غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
11 اکتوبر 2025
مسلم انفلوئنسر کلچر (Influencer Culture) کا عروج
سوشل میڈیا کے اثرورسوخ رکھنے والے افراد (Influencers) آج اسلام کے بارے میں عوامی خیالات کو تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ رجحان دعوتِ دین (Da‘wah) اور بیداری کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے، لیکن اگر اس پر خالص نیت کے بجائے شہرت غالب آجائے تو یہ الٹا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے اخلاص، اخلاقی رہنمائی، انکسار اور سچائی لازم ہیں تاکہ ڈیجیٹل نمائش (Digital Performance) اصل روحانی مقصد کا نعم البدل نہ بن جائے۔
اہم نکات
.1ایمان اور جدت (Faith and Modernity) کا توازن:
آج کے مسلم نوجوان کے لیے اصل چیلنج دین سے دوری نہیں بلکہ دین اور دنیا (Deen & Dunya) کے درمیان مناسب فاصلہ اور توازن برقرار نہ رکھ پانا ہے۔
.2روایت اور روایت پرستی (Tradition vs. Traditionalism):
اصل روایت زندہ روحانی ورثہ ہے جو اپنی اساس کے ساتھ وقت کے ساتھ ارتقاء کرتی ہے۔ لیکن روایت پرستی ایک جامد تقلید ہے جو روحانی نمو کو روک دیتی ہے۔
.3نوجوان ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایمان، ڈیجیٹل جدیدیت (Digital Modernity)، مادی تمنائیں اور اخلاقی اباحت (Moral Relativism) آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو ایک متحرک، معقول اور ارتقائی روایت کے طور پر دوبارہ سمجھا جائے۔
.4اقتصادی اور اخلاقی دباؤ:
جدید مسابقت میں ایمانداری کے ساتھ راستہ نکالنا سب سے مشکل امر بن چکا ہے۔
.5جدت پسندی اور اصلاح کی غلط فہمیاں:
نوجوانوں کو ایسی اسلامی جدت (Islamic Modernity) کی ضرورت ہے جہاں عقل، ایمان اور ٹیکنالوجی ہم آہنگ ہوکر چلیں۔
“دین سے دوری نہیں بلکہ دین سے مناسب دوری کا نہ ہونا مسئلہ ہے”
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے میرے ایک قدیم مدرسہ پس منظر رکھنے والے دوست نے کچھ عرصہ قبل نہایت بصیرت افروز جملہ کہا:
"اصل مسئلہ دین سے دوری نہیں بلکہ دین سے مناسب و موزوں فاصلہ نہ رکھ پانا ہے — یعنی نہ ہم دین سے کٹ کر رہ سکتے ہیں اور نہ اس سے ایسی چپک کر کہ دنیا کا توازن کھو بیٹھیں۔"
اکیسویں صدی کا مسلم نوجوان عقیدے اور جدیدیت کے درمیان نہایت نازک مگر دلچسپ موڑ پر کھڑا ہے۔ انسانی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا وقت آیا ہو جب مسلمان نوجوان اتنا زیادہ دنیا سے جڑا ہوا ہو اور اتنا ہی زیادہ اپنے اندرونی وجود میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو۔
ڈیجیٹل برتری، مادیت پرستی اور اخلاقی اباحت کے اس دور میں مومن بن کر جینا ایک بہت بڑا امتحان ہے — اور اس کے لیے غوروفکر، استقامت اور روحانی بیداری کی نئی بنیاد درکار ہے۔
روایت (Tradition) اور روایت پرستی (Traditionalism) کے درمیان
آج کا مسلم نوجوان ایک ایسے عالمی ڈیجیٹل ماحول میں سانس لے رہا ہے جہاں پہچانیں دھندلا رہی ہیں، قدریں متنازع ہیں اور رجحانات ہر لمحہ بدلتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے تہذیبوں، نظریات بلکہ اخلاقی معیارات کی سرحدیں مٹا دی ہیں۔
اس نے کئی مواقع پیدا کیے — لیکن ساتھ ساتھ شناخت کے بحران (Identity Crisis) یا شاید اس سے بھی بڑھ کر نسلی و مذہبی شناخت کی سیاست (Identity Politics) کو ہوا دی۔ مسلمان شناخت کا تحفظ اپنی جگہ درست ہے، مگر گھیٹو ذہنیت (Ghettoisation) اور صرف شناختی مسائل میں الجھ جانا غیر مطلوب ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اکثر نوجوانوں کو یہ ہی معلوم نہیں کہ "جدید" ہونا کیا ہے، "مذہبی" ہونا کیا ہے، اور "روایتی" ہونا کس چیز کا نام ہے۔
جیسا کہ معروف عیسائی محقق جیرسلاو پیلکن (Jaroslav Pelikan) نے کہا تھا:
"Tradition is the living faith of the dead, but traditionalism is the dead faith of the living."
"روایت، گزشتہ لوگوں کا زندہ ایمان ہے، جبکہ روایت پرستی زندہ لوگوں کا مردہ ایمان ہے۔"
اصل روایت تاریخ کا فوسل نہیں بلکہ ایمان کی وہ زندہ روح ہے جو اپنے قالب کو بدلتی رہتی ہے مگر اپنی اساس کو برقرار رکھتی ہے۔ لیکن جب یہی روایت اندھی تقلید، تغیر کے خوف اور فکری جمود کا شکار ہو جائے تو وہ روایت نہیں رہتی — وہ روایت پرستی بن جاتی ہے۔
اسلام کی ابتدائی نسلوں نے روایت کو زندہ رکھا — سوال کرنے، سوچنے، تعبیر نو (Ijtihad) کے ذریعے۔ آج کے نوجوانوں کو بھی روایت کو اسی طرح زندہ روایت (Living Tradition) کے طور پر دوبارہ اپنانا ہوگا — ایسی روایت جو وحی (Revelation) سے جڑی ہو مگر عقل (Reason) اور زمانے کی حرکیات سے بھی ہم آہنگ ہو۔
جدیدیت (Modernity) سے خوف نہیں — غلط فہمی سے ہے
بہت سے نوجوانوں کے نزدیک "جدید" یا "Modern" ہونا گویا "کم مذہبی" ہونا ہے۔ اصلی چیلنج یہ نہیں کہ اسلام اور جدیدیت میں کشمکش ہے، بلکہ یہ ہے کہ مسلمان نوجوان جدیدیت کو صرف مغربی یا لادینی تصور کر کے اس سے بھاگتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اسے اسلامی انداز میں برتیں۔
قرآن اسی باطنی بےچینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ
(سورۃ ھود 11:113)
"اور تم ظالموں کی طرف نہ جھکنا کہ کہیں آگ تمہیں چھو نہ لے۔"
یہ جھکاؤ صرف سیاسی جبر یا طاقت سے مراد نہیں، بلکہ نظریاتی بمباری (Ideological Influence)، ثقافتی دباؤ اور ڈیجیٹل کنزیومرزم (Digital Consumerism) بھی اسی میں شامل ہیں۔
اسلام بذات خود ضدِ جدیدیت (Anti-Modern) نہیں بلکہ فوقِ جدیدیت (Trans-Modern) ہے — یعنی اصولوں میں ابدی اور شکلوں میں ارتقائی۔
جب ایمان محض رسم بن جائے اور عقل تکبر، تو توازن ٹوٹ جاتا ہے۔
مسلم نوجوان کو درپیش بنیادی چیلنجز
1. شناخت اور وابستگی کا بحران (Crisis of Identity & Belonging)
آج نوجوان دو انتہاؤں کے بیچ پھنس چکا ہے:
ایک طرف مغربی آزادی و سیکولر ازم (Western Secularism)
دوسری طرف موروثی روایت پر مبنی اجتماعی مذہبیت
دونوں ہی اسے مکمل طور پر اپنا لیں — یہ مطالبہ کرتی ہیں، اور نوجوان بیچ میں بے چین کھڑا رہ جاتا ہے۔ اس لیے ایسے روحانی زاویۂ نظر کی ضرورت ہے جو دین اور دنیا کو دو مخالف نہیں بلکہ دو تکمیلی دائرے سمجھے۔
2. دکھاوے کا دباؤ (Pressure of Appearances)
سوشل میڈیا نے شخصیت (Personality) کو پروڈکٹ (Product) بنا دیا ہے۔
انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے دور میں ہر شخص Self-Brand ہے۔
Comparison Culture نوجوان کو یا تو نارسیسٹک بناتا ہے یا ڈپریشن کا مریض۔
قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
(سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ رکھنے والا ہے)
3. مذہبی علم میں سطحیت (Loss of Depth in Religious Learning)
آج دین زیادہ تر Clips، Reels، Memes کے ذریعے سیکھا جا رہا ہے۔
یہ Instant Knowledge ہے — ٹھوس بنیادوں کے بغیر۔
اسلام ہمیشہ استاد و شاگرد، علم و ادب کے تعلق کے ذریعے منتقل ہوا ہے، نہ کہ Viral Content سے۔
4. معاشی دباؤ اور اخلاقی سمجھوتہ (Economic Pressure & Ethical Compromise)
حدیث میں آیا:
يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء بما أخذ المال أمن الحلال أم من الحرام (بخاری)
"ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کو اس بات کی پروا نہیں ہوگی کہ اس نے مال حلال سے کمایا یا حرام سے۔"
آج کے نوجوان کے لیے ایمانداری کے ساتھ کمائی کرنا سب سے بڑا جہاد (Jihad) ہے۔
5. اصلاح اور روایت کے درمیان غلط دوئی (False Binary of Reform vs. Tradition)
اسلام میں عقل کا انکار نہیں بلکہ تطہیر ہے۔
اصل ضرورت اسلامی جدیدیت (Islamic Modernity) کی ہے — جہاں:
Technology دین کی خدمت کرے — نہ کہ دین ٹیکنالوجی کا محتاج بن جائے۔
مسلم انفلوئنسر کلچر کا چیلنج (The Rise of Muslim Influencer Culture)
سوشل میڈیا کے اس نئے دور میں ایک نئی مخلوق ابھری ہے: Muslim Influencer۔
یہ لاکھوں دلوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے واقعی Digital Da‘wah کو نیا سانس دی ہے — خوبصورت انداز میں قرآن، اخلاق، اور آگہی کو عام کیا ہے۔
لیکن — یہ اثر دو دھاری تلوار (Double-Edged Sword) ہے۔
ایک طرف یہ دین کی تبلیغ کو جمہوری بناتا ہے
(Anyone can do Da‘wah with sincerity & skill)
دوسری طرف — یہ Sacred Knowledge کو Entertainment بنانے کا خطرہ بھی رکھتا ہے۔
جب "Likes" اللہ کی خوشنودی سے زیادہ عزیز ہوجائیں تو دعوتِ دین ڈیجیٹل نمائش میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
دعوت (Da‘wah) یا دکھاوا (Display)؟
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ» قَالُوا: وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: «الرِّيَاءُ» (ابن ماجہ)
"مجھے اپنی اُمّت پر سب سے زیادہ جس چیز کا ڈر ہے وہ چھوٹا شرک ہے۔ صحابہ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ فرمایا: ریاء (دکھاوا)"
سوشل میڈیا کی دنیا Visibility اور Recognition پر چلتی ہے — جبکہ روحانیت کا اصل سفر اخفاء (چھپانا) اور اخلاص (Purity of Intention) کا طالب ہوتا ہے۔
نیت کی پاکیزگی — اصل اثر انگیزی
سچے اثر (True Influence) کا تعلق Followers کی تعداد سے نہیں بلکہ نیت کے اخلاص سے ہے۔
امام غزالیؒ نے فرمایا:
"اخلاص کے ساتھ کہے گئے ایک لفظ سے وہ اثر پیدا ہوتا ہے جو فخر کے ساتھ کہے گئے ہزاروں الفاظ سے نہیں ہوتا۔"
ڈیجیٹل دنیا میں جہاں ہر پوسٹ دراصل Self-Projection ہوتی ہے، وہاں تواضع (Humility) ایک انقلابی عمل ہے۔
ہر مسلم انفلوئنسر کو اپنے آپ سے تین سوال ضرور پوچھنے چاہئیں:
.1کیا میری بات لوگوں کو اللہ کے قریب لا رہی ہے یا مجھے؟
.2کیا میرا انداز ادب (Adab)، حیا (Modesty) اور صداقت (Truth) پر مبنی ہے؟
.3کیا میں نور پھیلا رہا ہوں یا توجہ مانگ رہا ہوں؟
جب ان سوالات کے جواب سچے دل سے دیے جائیں تو انسان مقبولِ عام نہیں بلکہ مقبولِ بارگاہ بن جاتا ہے۔
ڈیجیٹل دعوت کے آداب (Ethics of Digital Da‘wah)
قرآن کا حکم ہے:
وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا
"لوگوں سے بھلی بات کہا کرو"
اور حدیث میں آیا:
«مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ»
"جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔"
مستقبل کس کا ہوگا؟ — دل کی روشنی رکھنے والوں کا
آج کے نوجوان کل کی امت کے قائد ہوں گے۔ وہ اصلاح کرنے والے (Reformers) بنیں گے یا ردِ عمل دینے والے (Reactors) — یہ ان کی روحانی سمت (Spiritual Compass) پر منحصر ہے۔
قرآن کہتا ہے:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت 29:2)
"کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے، انہیں آزمایا نہ جائے گا؟"
آزمائشیں — ڈیجیٹل شہرت، شناخت کا بحران، مادی لالچ — ایمان کو ختم کرنے کے لیے نہیں آتیں، بلکہ اس کی گہرائی جانچنے کے لیے آتی ہیں۔
راستہ آگے کا — روحانی بصیرت + ڈیجیٹل حکمت
مسلم نوجوان کو چاہیے کہ:
علم مستند علماء سے لے، Influencers سے نہیں۔
خوداحتسابی (Self-Reflection) کو ریگولر عمل بنائے۔
ٹیکنالوجی کو ذریعہ بنائے — مقصد نہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
«بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً»
"میری طرف سے پیغام پہنچاؤ خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔"
یہ حدیث ہر مسلمان کو دعوت دینے کا حق بھی دیتی ہے — مگر ساتھ یہ یاددہانی بھی کراتی ہے کہ ایک آیت بھی نیت (Niyyah)، علم (Ilm) اور ادب (Adab) کے ساتھ پہنچانی چاہیے۔
نتیجہ — اصل انتخاب اسلام اور جدیدیت کا نہیں، گہرائی (Depth) اور سطحیت (Distraction) کا ہے
آج کی نسل کے سامنے سوال یہ نہیں کہ اسلام یا Modernity؟ بلکہ Spiritual Depth یا Digital Distraction؟
ہماری ڈیجیٹل موجودگی (Digital Presence) کو روحانی گہرائی کا خادم ہونا چاہیے — بدل نہیں۔
جب نیت میں اخلاص ہوگا تو دل کی روشنی اسکرینوں پر بھی جھلکے گی۔
اختتامیہ
آج کے مسلم نوجوان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ نہیں کہ اسلام اور جدیدیت (Modernity) کے درمیان کوئی تصادم ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ روحانی گہرائی (Spiritual Depth) اور سطحی مشغولیات (Digital Distraction) کے درمیان توازن قائم رکھ سکیں۔
ڈیجیٹل دنیا میں موجودگی (Digital Presence) ایک نعمت بھی ہے اور امتحان بھی۔ اگر نیت (Niyyah) میں اخلاص، علم (Ilm) اور ادب (Adab) برقرار رہے تو یہی پلیٹ فارمز آج کے نوجوان کے لیے نئی منبر (Digital Minbar) بن سکتے ہیں۔
آج کے نوجوان کو چاہیے کہ:
اپنے دل کی روشنی کو ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسروں تک پہنچائیں، نہ کہ اسے اپنے غرور (Ego) یا شہرت (Fame) کے لیے استعمال کریں۔
علم مستند علماء سے حاصل کریں، تاکہ ڈیجیٹل تعلیم (Digital Learning) اور روحانی بصیرت (Spiritual Literacy) میں توازن قائم رہے۔
خوداحتسابی (Self-Reflection) کو معمول بنائیں اور ہر قدم پر نیت (Niyyah) کی پاکیزگی پر توجہ دیں۔
اسلام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جدیدیت (Modernity) اور ایمان (Faith) متصادم نہیں بلکہ تکمیلی ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ نوجوان سطحی مشغولیات سے بچیں اور اپنی روحانی گہرائی کو پروان چڑھائیں۔
نتیجہ و خلاصہ:
آج کے مسلمان نوجوان کے لیے انتخاب یہ نہیں کہ وہ اسلام یا جدیدیت کے درمیان کہیں کھڑا ہوں، بلکہ یہ ہے کہ وہ گہرائی (Depth) اور سطحیت (Distraction) کے درمیان صحیح راستہ منتخب کریں۔ جب دل اخلاص سے منور ہوں، اور دماغ اللہ کے علم سے منظم ہوں، تو سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز دین کی خدمت کے آلے بن سکتے ہیں، نہ کہ انسان کے غرور یا مادیت کے لیے۔
یہ اختتامی پیغام نوجوانوں کو یاد دلاتا ہے کہ:
روحانیت اور جدیدیت کو متصادم نہ سمجھیں، بلکہ انہیں ہم آہنگ کریں۔
ہر اقدام، ہر پوسٹ اور ہر عمل میں نیت، علم اور ادب کی بنیاد رکھیں۔
حقیقی اثر (True Influence) دل کی روشنی اور خلوص سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ صرف تعداد یا دکھاوے سے۔
یوں، نوجوان نسل اسلام کی روحانی، علمی اور اخلاقی میراث کو جدید دنیا (Modern Digital World) کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے آگے بڑھا سکتی ہے، اور ایک روشن، بامقصد اور متوازن مسلم معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔
مصنف کا تعارف
غلام رسول دہلوی نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، ہند-اسلامی اسکالر، صوفی شاعر اور انگریزی، عربی، اردو اور ہندی زبانوں میں لکھنے والے محقق ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ایک معروف صوفی دینی مدرسے سے حاصل کی اور فی الحال Voice for Peace & Justice، جموں و کشمیر میں Head of International Affairs کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/modern-muslim-youth-tradition-transition/d/137199
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism