New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 08:00 PM

Urdu Section ( 25 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Moderation is the only way! !اعتدال ہی واحد راستہ

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

24اکتوبر،2025

کائنات کا نظام، اس کی لامحدود یت، فطرت انسانی کی سرگوشیاں، رونما واقعات وحادثات کی منطق، مستقبل کے پوشیدہ راز، انسان کو دیا گیا خلیفہ کادرجہ، جزاوسزا کے الہٰی معیار، جنت وجہنم کی حقیقت حتیٰ کہ آخرت میں نجات، کوئی ایک اکائی بھی تو ایسی نہیں جس میں اللہ کانور کار فرما نہ ہو یا وہ اللہ رب کریم کے کن فیکون کے راست حاکمانہ عمل دخل کے دائرے سے باہرہو،اللہ اکبر!

مقام محمد مصطفی کا جہاں تک تعلق ہے گوکہ کوئی قلم اس کے ساتھ عدل کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔تاہم یہ ایک ادنیٰ کوشش۔۔۔آپ امام الانبیاء رحمت اللعالمین وشافع محشر جیسے اعزازات الہٰی سے نواز ے گئے ہیں۔ ساتھ ہی آپ وہ ذات مقدسہ ہیں جس پراللہ اور اس کے فرشتے درود وسلام بھیجتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں امت مسلمہ کو اس کی تاکید سیدھے قرآن کررہاہے۔ جن سے عشق حقیقی او ران کی اتباع کلی کے بغیر رضائے الہٰی او رنجات ممکن ہی نہیں، یہ آپکا مقام ہے۔ دنیا دارالعمل ہے اور اس کی ساخت دارالامتحان کی ہے۔ انسان کو خود مختاری دی گئی ہے مگر ذہن میں واضح رہے کہ احکم الحاکمین او ر اقتدار اعلیٰ کا خالق ومالک وسر چشمہ ذات رب کریم کے سوا کوئی نہیں او رنہ ہوسکتی ہے۔ ہر عطا، ہر سزا، ہرجزا، ہر عزت وذلت، ہر ترقی وتنزلی، ہر بقاو فنا او رہرکیفیت کی ابتدا، ہر عروج وزوال، ہراقتدار اور ہرمحکومی، صحت وبیماری، ضعف وتوانائی کیا کچھ نہیں، عملاً ہر صورتحال اس کی عطا کی محتاج ہے۔لاریب!

قول وفعل، عمل، تحریک وتعمیر، تقریروتحریر، تصنیف وتالیف، تدبیر اور تشریحات آپ کے دائرہ کا رواختیار میں شامل ہیں۔مگر آپ کا یہ زعم درست نہیں کہ میں دوسرے کو اپنے جیسا بنادوں یا وہ ایسا کرے پر آپ کواختیار ہے۔یہاں محض دعوت وتبلیغ وپیشکش کابطور فرض کفایہ اختیار تو آپ کے پاس شرائط کے دائرے میں رہتے ہوئے ضرور ہے مگر اس عمل یا ایسی کسی تحریک میں آپ کے یاکسی کے بھی پاس جبر، ظلم، تشدد، جارحیت، انتہا پسندانہ طرز عمل، مسلح مہم جوئی کا آئین واخلاقیات، تسلیم شدہ مہذب۔

انسانی قدریں او ردینی اعتبار سے قرآن وسنت وفقہ اسلامی کے دائرے میں رہ کر ہی راہ عمل کی گنجائش ہے۔ آپ اپنی ہی چلائینگے اور جو نہیں مانے گا اس کی جان لے لینگے، اس کی اجازت کوئی بھی فقہ، اخلاقی وانسانی زاویہ نہیں دیتا۔ الف ب کو ہدف بنائے گا۔ پھر ب الف کونشانہ بنانے اور اسے لگانے میں اپنی پوری طاقت لگائے گا۔ اس طرح تو دنیا میں نہ فتنہ ختم یا کم ہوگا اورنہ ہی قتل وغارت گری اپنے انجام کو پہنچے گی۔

موجودہ دور میں اہل اسلام کے ایک طبقے نے اس راستے کولیکر دیکھ لیا انجام سامنے ہے۔ پھر یہ تو وہ اسلام نہیں جس کو قرآن وسنت پیش کر رہے ہیں۔ وہاں تو صبح لاالہ اللہ سے ہوتی ہے او رلاالہ اللہ پردن کامعمول تمام ہوتاہے۔السلام علیکم یعنی سلامتی او رسلامتی کا ورد پورے دن چلتا ہے۔ اللہ رب العالمین ہے رب المسلمین نہیں! دن میں پانچ نمازوں میں اس کی وعیددی جاتی ہے۔ اس کی مصلحت ومنشی میں شر اور خیر دونوں کاوجود شامل ہے۔ ہم پیرو اس خدائے وحدہ لاشریک کے جو رحمن ورحیم ہے اور جس کی امت ہیں وہ رحمت اللعالمین ہے۔

پھر یہ انتہا پسندی، انتہا پروری او رانتہا پرستی کہاں سے ایک حلقے کے مزاج میں جگہ پاگئی؟

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ رب العزت خو د فرمارہا ہے کہ تم تبلیع ودعوت کے حقدار ہو۔ اب جو مانے وہ اس کا مقدر او رجو گمراہی اختیار کرے وہ اس کا عمل، اس کے آگے معاملہ ہمارے پا س ہے۔اس بات کو مزید اس طرح واضح فرمادیا کہ میں نے تو ہدایت وروشنی کا سامان کردیا جو تمہارے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی غذا ہے، قرب الہٰی اور عرفان الٰہی تک یہ تم کو لے جائے گی۔ تمہیں امتی ان کا بنادیا جو وجہ وجود خلقت کائنات ہیں، نمونہ ہدایت کے لئے اسوہ حسنہ، قرآن کی شکل میں علوم کائنات، تعلیم وتحقیق کے لئے بہترین دماغ، جانفشانی، جانبازی او رجہد مسلسل کیلئے مضبوط طجسم اتناکچھ دیاہے پھر تمہارا حشر یہ ہے کہ تم اس روشنی، یعنی اسلام کو جو تم تک انبیاء کی جماعت کے ذریعہ پہنچی او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرمکمل ہوئی اس سے بیعت ہوتے ہوئے بھی ان پروانوں کی طرح اس آگ میں جلنے دانستہ طور پر جارہے ہو جس میں فریب دنیا اورجہنم میں لے جانے والے شیطانی وسوسوں کی پیروی ہے۔ وہ جس میں صرف اور صرف ہلاکت ہی ہلاکت ہے؟ معلوم ہوا کہ اسلام اعتدال کانام ہے۔ اس میں انتہا پسندی، اس کی پیروی یا ایسی کسی تحریک وتبلیغ ودعوت کی زمین ہی نہیں جس کے نام پرتشدد یا انسانی جانوں کا کھیل قطعاً جواز حاصل کرلے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ ہمارا راستہ کیاہے؟ آپ کا جواب سنئے۔امت مسلمہ امت وسط ہے۔ہمارا راستہ درمیان او رمیانہ روی کا ہے۔ ہم صراط مستقیم کے داعی او ر عامل ہیں۔صبر، تحمل، درگذر ہمارے وہ انمول گہنے ہیں جو ایک مسلم کومومن کے درجے تک لے جاتے ہیں۔ مخالفین کا یہ کہنا کہ ہمارے ہاں سب خراب ہے اخلاقی بدعنوانی نہیں بلکہ ظلم ہے۔ہم ہی تنہا تشدد، جارحیت، بے لگامی اور انتہا پسندی میں ملوث ہیں باقی سب دودھ کے دھلے ہیں، ہر داغ ہمارے ہی دامن پر ہے۔یہ بہتان غلیظ سیاست کامضمون تو ہوسکتا ہے مگر عدل او راخلاقیات کاایک ادنیٰ سا طالب علم آپ کو یہ بتادے گا کہ مسلمان کا مطلب خدا کا وہ بندہ ہے جو امن، صلح وسلامتی او ررحم کا پیکر کامل ہوتاہے۔ کسی بھی معاشرے کے بھٹکے ہوئے گروہ کا رویہ مجھے یا پورے سماج کے بارے میں انتہائی رائے قائم کرنے یا انتہائی قدم اٹھانے کے راستے میں فیصلہ کن حد تک وخیل نہیں ہونا چاہیے۔

ہندوستانی مسلمان مجموعی اعتبار سے فطرتاً محنت کش، اقتصادی طور پر کمزور، تعلیمی اعتبار سے نسبتاً پست، اوسط سماجی سطح کا حامل لیکن جہاں جس کیفیت میں ہے، جس ذمہ داری پر فائز ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو، دفاع وطن، قومی ترقی کاعمل، فنون لطیفہ، تعلیم و تدریس، تحقیق کا میدان، روزمرہ کے معاملات ومعمولات اس کی فعالیت اورکار کردگی، اس کی حب الوطنی کی زندہ تصویر ہے۔

تاریخ کے آئینے میں شیخ محمد عبداللہ اور بریگڈیئرعثمان کے کردار کی نفی کریں گے تو کشمیر کہاں ہوگا؟ مولانا آزاد اور محبت وطن مسلم اکابرین اور ان حلقوں کی تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالفت فراموش کریں تو ہمارا نقشہ کہاں ہوگا؟ کیا گورداس پور مسلم اکثریتی ضلع ہمارے حصے میں آیا  جہاں سے کشمیر کو ہمیں راستہ ملتا ہے؟ مسلم اکثریتی ریاستیں پنجاب اور بنگال تقسیم ہوپائیں، آسام اور شمال مشرق ریاستیں ہمارے قومی نقشے بنیں آج کے نقشے میں انڈین نیشنل مومنٹ سے جڑے مسلم اکابرین اور ان کے پیچھے عوامی حمایت نے کانگریس کی قیادت کو وہ طاقت دی تھی جس کے نتیجے میں وہ جناح کی قیادت اور اس کے تمام دعوؤں کو چیلنج کرسکی۔ پنجاب، بنگال کی تقسیم اس کا منطقی انجام!

قارئین یہ سمجھ لیں کہ جناح کا پاکستان متحدہ پنجاب، بنگال، آسام، شمالی ریاستوں، ریاست جموں کشمیر، گلگت،بلتستان، بلوچستان، سندھ، سرحد اور قبائلی علاقے پر مشتمل تھا اور سرحد نزد دہلی۔ایک فکری سازش کے تحت ہمیں تقسیم وطن کاملزم ومجرم بنا دیا گیا ہے۔اعتدال اور معتدل فکر یہ دعویٰ عام ہونا چاہئے کہ ہم اور ہماری قیادت آج کے قومی نقشے میں جو قومی کردار رکھتی ہے اس کردار کو عام کیا جائے۔اگر انتہاپسندی ہمارے اکابرین کا شعار ہوتی تو علماء گاندھی کے ساتھ نہ ہوکر جناح کے ساتھ ہوتے۔ دوسرے بین الاقوامی سطح پر مسلم ممالک میں ایک کروڑ سے زائد ہندوستانی کام کررہے ہیں وہ اپنے عقیدے کے ساتھ باوقار زندگی گزاررہے ہیں۔ہمارے وزیراعظم کو اپنے قومی اعزازات سے مسلم ممالک نواز رہے ہیں۔ہم توہر وقت او رہر لمحہ وطن عزیز کی آن بان شان اور جان کے لئے پہلی صف کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں، میدان سیاست میں اپنا قائد اکثریت سے تعلق رکھنے والے کو ہی بناتے آئے ہیں، ہر جماعت اورنظریے سے مسلمان کم یا زیادہ جڑا ہے۔ہاں البتہ جذباتیت، جلد بازی اور فیصلوں میں دور اندیشی کی کمی پر قابوپانا ہوگا۔ اعتدال ہر مرض کی دوا ہے اور انتہا ہر مرض کی جڑ۔

---------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/moderation-only-way/d/137384

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..