محمد عارف حسین مصباحی
30 جنوری، 2015
اللہ رب العزت جل مجدہ نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی ورسول حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک کم و بیش چالیس ہزار انبیاء کرام اس کا ئنات عالم کی بو قلمونیوں میں مبعوث فرمایا تاکہ یہ گروہ انبیا و رسل خدا کے بندوں کی ہدایت و کامرانی کا ذریعہ اور سبب بنیں، ان کے رشتہ حیات ( زندگی کے سرے) کو ان کے رب عز وجل سے جوڑنے کامقدس فریضہ انجام دیں، خلق خدا میں پائی جانے والی غلط اور بری حرکتوں پر نکیر کریں اور ان میں دعوت و تبلیغ کا مقدس اور اہم فریضہ انجام دے کر بندوں کو ان کے رب کی معرفت سے ہم آہنگ کریں ۔ اسی مقدس فریضہ کو تمامی انبیا اور رسل نے اور خاتم النبیین حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ، تابعین عظام اور دیگر ائمہ و مجتہدین نے بحسن و خوبی پائے تکمیل کو پہنچا یا او رمخلوق کے رشد و ہدایت کو اپنی داعیانہ زندگی کو اپنی زندگی کا نصب العین متعین کیا۔
اس تناظر میں ہم جب قدوۃ السالکین ، محبوب العارفین ، سلطان الاولیا سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی عنہ الباری ( ولادت 470ھ بمقام گیلان وصال 561ھ بمقام بغداد) کی انوار الہٰیہ سے معمور زندگی کا طائرانہ مشاہدہ کرتےہیں تو جہاں آپ اپنے زمانے اور بعد کے تمام اولیا کا ملین کے سردار اور منصب غوثیت کبریٰ پر فائز تھے، علم و فضل ، زہد و تقویٰ خلوص و للّٰہیت میں یکتائے روزگار تھے بلکہ آپ کی بار گاہ اقدس سے وابستہ ہونے والا آسمان علم و حکمت کا درخشندہ ستارہ بن کر افق عالم میں نمودار ہوتا، آپ صرف مہدی ہی نہیں بلکہ رب کی عطاؤں سے اقوام عالم کے لئے مراجع ہدایت اور سر چشمہ خیر و برکت بھی، جلیل القدر علما اور مشائخ کے نزدیک آپ کی عظمت و رفعت ماضی کی طرح حال اور استقبال میں بھی مسلم الثبوت ہے۔ جن کی عظمت و جلال کے حضور بڑی بڑی کج کلاہیں خمیدہ سر نظر آتیں، جن کی عظمت و رفعت پر مبنی معیت کا اعلان او رمدح خوانی سرمایہ افتخار متصور کی جاتیں، جن کی بار گاہ اقدس میں اولیا کرام اپنی گردنیں جھکا کر اکتساب فیوض و برکات حاصل کرتے ، اور آپ کا غایت درجہ ادب و احترام بجالاتے گویا: یہ دل جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے جہاں چاہو رکھو قدم غوث اعظم وہیں آپ کی پاکیزہ زندگی سرچشمہ رشد و ہدایت ، منبع جو د و سخا پیکر موعظت و تبلیغ کامقدس جلوہ خدا سے پر داعیانہ اسلوب او رعلم و عمل ، حکمت و دانائی سےلبریز دعوت و تبلیغ کامقدس جلوہ اپنے دامن میں سمیٹے نظر آتی ہے ۔ ذیل میں ہم آپ کی سیرت پر 950ھ میں علامہ اجل محمد بن یحییٰ تاذفی کی لکھی جانے والی مستند کتاب ‘‘ قلائد الجواہرفی مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی مترجم غوث جیلان از : علامہ عبدالستار قادری سے آپ کی داعیانہ زندگی سےمعمور دعوت تبلیغ کا مقدس عمل پیش کرنے کی سعادتیں حاصل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے بایں ہمہ کی اللہ تعالیٰ ان کی نیک بندوں کی داعیانہ زندگی کے صدقے ہمیں بھی اپنی زندگی کا درست اور بہتر نصب العین متعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین)
سلطان الاولیا محی الدین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نےاپنی داعیانہ زندگی اور رشد و ہدایت کا یوں تو آغاز اپنے بچپن ہی سے کردیا تھا جب اپنی ماں سے اجازت لے کر حصول علم کے لئے بغداد جانےو الے قافلے کے ہمراہ ہوئے،مقام ہمدان سےگزر ہوا، 60 سوار ڈاکوؤں نےآپ کے قافلے پر حملہ کردیا اور قافلے والوں کو لوٹ لیا اسی اثنا میں ایک ڈاکو آپ کے پاس آکر کہنے لگا کہ اے بچے کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، میرے پاس 40 دینار ہیں، اس نے کہا کہاں ہے؟ آپ نےفرمایا کہ میری گدڑی کےنیچے میرے بغل میں سلے ہوئے ہیں اس نے جاناکہ آپ اس کےساتھ ہنسی کررہےہیں اور وہ آپ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ دوسرا آیا سوال و جواب میں آپ نے اس سے وہی باتیں دوہرا ئیں اور وہ بھی واپس چلا گیا۔ جب ڈاکو لوٹ مار سے فارغ ہوئے تو ایک نے اپنے سردار سےبچے کا سارا ماجرا بیان کیا۔ اس نے اس بچے کو بلایا اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کی تو آپ نےاپنی سابقہ بیان کی ہوئی باتیں سچ سچ بیان کردیں اور آپ کی گدڑی ادھیڑی گئی تو واقعی اس میں سے 40 دینار نکلے ( یہ وہی 40 دینا تھے جو انہو ں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کی میراث میں پایا تھا اور ان کی ماں نے اسے گدڑی میں سل دیا تھا) اس نے حیرت زدہ ہوکر آپ سے عرض کیا کہ لوگ اپنے مال و اسباب کی بھی فکر نہ کی کہ ڈاکو لوٹ لیں گیں؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں جب حصول علم کے لئے جیلان سے بغداد کے لئے نکلا تو میری ماں نے مجھ سے راست گوئی ( سچ بولنے) کاعہدہ پیمان لیا تھا لہٰذا میں اپنی ماں کے ساتھ کیسے عہد شکنی کرسکتا تھا؟ ۔ آپ کی حقانیت سےمعمور دعوت الی الخیر کا اسلوب ڈاکوؤں کےسردار کے دل میں ایسا اثر انداز ہوا کہ بولا کہ ‘‘ تم اپنی ماں کے ساتھ عہد شکنی نہیں کرسکتے؟ لیکن ہائے افسوس کہ میں اپنے خالق و مالک رب ذولجلال جس نے ہمیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اس سے زندگی بھر عہد شکنی کرتاچلا آرہا ہوں یہ کہہ کر اس نے آپ کے دست اقدس پر توبہ کی اور ساتھ ہی اس کے تمام ڈاکو ساتھیوں نے بھی اپنے سردار کی متابعت ( پیروی) میں توبہ کیا اور قافلہ کا سار الوٹا ہوا مال و اسباب اہل قافلہ کو واپس کردیا۔
اس طرح 18 سال کی عمر میں 488 میں بغداد تشریف لے گئے اور وہاں جاکر آپ نے علم فقہ اور اس کے جملہ اصول و فروغ ، اخلاقیات پر عبور حاصل کر کےعلم حدیث پڑھا، اس کے بعد آپ وعظ و نصیحت میں مشغول ہوئے، آپ نے اس میں نمایاں ترقی حاصل کی ، پھر آپ نے تنہائی ، خلوت سیاحت، مجاہدہ، محنت و مشقت ، مخالفت نفس ، کم خوری، کم خوابی، جنگل و بیابان میں رہنا جیسے سخت امور اختیار کئے،عرصہ تک بغداد کے مشہور بزرگ شیخ حماد دباس الزاہد کی خدمت میں بابرکت میں رہ کر ان سے علوم طریقت حاصل کیا پھر اللہ کا خصوصی فضل و کرم آپ پر ہوا کہ اس نے مخلوق کے دلوں میں آپ کی عزت و عظمت اور شرف و بزرگی پیدا کردی جس سے آپ کو قبولیت عامہ حاصل ہوئی ۔ آپ تمام فقہا و فقرا کے سردار اور تمامی اولیا کا ملین کے پیشوا قرار پائے ۔ آپ کی ذات مجمع الفیوض و البرکات سمجھی جاتی۔
ان فضائل و مناقب سے آراستہ ہونے کے باوجود سلطان الاولیا محی الدین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ابتدا میں کھلے عام دعوت و تبلیغ سےگریز کرتے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن ظہر سے پہلے میں نے خواب میں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت ارشاد فرمایا کہ میرے فرزند ( چونکہ آپ نجیب الطرفین سادات میں سے تھے) تم وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے ہو؟ تو آپ نے عرض کیا میرے بزرگوار والد ماجد: میں ایک عجمی شخص ہو ں فصحائے بغداد کے سامنے کس طرح زبان کھولوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منھ کھولو، میں نے اپنا منھ کھولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 7 دفعہ میرے منھ میں تھتکارا ( تھتکار کہتےہیں جس میں تھوک کے کچھ چھینٹے منھ سے نکلتے ہیں)پھر آپ نے فرمایا جاؤ تم وعظ نصیحت کرو اور حکمت عملی سے لوگوں کو نیک با ت کی جانب بلاؤ پھر میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھا تو خلق خدا کا میرے قریب ہجوم لگ گیا میں کچھ مرعوب سا ہوگیا اس کے بعد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زیارت کی انہوں نے میرےمنھ میں 6 مرتبہ برکت کے لئے تھتکارا تو میں نے عرض کیا آپ نے رسول اللہ کی متابعت ( پیروی) میں 7 مرتبہ کیوں نہیں تھتکارا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں رسول اللہ کا ادب کرتا ہوں اس لئے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری نہیں کرسکتا اس کے بعد وہ آپ کی نظروں سےپوشیدہ ہوگئے، آپ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ غواص فکر، دل کے دریا میں غوطے لگالگا کر حقائق و معارف کے موتی نکالنے لگا اور ساحل سینہ پر ڈال ڈال کر زبان مترجم و فساد گو کو پکارنے لگا لوگ خدمت اقدس میں آکر طاعت و عبادت کے بے بہا گراں مایہ قیمتیں گزران کر انہیں خریدتے اور خدا کے گھروں کو ذکر الہٰی کے لاحوتی نغمے سے آباد کرتے۔
اس کے بعد آپ بغداد تشریف لے گئے تو اکابر علما و صلحات سے ملاقات کی ان میں شیخ ابو سعید المخر می نے آپ کو بغداد کے محلہ باب الازج میں واقع مدرسہ ، تفویض کردیا جہاں آپ نے نہایت ہی فصاحت و بلاغت سے دعوت و تبلیغ کامقدس فریضہ انجام دینا شروع کردیا جس سے بغداد سمیت دور دراز میں بھی آپ کا شہرہ ہوگیا اور خلق خدا کا جم غفیر آپ کی بارگاہ اقدس میں معرفت الہٰی سے فیضیاب ہونے لگی یہاں تک کہ مدرسہ کا صحن لوگوں کی کثرت سے تنگ پڑ گیا تو لوگ باہر فصیل کے نزدیک سرائے کے دروازے پر بیٹھ کر آپ کا پیغام رشد و ہدایت سماعت کرتے روز بروز بڑھتے ہوئے خلق خدا کے ہجوم کے پیش نظر قرب و جوار کے مکانات شامل کر کے مدرسہ کو کشادہ کیا گیا جس میں اغنیاء ، امرانے کثیر مالی تعاون پیش کیا تو غربا اور فقرا نے اپنے ہاتھوں سےاسلام کے قصر ( مدرسہ) کو تعمیر کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ 528ھ میں وسیع و عریض تعمیر شدہ مدرسہ آپ کے نام سےمنسوب ہوا جہاں آپ نے نہایت ہی جد وجہد اور خلوص و للّٰہیت کے ساتھ درس و تدریس اور افتا کے کام کے ساتھ دعوت تبلیغ کا مقدس طرز عمل شروع کیا جیسا کہ شیخ موفق الدین فرماتےہیں کہ ‘‘ جب وہ 561 ھ میں بغداد پہنچے تو دیکھا کہ حضرت شیح عبدالقادر جیلانی علمی اور عملی ریاست کےمرکز بنے ہوئے ہیں جب طلبہ آپ کی بارگاہ میں آجاتے تو پھر انہیں کسی او رکے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ آپ مجمع علوم و فنون تھے اورکثرت سے طلبہ کو پڑھایا کرتے، نہایت ہی عالی ہمت اور سیر چشم تھے’’ اسی وجہ سے اطراف عالم سے مخلوق خدا آپ کی بارگاہ علم و فضل میں حاضری کی سعادتیں حاصل کرتی اور دیکھتے ہی دیکھتے علما و صلحا کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی اور آپ کی بارگاہ سے فیضیاب ہونے کے بعد اکناف عالم میں خدا و رسول کا آفاقی پیغام پہنچانے کے لئے اپنے اہل خانہ کی جانب کوچ کر گئی اور رفتہ رفتہ آپ کی عظمت و رفعت کے شادیانے عرب و عجم میں بجنے لگے۔ آپ کے فضائل جمیلہ و کمالات حسنہ، اوصاف جمیلہ، خصائل حمیدہ او رعلوم و فنون کا چرچا لوگوں کی زبان زد ہوگیا۔
آپ کی دعوت و تبلیغ کا یہ حال تھاکہ شیخ عبداللہ جبائی بیان کرتےہیں کہ ان سے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا کہ بیداری کی طرح میں خواب میں بھی نیکی کی باتیں بتاتا اور برائیوں سے منع کرتا۔ طاقت لسانی مجھ پر غالب تھی میرے دل میں پے در پے اس بات کا وقوع ہوتا کہ اگر میں اپنی زبان کو روکوں گا تو ابھی میرا گلا گھونٹ دیا جائے گا مجھے اپنی زبان پر قدرت نہ تھی، ابتداً میرے پاس دو تین افراد بیٹھے رفتہ رفتہ جب لوگوں میں آپ کی دعوت و تبلیغ کاشہرہ ہوا تو خلقت کا ہجوم آپ کے ارد گرد جمع ہونے لگا تو آپ وعظ و نصیحت کے لئے بغداد کے محلہ حلبہ میں واقع عیدگاہ میں تخت پر متمکن ہو کر وعظ و نصیحت فرماتے اور جب وہ جگہ بھی اپنی وسعت کے باوجودتنگ ہوگئی تو شہر سے باہر بڑی عید گاہ میں آپ کا تخت لگتا جہاں پر لوگ دور دراز سے خچر اور دیگر سواریوں پر چل کر آتے اس وقت ایک محفل میں قریب 70 ہزار کی تعداد میں لوگ آپ کا وعظ سنتے اور اپنے گناہوں سے تائب ہوکر خدا و رسول کی بارگاہ کے مقربین بننے کی کوشش کرتے۔ آپ کی دعوت الی اللہ میں وہ تاثیر من جانب اللہ پیدا کردی گئی تھی کہ کثرت سے لوگوں کے ہونے کی صورت میں جس طرح آپ کی آواز قریب کے لوگ سنتے بعینہ وہی آواز دور بیٹھنے والے افراد کو بھی سنائی دیتی تھی، آپ اہل مجلس کے خطرات اور مافی الضمیر بیان کردیا کرتے تھے۔
محمد بن حسینی الموصلی اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا شیح عبدالقادر جیلانی تیرہ علوم و فنون میں تقریر فرماتے، آپ کے مدرسہ میں ایک درس فروعات مذہبی اور دوسرا اس کے مختلف فیہ مسائل پر ہوا کرتا تھا ہر روز دن میں اول و آخر تفسیر و حدیث اور اصول علم و نحو وغیرہ کا درس دیتے اور ترجمہ قرآن و تفسیر کا خصوصی درس بعد ظہر فرماتے ۔ محمد بن الخضر الحسینی اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنی مجلس ذکر و خیر میں انواع و اقسام کے علوم و معارف بیان کرتے آپ کی مجلس میں لوگ نہایت ہی توجہ اور دلجمعی کےساتھ آپ کی باتیں سماعت کرتے آپ کی ہیبت اورجلال کی وجہ سے کوئی بھی کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتا جب آپ فرماتے کہ مضیٰ القال و عطفنا بالحال یعنی ہم نے قال سے حال کی جانب رجوع کیا تو آپ لوگ نہایت مضطرب ہوجاتے اور ان میں حال اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ۔ شیخ ابو عمر و شیخ عثمان الصیرنی اور شیخ عبدالحق حریمی بیان کرتے ہیں کہ میرے شیخ عبدالقادر جیلانی وعظ و نصیحت کرنے کےمابین اور دیگر اوقات نہایت ہی آبدیدہ ہوکر فرمایا کرتے تھے اے پروردگار : میں اپنی روح تیری بارگاہ میں کیوں کر نذر کروں حالانکہ جو کچھ ہے وہ سب کچھ سستی پیدا ہوگئی ہے اسی وقت آپ نے دو اشعار پڑھے جس کا ترجمہ کہ : تو مجھ اکیلے کو نہ پلا کیوں کہ تو نے مجھے عادی کردیا ہے کہ میں حریفوں کے ساتھ شراب پینے کا عادی ہوں۔ اور تو توکریم ہے اور کریم و سخی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ حریف بد وشراب پئے بغیر اٹھ جائیں ۔ آپ کے لبہائے نازنین سے نکلے ہوئے پاکیزہ اشعار نے ان بندگان خدا کے دلوں میں ایسا اثر کیا کہ لوگوں کی روحیں بے چین و بے قرار ہوگئیں اور اسی جام لبالب سےمخمور روحوں میں دو تین افراد کی روحیں قفس عنصری سےپرواز کرگئیں ۔ ایک بزرگ شیخ عمر کیما بیان کرتے ہیں آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں اسلام دشمن یہود و نصاریٰ توبہ نہ قبول کرتے ہوں یا ڈاکو، ہزن ، قاتل ، فاسق وفاجر، بد اعتقاد لوگ آکر توبہ نہ کرتے ہوں ۔
آپ کی مجلس و عظ و نصیحت میں حضرت انسان کی طرح رجال غیب بھی حاضری دیتے چنانچہ حافظ ابوزرعہ ظاہر بن محمد ظاہر المقدسی کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبدالقادر جیلانی کی مجلس دعوت و تبلیغ میں شریک تھے کہ آپ فرمارہے تھے کہ میراکلام رجال غیب ( جنات) کے لئے بھی ہوتا ہے جو کوہ قاف سے چل کر میری بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، جن کے قدم، ہوا میں اور دل حضرت القدس میں ہوتے ہیں وہ اپنے رب تعالیٰ کا اس قدر اشتیاق رکھتے ہیں کہ آتش عشق سے ان کی سروں کی ٹوپیاں جلی جاتی ہیں اسی مجلس میں آپ کے صاحبزادے شیخ عبدالرزاق بھی موجود تھے جنہوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کی بھی ٹوپی جل اٹھی انہوں نے اسے پھار دیا اسی اثنا میں سیدنا غوث اعظم اپنے تخت سےنیچے اتر کر ان کی جلتی ٹوپی سرد کی اور فرمایا کہ بیٹے تم بھی انہیں نیک لوگوں میں شامل ہو۔ شیخ عبدالرزاق سے حافظ ابو زرعہ نے جب ٹوپی جلنے اور آسمانوں کی جانب تکتے رہنے کا سبب دریا فت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ‘‘ مجھے ہوا میں رجال غیب ( جنات) کی صفیں نظر آئیں تمام افق بھرا ہوا تھا یہ لوگ اپنے سر جھکائے ہوئے نہایت خاموشی سے آپ ( سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی ) کا کلام سن رہے تھے بعض ان میں سے ( خوف و خشیت الہٰی سے) چیخ اٹھنے بعض ( بے خود ہوکر) دوڑ نے لگتے اور بعض زمین پر گرپڑتے اوربعض لرزتے رہتے میں نے دیکھا کہ ان کے لباس میں آگ لگی ہوئی تھی ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبدالوہاب بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی ہفتے میں تین دفعہ وعظ و نصیحت فرماتے دو دفعہ اپنے مدرسے میں جمعہ کی صبح اور منگل کی شب کو اور ایک دفعہ اپنے مہمان خانہ میں بدھ کی صبح کو، جس مجلس و عظ و نصیحت میں علما و فقہا او رمشائخ وغیرہ بھی بکثرت شریک ہوتے آپ کے وعظ و نصیحت دعوت و تبلیغ کا سلسلہ 521ھ سے 561 ھ تک 40 سال کی مدت ہے۔
آخری بات : کیا ہم مسلمانوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ ملی صلاح و فلاح پر توجہ دیں؟ اپنے طرز عمل سےاسلام کو فائدہ پہنچانے کےبجائے اسے بد نام کرنے کی کوششوں میں اپنی توانائی ضائع نہ کریں؟ اور اس کے لئے اپنی زندگی میں داعیانہ کردار پیداکرنے کی کوشش کریں؟ کیا بزرگوں سے عقیدت و محبت کامطلب صرف یہی ہے کہاں کے نام پر شکم پروری کی جائے؟ یا ان کے طرز عمل کو اپنا نا ضروری ہے؟ رب تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعاہے کہ بطفیل مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ہم سبھی لوگوں کو عقل سلیم کے ساتھ عمل صالح کی توفیق بخشے ( آمین)
30 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/shaikh-abdul-qadir-jilani-his/d/101286