محمد آصف ریاض
23 اپریل، 2013
ہندوستانی مسلمانوں کو حکومت اور پولس انتظامیہ سے یہ شکایت ہے کہ وہ ان کے بچوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیتی ہیں۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی13.4 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی تعداد تناسب سے زیادہ ہے۔
مڈایسٹ نامی ویب سائٹ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق102،652 لاکھ مسلمان ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں ۔مثلاً مہا راشٹرا میں ان کی آبادی 10.6 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی آبادی 32.4 فیصد ہے۔گجرات میں مسلمانو ں کی کل آبادی 9.06 فیصد ہےلیکن جیل کی آبادی میں ان کا حصہ25 فیصد ہے۔آسام میں مسلمان 30.9 فیصد ہیں تاہم جیل کی آبادی میں ان کا حصہ 28.1ہے۔کرناٹک میں مسلمانوں کی تعداد 12.23 فیصد ہے اور یہاں کی جیلوں میں ان کی حصہ داری 17.5 فیصد ہے۔اتر پردیش بہار مغربی بیگال اور آندھراپردیش نے سچر کمیٹی کو جیلوں میں قید مسلما نوں کی تعداد کے بارے میں اعداد و شمار فراہم نہیں کرایا تھا۔دارلحکومت دہلی سے شائع ہو نے والی ایک اردو اخبار "سیاسی تقدیر"خبروں کی خبر کے تحت ایک کالم شائع ہوتا ہےاس میں کالم نگار نے اپنے ایک مضمون کی سرخی اس طرح لگائی تھی :ملا ئم جی آپ کی جیلوں میں مسلمان اپنی آبادی سے زیادہ کیوں ہیں ؟
مسلمان اکثر یہ کہتے ہوے سنے جاتے ہیں کہ پولس انتظامیہ اور حکومت ان کے ساتھ سازش کر رہی ہے۔مثلاً بہار، یوپی ، راجستھا ن ،دہلی وغیرہ۔یہاں میں مسلم علاقوں میں رہتا تھا۔اور اکثر مسلمانوں کو آپس میں جگڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔وہ ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے،نام نہاد پڑھے لکھے بھی اور جاہل بھی ،بے ریش بھی اور با ریش بھی ۔ان کی بہت سی لڑائیاں ہم نے مسجدوں میں دیکھی ہیں۔ان کے وہ لوگ بھی لڑتے تھے جو اسکول اور کالج کے تعلیم یافتہ تھےاور وہ لوگ بھی لڑتے تھے جو بڑے بڑے مدارس سے فارغ تھے ۔ان کی لڑائیوں سے تنگ آکر کوئی شخص پولس کو فون کر دیتا تھا اور پولس وقت پر پہنچ کر لڑائی کو قتل میں تبدیل ہونے سے پہلے روک دیتی تھی اور فریقین کو جیلوں میں بند کر دیتی تھی اس طرح ملک کی بڑی تعداد جیلوں میں بند ہو گئی ۔بلاشبہ ان میں کچھ بےگناہ بھی ضرور ہونگے لیکن ایسا نہیں کہ سب پولس اور حکومتی سازش کے شکار ہیں ۔
مسلمانوں کی سماجی اور اخلاقی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ اگر ان میں دو لڑ جائیں اور آپ ان کے درمیان صلح کرانا چاہیں تو آ پ ناکام ہو جائیں گے۔کیوں کی وہ اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے ۔اگر آپ ان کے درمیان صلح کرانا چاہیں اور آپ کو یہ قدرت بھی حاصل ہوکہ آپ سو سال پرانے بوڑھوں کو قبر سے نکال لائیں اور ان سے صلح کرائیں تب بھی آپ کامیاب نہیں ہو سکتے کیو نکہ مسلما ن قبروں سے نکل کر آئے ہوے ان بوڑھوں کو بھی ٹھیک اسی طرح مسترد کر دینگےجس طرح یہود اپنے پیغمبروں کے فیصلوں کو مسترد کر دیا کرتے تھے۔
لمحہ فکریہ
مسلم اہل علم سازشی تھیوری کو آگے بڑھا کر اپنی آئندہ نسلوں کو پوری طرح تباہ کرنے کا رسک مول لے رہے ہیں ۔حکومت اور پلسیا سازش کی تھیوری اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بگاڑنے کی قیمت چکا دیں۔ پلسیا سازش پر توجہ دینےکا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی طرف سے توجہ ہٹا لی ہے اور یہی غلطی ہمیں سو سال پیچھے پہنچا دے گی۔ہمیں یہ جاننا چاہئے کی ہماری حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہے کہ وہ ہمارے سارے بچوں کو جیلوں میں بند کردے۔حکومت کے پاس نہ اتنی جیلیں ہیں اور نہ اتنے وسائل کی جیل کے اندر ان کی نگرانی کی جا سکےاور انہیں کھلانے پلانے کا انتظام کیا جا سکے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مسلمان حکومت کا نہیں کھاتے ،وہ اپنی کمائی کا کھاتے ہیں ۔اور جیل میں بند کرنے کی صورت میں حکومت پر فرض ہو جائے گا کی وہ اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کوبٹھا کر کھلانے کا رسک لے۔اور خوش قسمتی سے حکومت اسکے لئے کوئی خفیہ تیاری نہیں کر رہی ہے۔پوری انسانی تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ہوا ہے کہ کوئی حکومت پوری قوم کو جیل میں بند کرکے خود کو محفوظ کر لے ۔کہیں ایسا نہیں ہوا ۔یہ کام تو فرعون بھی نہیں کر سکا ۔
حکومت اور انتظامیہ پر الزام دھرنے سے پہلے لازم ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف دھیان دیں۔وہ انہیں ایجوکیٹ کریں اور انفرادی طور پر انہیں ایک بہتر انسان بنانے کی کوشش کریں۔مسلمان ابھی اجتماعی طور پر کچھ کرنے کی پوزشن میں نہیں ہیں کیونکہ اچھی جماعت کے لئے اچھے افراد درکار ہوتے ہیں ۔جو ابھی مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں ۔مسلمانوں کا حا ل یہ ہے کہ ان میں کا ہر ایک لالو اور نتیش بنا ہوا ہے ۔میزائل مین اے پی جےعبدالکلام نے اپنی کتاب ٹرننگ پوائنٹ میں لکھا ہے کہ جب وہ بہار کے دورے پر تھے تو ایک مرتبہ لالو پرساد اور نتیش کمار دونو ان کے استقبال کے لئے اسٹیشن پہنچے لیکن دونوں دو طرف دیکھ رہے تھے ۔انہوں نے دونو لیڈر ان کو ملایا تھا ۔لڑنا بھڑنا ایک فطری عمل ہے لیکن اس کے ساتھ صلح صفائی بھی ایک فطری امر ہے۔لیکن مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کی ایک فطری امر کو جانتے ہیں اور دوسرے فطری امر کو نہیں جانتے ۔میں یہ باتیں کسی جاہ و منصب کے حصول کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں ۔میں یہ باتیں صرف اس لئے تحریر کر رہا ہوں کیوں کہ اسلام نے مجھے یہی سکھایا ہے ۔مجھے سیدھی بات کہنے کے لئے کہا گیا ہے۔قرآن میں ہے: اے ایمان والوں !اللہ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کیا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرمادیں،اور جو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی ۔(الاحزاب۔71۔70) ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں کوئی حکومت دائمی نہیں ہے۔یہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ،چنانچہ کسی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ دائمی طور پر کسی قوم کو نشانہ بنا سکے۔قرآن کا ارشاد ہے :"ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں "(14:3)مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سازشی تھیوری کو چھوڑ کر اس بدلتے ہوے ایام کی تیاری میں لگ جائیں جو خداکی طرف سے کسی قوم کے لئے بہترین مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔وہ اپنے اندر قائدانہ صلاحیت پیدا کریں ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دینے والی کمیونٹی بن کر رہیں ۔وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں اور خود بھی پڑھیں۔وہ اپنے ہر گھر کو لائبریری اور لیبوریٹری میں تبدیل کر دیں ۔وہ خدا کی کتاب قرآن سے زندگی کی روشنی ،امید ،اور طاقت حاصل کریں ۔
23 اپریل، 2013بشکریہ : روز نامہ ہمارا سماج،دہلی