مبین ڈار
4 مارچ، 2013
دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی پر تو بات ہوتی ہی رہتی ہے او رپاکستان میں جس تیزی سے عدم رواداری پروان چڑھ رہی ہے اس کا ذکر بھی پاکستان کے اخبارات اور جرائد میں آئے دن ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن عدم رواداری اور تعصب کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں بعض حلقے کسی غیر مسلم کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ انہیں نفرت کے سوا اور کچھ آتا ہی نہیں ۔ اگر کوئی شخص نفرت پر مبنی اس جنون کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے فوراً ‘‘اسلام دشمن ’’ اور ‘‘غدار’’ کہہ دیا جاتا ہے۔ تعصب اور جنون کی ایک بدترین مثال اس وقت سامنے آئی جب مجاہد آزادی شہید بھگت سنگھ کے نام سے لاہور کے ایک مشہور چو ک کو منسوب کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ فیصلہ ‘‘سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور’’( سی ڈی جی ایل) نے کیا تھا ۔ اس فیصلہ کا اعلان ہوتے ہی متعصب اورتنگ نظر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور ایسا طوفان برپا ہوا کہ گویا ایک چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر پڑ گیا تو پاکستان کا وجود ہی ہی خطرے میں پڑ جائے گا یاد رہے کہ اس جگہ کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ ہوا تھا جہاں وہ قید خانہ واقع تھا جس میں شہید بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ انہیں پھانسی 1931 میں دی گئی تھی ۔ یعنی پاکستان بننے سے بہت پہلے ! بھگت سنگھ مجاہد آزادی تھے اور پورے بر صغیر کی آزادی کے لئے انہوں نے دار و رسن کو گل لگایا تھا ۔ ظاہر ہے اس میں پاکستان بھی شامل تھا ۔ بہر حال سی ڈی جی ایل کا یہ فیصلہ جیسے ہی اخبارات میں شائع ہوا بعض انتہا پسند حلقے ایک دم حرکت میں آگئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخالف کرنے والوں میں ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کی جماعت الاعویٰ پیش پیش تھی ۔ اس کا موقف یہ ہے کہ لاہور کی سڑک یا چوک کا نام کسی ہندو سکھ یا عیسائی کے نام پر نہیں رکھا جاسکتا ۔ جماعت نے یہ تجویز بھی رکھی کہ بجائے بھگت کے نام کے مذکورہ چوک کا نام ‘‘حرمت رسول چوک’’ رکھ دیا جائے ۔ جماعت الدعویٰ کے ایک لیڈر امیر حمزہ نے یہ دھمکی دی کہ اگر بھگت سنگھ کا نام استعمال کیا گیا تو زبردست احتجاج ہوگا۔ ان کی اس دھمکی کی حمایت شادمان ٹریڈرس ایسوسی ایشن نے بھی کی۔ یاد رہے کہ شادمان چوک ہی کا نام بدلنے کی سی ڈی جی ایل نے تجویز پیش کی تھی ۔
ا س شدید مخالفت کے بعد سی ڈی جی ایل نے یہ معاملہ دلکش لاہور کمیٹی کے حوالے کر دیا۔ یہ ایک سرکاری ادارہ ہے جس کے چیئر مین سپریم کورٹ کے ایک سابق جج خلیل الرحمٰن دے ہیں اور اس کمیٹی کے ممبران میں لاہور کے متعدد ممتاز اور معزز شہری شامل ہیں ۔ گزشتہ نومبر میں اس کمیٹی نے سفارش کی شادمان چوک کا نام شہید بھگت سنگھ چوک رکھ دیا جائے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی کہ مزید کچھ علاقوں کے نام بدلے جائیں اور انہیں ہندوستان اور پاکستان کی ایسی 25 شخصیتوں کے نام منسوب کیا جائے جنہوں نے بر صغیر کی آزادی میں نمایاں رول ادا کیا تھا ۔ ان ناموں میں ممتاز شاعر، فنکار ادیب اور انقلابیوں کے نام بھی شامل تھے ترقی پسند اور سیکولر حلقوں میں کمیٹی کی اس تجویز کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا لیکن اس سے پہلے کہ کمیٹی کی سفارش کے مطابق ان جگہوں کے نام بدلتے اور ترقی پسند حلقہ اپنی کامیابی کی جشن مناتا ، مخالفت کا ایک نیا طوفان کھڑا ہوگیا۔ تحریک حرمت رسول نام کی ایک تنظیم کے ایک رکن زاہد علی نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن داغ دیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس درخواست کو سماعت کیلئے منظور کرلیا اور سی ڈی جی ایل کو ہدایت دی کہ وہ اس سمت ابھی قدم نہ بڑھائے ۔ یعنی کسی جگہ کا نام نہ بدلے۔ جس شخص اور جس حلقے کو سی ڈی جی ایل کے فیصلہ سے پریشانی ہوئی اس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے لہٰذا غیر مسلم مجاہد ین آزادی کو یہاں احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔ یہ حلقہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ شہید بھگت سنگھ نے قیام پاکستان کے لئے کیا قربانی دی تھی ؟ اس جہالت پر کوئی تبصرہ تو نہیں ہوسکتا ۔ صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔
دراصل پاکستان میں ایک عرصہ سے یہ مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ شادمان چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھ دیا جائے ۔ 1980 کی دہائی میں اس مطالبے میں تیزی آئی جب کچھ سماجی کارکنوں نے ہر سال 23 مارچ کو بھگت سنگھ کی برسی منا نے کا سلسلہ شروع کیا لیکن جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب مذہبی انتہا پسندی شدت اختیار کرنے لگی تو آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والوں اور ترقی پسند حلقوں کی آواز قدرتی طور پر مدھم پڑ گئی ۔ لیکن گزشتہ کم و بیش 5 سال سے یہ مطالبہ پھر شدت اختیار کر گیا۔جو لوگ شادمان چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھنے پر اصرار کررہے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس نے پورے بر صغیر کے آزادی کے متوالوں کے دلوں میں حرارت پیدا کی تھی ۔ حتیٰ کہ 2007 میں جنرل مشرف کے خلاف جو سیاسی تحریک شروع ہوئی تھی اور جس میں وکلاء بہت سرگرم تھے، اس میں بھی بھگت سنگھ کی اسپرٹ فیضان عطا کررہی تھی۔ جو گروپ اور تنظیمیں بھگت سنگھ کے نام پر چوک کا نام رکھنے پر اصرار کررہی ہیں ان میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکولر اسٹڈ یز ،پیش کیپر پاکستان ، لیبر پارٹی پاکستان ، پنجاب لوک راہس او رلبرل فرنٹ پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تنظیمیں پاکستان میں سیکولر او رجمہوری اقدار کو فروغ دینے کیلئے کام کرتی ہیں لیکن پاکستان میں ایک بڑی مایوس کن بات یہ ہے کہ معاشرہ اس حد تک عدم رواداری او رمذہبی منافرت کا شکار ہوچکا ہے کہ عدلیہ تک جاہلانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کی باتوں کو قابل غور سمجھے لگتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لاہور ہائی کورٹ ایسے کسی پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور نہ کرتی جس میں مجاہد ین آزادی اور دیگر ممتاز شخصیتوں کے نام پر چوک یا سڑک کانام رکھنے کی مخالفت کی گئی ہو۔ اب عدالت کا فیصلہ تو بعد ہی میں آئے گا لیکن کم از کم فوری طور پر تو روک لگ ہی گئی۔ گویا ترقی پسند اور سیکولر حلقوں کو عدالت سے بھی مایوسی ملتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس افسوسناک رویہ سے قطع نظر، خود پاکستان کی سپریم کورٹ کا رویہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک ایسا پٹیشن سماعت کے لئے منظور کیا ہے جس میں سفیر پاکستان برائے امریکہ شیری رحمن کو اہانت دین قانون کے تحت ملزم گردانا گیا ہے۔
یاد رہے کہ شیری رحمن متنازعہ اہانت دین کے غلط استعمال کے خلاف رہی ہیں اور انہوں نے اس قانون میں مناسب ترمیم کے لئے ایک بل بھی پیش کیا تھا ۔ اس کے بعد انتہا پسند حلقوں نے انہیں اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کر لیا اور انہیں پاکستان میں چھپ چھپا کر رہنا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس رویہ پر پاکستان کے بعض دانشور وں نے حد درجہ حیرت ظاہر کی او رکہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کی ہلاکت کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا ۔ یہاں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں داخل کی گئی جن درخواستو ں کا ذکر کیا گیا، ان کے بارے میں ماہرین قانون کا خیال ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی انتہا پسند اور متعصب حلقوں کے دباؤ میں آجاتی ہیں اور وہ مظلوم کو راحت پہنچانے کی بجائے ظالم کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔ اس طرح کی باتوں سے انتہا پسند حلقوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور روشن خیال حلقوں کے ہاتھ مایوسی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ جہاں تک اس دلیل یا منطق کا سوال ہے کہ بھگت سنگھ نے قیام پاکستان کے لئے کیا خدمات انجام دی تھیں تو ایسے لا علم لوگوں سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کا قیام پورے ہندوستان کی آزادی سے الگ کوئی چیز تھی؟ بھگت سنگھ کو 1931 میں پھانسی دی گئی تھی اور پاکستان 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی وجود میں آیا ۔ اگر پورا ہندوستان ہی نہ آزاد ہو ا ہوتا تو پاکستان کہاں سے آتا ؟ لیکن اس سوال سے صرف نظر بھی کیا جائے تو ایک چبھتا ہوا سوال یہ ہے کہ پاکستان کی وہ مذہبی جماعتیں جو آج پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھی ہیں اور اپنی پسند کی حکومت بنانا چاہتی ہیں ، وہ قیام پاکستان کی مخالفت کیوں کررہی تھیں؟ جو لوگ بھگت سنگھ کے نام کی مخالفت کررہے ہیں ان کا قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
4 مارچ، 2013 بشکریہ : صحافت ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistani-interpretation-islamic-teachings-/d/11030