محمد پرویز عالم
28 دسمبر، 2014
پاکستان کے شہر پشاور میں واقع آرمی اسکول میں ہوئے معصوموں پر وحشیانہ حملے کی خبر سن کر تمام عالم انسانیت کی روح کانپ گئی، سب کی سانسیں اٹک گئیں ، آنسوؤں کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ معصوموں کو دہشت گردوں نے کتنی بے رحمی سےقتل کیا ہے۔ کیا بگاڑا تھا بچوں نے ان درندوں کا ، کیا ملا ان وحثیوں کو معصوموں کی زندگی لے کر کیا مل گیا انہیں ان کی ماؤں کی گودیں سونی کرکے۔ ان کےسکون کو چھین کر ۔ تم نے خون کی ہولی کھیلی کیوں ؟ تمہیں ایسے وحشتناک جرائم کر ارتکاب کرتےہوئے ذرا بھی غیرت نہیں آئی ۔ صدائے نعرہ تکبیر لگا کر خدا کے نونہالوں پر وار کرتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں ہوا۔ تمہیں اپنے جسم سے آدمیت نظر نہیں آئی ۔ تم کیوں کسی مذہب کے پیروکار دہشت گردی کی تعلیم حاصل کرکے خود کو اسلام کا ماننے والا بتاتے ہو تیرا تو اسلام سے کوئی رشتہ ہی نہیں، اسلام ایسے سیاہ کرتوت کودرس دیتا ہے او رنہ اجازت بلکہ سخت تنقید اور مذمت کرتا ہے، اگر اسلام سبق دیتا ہے تو امن و سلامتی اوربھائی چارگی کا ۔لیکن تم ظالموں نے جو چھاپ چھوڑی ہے معصوموں کا وجود مٹاکر ، ننگا ناچ نچا کر وہ دنیا میں بھی نہایت شرمناک ہے اور آخرت میں بھی ، خدا کی بے شمار لعنتیں ہوں تم پر اور تمہاری گھٹیا تنظیموں پر جو اتنا گھناؤنا کام انجام دےکر تکمیل پر مسرت کے ساتھ ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔ پاکستان کی ان ڈیڑھ سو بد نصیب مائیں آج بھی اپنے لعل کے قدموں کی آہٹ سننے کو کس قدر بے تاب ہوں گی ہمہ وقت یہی سو چتی رہتی ہوں گی کہ کچھ دیر کے بعد میرا لاڈلا آئے گا۔
اس کے امی کہنے سے میرے قلب کو سکون پہنچے گا لیکن یہ انتظار قیامت تک کے لئے انتظار بن جائے گا ذہن قبول نہیں کررہا ہے یہ المناک حادثہ بہر حال ہمارے ملک میں نہیں بلکہ پڑوسی ملک پاکستان میں ہوا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے گھر میں ہوا ہے، گھر گھر میں ماتم چھایا ہے اسے کسی بھی طرح بھلایا نہیں جاسکتا ۔ خیال دل سےنہیں جارہا ہے ٹی وی کی یہ آواز قلب کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ وہ بچہ میرا تھا ، کہاں گیا میرے جگر کا ٹکڑا کس نے غروب کردیا میرے چاند کو، میرا گھر اندھیرے میں کھو گیا، یہ کیسی آفت آگئی مجھ پر کس نے گل کردیا میرے آشیانے کےچراغ کو جن سے تسلی ملتی تھی وہی اب میں اس دنیا میں نہ رہا، جسےدیکھ کر چین ملتا تھا وہی میری نظروں سے اوجھل ہوگیا، امی امی کا ترانہ کون پکارے گا۔ یہ آنچل شفقت کس کے سر پر رکھوں گی۔ اسکول سے لوٹ کر ہمیں سلام کون کرے گا، علی الصباح اب کسے جگایا کروں گی اے دو عالم کے پالن ہار میرے چاند میں کیسا گہن لگ گیا میرے معصوموں پر کس کی بری نظر لگ گئی۔
پاکستان کے درو دیوار سے یہ غضبناک آواز جس میں فضائیں گونج رہی ہیں ۔ اس درد میں کراہتے ہوئے وہاں کےبچے بوڑھے ،جوان عورت، مرد سبھی افراد کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ خونخوار وں نے بچوں سے کس جرم کا بدلہ لیا ہے۔ جو محض ایک بے گناہ بچہ تھا، جنگی خوبصورت زندگی، روشن مستقبل اور جن سینوں کو پل بھر میں شمار کردیا ۔ کوئی بچہ اگر دشمن کابھی ہوتا ہے تو ہر کوئی اس سے شفقت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ بلکہ دشمن کے باوجود انہیں دل سے پیار کرتا ہے مسلتا نہیں ہے۔ شہر کے سامنے بکری کا چھوٹا بچہ بھی رکھ دیا جائے تو شاید وہ وار کی جگہ پیار کرے گا ۔ لیکن ان تشدد پسندوں کا حسب و نسب کن درندوں کے خاندانوں سے ہے۔ حملہ آوروں نے اس واردات کو واقعہ کربلا بنا دیا ۔ میدان کربلا میں رسول کے وہی نواسے تھے جن سے ان کے نانا بے پناہ پیار کرتے تھے ۔ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسین مجھ سےہیں او رمیں حسین سے ہوں ۔ اسی طرح ان شرپسندوں نے خود کو اپنے بندوق کی گولیوں سے بھون ڈالا یہ درد تمام عالم اسلام کا درد ہے، ان کا دکھ ہر ملک و ملت کا دکھ ہے۔ ان ماؤں پر یہ قیامت خیز ہے ۔ یہ رنج و غم کا ایک عظیم پہاڑ ہے ۔ جو طالبانی شیاطین کے تئیں مقدر میں آیا، یہ سانحہ اللہ کسی دشمنوں پر نازل نہ کرے، اس حادثے کی خبر پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی، ہر شخص نے اپنی اشکبار آنکھوں سے تعزیت پیش کی اسکولوں او رمدارس کے حق میں اظہار غم کرتےہوئے تر پلکوں سے دعا مغفرت کی۔ طالبانی دہشت پسندوں کو اتنی شدید وارداتوں کے انجام دینے کے بعد بھی نہ ان کے چہرے پر نہ شکن آیا او رنہ افسوس، یہ کوفے کے یزیدیوں سےبھی شقی القلب ثابت ہوئے، یہ اسی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو بے قصور معصوموں کا خون بہاتے ہیں ، اب ضرورت ہے پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی تاکہ دہشت گردوں کے وجود کو نیست و نابود کیا جا سکے۔
اس کے لئے تمام ملکوں کو ایک ہوکر قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا ۔ او رحکمت عملی سے اس کو ختم کرنا ہوگا۔بغیر اس کے دہشت گردی کا صفایا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اجتماعی طور پر مل کر درندوں کو سبق سکھایا گیا تو ممکن یہ المناک سانحہ کسی کے سینے سےبھی گذر سکتاہے۔ البتہ حکومت ہند سے مئودبانہ اپیل ہے کہ پاکستان کے غم میں شریک ہوکر شدت پسندوں کی گرفتاری میں مدد کریں یہ ہمارا ملکی فریضہ بنتا ہے ۔ آج انہیں روکا نہ گیا تو یہ ناسور کسی وقت بھی کسی حد تک ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس شدت پسندی کے وجود کو نیست و نابود کرنے کےلئے مستحکم لائحہ عمل اختیار کریں آج اس کے خلاف ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا تو اس کی فصیل اور سنگین ہوجائے گی او رایک کے بعد ایک جگہوں کو شکار بناتا جائے گا۔ بہر حال پشاور میں ہونے والے خود کش دھماکوں سے پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام دنیا ئے انسانیت غم کے سمندر میں ڈوب چکی ہے ۔ اسکولوں اور مدارس کے تمام بچوں میں یہ خوف پوری طرح پیوست ہوچکا ہے۔ بچے اسکول جانے میں ڈر محسوس کرنے لگے ہیں ۔ اپنے والدین سے طرح طرح کے سوالات کرتے رہتے ہیں بہر کیف ایسا سائحہ پھر کبھی جنم لے اس سےپہلے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
28 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/massacre-children-shameful-incident-history/d/100750