت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ تالیف قلب اور حسن معاملہ کادرس دیا گیا،تلقین و ہدایت کی ہر ممکن کو شش کے بعد بھی اسلام سے منحرف رہنے والوں کے ساتھ در گذر سے کام لینے کا فرمان جاری کیا گیا او راس نرمی و رفق اور حسن کلام کی یہاں تک تعلیم دی گئی کے کفار کے معبودوں اورپیشواؤں کوبھی برا کہنے سے روک دیا گیا۔ سورہ الانعام میں ہے ’’ تم ان کے معبود ان باطل کو جنہیں یہ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں گالیاں نہ دو، ورنہ تو وہ جہالت کی بناء پر اللہ کو گالیاں دیں گے‘‘ایک دوسری جگہ سورہ بقرہ میں ارشاد باری ہے’’ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے،سیدھی راہ غلط راہ سے ممتاز کر کے دکھائی جا چکی ہے اب جو کوئی معبود ان باطل کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ ایک مضبوط رشتہ سے تعلق جوڑتا ہے جو ٹوٹنے والانہیں ہے اور اللہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔
اسلام کے پیروکار نہ صرف یہ کہ اس پر کار بند ہوئے بلکہ اس پر عمل کرکے دنیا کو بتادیا کہ اسلام جو کہتا ہے اسی کے مطابق اپنے ماننے والوں کو تلقین بھی کرتاہے۔ عالمی تاریخ میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جو اسلامی نظام عدل کی ایسی مثال پیش کر سکے عہد فاروقی کا یہ مثالی کارنامہ کیا ساری دنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لیے کافی نہیں کہ اسلام کے پیرو کاروں نے کس طرح سے انسانیت دوستی کاثبوت پیش کیا، ایک مرتبہ فاروق اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بو ڑھے آدمی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھاتوپوچھا کہ کیوں بھیک مانگ رہے ہو اس نے عرض کیا جزیہ ادا کرنے کے لیے،وہ بیچارہ بوڑھا کہا ں پہچان سکا کہ پوچھنے والا کون ہے، آپ نے اسی وقت اعلان کروا دیا کہ ایسے سارے آدمی جن کے پاس ذرائع آمدنی نہیں ہیں ان کے ذمے جو بڑھاپے یا بیماری کے سبب کما نہیں سکتے ان کو بھیک مانگنے کی ذلت و رسوائی سے بچایا جا سکے او ر شاہی خزانے سے ان کا وظیفہ مقرر کردیا جائے ۔ تاریخ کے دریچے سے آج بھی جھانک کر دیکھا جاسکتا ہے کہ بیت المقدس پر جب انگریز سیاہ و سفید ،ذات پات اور اعلیٰ و ادنیٰ کا بٹوارہ کرنے والوں نے تسلط حاصل کیا تھا تو مسلمانوں کا کس طرح خون بہایا گیا تھا، مسلمانوں کوبھیڑ بکریوں کی طرح سڑک پر ذبح کر کے ان کا خون نالیوں میں پانی کی طرح بہایا گیا ، عورتوں ،بوڑھوں او ربچوں کے ساتھ بلا فرق و امتیاز یہ رویہ اختیار کیا گیا آج بھی سب سے بڑا دہشت گرد کون ہے، حکومت بدلے گی، اس گدی پر بیٹھنے والا سربراہ بدلے گا مگراس کی اسلام دشمنی پالیسی نہیں بدلے گی ،پھر بھی دنیا کے سامنے یہی تصویر پیش ہوگی ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو
بہر حال اس کے بالمقابل تاریخ گواہ ہے کہ نوے (90)سال بعدجب حضرت صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا تو تمام شہریوں کو امان دی گئی تھی، حتیٰ کہ ہتھیار ڈال دینے والے سپاہیوں کوبھی جان بخش دی گئی، پورے شہر میں اعلان کرو ایا گیا کہ جو کوئی یہاں سے جاناچاہے وہ صرف اپنی جان بلکہ اپنا سارا مال و متاع سمیٹ کر لے جاسکتا ہے ،چنانچہ ایک معروف گرجا کے پادری سے متعلق سلطان کوبتایا گیا کہ گرجا میں جمع شدہ کروڑوں کا سونا وہ لے جارہا ہے اسے سرکاری خزانے میں جمع ہونا چاہئے، تو سلطان صلا ح الدین ایوبی نے کہا کہ اسے نہ روکوں کیونکہ میرے حکم کی خلاف ورزی ہوگی، چشم فلک نے ایسے ہزاروں واقعات دیکھے ہیں ، جو آج بھی تاریخ اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہے، اسی چیز کا اعتراف ایک فرانسیسی مؤرخ ڈاکٹر گستاولی بان اپنی کتاب تمدن عرب صفحہ نمبر 209،210 ، پر لکھتے ہیں۔ اشاعت قرآن اور دین اسلام کی حیرت انگیز سرعت نے مؤرخین کو نہایت تعجب میں ڈالا ہے، اور بجزاس کے کوئی توجہ نہ بن پڑی کہ اس مذہب میں شہوات نفسیانی کی باگ ڈھیلی کردی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام کی رغبت اسی طرف مائل ہوئی اور علاوہ یہ امر نہایت آسانی کے ساتھ ثابت ہوسکتا ہے کہ ان کا خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ آگے چل کر ڈاکٹر لیبان صفحہ 10پر لکھتے ہیں : ’’ جب ہم فتوحات عرب پر نظر ڈالیں گے اور ان کی کامیابی کے اسباب کوابھار کر دکھا ئیں گے تو معلوم ہوگا کہ اشاعت اسلام میں تلوار سے مطلق کام نہیں لیا گیا کیوں کہ مسلمان ہمیشہ مفتوح اقوام کو اپنے مذہب کی پابندی میں آزاد چھوڑ دیتے تھے اگر اقوام عیسوی نے اپنے فاتحین کے دین کو قبول کرلیا او ربالآخر ان کی زبان کوبھی اختیار کیا۔
13اپریل،2017 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islam-greatest-flag-bearer-peace/d/110742
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism