مبارک حیدر
مذہب بطور روحانیت
پچھلے زمانوں میں جب دنیا بھر کے لوگ مذہب کی عبادات و رسومات کو معمول کی حیثیت سے پورا کرتے تھے تو مذہب کا مطلب روحانیت نہیں تھا، بلکہ مذہب تو مادی اور روحانی دونوں معاملات میں ایک رہنما ضابطہ کا نام تھا اور روحانیت کا مطلب کچھ اور تھا، یعنی معمول کی سرگرمیوں کے بعد کچھ اور۔ قرآن میں ذکر ،فکر اور تدبر کے الفاظ بار بار دہرائے گئے ہیں۔ ہندو مت میں گیان دھیان یعنی یکسوئی کے ساتھ فکر کرنا مذہب کے اعلیٰ تر عوامل میں شمار ہوا ہے۔ چنانچہ ہندو مت عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب کے دورِ عروج میں تصوف کی تحریکیں ابھریں جن کا دعویٰ یہ تھا کہ معاشرہ کی بے روح زندگی نے روحانیت کا عنصر لانے کے لئے کوئی دوسر ی ایسی ریاضت ضروری ہے جس میں معمولات سے بالا ہو کر یکسوئی کا عملی حصول ممکن ہو۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ صوفیاء نے عام لوگوں کی محرومی کے ان ادوار میں جب معاشی اور مادی معاملات کی بہتری کے جدید امکانات موجود نہ تھے، برداشت کرنے یعنی قناعت میں جینے کے سلیقے سکھائے۔ اسی لئے یہ کہنا درست لگتا ہے کہ صوفیا برداشت کے سائنسدان تھے ، جبکہ ہمارے دور کے سائنسدان امکان کے صوفی ہیں۔ دونوں میں استغراق اور یکسوئی کی صفات بنیادی عمل کے طور پر ملتی ہیں جبکہ مقاصد الگ الگ ہیں۔ یہ مقاصد امکان کی حدوں سے متعین ہوتے ہیں۔ صوفیا کا دور جابر بادشاہوں اور محدود ذرائع پیداوار کا دور تھا، قناعت مجبوری تھی۔ سائنس نے یعنی انسان کے ایجادی، تخلیقی علم نے امکان کے وہ در کھولے ہیں کہ اتنا کچھ ہونے پر بھی فردکو قناعت کا درس یاد نہیں آتا۔
مذہب کی عبادات و رسومات جب روزمرہ کا معمول تھا، تو عبادات و رسومات ازخود روح کو مطمئن نہیں کرتی تھیں۔ آج جب جدید انسانی معاشرے مذہب سے دور ہو گئے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ مذہب کے احکامات و رسومات کی ادائیگی شاید روحانیت ہے۔ حالانکہ عملی نتائج جو معاشرہ کی کارکردگی سے ظاہر ہیں، واضح کر رہے ہیں کہ عبادات و رسومات ہماری روحانیت میں کوئی اضافہ نہیں کر سکے۔
مذہب پر عمل کرنا اگر روحانیت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے چاروں مستعد مذاہب کے عقائد و عملیات میں اتنی شدید تفاوت کے کیا معنی ہیں؟ ایک مذہب میں چوہے چھپکلیاں اور کیڑے حلال خوراک ہیں، دوسرے میں سؤر اور الکحل حلال ہے، تیسرے میں یہ تینوں حرام ہیں لیکن بکرا اور گائے بھینس حلال ہے۔ پھر چوتھے میں گوشت کی ہر شکل حرام ہے۔ بدھ مت میں کوئی خدا کوئی دیوتا نہیں، عیسائیت میں تین تصویریں مقدس ہیں، ہندو مت میں درجنوں بت سجے ہیں اور چوتھے میں تصویر بھی حرام۔ بدھ مت میں گیان دھیان عبادت ہے، ہندو مت میں پھول چڑھانا، دھونی رُمانا، پرنام کرنا کافی ہے، عیسائیت میں ہفتہ وار خوش لباس حاضری، اور اسلام میں پانچ وقت حاضری اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ۔ اگر مذہب پر عمل کرنا روح کو سکون دیتا ہے تو اس قدر واضح تضادات سے لبریز مذاہب پر عمل کرنے والوں کی روحیں کیا ہیں؟ کیا تمام روحیں انسانی ہیں؟ ہر مذہب کا دعویٰ ہے کہ انسانی روح کی غذا صرف اس کے پاس ہے۔ تو کیا ایک مذہب کے ماننے والوں کی روحیں دوسرے مذہب کی روحوں سے الگ خواص کی حامل ہیں؟ اسلام سمیت کسی مذہب نے یہ نہیں کہا کہ مختلف انسانوں کے لئے خالق کائنات نے مختلف مذاہب تجویز کیے ہیں ، نہ ہی یہ عقیدہ کسی کو تسلیم ہو گا کہ کائنات کے کئی خالق موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے خیال کے مطابق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ تو پھر روح کیا ہے؟
بڑے لوگوں کی باتیں عقیدت مندوں کو بہت بڑی لگتی ہیں۔ بعض اوقات مرشد کی نہایت مہمل بلکہ گمراہ کن بات پر بھی واہ واہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی نے مولانا مودودی کے سامنے مولانا کوثر نیازی کا یہ بیان سنایا کہ موسیقی روح کی غذا ہے تو مولانا نے فرمایا ’’ جیسی روح ویسی غذا‘‘۔ عقیدت مندوں کو اس جواب میں حسِ مزاح کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ حکمت بھی نظر آتی ہے۔ حیرت ہے انسانوں کی روحیں بنانے کا کوئی کارخانہ ایسا ہے جس میں ہر دانہ الگ الگ اور اتنا منفرد ہے کہ دوسرے سے اس کا موازنہ ممکن ہے نہ ربط۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس دعویٰ کا کیا کریں کہ اسلام تو ساری انسانی نسل کے لئے ہے اور ہر نسل کے لئے۔ اگر روحیں الگ الگ نمونوں، خاصیتوں اور الگ الگ فطرتوں پر بنی ہیں تو کیا انسانوں میں اتحاد اور بقائے باہم کا کوئی امکان باقی رہ جاتا ہے؟
کائنات کے ان گنت گوشے ابھی ہمارے لئے نامعلوم علاقے ہیں، بلکہ ابھی تو ہم نے جاننے کا سفر آغاز کیا ہے۔ ان ہی نامعلوم علاقوں میں ایک علاقہ انسانی دماغ کا بھی ہے۔ یہ کائنات کی طرح وسیع اور گہرا ہے۔ شاید یہ کائنات کا ماڈل ہے مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ ماڈل کائنات کا حصہ ہے۔ کائنات اور ذہن مساوی بنیادوں پر پھیلتے ہیں۔ کائنات کی طرح ذہن پیہم متغیر اور نمو پذیر ہے۔ ذہن اور کائنات دونوں وجودی اکائیوں میں بٹے ہوئے ہیں یعنی جیسے غیر نامیاتی مادہ اور بے شعور حیات ان گنت الگ الگ اکائیوں میں تقسیم ہے اسی طرح ذہن ہر انسان کی اکائی کے ساتھ ایک الگ اکائی ہے، سو جتنے انسان اتنے ذہن۔ لیکن ان ذہنی اکائیوں میں ایک ڈوری سلوک کی ہے جو انہیں باہم ربط فراہم کرتی ہے۔ یہ ڈوری فہم کی وہ صلاحیت ہے جو تمام انسانوں میں مشترک ہے۔ یہ صلاحیت تربیت سے بڑھتی ہے، لیکن یہ ذہن کا بنیادی جوہر ہے جو ہر ایک انسان کو دوسرے انسان سے مربوط کرتا ہے۔
مادہ کی ان گنت شکلوں اور اکائیوں میں ایک ایسا بنیادی اشتراک موجود ہے جو انہیں انفرادیت کے باوجود تصادم سے بچاتا ہے۔ یہی صفتِ مشترک ذہن کی کروڑوں اربوں منفرد اکائیوں میں بھی موجزن ہے۔ اس صفتِ مشترک کو ہستی یا ہونے کی قوت کہا جا سکتا ہے اس قوت کی بنیادی صفتِ وجودجذبہ بقا ہے۔ اسی صفت کے باعث مادہ فنا نہیں ہوتا، اسی صفت کے باعث ذہن فنا نہیں ہوتا۔ مادہ شکلیں بدلتا ہوا موجود رہتا ہے، ذہن نہ صرف نسلوں اور تہذیبوں میں سفر کرتا ہے بلکہ بڑھتا بھی ہے۔ غیر نامیاتی مادہ اور بے شعور حیات کی شکلیں ایک دوسرے کو توڑتی اور نئی صورتوں کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں لیکن ذہن کارزارِ ہستی کی اکائیوں کی اس لاشعوری اکھاڑ پچھاڑ کی شعوری تصوریر بناتا ہے۔ یوں ان اکائیوں کے ناپید ہونے کا عمل فکری تصویر میں محفوظ ہو کر بقا کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ذہن کو کائنات کا عملِ خود شناسی بھی کہا جا سکتا ہے، یعنی کائنات نے خود کو پہچاننے اور باقی رکھنے کے لئے ذہن کی تعمیر کی۔ جب سے انسان نے کرۂ ارض پر اپنی بقا کے امکانات روشن کیے ہیں، اس نے حیات کی کم صلاحیت شکلوں یعنی مختلف جانوروں کی بقا کو توجہ دی ہے۔ قافلۂ حیات کے سربراہ کی حیثیت سے انسان کا رول یہی بنتا ہے۔
لیکن جاننے کے سفر میں ابھی ان گنت سوال ہیں یعنی کائنات کیا ہے؟ وجود کی ان گنت اکائیوں کا تنوع کیا ہے اورکیوں ہے ؟ انسان سے انسان کا رشتہ کیا ہے؟ پیدا ہونا اور مرنا کیا ہے؟ انفرادی اکائی کے طور پرمجھے فنا کا سامنا کیوں ہے؟ مجھے زندہ رہنے کی خواہش ہے اور اپنی نسل کو زندہ دیکھنے کی خواہش ہے، پھر موت کیوں نہیں ٹلتی؟ یہ سوال ذہن انسانی کے اس شعوری تعلق کا نتیجہ ہیں جو اس کا اپنے وجود کی جبلت سے ہے اور گردوپیش میں پھیلی ہوئی حقیقت سے ہے۔ اگرچہ زندہ رہنے کی خواہش زندگی کی ہر اکائی میں موجود ہے چاہے وہ بارش میں نکلنے والا کیڑا ہو یا پودا، تاہم حیات کی کم تر شکلوں کو اس لئے کم تر کہا جاتا ہے کہ وہ بقا کے بنیادی حکم کی تعمیل کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ بقا کے اس حکم کی تعمیل اس وقت ممکن ہوئی جب حیات اپنی طویل جدوجہد کے بعد ذہن پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ذہن کی موجودہ حالت میں انسان اس منزل تک آنے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ نسلِ انسانی کی بقا کو درپیش خطرات بہت حد تک کم ہوئے ہیں۔ لیکن فرد کی بقا ابھی تک ایک ایسا خواب ہے جسے ہم صرف مذہب کے وعدوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
جسے ہم روح کہتے ہیں، وہ غالباً ذہن کا ایک ایسا طبقہ ہے جو اجتماعی شعور کو عالمِ نامعلوم سے جوڑتا ہے۔ خواہشِ بقا اس عالمِ ہستی کی وہ قوتِ محرکہ ہے جو ہمارے اجتماعی شعور کابنیادی چتوبرا بھی ہے۔ چنانچہ اجتماعی شعور کا خزانہ آخری تجزیہ میں بقا کے سفر کا ریکارڈ ہے یعنی ان گنت صدیوں میں زندگی کو اور انسان کو اپنی بقا کے لئے جن مرحلوں اور تجربوں سے گزرنا پڑا اس کی یادداشت ہے۔ جب فرد اپنے اجتماعی شعور کی منزل سے نامعلوم کے ساتھ ربط قائم کرتا ہے تو وہ ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے ہم روحانیت کہتے ہیں۔ یعنی ہستی کی پراسرار اور نامعلوم حقیقت کے ساتھ ایک ہو جانے یا مربوط ہوجانے کی مبہم کیفیت، جس میں انسان کے سفر کی اگلی منزلوں کا خواب ابھرتا ہے۔ یہ کیفیت ہر ذہن میں گوندھی ہوئی ہے کیونکہ ہر انسانی اکائی اس اجتماعی انسانی سفر کا تسلسل ہے جو زندگی اور انسان نے طے کیا ہے۔ لیکن یہ کیفیت ہمہ وقت مستعد نہیں رہتی۔ عملی زندگی کے معمولات اس کیفیت کو منتشر کرتے رہتے ہیں اوردبا دیتے ہیں۔ لہٰذا مختلف مذاہب نے اس کیفیت کو اپنی اپنی رسومات کے ذریعے بیدار کرتے رہنے کی کوشش کی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کیفیت کسی ایک رسم یا معمول کے ذریعے ایک بار یا چند بار تو پیدا ہو سکتی ہے لیکن جوں جوں رسم معمول بنتی جاتی ہے اور ایک میکانکی عمل بن جاتی ہے تو اس کیفیت کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں رہتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان گنت لوگ جو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مستعد ہوتے ہیں، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں ہوتے۔
کسی بھی معاشرہ کے لئے تجزیہ اور خود تنقیدی اٹل ضرورتوں میں سے ہے۔ تجزیہ صرف حال کا نہیں ماضی کا بھی کرنا پڑتا ہے۔ تنقید اپنے حال پر بھی ہوتی ہے اور اپنے ماضی پر بھی۔ قوموں اور تہذیبوں کے زوال میں مختصر عرصہ کی غلطیاں اور صرف موجودہ وقت کی کمزوریاں فیصلہ نہیں کرتیں۔ یہ ایک لمبا سفر ہوتا ہے۔ ترقی اور زوال دونوں ہی ان گنت عوامل کا کھیل ہوتے ہیں۔ وقت اور واقعات کے ان گنت سلسلے مل کر کہانی بنتے ہیں۔ لیکن اگر انسانوں کو ہر معاملہ کا جائزہ لینے، اس پر بحث و تنقید کرنے اور اس کے نتائج کو جانچنے پرکھنے کا حق حاصل ہو تو غلطیوں کا اعادہ کم ہوجاتا ہے۔ انسانی ذہن اسی عمل کے ذریعے انسانی بقا کی ضمانت بنتا ہے۔ حقیقی وقت میں مسائل و حقائق کی تفہیم تبھی ممکن ہے جب انسانی ذہن کو عقیدت اور تابعداری سے آزاد ہو کر سوال پوچھنے اور سوچنے کی اجازت ہو۔ مگر سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے اندر کوئی کمی محسوس کرتے ہیں اور خود کو بدلنے کی ضرورت۔ ماضی میں یا بزرگوں کے کام میں کوئی غلطی تھی یا وہ بے عیب تھے، اس کا فیصلہ کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک تو وہ جو ہمارے ہاں رائج ہے یعنی ایمان لے آؤ کہ ہمارا ماضی اور ہمارے بزرگ بے عیب تھے۔ جو نبی کی صفات ہیں، وہ ہمارے تمام بزرگوں میں موجود تھیں یعنی سبھی تنقید سے بالاتر تھے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ غیر جانبداری سے واقعات کا تجزیہ کیا جائے اور نتائج کے اعتبار سے جو عمل غلط ثابت ہوتا ہے اسے غلط کہا جائے۔ تجزیہ اور غیر جانبداری ایک ایسی ذہنی صلاحیت ہے جو اختلاف کے ماحول میں پیدا ہوتی اور نمو پاتی ہے۔ جب اختلاف کے ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں اپنی کمزوری کا احساس دلایا جاتا ہے تو ہمارا پہلا ردّعمل بالعموم اپنی اصلاح کا نہیں ہوتا، خصوصاً اس وقت جب ہمیں تعریف سننے کی عادت ہو۔ بلکہ پہلا ردّعمل یہ ہوتا ہے کہ ہم اختلاف کے ماحول کو ہی رد کر دیتے ہیں، اس ماحول کو بدنیتی کا الزام دیتے ہیں، اسے خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر ان کوششوں میں ناکام ہو جائیں تو علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہیں، تاکہ اختلاف اور تنقید سے محفوظ ہو کر اپنی خود پسندی کو قائم رکھ سکیں۔ چونکہ ایک طاقتور طبقہ اس وقت ہماری خودپسندی اور خول بندی کے ذریعے ہمارے کندھوں پر سوار ہے، اس لئے ہمیں اختلاف کے الف تک بھی آنے کی اجازت نہیں دیتا۔
URL for Part 23:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-23/d/98059
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-24/d/98114